اتراکھنڈ میں بی جے پی کا فراڈ بے نقاب

میم ضاد فضلی

با لآخر وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا ،مرکزی سرکار نے اترا کھنڈ ہائی کورٹ کے فیصلے کے محض ایک دن بعد سپریم کورٹ پہنچی ،جہاں سماعت کی تیاریوں کے پیش نظر ہائی کورٹ کے فیصلے پر 27اپریل تک کیلئے روک لگا دی گئی ہے۔مگر اترا کھنڈ ہائی کورٹ کے تاریخی فیصلے نے بی جے پی کے چہرے سے دکھاوے کی’’ دیش بھکتی ‘‘اورآئین سے ظاہری محبت کا مکھوٹا ضرور اتار پھینکا ہے۔ اترا کھنڈ ہائی کورٹ نے مرکزی حکومت کو بڑا جھٹکا دیتے ہوئے جمعرات کو ریاست سے صدر راج ہٹا دیاتھا۔ ہریش راوت نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ عدالت کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں، بالآخر سچ کی فتح ہوئی ہے۔نینی تال ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد ہریش راوت نے کانگریس ممبران اسمبلی کی میٹنگ بلائی ہے۔خبریں ہیں کہ گزشتہ بارہ گھنٹے کے اندر ہریش راوت نے کابینہ کی دو دو میٹنگیں طلب کی ہیں،جس میں کم ازکم 13اہم فیصلے لئے گئے ہیں۔ممکن ہے جلدہی اس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا جائے۔عدالت عالیہ کی ہدایات کے مطابق اب وزیر اعلیٰ ہریش راوت کو 29 اپریل کو اسمبلی میں اکثریت ثا بت کرنی ہوگی۔ کانگریس لیڈر اندرا ہردییشنے ہائی کورٹ کے فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس کے پاس اکثریت ہے۔ انہوں نے اسے انصاف کی فتح قرار دیا ہے ۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ اپنی نوعیت کا ایک تاریخی فیصلہ ہے۔اس سے قبل اس کی مثال ہندوستان میں صرف ایک بار اور پڑوسی ملک پاکستان میں ایک بار ملتی ہے۔جب غالباً1993میں صدر پاکستان نے نوازشریف حکومت کو برخواست کیاتھا اس وقت دیکھنے کو ملا تھا۔پا کستان سپریم کورٹ نے صدر کے فیصلے کے الٹ کر یہ ثابت کردیا تھا کہ آئین سے اوپر کوئی بھی نہیں۔20اپریل 2016بروز بدھ جب اتراکھنڈ ہائی کورٹ میں معاملے کی سماعت ہورہی تھی اسی دوران جج نے ایک سبق آ موز اور مستحکم بات کہی کہ صدر جمہوریہ کوئی راجا نہیں ہیں اور غلطی ان سے بھی ہوسکتی ہے۔ہائی کورٹ کے اس تبصرہ کے بعد یہ کہا جارہا ہے کہ ریاست اتراکھنڈ کی سیاسی صورت حال کے متعلق گورنر کی جانب سے غلط رپورٹ دی گئی تھی اور مرکزی سرکار نے اس میں مزید نمک مرچ لگاکر صدر جمہوریہ کے ہاتھوں میں تھما دیا تھا۔اس رپورٹ کی بنیاد پر ہی پرنب مکھرجی نے یہ قدم اٹھا یا ہوگا اور ریاست میں تعزیرات ہند کی دفعہ356کے تحت صدر راج نافذ کیا ہوگا۔یہاں یہ بات ضرور کھٹکتی ہے کہ ایس آر بومئی والے معاملہ میں کرنا ٹک صدر راج کے نفاذ کیلئے صدر جمہوریہ ہند کو بھیجے گئے مطالبے کو اس وقت کے صدر جمہوریہ نے تین بار لوٹا دیا تھا۔مگر گزشتہ27مارچ کو پرنب مکھر جی نے ایسا کرنا ضروری نہیں سمجھا اور بیک جنبش قلم ہریش راوت کی جمہوری سرکار کو برخاست کرکے صدر راج نافذ کردیا۔جمعرات کے روز اپنے موقف کے دفاع میں وہی سابقہ ایس آر بومئی والے سپریم کورٹ کے فیصلے کو مرکزی حکومت نے عدالت کے سا منے رکھا تھا۔حالاں کہ لگ بھگ 5 سال تک چلنے والی چلی سماعتوں کے بعد 1994 میں آئے تاریخی ایس آر بومئی بمقابلہ حکومت ہندمعاملے میں سپریم کورٹ نے واضح طور پر یہی بات کہی ہے کہ حکومت کوکسی بھی حال میں سب سے پہلے ایوان میں ہی اکثریت ثابت کرنی ہوگی۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا تھا کہ دفعہ 356 (1) کے تحت دیا گیا کوئی بھی فیصلہ عدالتی جائزے کے دائرے میں آتا ہے۔ یعنی کورٹ مرکزی حکومت کے فیصلے کو پلٹ بھی سکتا ہے۔اگر مذکورہ فیصلہ کو بنیاد بناکر اتراکھنڈ میں بی جے پی کے کھیل کا جائزہ لیا جائے تو پتہ لگتا ہے کہ یہا تو ایس آ ر بومئی والے معاملہ سے بھی زیادہ سینہ زوری کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔آخر کیا وجہ ہے کہ اکثریت ثابت کرنے کی مقررہ تاریخ سے چند گھنٹے پہلے ہی اترا کھنڈ کی ہریش راوت سرکار کو برخواست کرکے ریاست میں صدر راج نا فذ کردیا گیا۔ایسی کچھ باتیں ہیں جو مرکزی سرکار کی نیت میں کھوٹ کا اشارہ دے رہی ہیں ۔ اس جانب خود ہائی کورٹ کے فاضل ججوں نے بھی بھر پور توجہ دیتے ہوئے اپنے تبصرے میں کہا ہے کہ حکومت کو کسی پارٹی کی طرح برتاؤ نہیں کرنا چاہئے۔خود عدالت عالیہ کے اس تبصرہ نے مرکز کی مودی سرکار کو با لکل ننگا کردیا ہے ۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی اپنی حریف پارٹیوں کی سرکاروں کو نیست نابود کردینے کیلئے کہاں تک جاسکتی ہے۔ این ڈی اے خا ص کر بی جے پی کی اس فیصلہ سے جگ ہنسائی ہونے لگی ہے اور سیاسی شعور رکھنے والا ملک اور دنیاکا آئین دوست سماج مسلسل مذمت کر رہا ہے۔ اترا کھنڈ ہائی کورٹ کے حکم کو نریندر مودی حکومت کے لئے ’انتہائی شرمناک‘ قرار دیتے ہوئے دہلی کے وزیر اعلی اروندکجریوال نے کہا کہ وزیر اعظم کو عوام کے ذریعہ ’منتخب کی گئی حکومتوں میں مداخلت بند کرنی چاہئے اور جمہوریت کا احترام کرنا چاہئے‘۔بائیں بازو کی جماعتوں نے اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے ،جس میں صدر راج نافذ کرنے کے نریندر مودی حکومت کے اعلان کو اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے مسترد کردیا ہے اور بی جے پی کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ عدالت کا فیصلہ آئین کو توڑنے والوں کے لئے ’طمانچہ‘ہے۔
یہ فیصلہ کانگریس کے لئے بہت بڑی راحت کا ساما ن ہے، حکومت گرانے والے یہ توقع کر رہے تھے کہ کانگریس کے باغیممبران اسمبلی کے سہارے وہ اپنے لئے اقتدار تک پہنچنے کا راستہ بنالیں گے۔ مگر ’’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘‘۔مرکز کی بی جے پی ارماں آ نسوؤں میں بہ گئے۔اب سپریم کورٹ کا فیصلہ کچھ بھی ہو اور اتراکھنڈ کی سیاست میں جو بھی واقعات رو نماں ہوں، یہ صاف ہے کہ قانونی اور سیاسی، دونوں ہی محاذوں پر ہریش راوت نے فی الحال خاصی برتری حاصل کر لی ہے۔ہائی کورٹ نے انہیں قانونی جیت دلوائی ہے اور انہوں نے اتراکھنڈ میں جگہ جگہ جو سیاسی مہم چلائی تھی، اس نے عوام کی حمایت اور ہمدردی مسٹر راوت کیلئے مزید بڑھا دی ہے ۔اگر سپریم کورٹ بھی ہائی کورٹ کا فیصلہ بحال رکھتا ہے، تو ہریش راوت کی حکومت کا دوبارہ بننا طے ہے ،کیونکہ کانگریس کے نو باغی ممبر اسمبلی پارٹی بدلنے کے قانون کے تحت نااہل قرار دیے جاچکے ہیں اور راوت آسانی سے ایوان میں اکثریت ثابت کر دیں گے۔ کانگریس اور بی جے پی کے علاوہ دیگر جماعتوں اور آزاد ا رکن اسمبلی بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ بی جے پی کے ساتھ نہیں جائیں گے۔ ایسے میں بی جے پی کے لیے سیاسی طور پر کوئی امیدباقی نہیں ہے۔یہاں بی جے پی کا داؤ الٹا پڑتا صاف دکھائی دے رہا ہے۔اتراکھنڈ حکومت کو گرانے کی بی جے پی کی کوشش آخر ہریش راوت کو ہی مضبوط بناتی نظر آرہی ہے۔ اگر 18مارچ سے ریاست میں شروع کی گئی بی جے پی اور مرکزی سرکارکی سرگرمیوں کو بغور ملاحظہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سارا کھیل منظم طریقے سے کھیلا گیا۔اگرچہ معاملہ اترا کھنڈ کا تھا ،مگر اس کیلئے تانے بانے دہلی سے مرتب کئے جارہے تھے۔چناں چہ26مارچ کو دہلی میں ہی باغیوں کے ذریعہ وزیر اعلی ہریش راوت کا ایک مبینہ اسٹنگ جا ری کرایا گیا۔ اسٹنگ آ پریشن میں حکومت بچانے کے لئے وزیر اعلیٰ ہریش راوت پیسے کی لین دین جیسی باتیں کرتے ہوئے سنائی دے رہے ہیں۔حالاں کہ وزیر اعلی راوت نے ان الزامات سے انکارکرتے ہوئے اس آپریشن کو ایک چال بتایاتھا،جو بی جے پی اور اس کی فرقہ پرست طاقتوں کے حوالے سے بعید ازقیاس بھی نہیں ہے۔ابھی حال ہی میں بی جے پی کی طلبہ یونین کی جانب سے جے این یو طلبا لیڈرکنہیا کمار ،انیربان بھٹا چاریہ اورعمر خالد کو جبراً گنہ گار ثابت کرنے کیلئے ایک ریکارڈنگ پیش کی گئی تھی،جس کی رپورٹ بتاتی ہے کہ بی جے پی کی طلبا یونین نے اس ریکارڈنگ میں شرمناک ایڈیٹنگ کی تھی، لہذا اگر ہریش راوت کیخلاف اس قسم کی کوئی سی ڈی پیش کی جاتی ہے تو اس پر بڑی آسانی سے یقین کرنا مشکل ہے۔یہ بی جے پی ہے ،مودی کی بی جے پی ۔یہ اپنے حریف کو بدنام کرنے کیلئے کسی بھی حدتک جاسکتی ہے۔27 مارچ کو دوپہر 12 بجے ہی وزیر اعلی ہریش راوت نے میڈیا سے بات چیت میں یہ صاف کردیا تھا کہ مرکز میں برسر اقتدار بی جے پی اپنی مخالف پارٹیوں کی سرکاروں کو گرانے کیلئے آئین کو پیروں تلے روند رہی ہے اور وہ اترا کھنڈ کی سرکا کو بھی غیر آ ئینی طریقے سے قتل کردینے کا منصوبہ بناچکی ہے۔اسے ملک میں جمہوریت کا بے رحمانہ قتل ہی کہا جائے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔