تأثراث – یہ تو وہ خواب نہیں

عزیر احمد

آہ یہ تو نہیں ہے میرا وہ ہندوستان جس کا خواب ہمارے اکابرین نے دیکھا تھا، یہ تو نہیں ہے وہ آزادی جس کے لئے برسوں جد و جہد کی گئی، یہ تو نہیں ہے وہ فضا جس کے خواب صدیوں پہلے دیکھے گئے تھے، یہ تو نہیں ہے وہ محبت، وہ بھائی چارگی، وہ برابری وہ مساوات جس کی بات دستور ہند میں کی گئی ہے، یہ تو نہیں ہے وہ میرا وہ گلشن جس میں قسم قسم کے پھول اگے ہوتے ہیں، یہ تو نہیں ہے میرا وہ ملک جہاں کبھی پرندے محبتوں کی گیت گایا کرتے تھے، یہ تو کوئی اور ملک ہے، یہ تو کوئی اور دیش ہے، جہاں صرف نفرت ہے، ظلم ہے، عداوت ہے، دشمنی ہے، جہاں دشمنی ہے انسان کی انسانیت سے، جہاں دشمنی ہے انسانوں کے کھانے سے، جہاں دشمنی انسانوں کے پہننے سے، جہاں دشمنی ہے انسانوں کے مذھبی آزادی ہے، جہاں کی فضاؤں میں نفرت کا زہر گھول رہا ہے، جہاں ایک انسان کو صرف اس وجہ سے قتل کردیا جاتا ہے کہ وہ گوشت کھارہا تھا، اسے گائے کا گوشت قرار دیکر اس کی ہتیا کردی جاتی ہے، اور پھر اسی کے خلاف ایف.آئی.آر بھی درج کرایا جاتا ہے، جہاں بات بات پہ مسلمانوں کو دیش دروہی قرار دیا جاتا ہے، اور انہیں پاکستان بھگانے کی بات کی جاتی ہے، جہاں ہندو لیڈران مسلمانوں سے مقابلہ کرنے کے لئے چار چار بچے پیدا کرنے کی بات کرتے ہیں، جہاں لو جہاد کے شوشے چھوڑے جاتے ہیں، جہاں اقلیتیں اپنے آپ کو ڈرا سہما ہوا سا محسوس کرتیں ہیں.

ایسا تو نہیں تھا میرا ملک، پھر اچانک اسے کیا ہوگیا، کیسے اس پہ منحوسیت کے بادل چھاگئے، غم و اندوہ کی بارش کیسے ہونے لگی، ایک دوسرے کے خلاف نفرت کی فضا کیسے بن گئی، کیوں ایسے لوگ برسر اقتدار ہوگئے جنہوں نے اس ملک کا ماحول ہی بدل دیا،جب سے یہ حکومت منظر عام پہ آئی ہے، لوگوں کا جینا دوبھر کردیا ہے، کبھی اس کے ارکان لو جہاد کی بات کرتے ہیں، کبھی عدم تشدد پہ لڑائی کرتے ہیں، کبھی اخلاق کو گھر میں گھس کے ماردیتے ہیں، کبھی سرعام دلتوں کے پٹائی کردیتے ہیں، اور ابھی تازہ واقعہ ایک اسٹیشن پہ دو مسلم عورتوں کو گائے کا گوشت لے جانے کے شبہ میں پیٹ دیا، پولیس سامنے کھڑی تماشا دیکھ رہے تھی، نام نہاد گئو ماتا کے رکھوالے پیٹ رہے تھے، یہ خاموش کھڑے تھے، انسانیت چیخ رہی تھی، یہ بہرے بنے تھے، ظلم و بربریت کا ننگا ناچ ہورہا تھا، یہ تماشا دیکھ رہے تھے، یہ واقعہ مدھیہ پردیش کے ایک اسٹیشن پہ پیش آیا، ان پر الزام لگایا کہ ان کے پاس تیس کلو بیف ہے، ہجوم آگے بڑھے، لاتوں سے مارا، گھونسوں سے مارا، گالیوں سے نوازا، اور پولیس نے پھر انہیں دونوں کے خلاف ایف.آئی.آر بھی درج کیا.

کیا زمانہ آگیا ہے، اب تو بندہ اپنے گھر میں بھی محفوظ نہیں، نہ جانے کب مندر کے لاؤڈ اسپیکر سے اعلان ہوجائے کہ فلاں بندہ بیف کا گوشت کھارہا ہے، اور گاؤ رکشا کے نام پہ ظالم، وحشی، درندے اخلاق کی کہانی بنا دیں، نہ جانے کب یہ ان ڈرائیوروں کو مشق ستم بنادیں جو اپنی گاڑیوں میں گایوں کو لے کے جاتے ہیں، نہ جانے کب یہ سرعام دلتوں کی پٹائی کردیں،

یہ بزدل گائے کی حفاظت کے نام پہ عام لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں، یہ اپنے حکومت کا گریبان نہیں پکڑتے جو آج بھی پوری دنیا میں سب سے بڑا بیف ایکسپورٹر مانا جاتا ہے.

یہ ان کمپنیوں کو بند نہیں کراتے جو بیف کا کاروبار کرتیں ہیں، ہندوستان کے اندر چار بڑی بیف کی کمپنیاں ہیں جس کے مالک ہندو ہیں، یہ ان کا گریبان نہیں پکڑتے، یہ ظلم کرتے ہیں، تو عوام پر، یہ مارتے ہیں تو سادہ لوح لوگوں کو، گئو رکشا کے نام پہ انہوں نے نے فضا کو نفرت سے بھر دیا ہے، عام ہندؤوں کو مسلمانوں کے خلاف اکسایا ہے، ڈر لگنے لگا ہے اس ماحول سے، گائے نے جینا دوبھر کردیا، اور سب سے بڑی بات یہ کہ گئو رکشا کے نام پہ یہ غنڈے دنگا فساد مچاتے ہیں، دہشت گردی کی ایک نئی داستان رقم کرتے ہیں، مگر حکومت کے ایوانوں میں کوئی ہلچل نہیں مچتی، کہیں کوئی آواز نہیں اٹھتی، کوئی منسٹر ٹوئیٹ نہیں کرتا، ہر منٹ پہ اپنے ٹویٹر اور فیسبوک کے اسٹیٹس اپڈیٹ کرنے والا بندہ خاموشی کی ایک تاریخ رقم کرتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ اسے کوئی فکر نہیں کہ ملک میں کیا ہورہا ہے، حالات کیسے ہورہے ہیں، نفرت کی فضا کیوں بن رہی ہے، اسے فکر ہے تو اپنے دوروں کی، اسے فکر ہے تو میونخ میں مرنے والوں کی، اسے فکر ہے پیرس میں مرنے والوں کی، مگر اسے اخلاق کے مرنے کی فکر نہیں، اسے دلتوں کے پیٹے جانے پہ غم نہیں، اسے عورتوں کی عزت کا کوئی خیال نہیں، وہ صرف باتیں کرنا جانتا ہے، من کی باتیں، دیش بدلنے کی باتیں، ترقی کی باتیں، اچھے دن کی باتیں، اس نے باتیں خوب کیں، اور عمل بھی کیا، اچھے دن کے وعدے کو عملی جامہ بھی پہنایا، اچھے دن آئے غنڈوں کے، دنگائیوں کے، اچھے دن آئے نفرتوں کے سوداگروں کے، اچھے دن آئے جیلوں میں بند ہندو تو کے دہشت گردوں کے، اچھے دن آئے مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرنے والوں کے، اچھے دن آئے مذہب کے نام پہ عداوت پھیلانے والوں کے…مگر اس اچھے دن نے خون کے آنسو رلادئیے مسلمانوں کو، دلتوں کو، سکھوں کو، عیسائیوں کو، اچھے دن نے چھین لئے ان کے چہرے سے مسکراہٹ، اور سجا دئیے ڈر اور خوف کے سہرے.

آہ بدل دیا ہمارا پیارا ملک، بدل دیا اس کا ماحول، چھین لیا وہ خوشی وہ مسرت و فرحت کا احساس، دے دیا گائیوں سے بھی زیادہ بے وقعتی کا شعور…آہ گائیوں نے زندگی چھین لی…آہ یہ تو نہیں ہے میرا وہ ملک، یہ تو نہیں ہے خوابوں کی وہ تعبیر، یہ تو کوئی اجڑا چمن ہے جہاں لاقانونیت کا راج ہے…اللہ خیر کرے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔