اب نتیش کی نظر اتر پر دیش پر

حفیظ نعمانی

بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار سے ہمارا کسی طرح کا کوئی تعلق نہ تھا۔ اور نہ آج ہے۔ ہم نے بہار کے الیکشن میں نتیش کمار اور لالو یادو کی حمایت کی تو اس لئے نہیں کہ وہ ہمارے کرم فرما ،محسن یا دوست ہیں۔ ان دونوں سے نہ ہماری پہلے ملاقات تھی اورنہ اسکے بعد ہوئی۔ وہ کا فی دنو ں سے اترپردیش میں زمین تلاش کررہے ہیں۔ یہ بھی انکا اپنا معاملہ ہے دہلی میں جب اروند کیجریوال نے کانگریس کی حمایت سے حکومت بنائی تھی تو اس وقت سنا تھا کہ دہلی میں ایک ممبر نتیش کمار کی پارٹی کا بھی ہے۔ اب ان کی کوشش ہے کہ اتر پردیش میں 2017کے الیکشن میں اپنے امیدوار کھڑے کریں اور دو چار کو جتا لیں۔

دو دن پہلے بی ایس پی کے ایک سابق وزیر مسٹر چودھری کسی وجہ سے مایاوتی کی پارٹی چھو ڑ کر چلے آئے ہیں انھوں نے اپنے حامیوں کی ایک ریلی بلائی تھی جس میں نتیش کما ر کو مہمان خصوصی کے طور پر بلایا تھا۔ اس ریلی کی جو تفصیل اخباروں میں چھپی اس میں زیادہ زور اس پر تھا کہ سماج وادی پارٹی نہیں چاہتی تھی کہ وہ چودھری کی ریلی میں شریک ہوں۔ اسکے لئے حکومت کے اشارہ پر انتظامیہ نے جو کچھ کیا وہ ایک بھونڈا طریقہ تھا۔ اور نتیش کے منہ سے انہوں نے بے وجہ یہ کہلایاکہ اکھلیش حکومت نے ہرممکن کوشش کی کہ میں ریلی میں شریک نہ ہوسکوں لیکن اگر وہ نہ جانے دیتے تو میں زبر دستی جاتا۔

یہ حقیقت ہے کہ اختلاف کی ابتدا ملائم سنگھ نے کی ہے۔ وہ بہار کے الیکشن میں پٹنہ گئے اور چھوٹی چھوٹی دو چار پارٹیوں کو جو لالو اور نتیش سے ناراض تھیں اپنے ساتھ ملایا اور ایک محاذ بنا کر الیکشن لڑا۔ جسکی وجہ سے ان پر نتیش نے الزام لگایا کہ وہ نویڈا کے سابق چیف انجینئر یادو سنگھ کے گندے کھیل میں پھنسنے کی وجہ سے بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کے لئے آئے ہیں۔ اس وقت بہار میں نتیش اور لالو کی حکومت تھی۔ انھوں نے کوئی کوشش نہیں کی کہ ملائم سنگھ وہاں رہ کر انکی مخالفت نہ کر سکیں۔ اس وقت ہمیں بھی یہ اچھا نہیں لگا تھا۔ اور آج یہ اچھا نہیں لگ رہا ہے کہ نتیش کمار بی ایس پی کے ایک باغی وزیر کے کاندھوں پر بیٹھ کر ملائم سنگھ کے لئے مشکلیں بڑھائیں۔ ہم نہیں جانتے کہ پر دہ کے پیچھے کیا ہے۔ لیکن یوپی میں بھی بہار جیسی ہی صور ت ہے کہ دو سیکولر علاقائی پارٹیاں ہیں۔ اور تیسری کانگریس ہے۔ مگر نہ ملائم سنگھ پر الیکشن کی کوئی پابندی ہے۔ اور نہ مایاوتی پر اور دونوں کو امید ہے کہ حکومت وہ بنائیں گے۔ اور کانگریس بھی اس دم خم سے میدان میں اتری ہے کہ اس بار 27سال کے بعد وہ حکومت بنائے گی۔ اس لئے وہ اتحاد تو ہو نہیں سکتا جو الیکشن سے پہلے بہار میں ہوا تھا۔ اگر ہوا تو الیکشن کے بعد ہی ہوگا۔

اب اگر نتیش کما ر اترپر دیش میں ملائم سنگھ سے انتقام لینے کے لئے انہیں کمزور کرتے ہیں تو ہم انکی قدم قدم پر مخالفت کریں گے۔ نتیش کمار نے آدھا آبادی یعنی خواتین کو ساتھ لانے کے لئے شراب بندی کا نعرہ دیا ہے۔ بے شک یہ بہت اصلاحی قدم

 ہے لیکن بہار کی طرح اتر پردیش میں خواتین نے نہ یہ مطالبہ اکھلیش یادو سے کیا اور نہ اپنی بہن مس مایاوتی سے۔ اب اگر اس نوٹ کو کیش کرانا ہے توپہلے وہ مرار جی ڈیسائی کی طرح ماحول بنائیں۔ اگر اتر پردیش بہا ر سے ملا ہوا ہے تو مغربی بنگال بھی اس سے ملاہوا ہے۔ اور وہاں کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی ان سے اچھا تعلق رکھتی ہیں۔ اور اتر پر دیش کے مقابلہ میں مسلمان بھی بنگال میں زیادہ ہیں جو اسے حرام مانتے ہیں۔ الیکشن سے چند مہینے پہلے اتر پردیش میں جے ڈی یو کے لئے زمین تلاش کرنا صرف ملائم سنگھ سے حساب برابر کرنا ہے۔ اور ہم اسے سیکولر ازم پر حملہ سمجھ کر اسکی مخالفت ایسے ہی کریں گے جیسی بہار میں انکی حمایت کی ہے۔

نتیش کمار نے بہار میں شراب بندی واہ واہ حاصل کرنے کے لئے نہیں کی ہے۔ انھوں نے اپنی پارٹی کے جنر ل سکریٹری کو بھی شراب بندی کی مخالفت میں معطل بھی کیا اور گرفتار بھی کرایا جبکہ لالن رام سابق ایم ایل اے بھی تھے۔ اور اسی طرح ایم ایل سی منورما دیوی کو جنکے گھرسے انگریزی شراب کی بوتلیں برآمد ہوئی تھیں۔ پارٹی سے معطل کردیا ہے۔ اور اب وہ اس معاملہ میں اتنے سخت ہوگئے اور انھوں نے کہہ دیا ہے کہ اگر کسی گھر میں شراب کی بو تل ملی تو اس گھر کے ہر بالغ کو سزادی جائے گی۔ نتیش کمار نے تجویز رکھی ہے کہ کم عمر بچوں یا عورتوں کو شراب کے کاروبار میں یا لانے لیجانے کے لئے استعمال کرنے والے کو عمر قید یا دس سال کی سزا دلائی جائے گی۔

نتیش کمار کے ان جذبات کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ وہ گجرات کی طرح بہار کو نہیں بنانا چاہتے کہ وہاں 65برس سے بھی زیادہ سے شراب بند ہے۔ اور ہم جب 1969کے فساد کے بعد حیدر آباد گئے تھے۔ جہاں سنبھل کے لڑکے بڑی تعداد میں کپڑے کے ملوں میں کام کرتے تھے۔ ان سے سنبھل کے دو چار ان لڑکوں کے بارے میں معلوم کیا کہ وہ کہاں ہیں ؟تو ہمیں بتایا گیا تھا کہ انھوں نے گجراتی لڑکیوں سے شادی کرلی ہے۔ اور وہ شہر سے باہر شراب کی بھٹیاں لگائے ہوئے شراب بناتے ہیں اور یہی انکا کاروبار ہے۔ اسکے بعد بھی مودی صاحب کی حکومت کے زمانہ میں خبر آئی تھی کہ نقلی شراب پی کر 30آدمی مر گئے۔ جس سے معلوم ہوگیا تھاکہ بی جے پی شراب پر پابندی برداشت نہیں کرتی۔

نتیش کمار جیسی سختیاں کرنا چاہتے ہیں وہ انکے اختیار میں نہیں ہے۔ اس لئے کہ عدالتیں تو فیصلہ اس قانون کے تحت کریں گی جو مرکزی حکومت نے بنایا ہے۔ اور ملک کے قانون میں اتنے سوراخ ہیں کہ شراب کی بوتل کیا ان میں سے ڈرام بھی نکل جائیں گے۔ آخری درجہ کی بات یہ ہے کہ مرکزی حکومت ملک میں زمین آسمان ہلادینے والا شور بھی ہونے کے باوجود گینگ ریپ یا آبروریزی کے خلاف وہ قانون نہ بنا سکی جس کے ڈر سے زنا بالجبر کو سوچ کر ہی آدمی کانپ جائے۔ قرآن میں زنا کرنے والے اور والی کو سو سو کوڑے مارنے کی سزا ہے لیکن شادی شدہ مرد اور عورت کی سزا کا ذکر نہیں ہے۔ اسلام نے توریت اور

انجیل سے اس سزا کو لے لیا ہے کہ ان کو رجم کی سزا دی جائے گی۔ یعنی زمین میںآدھا جسم گاڑ کر اتنے پتھر مارے جائیں گے کہ وہ مر جائیں۔ ہندوستان کے ہندو اگر قرآن سے سزا نہیں لیتے تو عیسائیوں کی انجیل یا یہودیوں کی توریت سے ہی لے لیں۔ لیکن وہ صرف گئو رکشا تو کریں گے لیکن بہن بیٹی کی رکشا نہیں کریں گے اور یہ بھی نہیں بتائیں گے کہ وہ اسے پاپ نہیں سمجھتے بہر حال ہماری دعائیں نتیش کے ساتھ ہیں۔ خدا کرے وہ ناکامی کے ڈر سے میدان نہ چھوڑیں۔ اور اس لئے ہم کہتے ہیں کہ اپنے کو بہار تک ہی رکھیں۔ بہار بھی بڑا صوبہ ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔