اتراکھنڈ: جمہوریت پر حملہ یا کانگریس مکت بھارت کی ابتدا

مظفر حسین غزالی

کانگریس مکت بھارت کے نعرے کے ساتھ بی جے پی نے 2014کے عام انتخاب کی مہم شروع کی تھی،اسے پارٹی کے سبھی ذمہ داروںنے باربار دوہرایا۔ مقصد صرف چناﺅ جیتنانہیں تھا بلکہ کانگریس کو قومی سیاست سے حاشیہ پر دھکیلنا تھا۔ بی جے پی جانتی ہے کہ کانگریس کی مضبوط موجودگی میں ہندوتو کا ایجنڈہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔ ریاستی پارٹیاں اپنی بوڑھی ہوتی لیڈر شپ کی وجہ سے بہت دیر تک اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتیں۔

2016کے شروع میں کانگریس نوریاستوں میں برسراقتدار تھی۔ اروناچل پردیش اور اتراکھنڈ میں اس کی سرکاریں گرنے کے بعداب صرف سات ریاستوں میں ہی کانگریس کی حکومت بچی ہے۔ مئی آتے آتے آسام اور کیرالہ کے بھی اس کے ہاتھ سے نکلنے کا امکان ہے۔ آسام میں تین مرتبہ سے کانگریس اقتدار میں ہے، اس کی وجہ سے اس کے خلاف Anti incumbencyپائی جاتی ہے اور کیرالہ کے وزیراعلیٰ کے دامن پر توانائی گھوٹالے کے داغ لگے ہیں۔ کانگریس کو سرکار میں بنے رہنے کےلئے سخت لڑائی لڑنی پڑرہی ہے۔ صرف پانچ ریاستیں منی پور، میزورم، میگھالیہ، ہماچل اور کرناٹک (ان میں سے چار میں پارلیمنٹ کی 10سے بھی کم سیٹیں ہیں) ہی کانگریس کے پاس رہیںگی۔ ان میں سے منی پور اور ہماچل بھی بھاجپا کے نشانے پر ہے۔ تو کیا ملک کانگریس مکت ہونے کی طرف بڑھ رہا ہے؟

بی جے پی سابق میں آئین کی جس دفعہ356کے خلاف واویلا مچاتی رہی ہے۔ اب اقتدار میں آنے کے بعد غیر بھاجپائی سرکاروں کو گرانے کےلئے وہ اسی دفعہ356کا بے روک ٹوک بڑی بے رحمی سے استعمال کررہی ہے۔ اروناچل پردیش اور اتراکھنڈ کی راوت سرکار کا برخاست کیاجانا اس کی مثال ہے۔ ایوان میں طاقت آزمائی سے چند گھنٹوں قبل اتراکھنڈ حکومت کو برطرف کربھاجپا نے بتادیا ہے کہ وہ چنی ہوئی سرکاریں گرانے کےلئے سام، دام، دنڈ، بھید جیسا کوئی بھی ہتھیار استعمال کرنے کو تیارہے۔ مثلا کیا مرکزی حکومت کو صدرراج نافذ کرنے سے پہلے ہریش راوت سرکار کے اسمبلی میں اکثریت ثابت کرنے کا انتظارنہیں کرنا چاہئے تھا؟ اسٹنگ آپریشن، یا دل بدل کرنے والے ممبران کو ودھان سبھا اسپیکر کے ذریعہ معطل کئے جانے کو سیاسی بحران مان کر چنی ہوئی حکومت کو برطرف کرنا جمہوریت، آئین وقوانین اور صوبوں کے حقوق پر حملہ ہے۔ بی جے پی نے سپریم کورٹ کے اس حکم کی بھی خلاف ورزی کی ہے جو اس نے کرناٹک کی ایس آربوئی حکومت کے سلسلہ میں دیاتھاکہ کسی بھی منتخب حکومت کی قسمت کافیصلہ نہ توراج بھون کے لان میں ہوگا نہ راشٹرپتی بھون کے اشوکا ہال میں بلکہ صرف اور صرف اسمبلی کے اندر ہوگا۔

دراصل کانگریس کے نوباغی ممبران اسمبلی کے معطل ہونے کی صورت میں بی جے پی کے ذمہ داران کو یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ راوت شاید اسمبلی میںاکثریت ثابت کرنے میں کامیاب ہوجائیںگے، اسی کے پیش نظر اتراکھنڈ کے سیاسی بحران پر مرکزی کابینہ کی ہنگامی میٹنگ ہوئی جس میں یہ انتہائی قدم اٹھانے کا فیصلہ کیاگیاجبکہ ہریش راوت نے الزام لگایاتھا کہ بی جے پی مسلسل ریاست میں صدرراج نافذ کرنے کی دھمکی دے رہی ہے۔ اس وقت یہ معاملہ عدالت میں ہے اوریہ کہنا مشکل ہے کہ آگے کیاہوگا۔ لیکن کم تعداد کی اسمبلی والی ریاستوںمیں جس طرح چار،چھ ممبران اسمبلی کے پالا بدل لینے سے سرکاریں غیر مستحکم ہوجاتی ہیں اسے دیکھتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ سیاسی سدھاروں کی سمت میں آگے بڑھاجائے۔ اتراکھنڈ کے الگ ریاست بننے کے بعد سے صرف ایک وزیراعلیٰ کوچھوڑ کر دوسرا کوئی بھی اپنی مدت پوری نہیں کرسکا ہے۔ ایسی ہی صورت حال سے لمبے وقت تک گوا بھی دوچار رہا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ایسا دل بدل مخالف قانون میں تبدیلی کے باوجود ہورہا ہے۔ کسی بھی دل کی سرکار ہو یہ ٹھیک نہیں کہ چار چھ ممبران اسمبلی کے غیر مطمئن یا باغی ہوجانے سے ریاست میں سیاسی بحران کی چپیٹ آجائے۔ اچھا ہوکہ ایسا کوئی نظام بنے جس سے ریاستی سرکاریں بلا وجہ غیر مستحکم نہ ہوپائیں۔

دفعہ356پر پہلے بھی سوال اٹھتے رہے ہیں۔ کمیونسٹ اسے غیر جمہوری وتاناشاہی والی دفعہ تک کہہ چکے ہیں۔ یہ مرکز کے ہاتھوں میںایسا ہتھیار ہے جس سے ریاستیں مرکز کے رحم وکرم پر منحصر ہوتی ہیں۔ مرکز کو کسی بھی صوبائی سرکار کے خلاف قدم اٹھانے کے لئے گورنر سے ریاست میں سیاسی بحران پیدا ہونے کی رپورٹ منگانی ہوتی ہے۔ مرکز اپنے بٹھائے وفادار گورنروں سے جب بھی ضروری ہو ایسی رپورٹ حاصل کرلیتا ہے اور اس کی بنیاد پر دفعہ356کے تحت کارروائی کردیتا ہے۔وقت آگیا ہے کہ اس پر بھی از سرنو غوروفکر کیاجائے۔

بات اتراکھنڈ کی ہو رہی ہے تو اسے بنے پندرہ سال ہوچکے ہیں۔ اس میں چار سرکاریںا ورآٹھ وزیراعلیٰ بن چکے ہیں۔ اس سے اتراکھنڈ میں سیاسی اتھل پتھل کااندازہ لگایاجاسکتا ہے البتہ صدرراج پہلی مرتبہ نافذ ہوا ہے۔ اس کےلئے بھاجپا کے ساتھ کانگریس بھی اتنی ہی ذمہ دار ہے۔ 9نومبر2000کو جب اتراکھنڈ(اترانچل) بنا تو بھاجپا کی پہلی سرکار بنی تھی۔ اس کے وزیراعلیٰ نتیانند سوامی تھے۔ ممبران اسمبلی کی مخالفت کے چلتے محض گیارہ مہینے میںسوامی کو جانا پڑا۔ بھگت سنگھ کوشیاری ان کی جگہ وزیراعلیٰ بنے۔ یہاں پلین اور پہاڑ، پنڈت اور ٹھاکر کی بالا دستی ےا تسلط کی خواہس کے چلتے ہمیشہ دوگٹ رہے ہیں۔ بوڑھوں کے کرسی سے چمٹے رہنے کی وجہ سے دوسری پیڑھی کو موقع نہیں ملا۔ اس لئے وہاں کی سرکاریں اندرونی سازش سے غیر مستحکم ہوتی رہیں۔ پارٹیوں کی مرکزی قیادت نے ان باتوںپر دھیان نہ دے کر ہمیشہ وزیراعلیٰ کو اوپر سے تھوپنے کا کام کیا۔ سب جانتے ہیں کہ ہریش راوت لمبے وقت سے وزیراعلیٰ بننے کی کوشش کررہے تھے۔ ان کا راستہ کبھی نارائن دت تیواری روک لیتے توکبھی وجے بہوگنا۔ راوت خود اس طاقتور خواہش کے شکار ہوگئے جس کے کبھی وہ خود اگوا ہواکرتے تھے۔ دراصل یہ اختلاف بڑھاتے نیتاﺅں کی خواہش اور قطار میںکھڑے پکتے بالوں والے دوسری پیڑھی کے لیڈروں کا اتاولاپن ہے۔

تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ کانگریس نے اروناچل یااتراکھنڈ کے بحران کو دور کرنے میں دلچسپی نہیں دکھائی۔ کئی ممبران اسمبلی کی شکایت ہے کہ کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی نے انہیں ملنے کا وقت نہیں دیا۔ بھلے ہی کانگریس سے انہیں کچھ ملنے کی امید نہ ہو لیکن اگر پارٹی کے اعلیٰ کمان ان کی بات سن لیتے تو یہ بحرانی کیفیت کچھ وقت کےلئے ٹل جاتی۔ بھاجپا توکانگریس مکت بھارت بنانا چاہتی ہے۔ اس کےلئے وہ ہر حد سے گزرنے کو بھی تیار ہے۔ کانگریس کیوں بی جے پی کےلئے چنوتی بننے کے بجائے پیچھے ہٹ رہی ہے یہ سمجھ میں نہیں آتا۔ کیا پارٹی کی قیادت میں اس کے ممبران کا یقین کم ہوا ہے یاپھر ہائی کمان پارٹی کے لوگوں کی بے چینی دور کرنے میں ناکام ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔