لمحے خوشی کے خواب گراں بن کے رہ گئے

عبیدالکبیر

موجودہ مرکزی حکومت کے برسراقتدار آنے سے قبل وزیر اعظم اور ان کی جماعت نے سوا سو کڑوڑ عوام کو جو خواب دکھائے تھے وقت گذرنے کے ساتھ وہ سارے ہی خواب یکے بعد دیگرے ٹوٹ ٹوٹ کر بکھرتے جا رہے ہیں۔ مہنگائی ،بے روزگاری جیسے بنیادی مسائل کے تئیں عوم الناس کے دل ودماغ کو جذباتی طور پر اپیل کرنے والے نعرے محض دکھاوا ثابت ہوئے۔ خیال کیا جارہا ہے کہ مرکزی حکومت آئے دن  ہر محاذ پر ناکام ثابت ہوتی جا رہی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ جب کوئی ان بنیادی مسائل پر چرچا کرتا ہے تو عموماً ہمارے وزرا بحث کا رخ موڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً  دادری کے سانحہ کو لیجئے  جس کے بارے میں یہ توجیہ کی گئی کہ یہ قتل نہیں بلکہ حادثہ تھا۔ سوال یہ ہے کہ قانون کو ہاتھ میں لینے کی مذموم حرکت کو کیا محض ایک حادثہ کہہ کر ٹالا جا سکتا ہے ؟ کیا ملک کے عام شہریوں  کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس قسم کے حالات میں فیصلہ کن اقدامات کر بیٹھیں۔ آخر ہمارے لائق سیاست داں کس کے کاندھے پہ بندوق رکھ کر کس پر وار کرنا چاہتے ہیں ؟مزید براں وزیر اعظم کی خاموشی نے ان سوالات کے دائرہ کو اور بڑھا دیا ہے۔  ان کا حال تو یہ ہے کہ وہ سارے جہاں کا درد سرلئے پھرتے ہیں  اورخود  اپنے جہاں سے بے خبر ہیں۔ وہ افغان صدر کو تین ماہ قبل یوم پیدائش کی مبارکباد پیش کرتے ہیں اور ملک میں سلگتے ہوئے مسائل پر تین ماہ بعد بھی لب کشائی کی زحمت نہیں کرتے۔ واقعہ یہ ہے کہ  ملک جن پر آشوب حالات سے گذر رہا ہے اس کے پیش نظر عوام میں بے چینی کا پایا جانا ایک معمولی بات ہے۔ من جملہ ان مسائل کے جو بھارت جیسے کثیر المذاہب ملک کو ترقی کی پٹری سے دھکیل سکتے ہیں ایک اہم مسئلہ باشندگان ملک کےاندرفرقہ وارانہ چپقلش اور   اقلیتوں میں عدم تحفظ کا احساس ہے۔ یہ صورت حال  جسے ایک طبقہ غالباً اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کی ضمانت سمجھتاہے انجام کار بھارت کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ وزیر اعظم نے الیکشن کے نتائج کے بعد جو عہد وپیمان کیا  تھا اس کے تئیں ان کی پالیسی بہت مایوس کن ثابت ہوئی۔  انھوں نے ترقی اور سب کے ساتھ کا نعرہ  تو خوب لگایا مگر ان کے حلیف آتے ہی سب سے پہلے ملک کے دستور اساسی سے چھیڑ چھاڑ کی کوشش کرنے لگے۔ یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی باتیں کی جانے لگیں طلاق اور مسلمانوں کے عائلی مسائل جو پرسنل لا کے تحت آتے ہیں اور حکومت کا کوئی ادارہ جس میں مداخلت کا حق نہیں رکھتا ان پر ایک نئی بحث کا آغاز کیا گیا۔  کہا جا سکتا ہے کہ ان مسائل میں بطور خاص ایک فرقے کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ مقصود تھا مگر بات یہیں پرختم نہیں ہو جا تی بلکہ اس کے علاوہ عیسائی اقلیت بھی نشانے پر رہی ان کی عبادت گاہوں کو توڑا گیا ،ان کے مذہبی پیشوا تک ان حالات کی زد  سے نہ بچ سکے۔ دلت سماج  اور دیگر طبقوں کے ساتھ بھی زبان درازی اور دست درازی  کا سلسلہ دن  بہ دن ایک معمول بنتا جا رہا ہے۔ مرکزی حکومت کی انہی پالیسیوں کی وجہ سے ملک کے نامور حضرات نے احتجاجاً اپنے ایوارڈ بھی واپس کئے مگر حکمران جماعت نے اس سے کوئی سبق حاصل کرنے کی زحمت گوارا نہ کی۔ مجموعی طور پر این ڈی اے حکومت کے رویہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پیش نظر بھارت کا سیکولر دستور نہیں بلکہ ایک خاص طبقے کے مذہبی خیالات ہیں اور اس کا ہر قدم اسی طبقے کے مفادات کے تحفظ کی جانب بڑھ رہا ہے۔جہاں تک مسلمانوں کے مسائل کی بات ہے تو اس سلسلہ میں بی جے پی کے لیڈران کا رویہ بالکل واضح ہے مگر ہندتو کی بات کرنے والے تو دلتوں کے ساتھ بھی جن کا شمار ہندوں میں ہی کیا جاتا ہے ظلم وتعدی کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ گذشتہ کئی روز سے گائے کا بہانہ بناکر جس قسم کا ماحول تیا ر کیا جا رہا ہے اس کی توجیہ آخر کیسے کریں۔ کیا دلت صرف ووٹ کے لئے ہندو برادری کا حصہ بنا رہے گا ؟ کیا اس صورت حال کے لئے ملک کا اکثریتی طبقہ  کسی درجہ میں بھی جواب دہ نہیں ہیں ؟ یہ اور اس قسم کے کئی سوالات جواب طلب ہیں جن پر میڈیا کوکم ازکم روشنی ڈالنی چاہئے۔ مگر بد قسمتی سے میڈیا ان دنوں وطن دوستی کی تشریح کا فریضہ انجام دینے میں مصروف ہے۔اب میڈیا کے ایک با اثر طبقے نے زمینی مسائل سے تعرض کرنا چھوڑ دیا ہے اور اس کی جگہ وہ ان چیزوں میں زیادہ دلچسپی لے رہا ہے جن کی پناہ میں حکمران جماعت اپنی کامیابی کا گوشوارہ مرتب کررہی ہے۔ملک کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر باشندگان ملک کا اولین فریضہ ہے کہ دستور کی روشنی میں سب کی ترقی کا راستہ ہموار کیا جائے ۔ ہم ہندستان کے لوگ جس مخلوط آبادی کا حصہ ہیں اس میں کامیابی کی یک طرفہ  جد جہد کار گر نہیں ہو سکتی۔ ایسا کرکے ہم نہ صرف دوسروں کو بلکہ خود کو بھی جانے انجانے اندھیرے میں دھکیل دیں گے۔ دنیا کے منظر نامے پر بھارت کے ابھرنے کے جو امکانات آج ہمارے پاس ہیں ان کو بروئے کا ر لانا ہماری ذمہ داری ہے۔  فرقہ پرستی کی شب تاریک میں بھارت کی ترقی کا خواب دیکھنا ایک  مہمل اور لایعنی بات ہے۔ یہ خواب جبھی شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے جب سبھی ارباب وطن آسودگی محسوس کرتے ہوئے ایک صبح نو کے لئے اپنی مساعی پیش کریں خصوصاً اکثریتی فرقے کی یہ ذمہ داری ہوگی کہ وہ اقلیتوں کے ساتھ روادارانہ تعلقات استوار کرے۔  ہمیں یہ ملک  ان لوگوں کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑ نا چاہئے جومختلف طبقات کے مابین حریفانہ کشمکش برپا کر کے اپنے سیاسی مفاد ات حاصل کرنے کے روادار ہوں۔ ملک میں کونسی شاہراہ کس کے نام منسوب کی جائے یا کس کے دسترخوان پر کس قسم کے کھانے ہوں اس کا فیصلہ اتنا اہم نہیں ہے جتنا کہ ملک کی عوام کے بودوباش اور خورد ونوش کا مسئلہ ہے۔دال چاول سبزی اور دیگر ضروریات زندگی کی روز افزوں گرانی سے عام عادمی کی زندگی دو بھر ہوئی جا رہی ہے اور  ہم ہیں کہ میک ان انڈیا کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ آج مہنگائی اور بے روزگاری کسانوں کی خود کشی جیسے مسائل پر ہمیں توجہ دینی چاہئے۔ ہماری اقتصادی ترقی کی راہ میں یہی مسائل سب سے زیادہ سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔  ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ ان مسائل کا بغور جائزہ لیا جائے اور محض اعداد وشمار کی کرشمہ سازی پر تکیہ نہ کیا جائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔