سود اور اس کی حرمت و مضرت (قسط 6)

جمشید عالم عبد السلام سلفؔی

سود اور تجارت

      بعض لوگ سود اور تجارت کا موازنہ کرتے ہوئے دونوں کو مساوی قرار دیتے ہیں کہ جس طرح تجارت میں نفع لینا جائز ہے اسی طرح سود بھی تجارت ہی کی ایک شکل ہے لہذا اس میں بھی نفع لینا جائز و درست ہے اور پھر مختلف سودی کاروبار کو خوشنما لیبل لگا کر اسے جائز قرار دینے میں کوشاں رہتے ہیں، کہیں سود کو تجارت قرار دیتے ہیں، کہیں تجارتی نقطۂ نظر سے لیے گئے قرض پر سود کے لینے دینے کو حرمتِ سود سے الگ قرار دیتے ہیں تو کہیں سود کی دور از کار تاویل و تفسیر کرتے نظر آتے ہیں۔ جب کہ دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے، ایک روشنی ہے تو دوسری سراپا تاریکی ہے، سود نظامِ معیشت و معاشرت کو تباہ و برباد کرنے والی ہے تو تجارت معیشت میں نمو و ترقی اور معاشرے کی خوشحالی کا باعث ہے، اور سب سے بڑی بات یہ کہ اللہ تعالیٰ نے نہایت واضح الفاظ و بیان کے ذریعہ سود کو حرام اور تجارت کو حلال قرار دیا ہے، اور جو لوگ تجارت کو سود ہی جیسا قرار دیتے ہیں ان کے بارے میں یہ خبر دیا ہے کہ وہ اپنے اس غلط و فاسد نظریے کی بنا پر (قبر سے اٹھائے جانے کے وقت یا قیامت کے دن) مخبوط الحواس اور باؤلے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

      ﴿الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا ۗ وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانْتَهَىٰ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ﴾

      ترجمہ : ’’جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ لوگ اس طرح کھڑے ہوں گے جس طرح وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان نے چھو کر خبطی بنا دیا ہو، یہ اس لیے کہ وہ کہتے ہیں بے شک تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہے، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ پس جس شخص کے پاس اس کے رب کی نصیحت پہنچی اور وہ باز آ گیا تو جو پہلے ہو چکا وہ اس کا ہے، اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔‘‘ [البقرۃ : 275]

      اوپر کی آیتِ کریمہ میں سود خوروں کی حالت کو بیان کیا گیا ہے کہ وہ قبر سے اٹھنے کے وقت قیامت کے دن انتہائی ذلیل و رسوا ہوں گے اور ان کی یہ حالت اس وجہ سے ہوگی کہ وہ بیع کی طرح سود کو بھی جائز قرار دیتے تھے جب کہ اللہ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ اور اللہ علیم و خبیر اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ کس چیز میں بندوں کے لیے نفع ہے اور کس چیز میں بندوں کے لیے ضرر پایا جاتا ہے۔ بندوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت و پیروی کریں۔

      سیدنا عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

      ((إياك والذنوبَ التي لا تُغفَرُ (وفي رواية: وما لا كفارةَ من الذنوبِ) : (الْغُلُولُ) فمن غَلَّ شيئًا أُتِيَ به يومَ القيامةِ، وأكلُ الرِّبا؛ فمن أكل الرِّبا بُعِثَ يومَ القيامةِ مجنونًا يتخبَّطُ، ثم قرأ:

﴿الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبا لا يَقُومُونَ إِلّا كَما يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطانُ مِنَ الْمَسِّ﴾))

      ترجمہ : ’’خبردار! ان گناہوں سے بچو جن کی بخشش نہیں ہوگی (ایک روایت میں ہے : جن گناہوں کا کوئی کفارہ نہیں ہے۔) : مال غنیمت میں خیانت اور چوری کرنا، پس جس نے خیانت کیا وہ قیامت کے دن اسی کے ساتھ لایا جائے گا۔ اور سود خور، پس جس نے سود خوری کی وہ قیامت کے دن پاگل بنا کر اٹھایا جائے گا کہ وہ خبطی ہوگا۔ پھر آپ نے ﴿الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبا﴾ والی آیت تلاوت فرمائی۔‘‘ [أخرجه الطبراني في المعجم الكبير (18/ 60/ 100) بحوالہ : السلسلة الصحيحة رقم: 3313]

      علامہ ابن جریر طبری رحمہ اللہ ﴿ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا الخ…..﴾ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

      (ذلك الذي وصفهم به من قيامهم يوم القيامة من قبورهم، كقيام الذي يتخبطه الشيطان من المسّ من الجنون، فقال تعالى ذكره : هذا الذي ذكرنا أنه يصيبهم يوم القيامة من قُبْح حالهم، ووَحشة قيامهم من قبورهم، وسوء ما حلّ بهم، من أجل أنهم كانوا في الدنيا يكذبون ويفترون ويقولون : ﴿إِنَّمَا الْبَيْعُ﴾ الذي أحله الله لعباده ﴿مِثْلُ الرِّبَا﴾. وذلك أن الذين كانوا يأكلون من الرّبا من أهل الجاهلية، كان إذا حلّ مالُ أحدهم على غريمه، يقول الغَريم لغريم الحق : ’’زدني في الأجل وأزيدك في مالك‘‘. فكان يقال لهما إذا فعلا ذلك : ’’هذا ربًا لا يحل‘‘. فإذا قيل لهما ذلك قالا : ’’سواء علينا زدنا في أول البيع ، أو عند مَحِلّ المال‘‘! فكذَّبهم الله في قيلهم فقال : ﴿وأحلّ الله البيع﴾.

      وأحلّ الله الأرباح في التجارة والشراء والبيع ﴿وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾، يعني الزيادةَ التي يزاد رب المال بسبب زيادته غريمه في الأجل، وتأخيره دَيْنه عليه. يقول عز وجل : فليست الزيادتان اللتان إحداهما من وَجه البيع، والأخرى من وجه تأخير المال والزيادة في الأجل، سواء. وذلك أنِّي حرّمت إحدى الزيادتين وهي التي من وجه تأخير المال والزيادة في الأجل وأحللتُ الأخرى منهما، وهي التي من وجه الزيادة على رأس المال الذي ابتاع به البائع سلعته التي يبيعها، فيستفضلُ فَضْلها. فقال الله عز وجل : ليست الزيادة من وجه البيع نظيرَ الزيادة من وجه الربا، لأنّي أحللت البيع، وحرَّمت الرّبا، والأمر أمري والخلق خلقي، أقضي فيهم ما أشاء، وأستعبدهم بما أريد، ليس لأحد منهم أن يعترض في حكمي، ولا أن يخالف أمري، وإنما عليهم طاعتي والتسليمُ لحكمي.)

      ’’قیامت کے دن اپنی قبروں سے ان کے اٹھنے کا جو وصف بیان کیا گیا ہے کہ وہ اس پاگل شخص کے اٹھنے کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھو کر خبطی بنا دیا ہے، اس کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ہم نے جو قیامت کے دن ان کی بدترین حالت، ان کا اپنے قبروں سے اٹھنے کی وحشت اور ان پر نازل ہونے والی مصیبتوں کی بدبختی کو بیان کیا ہے جس کا وہ شکار ہوں گے، اس وجہ سے کہ وہ لوگ دنیا میں جھوٹ گھڑتے ہوئے کہتے تھے : اللہ نے جس بیع کو اپنے بندوں کے لیے حلال کیا ہے وہ ربا کی طرح ہے۔ وہ اس طرح کی اہلِ جاہلیت میں سے جو لوگ سود کھاتے تھے ان میں سے جب کسی مقروض کے قرض کی ادائیگی کا وقت آجاتا تو مقروض قرض خواہ سے کہتا : ’’میرے لیے آپ مدت کو بڑھا دیں میں آپ کے مال میں اضافہ کر دوں گا۔‘‘ جب وہ دونوں ایسا کرتے تو ان سے کہا جاتا کہ : یہ ربا ہے حلال نہیں ہے۔ جب دونوں سے یہ بات کہی جاتی تو وہ دونوں کہتے : ’’ہمارے لیے یہ یکساں ہے خواہ ہم بیع کے شروع میں اضافہ کریں یا مال کی ادائیگی کے وقت اضافہ کریں۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے ان کے اس بکواس کو جھٹلاتے ہوئے فرمایا : ﴿وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ﴾ اور اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے۔

      یعنی اللہ تعالیٰ نے تجارت اور بیع و شرا میں فائدہ حاصل کرنے کو حلال قرار دیا ہے۔ ﴿وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾ اور ربا یعنی مال میں اس اضافے کو حرام قرار دیا ہے جسے صاحبِ مال، مقروض کی مدت میں اضافہ اور قرض کی تاخیر کے سبب بڑھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : یہ دونوں طرح کے اضافے یعنی اوّل بیع کی وجہ سے حاصل ہونے والا اضافہ اور دوسرے مال کی تاخیر اور مدت میں بڑھوتری کی وجہ سے حاصل ہونے والا اضافہ، ایک جیسے نہیں ہیں۔ اس لیے کہ یقیناً میں نے ان دونوں اضافوں میں سے ایک کو حرام قرار دیا ہے، اور وہ مال کی تاخیر اور مدت میں بڑھوتری کی وجہ سے حاصل ہونے والا اضافہ ہے۔ اور اس کے علاوہ دوسرے اضافے کو حلال قرار دیا ہے، اور یہ وہ اضافہ ہے جسے بائع اپنا رأس المال لگا کر کوئی سامان خریدتا ہے اور پھر اسے اضافہ کے ساتھ بیچتا ہے اور اس بڑھے ہوئے زائد حصے کو لیتا ہے۔ پس اللہ عز و جل نے فرمایا کہ بیع کی وجہ سے حاصل ہونے والا یہ اضافہ ربا کی وجہ سے حاصل ہونے والے اضافہ کی طرح نہیں ہے، کیوں کہ میں نے بیع کو حلال کیا ہے اور ربا کو حرام قرار دیا ہے۔ صرف میرا حکم چلے گا اور ساری مخلوق میری ہی ہے، میں انھیں جو چاہوں حکم دوں اور جس سے چاہوں روکوں، مخلوق میں سے کسی کے لیے روا نہیں ہے کہ وہ میرے حکم کے بارے میں اعتراض کرے اور میرے حکم کی مخالفت کرے بلکہ ان کے اوپر واجب ہے کہ وہ میری اطاعت کریں اور میرے حکم کو تسلیم کریں۔‘‘ [تفسیر طبری 5 / 42 تا 43]

سود اور تجارت میں فرق

      گزشتہ تفصیلات سے معلوم ہوا کہ موجودہ دور کے جن لوگوں کو تجارت اور سود کے بیچ کوئی فرق نظر نہیں آ رہا ہے انھیں اپنے طرزِ فکر پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ دونوں کا آپسی موازنہ کرتے ہوئے ایک کو دوسرے کی نظیر قرار دینا ہی باطل ہے۔ تجارت اور سود نظامِ معیشت کے دو ایسے ستون ہیں جن میں سے ایک معیشت کے خد و خال کو سدھارتا ہے، اسے ارتقا اور نمو دیتا ہے اور اسے قوت و استحکام کی غذا فراہم کرتا ہے تو دوسرا نظامِ معیشت کو بگاڑتا ہے، افرادِ معاشرہ کی محنت رائیگاں کر کے انھیں فقر و قلاشی کی راہ دکھاتا ہے، دولت کی وسعت اور اس کے پھیلاؤ کو محدود کرتا ہے۔ تجارت اور سود کے باہمی فرق کو سمجھنے کے لیے درج ذیل امور پر غور کرنا ضروری ہے :

⓵ تجارت میں نفع اور نقصان دونوں کا احتمال پایا جاتا ہے اور نفع میں بھی توازن برقرار رہتا ہے بیچنے اور خریدنے والے دونوں دو طرفہ فائدہ اٹھاتے ہیں، چناں چہ ایک طرف سے نقد رقم اور دوسری طرف سے سامان کا تبادلہ ہوتا ہے اور ادھار کی صورت میں بھی سامان کے برابر طے شدہ قیمت لی جاتی ہے جب کہ سود میں نفع کے سوا نقصان کا کوئی تصور ہی نہیں ہوتا ہے اور فائدہ بھی صرف قرض دینے والا یک طرفہ اٹھاتا ہے اور دی ہوئی رقم سے زیادہ وصول کرتا ہے۔

⓶ تجارت میں بائع اپنی پونجی کے ساتھ ساتھ اپنی محنت، تگ و دو، وقت اور ذہانت صرف کرتا ہے پھر جا کر اسے کوئی نفع ملتا ہے اور وہ بھی ایک ہی مرتبہ نفع لیتا ہے اور ایک دفعہ کے تبادلے کے بعد پھر بائع و مشتری کے بیچ اس سامان کی خرید و فروخت کی وجہ سے کوئی اور اضافی فائدہ نہیں اٹھایا جاتا ہے جب کہ سود میں محض مال دے کر مفت میں اپنی شقاوتِ قلبی کی بنیاد پر یقینی نفع حاصل کیا جاتا ہے اور بسااوقات اس کا سلسلہ دراز ہوتا رہتا ہے۔

⓷ تجارت میں خریدار اپنی ضرورت کے حساب سے نفع بخش سامان حاصل کرتا ہے اور اسے اپنے استعمال میں لاکر اس سے فائدہ اٹھاتا ہے جب کہ سود میں سود لینے والا شخص بسا اوقات یقینی طور پر گھاٹا اٹھاتا ہے اور آگے چل کر مسلسل اپنی گاڑھی کمائی کے ذریعہ اس کی بھرپائی کی کوشش میں لگا رہتا ہے جب کہ اس نے اپنی کسی بیماری یا کھانے پینے اور تعلیمی سلسلے کے واسطے سودی قرض لیا ہو، اور اگر تجارتی نقطۂ نظر سے سودی قرض لیا ہے تو اس میں بھی نفع کی کوئی خاص شرح معدوم رہتی ہے جب کہ لی گئی رقم سے زائد بطور سود اسے ایک مخصوص و متعین رقم قرض دینے والے کو دیتے رہنا ہے خواہ وہ فائدے میں رہے یا نقصان میں جس سے بغض و نفرت کے سوا اور کچھ نہیں حاصل ہوتا ہے۔

⓸ جائز تجارت کی ایک شکل مضاربت کی ہے، تجارت کی یہ شکل بھی سود سے کئی گونہ ممتاز ہوتی ہے۔ مضاربت میں ایک فریق کا سرمایہ لگتا ہے اور دوسرے فریق کی محنت و دماغ سوزی کارفرما ہوتی ہے۔ اس سے مروت و ہمدردی، احسان و بھلائی اور اخوت و بھائی چارے کا جذبہ فروغ پاتا ہے، آپس میں الفت و محبت بڑھتی ہے اور انسان اخلاقِ حسنہ اور خصائلِ حمیدہ کے صفات سے متصف ہو جاتا ہے، نفع کی صورت میں دونوں فریق فائدہ اٹھاتے ہیں اور نقصان کی صورت میں محنت کرنے والے کی محنت اور سرمایہ لگانے والے کے سرمائے کا نقصان ہوتا ہے یعنی دو طرفہ نقصان ہوتا ہے جب کہ سود میں سرمایہ دار کو صرف اپنے فائدے سے غرض ہوتی ہے، کاروبار چلے یا نہ چلے اسے اس کی فکر نہیں ہوتی ہے اس کی نظر بس اپنے مفاد اور منافع پر لگی رہتی ہے، کاروبار میں گرواٹ دیکھتے ہی اپنا سرمایہ کھینچنے کی فکر میں لگ جاتا ہے اور مشکل کی گھڑی میں مدد کرنے کے بجائے اپنا شرحِ سود مزید بڑھا دیتا ہے جس سے خود غرضی، ابن الوقتی اور مفاد و زر پرستی کا جذبہ فروغ پاتا ہے، آپسی دشمنی بڑھتی ہے، نرمی و سہولت کے بجائے درشت مزاجی اور قساوت و سنگ دلی بڑھ جاتی ہے۔

⓹ کتاب و سنت کے اندر اپنے سرمائے پر فائدہ حاصل کرنے کی تین صورتوں کا تذکرہ ملتا ہے۔ پہلی صورت تو یہ ہے کہ آدمی خود ہی اپنے سرمائے کے ذریعہ تجارت کرے اور اپنی محنت و کوشش اور ذہانت کو بروئے کار لاکر فائدہ اٹھائے، دوسرے یہ کہ شراکت کی شکل اپنا لے یعنی کسی کو اپنی تجارت میں شریک کر لے اور حسبِ شرائط و توفیرِ زر دونوں نفع و نقصان کے شریک ہو جائیں اور تیسرے یہ کہ اپنا سرمایہ کسی دوسرے کے حوالے کر دے اور وہ محنت کر کے اس سرمائے سے تجارت کرے اور نفع میں حسبِ شرائط دونوں شریک ہوں۔ بہرحال تجارت کی ان تینوں شکلوں میں یقینی نفع و نقصان کا امکان موجود ہے اور فائدے کی کوئی حد مقرر نہیں ہے جب کہ سود کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔

⓺ سود اور کرایہ میں فرق

      اسلام نے اپنے ساز و سامان اور جائداد منقولہ و غیر منقولہ پر تجارتی نقطۂ نظر سے کرایہ پر دے کر اس سے مال و زر حاصل کرنے اور کسی کا کوئی کام کر کے اس پر اجرت حاصل کرنے کی اجازت دے رکھی ہے جو کہ ایک مستحسن عمل ہے، جس کے ذریعہ لوگوں کے درمیان منافع کا تبادلہ ہوتا ہے اور مناسب اجرت و کرایہ کے ذریعہ ایک دوسرے کے سامان یا محنت و تجربہ سے فائدہ حاصل کیا جاتا ہے۔ چناں چہ اجارہ میں ہوتا ہی یہی ہے کہ لوگ کچھ مال کے عوض دوسرے کے سامانوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں یا کچھ مال کے عوض کسی محنت کش اور مزدور و کاریگر کی محنت و فن کاری سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ بعض لوگ اس پر قیاس کر کے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ جس طرح مختلف سامانوں کا کرایہ لینا درست ہے اور اس کا نفع یقینی ہوتا ہے اسی طرح روپے پیسے پر بطور کرایہ یقینی نفع لینا درست ہے، اس لیے کہ جب مختلف اشیا کو کرایہ پر دے کر اس کے ذریعہ یقینی نفع لینا جائز ہے تو پھر سود کے ذریعہ یقینی نفع لینا کیونکر ناجائز ہوگا؟ حالاں کہ یہ فاسد قیاس اور باطل نظریہ ہے کیوں کہ حلت و حرمت کا معیار اللہ تعالیٰ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیثِ مبارکہ ہے اور یہاں معاملہ یہ ہے کہ شریعت نے کرایہ پر لینے والے نفع کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ اتنی سی بات ہمارے لیے کافی ہے لیکن پھر بھی اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو سود اور کرائے میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے اور ایک پر دوسرے کا قیاس نہیں کیا جا سکتا ہے۔ آئیے ہم دونوں کے باہمی فرق کو ذرا تفصیل سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں :

(الف) جن چیزوں پر کرایہ وصول کیا جاتا ہے وہ بذات خود نفع بخش ہوتی ہیں اور اگر منفعت کا پہلو نہ ہو تو پھر اسے کرائے پر دینا درست ہی نہیں ہوگا اور کرایہ پر دی ہوئی چیز کسی وجہ سے اگر ناقابل فائدہ ہو جائے تو پھر اس کا کرایہ لینا درست نہیں ہوتا ہے جب کہ اس کے بالمقابل روپے پیسے پر جو سود لیا جاتا ہے وہ اس پیسے کا کرایہ نہیں ہو سکتا ہے کیوں کہ کرنسی بذات خود نفع بخش نہیں ہوتی ہے بلکہ اس کے ذریعہ کوئی نفع بخش چیز خریدنی ہوگی پھر اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے جس میں نفع کے ساتھ نقصان کا پہلو بھی پایا جاتا ہے اور قرض خواہ کو نقصان سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کی نظر صرف اضافی فائدے پر ہوتی اور ہر صورت میں وہ اس کا طلب گار ہوتا ہے۔

(ب) کرایہ پر اٹھائی گئی چیز کا مالک کرایہ دار نہیں ہوتا ہے بلکہ اس پر مکمل مالکانہ حقوق اس سامان کے مالک کی ہوتی ہے، وہی اس کا ذمہ دار ہوتا ہے، اس کی اجازت کے بغیر نہ اس میں کسی طرح کی تبدیلی کی جا سکتی ہے اور نہ کرایہ دار اسے بیچ ہی سکتا ہے، بس اس سے وہ حسبِ شرائط فائدہ اٹھاتا ہے اور اصل چیز اپنی بنیادی حالت پر برقرار رہتی ہے اور اگر کوئی ایسی چیز جسے استعمال کرنے کے بعد اس کی اصل باقی نہ رہے تو اسے کرائے پر دینا درست ہی نہیں ہے۔جب کہ سود میں رقم دینے کے بعد رقم دینے والے کی ملکیت ختم ہو جاتی ہے اور رقم لینے والا شخص اسے جس طرح چاہے اور جہاں چاہے استعمال کر سکتا ہے اور وہ رقم اپنی اصلیت کھو دیتی ہے۔

(ج) مختلف اشیا پر جو کرایہ لیا جاتا ہے وہ اس سے فائدہ اٹھانے کا کرایہ ہوتا ہے اگر اس سے فائدہ اٹھانا ممکن نہ ہو تو پھر اسے کوئی کرائے پر لے گا ہی نہیں جب کہ رقم وغیرہ پر جو اضافی فائدہ سود کی شکل میں لیا جاتا ہے وہ محض کچھ مدت کی مہلت کے عوض ہوتا ہے۔

(د) کرایہ پر دی گئی اشیا میں استعمال کرنے کی وجہ سے کچھ نہ کچھ کمی آتی رہتی ہے جس میں درستی اور مرمت کا عمل اس سامان کے مالک کی جانب سے وقتاً فوقتاً ہوتا رہتا ہے ظاہر سی بات ہے جب اس میں کمی آتی ہے تو اس کا مالک اس کے عوض کرایہ لینے کا حقدار ہوگا جب کہ سودی معاملات میں ایسا نہیں ہوتا ہے نہ پیسہ ڈوبنے کا امکان رہتا ہے اور نہ اس میں کوئی کمی واقع ہوتی ہے بلکہ اپنے ساتھ قرضدار کا کچھ مال بھی کھینچ لاتا ہے، پھر سوائے مفت خوری اور ظلم کے اور کس بنا پر اصل سے زائد رقم طلب کیا جاتا ہے؟  (جاری)

تبصرے بند ہیں۔