اتر پردیش میں سیاسی کھیل عروج پر

علی اشہد خان اعظمی

اتر پردیش انتخابات 2017 قریب ہے، ہر طرف سیاسی جماعتوں میں داو پینچ بہت تیزی سے شروع ہے، بڑی پارٹیاں چھوٹی چھوٹی پارٹیوں سے اتحاد میں جٹ گئیں ہیں، کچھ پارٹیوں کے اسمبلی ممبران خود اپنی پارٹی سے نکل کر بڑی پارٹیوں میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کر رہے ہیں، سیاسی گھمسان عروج پر ہے اور ہو بھی کیوں نہ، کیونکہ پورے ہندوستان کی سیاست کا دارومدار اتر پردیش کی سیاست پر منحصر ہے۔ اتر پردیش سے ہی سب سے زیادہ نشستیں جیت کر آج نریندر مودی دیش کے وزیر اعظم بنے ہیں، اتر پردیش میں جو چار بڑی پارٹیاں ہیں وہ یہ ہیں سماجوادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی، بھارتیہ جنتا پارٹی اور کانگریس پارٹی۔ ان چار پارٹیوں میں سب سے مضبوط پوزیشن سماجوادی پارٹی ہے کیونکہ وہ فی الحال حکومت میں ہے۔ اس کے بعد کہیں نہ کہیں بہوجن سماج پارٹی کا مقام آتا ہے کیونکہ اتر پردیش کا پچھلے کئی سالوں سے  یہ سلسلہ رہا ہے کہ ہر بار یہ دونوں پارٹیاں ایک دوسروں کے اوپر الزام تراشی کرکے حکومت میں آتی رہی ہیں لیکن اس بار ماحول کچھ الگ ہی دکھ رہا ہے۔ سماجوادی پارٹی کے قومی صدر ملائم سنگھ یادو جی نےاکھیلیش یادو کو وزیر اعلی بنا کر جو کارڈ کھیلا ہے وہ کہیں نہ کہیں صحیح ثابت ہوا ہے اور کہیں مضربھی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اکھیلیش سرکار کے چار سالوں کی مدت میں جو کام ہوا ہے وہ قابل تعریف ہے اور نئی سوچ اور تکنیک سے نوجوان کے دلوں میں کافی حد تک جگہ بنا لی ہے لیکن اس کے برعکس کچھ غلطیاں بھی ہوئی ہیں جنہیں نظرانداز بھی نہیں کیا جاسکتا، جیسے مظفرنگر فساد اور ریاست میں ایسے چھوٹے موٹے بہت ساری واردات جو اکھیلیش سرکار کو کٹہرے میں بھی کھڑا کرتی ہیں۔ فسادات کے بعد جو ممکن مدد ہو سکی حکومت کی جانب سے کی گئی اور جاری بھی ہے لیکن یہ فسادات کس بھی حکومت پر ایک بدنما داغ ثابت ہوتے ہیں لیکن ان فسادات کا سیدھا فائدہ بی جے پی کو ہوتا دکھائی دے رہا ہے، کیونکہ فسادات سے کسی ایک طبقہ کو فائدہ پہونچتا ہے اور بی جے پی بھی اپنے داو پینچ خوب کھیل رہی ہے۔ اپنے فرقہ وارانہ بیانات کے لئے مشہور چند موقع پرست لیڈران آدتیہ ناتھ یوگی، ساکچھی مہاراج، پروین توگڑیا، سادھوی پراچی جیسے لوگوں کو پوری چھوٹ دے رکھی ہے اور ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ووٹوں کا پولرائزیشن(polarization) کیا جارہا ہے اور کافی حد تک اس میں کامیاب بھی ہو رہے ہیں۔ ان کے نفرت انگیز بیانات کو جہاں نظرانداز کیا جانا چاہیے لیکن وہیں کچھ پارٹیاں ان پر الزامات لگا کر ان کو ہوا دے رہے ہیں، جیسے حیدرآباد کی علاقائی پارٹی آل انڈیا مجلسِ اتحاد المسلمین جو اپنے فرقہ وارانہ بیانوں سے جانی جاتی ہے۔ یہ کچھ چھوٹی پارٹیاں ان نفرت انگیز بیانات کا جواب نفرت سے دے کر دو برادری community کو علیحدہ کر رہی ہیں جس کو polarization کہا جاتا ہے۔ ان دونوں پارٹیوں کو دیکھتے ہوئے یہ نہیں لگتا کہ بی ایس پی بھی کہیں اس دوڑ میں میں شامل ہے لیکن آج کل کی سیاست بھی بڑی عجیب سی ہوگئی ہے۔ اس کا اندازہ بہار انتخابات سے لگایا جاسکتا ہے۔ عوام نے اس قدر دانش مندی اور سمجھ داری کا ثبوت دیا کہ بی جے پی کی الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر مقبولیت کے باوجود بھی ہوا نکل گئی اور عوام نے مودی کے آسمانی بیانوں کو نکارتے ہوے مہا گٹھ بندھن کا ساتھ دیا اور ہندو مسلم سبھی سماج کے لوگوں نے یہ ثابت کر دیا کہ جب بات حق و باطل کی آجائے تو باطل کو چھوڑ کر حق کا ساتھ دینا چاہیے پھر چاہے مسلم مسلم اور ہندو ہندو کرنے والی اور اپنے اشتعال انگیز بیانات سے اپنی کمیونٹی کو اپنی طرف متوجہ کرنے والی نام نہاد پارٹیاں ہی کیوں نہ ہوں۔ ان سب کے بیچ کانگریس پارٹی دب کر رہ گئی ہے۔ اپنے دور حکومت میں مسلمانوں کے جذباتوں سے کھیل چکی۔ یہ پارٹی مسلم طبقہ کے درمیان اپنا وقار کھو چکی ہے۔ اب اس وقار کو بحال کرنا کسی ٹیڑھی کھیر سے کم نہیں۔ مسلمانوں کے پیٹھ میں چھورا گھوپنے والی اس پارٹی نے مسلمانوں کو جہاں بہت سارے فائدے پہونچائے ہیں وہی اس سے کہیں زیادہ نقصانات بھی پہنچائے ہیں، جیسے بے قصور مسلمانوں کی گرفتاری، وقف بورڈ کا مسئلہ، مسلم ریزرویشن ایسے بہت سارے کام جو مسلمانوں کے خلاف کیے ہیں۔ اب چاہے سونیا گاندھی کسی کو بھی وزیراعلٰی امیدوار نامزد کردے جیسا کہ اس نے شیلا دکشت کو کیا ہے، اتر پردیش کے سیاسی بونڈر میں تو کانگریس کا نام و نشان نہیں دکھائی دیتا.

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔