کلوننگ کی پیداوار

افسانہ محمد حامد سراج 

اس کے گھر میں آٹا ختم ہو گیا تھا۔
ماں کے کہنے پر وہ دس روپے کا ایک کلو آٹا خرید لایا۔
یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ مہینے کا منیاری کی دکان سے ادھار سودا سلف لاناگھر کے معمولات میں شامل تھا۔
کبھی کبھار اس کے باپ کی دکاندار سے چخ چخ ہو جاتی تو اس کا خون کھولنے لگتا۔اسے لگتا تھا اس گھر سے عزتِ نفس کا جنازہ نکل گیا ہے۔بے روزگاری نے سب کے مزاج چڑ چڑے کر دئے تھے۔بے روزگاری جو پورے ملک میں بال بکھرائے آوارہ گھوم رہی تھی۔اور کوئی پرسانِ حال نہیں تھا۔
اب تو اس نے تنگ آکر اخبار میں آسامیوں کے اشتہار پڑھنے بھی ترک کر دئے تھے۔ماں جس کے قدموں میں جنت تھی ایک دن اس کے اسرار پر اس نے پھر درخواست دے ڈالی۔حالاں کہ اسے معلوم تھا کہ نتیجہ کیا نکلنا ہے۔
ایک لمبی قطار تھی۔
آٹا خریدنے والوں کی نہیں بلکہ نوکری کی تلاش میں سرگرداں ایسے امیدواروں کی جن کے چہروں پر یرقان نے بسیرا کیا تھا۔ ان میں وہ بھی تھے جنہوں نے میٹرک کا امتحان سائینس کے ساتھ پاس کرنے کے بعد ستّر روپے دہاڑی پر پھُلکا کمایا تھا ۔اور گھر کی دیواروں سے غربت کھرچنے میں ناکام رہیتھے۔پانچ آسامیوں کے لئے لگ بھگ پانچ سو امیدوار اپنے اندر امید کی کالی دیوار پر روشنی کے ایک نقطے کے منتظر تھے۔ان میں وہ بھی تھا جس کے گھر آٹا ختم تھا ۔اور ٹیکنیکل ہینڈ ہونے کے باوجود وہ بے روزگار تھا۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ آسامیوں کا اشتہار صرف فارملٹی کے لئے ہوتا ہے ۔چنائو پہلے سے ہی کر لیا جاتا ہے۔لیکن سانس کھینچنے کے عمل کے لئے تگ و دو کو وہ فرض گردانتا تھا۔پرائیویٹ اداروں میں بھی اس نے اپنی سی کوشش کر لی تھی ۔ناکامی ہر جگہ اس کے ساتھ رہی اور اس کا ساتھ نبھاتی رہی۔
اس نے سینکڑوں امیدواروں پر نظر ڈالی۔
سب چہرے ایک جیسے تھے۔جیسے کلوننگ کی پیداوار ہوں ۔
اکا دکا چہروں پر اس نے اطمینان کی لہر دیکھی۔شاید ان کی جیبوں میں سفارش کے بھاری پتھر رکھے تھے ۔انہی پتھروں کے خوف سے اس کا خیال تھا کہ انٹر ویو پینل والے ان کا چنائو کر لیتے تھے۔مکھیوں کی بھنبھناہٹ جیسی آوازوں میں اس کے اندر کی آواز کسی تک نہیں پہنچ رہی تھی۔وہ چپ تھا شاید سارے ہی چپ تھے۔اس کے ساتھ بیٹھے امیدوار نے جب اس سے سوال کیا کہ اس کی تعلیم کیا ہے اور کیا وہ کسی سفارش کی بنیاد پر آیا ہے تو اس کا جی چاہا وہ اسے بتا دے کہ ہم سب یوں ہی آئے ہیں ۔ہم میں سے کسی کو بھی نوکری نہیں ملے گی۔
یار۔۔۔۔ تم سفارش کی بات کرتے ہو ۔ اپنے گھر تو اب بھوک پکتی ہے۔
مایوس کیوں ہو۔۔۔؟مایوسی تو کفرہے۔
میں اس کفر کا عادی ہو گیا ہوں۔
وہ سامنے والے نوجوان کو دیکھ رہے ہو۔جس نے اپنے لمبے بال پیچھے کی طرف ڈال رکھے ہیں ۔
دیکھ رہا ہوں ۔
یہ چیئر مین کا سگا بھانجا ہے۔اسی لئے تو چہک رہا ہے۔اور ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جن کی پشتپر کرنل‘ برگیڈئیر اور جرنل بھی ہیں ۔بعض لمبا مال لگا کے بھی آئے ہیں ۔بس دیکھتے جائو۔
یار جب ملک ان کا ہے ۔ سیاہ و سفید کے یہ مالک ہیں تو ہم کس قطار اور شمارمیںہیں۔۔۔۔؟
قسمت آزمانے میں کیا حرج ہے۔؟
نام پکارے جا رہے تھے
اور امیدوار ایک ایک کر کے اپنی باری پر اندر جاتے اور مایوسی کی چادر اوڑھ کر باہر نکل آتے۔اس کی باری کہیں شام ڈھلے آئی تب تک وہ تھکن سے چور ہو چکا تھا ۔اس کا جب نام پکارا گیا تواسے یہ یاد ہی نہیں تھا کہ اس کے گھر آٹا ختم ہو چکا ہے ۔ وہ پورے اعتماد سے اندر داخل ہوا۔
May i come in sir
Yes, come in
اسلام ا علیکم۔۔۔۔۔۔اس کے لہجے میں شائستگی تھی
وعلیکم ا لسلام۔۔۔
افسران پورے کرّوفرکے ساتھ اپنی اپنی آرام دہ کرسیوں میں دھنسے ہوئے تھے۔ان میں سے کسی کے گھر بھوک نہیں پکتی تھی
اس نے فائل ان کے سامنے رکھی
ڈائریکٹر نے اس کے کاغذات کو ایک نظر دیکھا اورپینل میں موجود افسران سے سوال پوچھنے کا کہا۔پینل کے افسران کے چہروں پر ایک اطمینان تھا۔وہ پر اعتماد تھا اور س نے پورے اعتماد سے سوالوں کا جواب دیا۔جب وہ باہر نکلا تو جانے اسے کیوں یقین تھا کہ اس کا چنائو کر لیا گیا ہے۔اسے تھکن اترتی ہوئی محسوس ہوئی۔
اس نے جانے کیسے جرات کر کے کہہ دیا تھا کہ اس کے گھر صرف ایک وقت کا آٹا باقی ہے۔یہ سوچ کر کہ ممکن ہے کسی افسر سینے میں دل بھی ہو۔
سر۔۔۔۔۔ اس نوجوان کو Apointکر لینا چاہئے۔ایک آفیسرنے کہا
بات تو ٹھیک ہے ۔نوجوان انتہائیTalentedہے۔ادارے ایسے ہی ٹیلنٹڈایمپلائیز سےRunکرتے ہیں۔ لیکن۔؟
لیکن کیا ۔۔۔سر۔۔۔؟ ایک سینئیر ترین آفیسر نے پوچھا
چئیرمین صاحب کے بھانجے کا کیا کیا جائے۔
تھوڑی دیر کے لئے خاموشی چھا گئی۔
کافی میں سے اٹھتی ہوئی بھاپ کی آواز کے سوا اور کوئی آواز نہیں تھی۔
اسے کسی اور کھاتے میں کھپانے کی کوشش کر لیں گے۔
ناممکن۔۔۔۔ ڈائیریکٹر نے کہا ۔
میں اس روز ان کے گھر موجود تھا جب ان کی ہمشیرہ ان سے اپنے بیٹے کے لئے جھگڑ رہی تھی۔چیرمین صاحب کا کہنا تھا کہ اداروں کو چلانے کے لئے ہمیں ٹیلینٹڈ اذہان کی ضرورت ہوتی ۔اور میرا بھانجا پرلے درجے کا نالائق اور لاپرواہ ہے۔چار پیسے دے کر اس نے ڈگری تو لے لی ہے لیکن وہ اس اسامی کے اہل نہیں ہے۔
ان کی ہمشیرہ تراخ سے بولی ۔یہ ملک اور اس کا قانون ساز ادارہ انگوٹھے چھاپ ممبران سے چل سکتا ہے تو آپ کا ادارہ میرے بیٹے کے ساتھ کیوں نہیں چل سکتا۔
چئیرمین صاحب کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا ۔
تو پھر کیا کیا جائے۔۔۔؟
سر۔۔۔۔ اس نوجوان کو تو ہمیں ہر حال میں Apointکر ناچاہئے۔ کیوں کہ جو مشینری ہم نے باہر سے امپورٹ کی ہے۔ اسے ایسے ہی قابل ٹیکنیشین چلا سکتے ہیں ۔
ڈائیریکٹر نے اس نوجوان کو Apoint کرنے کا حتمی فیصلہ دے دیا۔ اگلے روز چئیرمین صاحب کی میز پر جب فائل پہنچی تو وہ سیخ پا ہو گئے اورساری اسامیاں کینسل کر دیں ۔
یہ آپ لوگوں نے کیا کیا ہے۔۔۔۔؟
سر۔۔۔ اس نوجوان نے انٹر ویو میں سو فیصد نمبر حاصل کئے تھے۔
کسی جرنل کی کوئی سفارش تھی کیا۔۔۔۔؟
نہیں سر۔۔۔۔
تو پھر۔۔۔؟
سر۔۔۔ قابلیت کے ساتھ یہ بات بھی تھی کہ اس کے گھر صرف ایک وقت کا آٹا تھا۔
تو گندم کی بوری بھجوا دی ہوتی۔
اور اخبار میں دوبارہ Advertizement دینے کا حکم جاری فرما کر میٹنگ برخواست کر دی۔
چند روز بعد اس کی ماں اخبار میں ایک اشتہار دیکھ کر چونکی
ؓبیٹا۔۔۔۔ یہ تو وہی اسامی ہے ۔۔نا۔۔۔ جس پر تم نے اپلائی کیا تھا۔
جی۔۔۔۔امی۔۔!
تو یہ اشتہار دوبارہ کیوں چھپ گیا ہے۔
امی رہنے دیجئے ۔۔۔۔اس مُلک کی ساری بیوروکریسی اور اربابِ اقتدارکے چہرے ایک سے ہیں۔ یہ سب کلوننگ کی پیداوار ہیں۔

٭٭٭

تبصرے بند ہیں۔