ہرسمت اتنی ہےخموشی کیوں؟

مھدی حسن عینی نصیرآبادی
۱۰سالوں سے گنگا اورگوداوری کادیش بھارت شدید قحط اور آبی مسائل سےدوچار ہے، سوکھےکاسب سےزیادہ  مہاراشٹر اور اترپردیش کے علاقوں میں  نظر آرہاہے،دنیا کےبھاری آبادی والے متوسط ممالک میں سےایک ہندوستان میں قحط اورخشک سالی کوئی نئی بات نہیں،انگریزی دور حکومت سے پہلےجب بھی قحط کے آثار نمودارہوتے، مقامی حکمران ٹیکس معاف کرتےاورمتاثرہ علاقوں کو نہروں کے ذریعےسیراب کرنے کی کوشش کرتے،لیکن انگریزوں کے اس سونے کی چڑیا پر تسلط کے بعد ایسٹ انڈیاکمپنی کےحکمرانوں نے ان تمام معاملات سے آنکھیں بند کر لیں۔

1770 میں قحط آیا۔ 1771 میں اموات ہوئیں مگر کوئی عملی اقدام کرنےکے بجائے الٹا ٹیکس کی شرح بڑھا کر 50 سے 60 فیصد کر دی گئی تاکہ کمپنی کی آمدنی میں کمی نہ ہوکیونکہ اموات کی وجہ سے زمین کم کاشت ہوئی تھی اور ٹیکس بھی کم ہوتا نظر آرہا تھا۔کمپنی نے مغلوں سے حکومت سنبھالتے ہی اپنی زرعی پالیسی میں واضح کر دیا کہ اسے خوردنی اجناس کی بجائےنقد آور اجناس سے مطلب ہے جسے یورپ برآمد کر کے زیادہ منافع اٹھایا جا سکے۔ 1771کے قحط کو قدرتی آفت قرار دینا فقط ایک بہانہ تھا۔ قحط کی اصل وجہ منافع خوری کے لالچ میں کمپنی کا کسانوں سے زبردستی نقد آور اجناس کاشت کروانا تھی۔
انگریز ونسٹن چرچل کو اپنے عظیم جنگجو وزیرِاعظم قرار دیتے ہیں جس نے یورپ کو ہٹلر نام کے عفریت سے نجات دلائی۔مگر اسی چرچل کی زبان بنگال کے اُس عفریت کا نام لیتےلڑکھڑانے لگی جو کروڑوں بنگالیوں کوکھا گیا۔اسی چرچل نے کمال شانِ بے نیازی سے بنگال کے بھوکوں کی مدد کے لئے بھیجی جانے والی میڈیکل امداد اور خوراک کا رخ یہ کہہ کر پہلے سے کھاتے پیتے یورپین محاذ کے فوجیوں کی طرف موڑ دیا کہ،” قحط ہو یا نہ ہو انڈینز خرگوشوں کی طرح اپنی نسل بڑھا ہی لیں گے۔
”ایسا ہی تبصرہ حالیہ دنوں مرکزی وزیر وینکیا نائیڈواور آئی.پی.ایل چیرمین راجیو شکلا نےکیاتھا،جب دہلی سرکار نے ایک ٹیلیگرام میں بنگال کے خوفناک قحط اور اسکےنتیجے میں ہونےوالی اموات کی تعداد بیان کی تو اس نے اطمینان سے جواب بھیجا کہ،”اگر ایسی ہی صورتحال ہے تو اب تک مجھے گاندھی کی موت کی خبر کیوں نہیں پہنچی”۔انگریزی حکومت کی بےنیازی اور اپنے باشندوں پرظلم و جورکی یہ داستان ختم نہیں ہوئی بلکہ ان سے چھٹکارا پا لینےکےبعد نئے چہرے میں پرانے ظالموں نے اس ملک کو جڑ سے کھوکھلا کردیا ہے،گزشتہ ایک طویل عرصہ سے ملک کانصف سے زیادہ حصہ قحط سالی اور بھوک مری کاشکار ہے،ایک رپورٹ کے مطابق پانی کی قلت کی بناء پر بھارت کا ہر تیسرا شہر تباہی کے دہانے پر ہے، سرکار اعدادو شمار کے مطابق ملک کی 33 کروڑ سے زائد آبادی قحط سالی کا شکار ہے۔یعنی ایک تہائی آبادی موت و حیات کے کشمکش میں گھری ہوئی ہے،ابھی حالیہ دنوں میں مرکزی  حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی قحط سالی کا شکار ہے جسے پینے کے صاف پانی اور کھانے پینے کی اشیاء بھی حاصل نہیں ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ملک کے 678 اضلاع میں سے 254 قحط سالی کی لپیٹ میں ہیں جس میں سب سے زیادہ متاثر ریاست اتر پردیش ہے جہاں بارشیں نہ ہونے کے باعث 50 اضلاع کے 9 کروڑ 88 لاکھ افراد قحط سالی کا شکار ہیں۔سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں بھارت کی 10ریاستوں کی جانب سے حاصل کیا گیا ڈیٹا جمع کرایاگیا ہےجب کہ ریاست بہار اور ہریانہ نے بارش نہ ہونے کے باوجود قحط سالی کی صورت حال کو ماننے سے انکار کیا۔ اس کے علاوہ حیران کن طور پر ریاست گجرات کا ڈیٹا بھی قحط زدہ علاقوں میں شامل نہیں کیا گیا جب کہ مقامی حکومت اس بات کا اعتراف کر چکی ہے کہ ریاست کے 637 دیہات میں پانی کی شدید قلت ہے۔واضح رہے کہ ہندوستانی  سپریم کورٹ میں ایک این جی او کی جانب سے درخواست دائر کی گئی تھی کہ 12ریاستیں جن میں اترپردیش، کرناٹکا، مدھیہ پردیش، تلنگانہ، مہاراشٹرا، گجرات، اڑیسہ، جھاڑکھنڈ، ہریانہ، بہار اور چھتیس گڑھ شامل ہیں، قحط سالی کی صورت حال کے باوجود حفاظتی اقدامات نہیں اٹھا رہی ہے.بازآبادکاری تو دور کی بات مرتے ہوئے کسانوں کے ساتھ سیلفی کھینچی جارہی ہے،لاشوں کی شاہراہ پرمرکزی وصوبائی حکومت کی سیاست کو  دیکھ ایسا لگنے لگا ہے کہ اس ملک میں کسان صرف اناج پیدا کرنے والے مشین ہیں،جن کاکام ہر سال کروڑوں ٹن غلہ دیناہے،پھرچاہےوہ جئےیا مریں، ان کے گھر ویران ہوں یا ان کے بچے یتیم اور ان کی بیویاں بیواہوجائیں،حکومت یا کارپوریٹ جگت کو اس سے کوئی سروکارنہیں،کیونکہ فنڈیویس حکومت قحط سالی سے متاثرین کی راحت رسانی کے لئےابھی تک کچھ بھی نہیں کرپائی ہے،وزیر اعلی کو بھارت ماتا کی سیاست سےہی فرصت نہیں  ہے،وزیر اعظم ‘میک اِن انڈیا’ میں مصروف ہے۔ اب مودی جی کو ‘فارمرڈیتھ اِن انڈیا” بھی دکھایاجانا چاہئے۔ مراٹھواڑہ خشک سالی سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ ہے اور وہاں کی صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ وہاں کسانوں کی خودکشی کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں۔ مویشیوں کے لئے چارہ اور پانی کی قلت پیدا ہوچکی ہے۔ دیہی علاقوں میں پینے کے لئے پانی دستیاب ہی نہیں ہے یہاں تک کہ پانی کی قلت کی وجہ سے اسپتالوں میں آپریشن بند ہوچکا ہے۔ ایک جانب پانی کی یہ قلت تو دوسری جانب سے بوتل بند مینرل واٹر کا کاروبار سے تیزی سے بڑھ رہا ہے جس کے لئے دیہی علاقوں کے لوگوں کو لوٹا جارہا ہے۔ ان پانی مافیاؤں پر پابندی لگانا نہایت ضروری ہے۔ لیکن سب سے زیادہ اہم اس وقت یہ ھیکہ پانی فراہمی کے پروگرام کومرکزی حکومت کو اپنے ہاتھ میں لے،اور پانی کی قلت کودور کرنے، اس کا مناسب استعمال کرنے اور ماحولیات کے تحفظ کے حوالے سےجرمنی کے ادارے GTZ یعنی جرمن ٹیکنیکل کوآپریشن اور بھارت کے واٹرشیڈ آرگنائزیشن ٹرسٹ یعنی WOTR جیسےپروگراموں کو خوب  بڑھاوا دے،کیونکہ جرمنی اوربھارت کےماحولیات، آبی وسائل اور قدرتی ذرائع کے ماہرین نے یہاں ان تجربات کے مختلف پہلووں پر غور کیا ہے اور انہیں جنوبی ایشیا کے دیگرملکوں میں نافذ کرنے کے امکانات پر تبادلہ خیال کیاہے۔ نیز یہ امر بھیبقابل غور ھیکہ پورے بھارت میں پانی کا مسئلہ دن بہ دن سنگین ہوتا جارہا ہے،اورگزشتہ بیس برسوں کے دوران واٹر شیڈ کے تجربات کافی کامیاب رہےہیں، اور مستقبل میں انہیں مزید موثر بنانے کےطریقہ کارتیارکئے جارہےہیں۔ دنیا بھرمیں جہاں جہاں واٹرشیڈ کے تجربات کئے جارہے ہیں وہاں پانی کی قلت دور ہورہی ہے۔ پینے کا پانی سالوں بھر ملنے لگا ہے، آبپاشی کا پانی مل رہاہے،اس لئے اس پروگرام کو نافذکرنےکےلئے مرکزی حکومت کو سبھی صوبائی حکومتوں کاساتھ لیکر میدان میں کودناچاہئے، پارلمینٹ سےاس کے لئے باضابطہ بجٹ پاس کرکے پردھان منتری یوجنا کے تحت   ان قحط زدہ علاقوں میں پانی کی فراہمی کے لئے فوری طور پرہرممکن اقدام نہایت ضروری ہے.علاوہ ازیں ان کسانوں کو معاوضہ دینےاوران کی بازآباد کاری کے لئے لفظی پہاڑوں کو چھوڑکرسبھی ممبران پارلیمینٹ واسمبلی نیز سرکاری وغیرسرکاری نوکر شاہوں کو  اپنی ایک ماہ کی تنخواہ عطیہ کرنا چاہئے، نیز خیراتی اداروں کو اپنے فلاحی کاموں میں ان کسانوں کی بازآبادکاری کو بھی شامل کرلینا چاہئےاس لئے ڈیجیٹل انڈیا و کلین انڈیا کے طلسماتی تصور سے نکل کر حقائق کی دنیامیں جینے کی ضرورت ہے، سردی گرمی،برسات طوفان رات دن کسی کابھی خیال ناکرکے جان توڑ محنت کرکے ہم تک روٹی و چاول پہونچانے والے ان کسانوں کواگریونہی تڑپتا چھوڑدیاگیا،ان کے لئے پانی کافوری انتظام نہیں کیا، ان کی تباہی میں ان کے آنسو نا پونچھے گئے،تو یاد رکھئے اعداد و شمار کےمطابق اس ملک میں ۷۱ فیصد کسان ہیں،ملک کس سمت میں جائےگااورکتنی ترقی کرےگا،یہ خود ہی قیاس کرئیے،ایک رپورٹ کے مطابق ۵۱ فیصد کسان قرض سے بےحال ہیں،پانی ہے نہیں، مہنگائی آسمان چھورہی ہے،ٹیکس کاقہر بڑھ رہاہے،ایسے میں کیا امید رکھی جائے کہ کسان اس ملک کو آگے لےجا پائینگے،کسانوں کے نام پر سیاست کرکے پارلیمینٹ ٹھپ کروانے والوں نے کیا ابھی تک کسی کسان کے سرپر ہاتھ رکھ کر اسے سینہ سے لگاکر اس کادرد جاننے کی کوشش کی ہے؟نہیں ہرگز نہیں،جس دن امبیڈکر جینتی کے نام پر ملک بھر میں مختلف پارٹیوں نے اربوں روپئے پھونک دیئےاسی دن لاتور اورملک کے دوسرے حصوں میں ہزاروں کسان پیاس سےتڑپ رہےتھے،بھارت اس رخ پر کیوں جارہا ہے؟
انسان دوستی کاجنازہ نکال کر انسانیت سوزی کو سیاسی نیتاؤوں نے اپنا طرہ امتیاز بنالیا ہے،مودی جی نےعالمی سیاحت کاٹھیکہ لےرکھا ہے،بیورو کریٹ کو پانچ صوبوں کی سیاست میں جھونک دیا ہے،فنڈنویس بھارت ماتا کی آرتی چڑھارہے ہیں،ملائم و اکھلیش اسدالدین اویسی کو روکنے میں سارا دم خم اور ساری توانائیاں جھونکنے میں لگے ہیں،تشدد پسند لیڈربےمہار ہوچکے ہیں، فسادات بھڑکانے کی پوری کوشش کی جارہی ہے،اقلیتوں کو ظلم و تعصب کی بھٹی میں ڈال کر ان کی آہوں و لاشوں پر رام مندر و ہندو راشٹر کی تعمیر کا گندااوربھیانک کھیل پلان کیا جارہاہے،سوٹ بوٹ والی سرکارکو کسانوں سے کیا لینا دینا،راہل گاندھی اور سونیاجی الیکشن کی تیاری میں ہیں،لالو اور نیتیش مرکز میں آنے کا خواب دیکھ رہے ہیں،ملک زمین سے آسماں تک تپ اور جھلس رہاہے،جمہوریت دھواں دھواں ہے،اب آگے آگے دیکھئے کیا ہوتا ہے،صرف میرج سے لاتور تک پانی کی ٹرین پہونچادیناکافی نہیں ہوگا، بلکہ منریگا کو پورے ملک میں لاگو کر کے ہر ایک کسان کے زخم پر مرہم رکھنا ہوگا،ان کا قرض معاف کرکے ان کو معاوضہ دینا چاہئے،اور بازآبادکاری اور آب پاشی کے نئےوسائل اور طریقہ کار کو اپناکر ان مسائل کاسد باب کرنا چاہئے، آخری بات یہ ھیکہ ان کسانوں کو اپنی گندی سیاست میں ناکھینچ کر ان کے ساتھ نمک حلالی کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ ان کی جہد پیہم کے نتیجہ میں  ملک حقیقت میں خوش حال،ترقی یافتہ اور عالمی طاقتوں کے شانہ بشانہ کھڑاہوسکے.

 (مضامین ڈیسک)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔