اب عدلیہ میں بھی دوہرا پیمانہ؟

 ڈاکٹر عابد الرحمن
’مسلم اور غیر مسلم (اکثریتی اور اقلیتی)ملزمین کے لئے الگ الگ پیرامیٹرس ہیں‘ یہ بات دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اور بیسویں لاء کمیشن کے سربراہ جسٹس اے پی شاہ صاحب نے دہلی میں ’ناحق گرفتار کئے گئے یا مجرم قرار دئے گئے افراد کے حقوق کے لئے کام کر نے والی ایک پرائیویٹ تنظیم ’انو سینس نیٹ ورک ‘ ( Innocence Network ( کے ذریعہ منعقد ’ پیپلس ٹریبونل آن ٹیررازم ‘ کی رپورٹ کے اجراء کے موقع پر کہی ۔انہوں نے خاص طور سے مالیگاؤں بم دھماکہ کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ شواہد بتاتے ہیں کہ تحقیقاتی ایجنسیوں نے تعصب کی بنا پر ملزمین کی بے جا گرفتاریوں کے لئے من گھڑت اور جعلی شواہد صرف اس لئے پیش کئے کہ ملزمین اقلیتی کمیونٹی سے تعلق رکھتے تھے ۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ بے جا گرفتاریاں ،جبری اقبالیہ بیانات لینا ،ضمانت دینے میں تاخیر ، بدنیتی پر مبنی مقدمات اور من گھڑت شواہد دہشت گردی کے مقدمات میں عام ہو گئے ہیں‘۔ ٹریبونل نے ان بے جا گرفتاریوں کے معاملہ میں بری کئے گئے ملزمین کی باز آباد کاری اور یہ سارا کھڑاگ رچانے والے پولس افسروں کو ماخوذ کرنے اور ان پر مجرمانہ ذمہ داری عائد کرنے کی بھی سفارش کی ۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان ملزمین کو بری کرنے والے جج صاحبان بھی تعصب کی وجہ سے یا ہچکچاہٹ کی وجہ سے ان کی بازآبادکاری کے احکامات نہیں دیتے ۔اسی طرح انہوں نے یہ بھی کہا کہ میڈیا کو عدالت کے فیصلے سے پہلے ملزمین کو مجرم قرار دینے سے پرہیز کرنا چاہئے اور جو بری ہوتے ہیں ان کے خلاف اگر میڈیا نے کچھ تضحیک آمیز لکھا ہو تو معافی نامہ شائع کرنا چاہئے ۔‘ ( پی ٹی آئی نیوز آن لائن 11،دسمبر2016 ) جو کچھ اس ٹریبونل کی رپورٹ میں ہے وہ کم از کم مسلمانوں اور ملک کے انصاف پسند شہریوں کے لئے کوئی نئی یا اندر کی بات نہیں ہے ۔ جب دہشت گردی کے معاملات میں مسلمانوں کی گرفتاریاں شروع ہوئی تھیں مسلمان اسی وقت سے یہ سب باتیں کہتے آرہے ہیں اور جب دہشت گردی کے مقدمات فیصل ہو نا شروع ہوئے تویہ ثابت ہو گیا کہ مسلمانوں کے سوالات خدشات اور الزامات غلط نہیں تھے ۔ ہمارے خیال سے ٹریبونل نے زیر حراست ملزمین کے انکاؤنٹرس کا بھی جائزہ لینا چاہئے تھا کہ ہمیں لگتا ہے کہ یہ مذکورہ گورکھ دھندے کی پردہ پوشی کا آسان طریقہ بنالیا گیا ہے ۔دہشت گردی کے معاملات میں یہ ٹریبونل اپنی طرز کا پہلا ٹریبونل ہے جو نظام کے ذریعہ زبردستی گرفتار کئے گئے اور خطرناک حد تک پریشان کئے گئے بے قصور افراد کی آواز کو عوام و خواص اورتک پہنچانے کی اچھی کوشش ہے خاص طور سے ایسی صورت میں جب حکومت کی نیت اچھی نہ ہو اور سب کچھ اس کی مرضی اور منشاء کے مطابق ہی ہورہا ہو یا وہ خود غیر مسلم ملزمین کے خلاف نرم رویہ اپنانے کا حکم دے رہی ہو یا خاطی پولس افسران اور ذمہ داران پر قانونی کارروائی کر نے کی بجائے ان کی حامی اور پشتی بان بنی ہوئی ہو ۔ ایسی صورت میں اس طرح کی عوامی بیداری اور قانونی چارہ جوئی ہی واحد راستہ ہے جو انصاف فراہمی کو یقینی بنا سکتا ہے اور دہشت گردی کے معاملات میں یہ جو کچھ سامنے آیا ہے وہ دراصل قانونی چارہ جوئی ہی کی وجہ سے ممکن ہو پایا ہے ۔لیکن عدلیہ بھی کبھی پٹری سے اترے تو اس کے بھی محاسبہ کا بھی کوئی جامع نظام ہونا چاہئے ،دہشت گردی کے مقدمات میں ایسا بھی ہوا کہ نچلی عدالت نے پولس کی تھیوری قبول کرتے ہوئے ملزمین کو مجرم قرار دیا لیکن اعلیٰ عدالتوں نے انہی ملزمین کو تمام الزامات سے بری کردیا یعنی عدلیہ سے بھی فیصلہ کی غلطی ہو سکتی ہے اور قانونی چارہ جوئی ہی میں اس کا بھی علاج فراہم کردیا گیا ہے ۔ مسلمانوں ہی سے متعلق نظام انصاف کی دوسری بڑی خبر الہٰ آباد ہائی کورٹ کے معزز جج سنیت کمار صاحب کا مسلم پرسنل لاء اور طلاق ثلاثہ کے متعلق تبصرہ ہے جو انہوں نے ایک مسلم جوڑے کی عرضی پر فیصلہ سناتے ہوئے کیا ۔ واضح ہو کہ جو کچھ تبصرہ انہوں نے کیا ہے اسے اپنے تحریری فیصلے میں نہیں لکھا یعنی اس عرضداشت پر جو فیصلہ انہوں نے دیا ہے یہ تبصرہ اس کا حصہ نہیں یعنی انہوں نے جو کچھ لکھوا یا وہ ان کا فیصلہ ہے اور جو کچھ انہوں نے زبانی کہا وہ ریکارڈ میں نہیں۔ تو اس ضمن میں پہلا سوال تو یہ ہے کہ جب فیصلہ کچھ اور ہے تو معزز عدالت کو اس آف دی ریکارڈ تبصرے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ اورجو تبصرہ انہوں نے کیا وہ ان کے تحریری فیصلے سے کہیں زیادہ وسیع ہے ۔ماہرین اور مبصرین تو کہہ رہے ہیں کہ اس’ تبصرے ‘کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے ۔ لیکن میڈیا میں ان کے تحریری فیصلہ کا ذکر ہی نہیں ہے جو کچھ ہے وہ ان کا تبصرہ ہے جسے پورے میڈیا نے شہہ سرخی کے ساتھ ملک کے کونے کونے تک پہنچا دیا ۔اور بہت ساری سیاسی اور سماجی تنظیموں نے اس کا پر تپاک خیر مقدم کرتے ہوئے اسے طلاق ثلاثہ کے خاتمے اور یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کی جانب پہلا قدم بتا یا ۔یعنی اس فیصلے نے وہ کام کردیا جوتحریری فیصلہ کبھی نہیں کرسکتا ۔تو کیا معزز و محترم جج صاحب کا منشا ء بھی یہی تھا؟یہ فیصلہ دراصل مسلم عورتوں پر ہونے والے نام نہاد ظلم عظیم سے ان کو نجات دلانے کے لئے طلاق ثلاثہ کے خاتمہ اور یونیفارم سوال کوڈ کے نفاذ بہانے اسلامی شریعت اور مسلمانوں کی مخالفت کر نے والوں کے موافق ہے اور خاص بات یہ کہ جس انداز میں جج صاحب نے یہ تبصرہ کیا ہے وہ ہو بہو وہی ہے جو مسلم مخالف سیاسی اور سماجی تنظیموں کا اپنا انداز ہے ۔ تو کیا جج صاحب کا اپنے اس تبصرے کے ذریعہ کسی کو کوئی خاص اشارہ کرنا ،کسی قانونی سمت کی نشاندہی کرنا یا اس معاملہ میں کوئی قانونی رہنمائی کرنا مقصود ہے؟ ان سوالوں کے جواب کون دیگا ؟ کیا قانون میں ان سوالوں کے جواب حاصل کر نے کا کوئی طریقہ ہے؟ذمہ دار افراد نے قانونی ماہرین سے مشورہ کر کے ان سوالوں کے جواب حاصل کر نے کی کوشش کر نی چاہئے تاکہ محترم جج صاحب کا اصل منشاء معلوم ہو سکے اور اگر ان کی نیت صاف ہے تو انہیں یہ احساس ہو سکے کہ ان کے تبصرے سے بد نیت لوگ بہت خوش ہوئے ۔ محترم جسٹس اے پی شاہ نے مسلمان اور ہندو ملزمین کے معاملات میں الگ الگ پیمانے اپنانے کی جو بات کہی ہے وہ دراصل پولس اور تحقیقاتی ایجنسیوں اور خاص طور سے دہشت گردی کے معاملات کے متعلق کہی ہے لیکن الہٰ آباد ہائی کورٹ کا مذکورہ ’تبصرہ‘ عدلیہ کے الگ الگ پیرامیٹرس کی بھی نشاندہی کرتا ہے اور وہ بھی دہشت گردی نہیں بلکہ مذہبی معاملات میں ۔ معزز عدالت کے اس تبصرہ پر کسی نے بہت خوب تبصرہ یوں کیا کہ’ کل جب فیصلہ ایودھیا (بابری مسجد ملکیت) کا کرنا تھا تو آستھا آئین سے اوپر ہو گئی تھی اور آج جب فیصلہ طلاق ثلاثہ کا کرنا تھا تو آئین آستھا سے اوپر ہو گیا۔‘ اور یہ سب اسی الہٰ آباد ہائی کورٹ میں ہوا ۔ بابری مسجد ملکیت کا مقدمہ بھی یہیں فیصل ہواجو آستھا کی بنیاد پر ہوا اور اب طلاق ثلاثہ غیر آئینی اور’ پرسنل لاء( یعنی مذہبی آستھا) آئین سے بالاتر نہیں‘ کا تبصرہ بھی یہیں ہوا ۔ یہی نہیں محترم جج صاحب نے اس سے بھی آگے بڑھ کرمسلم پرسنل لاء کے متعلق یہ کہہ دیا کہ ’آبادی کی ایسی بڑی تعداد کو ایسے پرسنل لاء کی مرضی پر چھوڑ دینا جو صنفی عدم مساوات کو برقرار رکھتا ہو اور رجعت پسند ہو ، بھارت کو ایک قوم ہونے سے روکتا اور کھینچتا ہے‘ یہی نہیں جب مسلم پرسنل لاء پر الہٰ آباد ہائی کورٹ کا مذکورہ تبصرہ آیا اسی وقت کیرلا ہائی کورٹ نے آستھا کو آئین سے اوپر رکھنے کا حکم دیا جس میں معزز عدالت نے پدمنا بھا سوامی مندر میں عورتوں کے چوڑی دار اور شلوار قمیص پہن کر داخلے پر مندر انتظامیہ کے ذریعہ لگائی گئی پابندی کو برقرار رکھتے ہوئے فیصلہ سنایا کہ اس ضمن میں مندر کے چیف پجاری کا فیصلہ ہی فائنل ہو گا ۔ یہ کیا ہے؟ حالانکہ دونوں ہائی کورٹس کے فیصلے سپریم کورٹ میں چیلنج کئے جاسکتے ہیں لیکن اس تضادکا مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ ہندو ؤں اور مسلمانوں کے تئیں پولس کے پاس جو الگ الگ پیرامیٹرس تھے وہ اب عدلیہ نے بھی اپنا لئے ہیں اور اگر واقعی ایسا ہے تو یہ ہمارے لئے انتہائی خطرناک صورت حال کا اشارہ ہے۔اور اس کے خلاف ہمارے پاس ایک ہی ہتھیار ہے ،مکمل مضبوط اور انتھک قانونی چارہ جوئی ۔اور اللہ کا شکر ہے کہ ہماری نمائندہ تنظیمیں یہ کام بڑی تندہی سے کر رہی ہیں ایسی تنظیموں کی دامے درمے سخنے مدد کرنا ہم مسلمانوں کے لئے فرض منصبی سے کم نہیں۔
یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔