اتر پردیش میں  مسلمانوں  کی سیاسی حیثیت

اتر پردیش۔ جمہوری ملک ہندوستان کے 29 صوبوں  میں  سے ایک اہم صوبہ ہے، جس کی آبادی تقریباً 18 کروڑ ہے، ویسے اتر پردیش ایک تاریخی صوبہ ہے، جن میں  بنارس، آگرہ، لکھنؤ، الٰہ آباد، فیض آباد شہر بڑی اہمیت کے حامل ہیں، 2011ء کی راےء شماری کے مطابق اتر پردیش میں  ہندو 80 فیصد، مسلمان 18 فیصد اور دیگر 2 فیصد ہیں ، دفتری زبان ہندی اور اردو ہے، اتر پردیش میں  کل 75 ضلعے ہیں، جن میں  کئی ایسے ضلعے ہیں  جن میں  مسلمانوں  کی اکثریت ہے۔

اتر پردیش میں  28 ضلعے ایسے ہیں  جن میں  مسلمان 20 فیصد سے زائد ہیں، 7 ضلعے ایسے ہیں  جن میں  مسلمان 40 فیصد سے زائد ہیں ، کئی ضلعے ایسے ہیں  جن میں  مسلمان 15 فیصد سے زائد ہیں، اور تین ضلعے مراداباد، رام پور اور سہارنپور ایسے ہیں  جن میں  مسلمان 50 فیصد ہیں، اس طرح سے اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ اترپردیش میں  مسلمان سیاسی اعتبار سے بہت بڑی قوت ہیں، یہی وجہ ہے کہ اتر پردیش کی چار بار وزیر اعلیٰ رہ چکی مایاوتی کہتی ہیں  کہ مجھے مسلمانوں  نے ووٹ نہیں  دیا اسی وجہ سے مجھے وزیر اعلیٰ کی کرسی سے محروم ہونا پڑا، غرض کہ ہر سیاسی جماعت مسلمانوں  کے ووٹ کے بغیر لولی اور لنگڑی ہے۔

اتر پردیش کی اسمبلی میں  403 سیٹیں  ہیں، سبھی ضلعے میں  مسلم سیٹیں  ہیں۔ کچھ ضلعے تو ایسے ہیں  جن میں  ہار جیت کا فیصلہ مسلم ہی کرتے ہیں۔ لہٰذا مسلم امیدوار، مسلمانوں  کے دم پر تقریباً 130سیٹیں  جیت سکتے ہیں۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہندوستان کے صوبہ اتر پردیش کا وزیرِ اعلیٰ مسلمان بن سکتا ہے۔ ہر بار کے الیکشن میں  سیاسی پارٹیاں  کئی مسلم امیدواروں  کو ٹکٹ دیتی ہیں۔ مگر الیکشن میں  فتح کے بعد نہ تو پارٹی کو اور نہ ہی امیدواروں  کو عوام کے مسائل سے دلچسپی ہوتی ہے، یہ بات غور کرنے کی ہے کہ دلت اور یادو دونوں  بہت ہی تھوڑی تعداد ہونے کے بعد بھی اتر پردیش میں  اقتدار کے مزے لے رہے ہیں، جب کہ اتر پردیش میں  18 فیصدی مسلمان ہونے کے باوجود بھی اقتدار کی کرسی سے محروم ہے، وزیرِ اعلیٰ نہ سہی مگر اپنے وجود کا احساس تو ہونا ہی چاہئے، کیوں  کہ جب ایک مضبوط سیاسی قوت ہوگی تبھی مسلمانوں  کے مسائل حل ہونے کی امید کی جا سکتی ہے

اتر پردیش میں  مسلمانوں  کی اکثریت ہونے کے باوجود بھی جنگ آزادی سے لے کر آج تک کوئی وزیرِ اعلیٰ مسلمان نہیں  بن سکا، یعنی کانگریس، بی جے پی، بی ایس پی اور سماج وادی پارٹی نے باری باری سیاست میں  جیت حاصل کی ہے۔ اور یہی لوگ اقتدار کے مزے لیتے رہے ہیں، جب کہ مسلمانوں  کے مسائل جوں  کے توں  برقرار ہیں، اس صوبے کے مسلمان تعلیمی، سیاسی، سماجی اور اقتصادی طور پر انتہائی کمزور ہیں، ہر الیکشن میں  پارٹیاں  مسلمانوں  کی ترقی کی بات تو کرتی ہیں  مگر جیسے ہی کسی پارٹی کو الیکشن میں  کامیابی ملتی ہے ویسے ہی وہ پارٹی "کوما” میں  چلی جاتی ہے۔ اور جب پانچ سالہ مدت ختم ہونے کو ہوتی ہے ویسے ہی پھر وعدوں  کی برسات شروع ہوجاتی ہے، مگر اب جب دنیا اتنی تیزی سے ترقی کر رہی تو صرف وعدے سے کام نہیں  چلے گا، اس لئے اتر پردیش میں  مسلمانوں  کو اپنی سیاسی حیثیت کا احساس دلا کر اپنے مسائل کو حل کرنے کے لئے مضبوط سیاسی اتحاد کی طرف کوشش کرنی ہوگی.

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔