اتحاد  اپیلوں  سے  نہیں  ہوتا !

وصیل خان

خلیفہ ٔ چہارم حضرت علی ؓبن ابی طالب کےدور اقتدار میں مسلمانوں کے اندر قائم وہ اجتماعیت ٹوٹ گئی جو اس سے قبل کے دورمیں قائم تھی، نتیجے میںمسلمانوں کے اندرکثرت سے اختلافات شروع ہوگئے۔ ایک شخص نے حضرت علی ؓسے پوچھا کہ آخر ایسا کیوں ہے اور اس کا سبب کیا ہے کہ لوگوں کے اندر اختلافات بڑھتے جارہے ہیں،جو پہلے نہیں تھے۔ حضرت علی ؓنے جواب دیا (لان ابابکروعمر کان الیین علی مثلی وانا الیوم وال علی مثلک)یعنی اس کا سبب یہ ہے کہ ابوبکرؓاور عمرؓہمارے جیسے لوگوں کے اوپر حکمراں تھے اور میں تمہارے جیسے لوگوں پر حکمراں ہوں۔ سنت رسول ؐاور تاریخی تجربات کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلامی حکومت کے قیام کیلئے ضرور ی ہے کہ پہلے معاشرےکا مزاج تبدیل کیا جائے، لوگوں کے دلوں میں اللہ کا خوف ڈالاجائے،انکے اندر اسلامی جذبات ابھارے جائیں ساتھ ہی ان کے ذہنوں میںعقیدہ ٔ مسئولیت کی فکر پیدا کی جائےجو ان کےدل کو اس احساس شدید سے بھردے کہ کوئی ذات ایسی ہے جو اس سے اس کے ہر اچھے برے فعل پر سوال کرنے والی ہے، مسئولیت کا یہ عقیدہ انسان کے اندر جوابدہی کا خوف ابھارتا ہے۔ جو اسے جھوٹ فریب، مکاری اور ہر طرح کی بدعنوانیوں سے پرہیز کرنے والابنادے اگر ایساہواتبھی یہ ممکن ہے کہ اسلامی حکومت کا قیام آسان ہوجائے، ظاہر ہے اگر معاشرے میں دین پسندی کا رجحان سرے سے ہی مفقود ہو ایسے میں حکمراں خواہ کتنا ہی دین پسند کیوں نہ ہو اس کی حکومت زیادہ دن تک چلنے والی نہیں۔ عباسی دور حکومت میں خلیفہ المامون نے مسلمانوں کے مابین اتحاد و اتفاق کے قیام کی غرض سے اپنے خاندان سے ہٹ کر جب علی بن موسی ٰ بن جعفر صادق کو الرضا کا لقب دے کر اپنا ولی عہد مقرر کرلیا اور اس رشتے کو مزید تقویت دیتے ہوئے انہیں اپنا داماد بھی بنالیا لیکن عباسی تلملااٹھے ان کی عصبیت ابھر آئی وہ مامون کے اس اقدام کو برداشت نہ کرسکے یہاں تک کہ انہوں نے مامون کے چچا ابراہیم المہدی کے ہاتھوں پر بیعت کرنی شروع کردی، مامون اس وقت خراسان کے دورے پر تھا اسے خبر ملی تو وہ فی الفور وہاں سے چل پڑا کیونکہ یہاں کی صورتحال انتہائی دھماکہ خیز ہوچکی تھی یعنی مامون سے ذرا بھی تاخیر ہوتی تو سارا نظام حکومت ہی الٹ پلٹ جاتا، خراسان سے پیش قدمی کرتے ہوئے مامون نے بغداد پہنچتے ہی علی الرضا کو ولی عہدی سے معزول کردیا تب کہیں جاکے بغاوت سرد پڑی۔

تاریخ بتاتی ہے کہ خلفائے راشدین کادور پوراکا پورا دینی رجحان کا زمانہ تھا اس وقت لوگوں میں نہ ہی گروہی رجحان پیدا ہوا تھااور نہ ہی وہ عصبیت، اقرباپروری کے قائل تھے ان کا اختلاف صرف اللہ کیلئے ہوتا تھا وہ کسی کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے تو ان کا مقصد صرف اور صرف  اللہ کی خوشنودی ہوتا ۔ وہ حریص نہ تھے بے لوث زندگی ان کا نصب العین تھا ان صفات نے انہیں بڑی حد تک بیباک اور جری بنادیا تھا وہ دوستی کرتے تو کھل کےکرتے اور دشمنی کرتے تو کھل کے کرتے ، وہ اِدھر رہتے یا پھر اُدھر۔ درمیان میں نہ رہتے، حق گوئی ان کی فطرت میں شامل تھی۔ خلافت راشدہ کے خاتمے کے بعد عصبیت او رگروہ سازی کا رجحان حضرت امیرمعاویہ ؓکے دورمیں پورے شباب پر پہنچ گیا اس کے نتیجے میں دینی رجحان مزید کمزور ہوتا چلاگیا اور لوگوں کے اندر رفتہ رفتہ گروہی رجحان اور ملوکیت کی ضرورت کا احساس بڑھتا گیا، اس ماحول میں کوئی بھی ایسا حکمراں جس کا تعلق کسی گروہ سے نہ ہوتا، کمزور پڑجاتا اور اس کی حکومت کا خاتمہ ہوجاتا۔

جرمنی میں نازی تحریک نے برسوں اسی رجحان سازی پر کام کیا اس تحریک نے لوگوںکے دلوں میں یہ بات مستحکم کرنی شروع کی کہ بادشاہت ظلم و جبر کی علامت ہے، جو برسوں سے تمہیں محکوم بنائے ہوئے ہے اور نازی تحریک شخصی آزادی کے خواب لے کر آئی ہے، اس طرز حکومت  میں آپ سبھی لوگ آزاد ہوں گے، اپنی مرضی کی زندگی گزاریں گے اور دوسروں کی مرضی آپ پر مسلط نہیں ہوگی، نازیوں کی برسوں کی محنت رنگ لائی اور عوامی سطح پر جب بادشاہت سے چھٹکارے کا عام ذہن پیدا ہوگیا تو شہنشاہیت کے خاتمے کی راہ ہموار ہو گئی اور ایک دن ایسا آگیا کہ انتہائی آسانی سے نازی تحریک نے بادشاہت کا خاتمہ کردیا۔
اس تعلق سے آیئےذرا  ہم پڑوسی ملک پاکستان کا جائزہ لیتےچلیں جہاں اسلامی حکومت کے قیام کے متعدد مواقع آئے لیکن کبھی کامیابی نہیں حاصل ہوسکی اس کی واحد وجہ وہی تھی کہ وہاں کی تحریکوں میں رجحان سازی کا خیال نہیںرکھا گیا اور ساری تحریکیں شدید ناکامی سے دوچار ہوگئیں،اور وہاں آج بھی افراتفری کا ہی ماحول قائم ہے جس کے سبب وہاں جمہوری مزاج بھی کبھی نہیں پنپ سکا، نتیجتاً قیام پاکستان کےآغازسے ہی فوجی حکومت کا ماحول مسلط ہو گیا، جمہوری طرز حکومت زیادہ دنوں بحال نہیں رہ پاتا اور جلد ہی فوجی حکمراں اقتدار پر قابض ہوجاتے ہیں۔

اب ذرا ہندوستان میں مسلمانوں کے مابین اتحاد کابھی ذکر ہوجائے۔ سیکڑوں سال سے یہاں اتحاد کی اپیلیں ہورہی ہیں لیکن اتحاد تو درکنار اختلاف و انتشارکے سوتے پھوٹ پڑے ہیں اور ہرطرف بہہ رہے ہیں۔ اس ضمن میں مسلسل ناکامی کی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ ہم محض اپیلوں کے ذریعےلوگوں میں اتحاد پیدا کرنا چاہتے ہیں جبکہ تجربات یہ بتاتے ہیں کہ اتحاد محض اپیلوں سےکبھی قائم نہیں ہوسکتا ۔ اتحاد کے لئے واضح رجحان ضروری ہےجس کے لئے دینی مزاج اولین شرط ہے۔ اتحادہم سے بے پناہ قربانیوںکا مطالبہ کرتا ہے اور یہ کام اصلاح امت سے شروع ہوتا ہے جس کے لئے دینی فضا کا قیام ضروری ہے۔ معاشرے کے اندر شعوری تحریک کی بیداری کے ساتھ ساتھ یہ احساس ابھارنا کہ کوئی ذات ہے جو ان پر نظر رکھے ہوئے ہے اور ان کی کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں یقینا ً یہی احساس ان کے اندر زبردست اصلاحی شعور پیدا کرے گا اور یہی شعور ان کے اندر یہ مزاج ابھارے گا کہ جب اللہ اور اس کے رسول ﷺکا کوئی حکم ان کے سامنے آجائے تو ان کی گردنیں جھک جائیں اور وہ دوسروں کے فائدے کیلئے اپنا نقصان برداشت کرلیں۔

اتحاد ہمیشہ قربانیوں سے قائم ہوتا ہے، جس کے لئے بڑی ہمت اورصبر واستقلال کی ضرورت ہوتی ہے، کسی مسئلے میںاپنی رائےکو مقدم نہ رکھنا اور اختلافی صورت میں اپنی رائے واپس لے لینا، اسے رائے کی قربانی کہتے ہیں،اسی طرح مفادات کی قربانی، خود کو پیچھے کرلینے کی قربانی، آپسی اختلافات کو بلا شرط ختم کردینے کی قربانی، بولنے کی طاقت ہونے کے باوجود چپ ہوجانے کی قربانی، جسمانی و مالی طاقت رکھتے ہوئے معاف کردینے کی قربانی، ظلم و جبر کے خلاف سینہ سپر ہونے کی قربانی۔ کیا ان قربانیوں کی حدت ہم اپنے اندر بھی محسوس کررہے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔