نوجوان اپنی صلاحیتوں  کو دین کے لیے استعمال کریں

دنیا میں  آنے والاہر انسان اگرچہ خالی ہاتھ اور بے علم وہنر آتا ہے ۔ لیکن اللہ تعالی اسے علم کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں ،خوبیوں  اور کمالات سے نوازتے ہیں  ،اورعلم وتجربات کی صلاحیت عطا کرتے ہیں ۔ہر انسان کے اندر جوہر اور کمال ضرور ہوتا ہے ،چاہے وہ علم ومعلومات کی بنیاد پر ہو یا عقل وتجربات کی سطح پر ہو اور ہمارے پیغمبر امام الانبیاء سید الرسل ﷺ کا یہ امتیاز اور کمال ہے کہ آپ نے افراد کی صلاحیتوں  سے بھرپور فائدہ اٹھانے اور انسانوں  کو انسانوں  کی قدر کرنے کی تعلیم دی اوریہ بتایا کہ ہر انسان کچھ نہ کچھ اچھائی اورخوبی اپنے اندر ضرور رکھتا ہے۔۔آپ ﷺکا یہ بھی امتیاز ہے کہ آپ ﷺ نے ہر آدمی کے ذوق و مزاج کی رعا یت بھی کی اور مختلف صفا ت کے حامل افراد کی حوصلہ افزائی فرمائی ،آپ ﷺنے خوبیوں  اور کمالات کے پیکروں  کو تیار کیا اور جس میں  جو خوبی دیکھی اس کی بھر پور تعریف فرماکر ان کے حوصلوں  کو بلند کیا اور شوق و جذبات کو پروان چڑھایا،بلاشبہ آپ ﷺدنیا کے سب سے بڑے ماہر نفسیا ت ہیں  کہ جن کی وسعت ِ فکر و نظر اور کشادہ قلبی نے دنیا کو نہا یت ہی قیمتی اور نایاب افراد صحابہ کرام ؓ کی شکل میں  عطا کئے، اور مختلف میدانوں  کے بے مثال شہسوار مہیا کئے ۔

 آپﷺ نے اپنے اصحاب میں  سے مختلف صفا ت کے حاملین کی تعریف کر تے ہو ئے فرمایا کہ :اَرْحَمُ أُمَّتِیْ بِأُمَّتِیْ اَبُوْبَکْرٍ،وَأَشَدُّھُمْ فِیْ أَمْرِ اللّہِ عُمَرُ، وَاَصْدَقُھُمْ حَیَائً عُثْمَانُ،وَاَقْضَاھُمْ عَلِیٌّ ، وَأَعْلَمُھُمْ بِالْحَلَالِ وَالْحَرَامِ مُعَاذُبْنُ جَبَلٍ، وَأَفْرَضُھُمْ زَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ ،وَأَقْرَؤُھُمْ أُبَیِّ بْنُ کَعْبٍ،لِکُلِّ أُمَّۃٍ أَمِیْنٌ ،وَأَمِیْنُ ھٰذِہِ الْأمَّۃُ أَبُوْعُبَیْدَ ۃُ بْنُ الْجَرَّاحِ رضی اللہ عنھم أجمعین( اسدا لغابۃ :1/169بیروت)میری امت میں  سب سے زیادہ رحم دل ابو بکر ؓہیں ، اللہ کے معاملہ میں  سب سے زیادہ سخت عمر ؓہیں ، شرم وحیا ء میں  سب سے زیادہ عثمان ؓہیں ، سب سے بڑے قاضی علیؓ ہیں ،میری امت میں  حلال و حرام کے بارے میں سب سے زیادہ جاننے والے معاذ بن جبل ؓہیں ،علم ِ فرائض میں  سب سے بڑے عالم زید بن ثابت ؓہیں ،میری امت میں  سب سے بڑے قاری ابی بن کعب ؓہیں ،ہر امت کا ایک امین ہوتا ہے ، اور اس امت کا امین ابو عبید ۃ بن جراح ؓہیں ۔

 حضرت خالد بن ولید ؓ  جن کی جنگی مہارت قبول اسلام سے پہلے سے معروف رہی ہے فتح ِ مکہ کے موقع پر نبی کریم ﷺ نے ان کے بھائی سے فرمایا کہ خالد کہاں  ہیں  ؟بھائی نے تلاش کیا اور خط کے ذریعہ آپ ﷺکا پیغام بھی پہنچادیا کہ : حضور ﷺ نے فرمایا کہ خالد جیسا ذکی وذہین آدمی بھی اسلام سے ناواقف رہے تعجب ہے۔ کاش! ان کی جد و جہد مسلمانوں  کے لئے ہوتی تو ان کے لئے بہت بہتر ہو تا اور ہم ان کو دوسروں  پر ترجیح دیتے ۔( عہد ِ رسالت غار ِ حرا سے گنبد خضراء تک:340)

 نبی اکرم ﷺ کے بعد صحابہ کرام ؓ کی بھی یہ فکریں  رہیں  کہ امت کو صلاحیت مند افراد کی خوبیوں  سے فائدہ پہنچنا چاہیے اور لوگوں  کی صلاحتیں  لایعنی اور فضول چیزوں  میں ضائع ہونے کے بجائے دین کی سربلندی اور قرآن وسنت کی تعلیمات کی اشاعت میں  لگ جائے ،چناں چہ اس سلسلہ میں  بہت سے واقعات تاریخ کی کتابوں  میں  موجود ہیں  جن میں  صرف ایک واقعہ یہاں  ذکرکیا جاتا ہے تاکہ ہم کو اندازہ ہوکہ ان حضرات کی کیا فکریں  تھیں  اور وہ کس درجہ قابل لوگو ں  کو بے کار چیزوں  میں  مصروف دیکھ کر بے چین و بے قرار ہوجاتے تھے۔چناں  چہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کے بارے میں  ہے کہ وہ ایک دن کوفہ کے ایک کنارے سے جارہے تھے ،وہ چند فاسق نوجوانوں  کے پاس سے گزرے جو جمع ہوکر شراب پی رہے تھے،اور ایک جوان جس کا نام ’’زاذان‘‘ تھا وہ بانسری بجاکر گانا گارہا تھا،جس کی آواز بہت اچھی تھی ۔حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اس کی آواز سن کر فرمانے لگے کہ : کیا ہی خوب آواز ہے ،کاش !اس آواز سے قرآن پڑھاجاتا ۔یہ کہہ کر اپنے سرپر چادر رکھ کر چلے گئے ،زاذان نے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کی بات سن لی ،اور پوچھنے لگا یہ کون تھے؟لوگوں  نے بتایا کہ یہ حضورﷺ کے صحابی حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ تھے،اس نے پوچھا کہ انہوں  نے کیا فرمایاہے؟لوگوں  نے بتایا کہ انہوں  نے یہ فرمایاہے کہ کیا ہی اچھی آواز ہے اگر اس سے کتاب اللہ پڑھی جاتی !وہ کھڑا ہوا اور بانسری زمین پر ماکر توڑدی اور جلدی سے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کے پیچھے گیا ،اور اپنی گردن میں  رومال ڈالیا ،ان سے مل کر ان کے سامنے رونے لگا،حضرت عبدا للہ بن مسعود ؓ نے اس سے معانقہ کیااور وہ بھی رونے لگے اور فرمانے لگے کہ جس شخص سے اللہ محبت کرے میں  اس سے کیسے محبت نہ کروں  ۔اللہ تعالی نے اس کی توبہ کو قبول کیا۔پھر وہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کی صحبت میں  رہ کر قرآن پڑھا اور علم سیکھا،یہاں  تک کہ علم کے میدان میں  منصب ِ امامت حاصل کیا ۔اور حضرت ابن مسعود ؓ اور حضرت سلمان ؓ وغیرہ سے حدیثیں  روایت کیں ۔( کتاب التوابین للمقدسی ؒ:201بیروت)

   ہر دور میں  اسلام کے لئے قربانیاں  دی گئیں  اور توحید کے متوالوں  نے ہر طرح سے اپنے آپ کو پیش کرکے پرچم ِ اسلام کو بلند کیا،دین کا تحفظ کیا اور تعلیمات ِ اسلامی کو ہم تک پہنچایا ،اس عظیم دین کی تبلیغ اور اس کی اشاعت میں مردوں  اور عورتوں  کی قربانیاں ، نوجوانوں  کا ایثار ووفاداریاں  شامل ہیں  ،ماؤں  نے اپنے جگر کے ٹکڑوں  کو پیش کیا ،باپوں  نے اپنے بڑھاپے کے سہاروں  کو نچھاور کیا،جوانوں  نے اپنی تمناؤں  اور آزرؤں  کو مٹایااور ذہن ودماغ میں  صرف اسلام کی سربلندی کے شوق وولولوں  کو پروان چڑھا یااور آنکھوں  میں  اس دین کی عظمتوں  کے خوابوں  کو سجایا۔

 آج ہمیں  اس بات پر بہت غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہماری صلاحیتیں  کہاں  کھپ رہی ہیں  ؟ہمارے نوجوان کن تمناؤں  کے سہارے جی رہے ہیں  ؟ماں  باپ اپنی اولاد کو کیا امیدیں  دلاکر تیارکررہے ہیں ؟یقینا اس وقت ایک عجیب صورت حال سے ہم مسلمان گزررہے ہیں  ،اور بالخصوص امت کا ذہین ،قابل ،باصلاحیت طبقہ کسی اور ہی دھن میں  اپنی زندگی کے شب وروز گزاررہا ہے،ہمارے نوجوانوں  کی ایک بڑی تعداد گانوں  کی دلدادہ بنی ہوئی ہے،فیشن اور مغربی تہذیب میں  ڈوبی ہوئی ہے،اور دین وشریعت سے بے پروا ہوکر صبح وشام بسر کررہے ہیں ،خالی اوقات کو لایعنی اور بے کار مشغلوں  میں  ضائع کرنا ایک عام سی بات ہوگئی ہے،مال ودولت کو خواہشات کی تکمیل میں  خرچ کرنااور اسراف وفضول خرچی کرنا مزاج بن گیا ہے۔ اور اسلام دشمن طاقتیں  آئے دن نت نئے حربوں  کے ساتھ اسلام کو بدنام کرنے میں  لگی ہوئی ہیں ۔اسلام کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے ،اسلامی تعلیمات کے خلاف زبان درازی،پیغمبرا سلام کی توہین ،اسلامی اصول وقوانین کی تذلیل ،قرآن کریم کی تحقیر کرنے میں  پوری قو ت کے ساتھ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا بھر پور استعمال ہورہا ہے۔سوشل میڈیا کے ذریعہ ذہنوں  کو بدلنے ،افکار وخیالات میں  دین بے زاری کوپیداکرنے کی منصوبہ بند کوششیں  کی جارہی ہیں ۔ایسے سخت حالات میں  ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی صلاحیتوں  کو دین کے لئے استعمال کریں  ،اپنے مال ودولت کو غیر ضروری چیزوں  میں  ضائع کرنے کے بجائے اسلام کے لئے خرچ کرنے والے اور دین کے تقاضوں  پر لگانے والے بنیں ۔

ہمارے نوجوان اپنی اپنی فیلڈ اور میدان میں  اسلام کا تحفظ بھی کریں  اور دفاع بھی،اپنی جدید قابلیت کو اسلام کے لیے لگائیں۔ انٹرنیٹ کا صحیح استعمال کرتے ہوئے اس کے ذریعہ حقائق کو عام کرنے والے بنیں۔ اگر ہم خواہش پرستی میں  رہ گئے اور دین کے خلاف سازشیں  ہوتی رہیں  اور ہم خاموش تماشائی بنے رہیں  تو یقینا ہم مجرم شمار کئے جائیں  گے۔ ہمارا اسلام دنیوی ترقی سے منع نہیں  کرتا،اور نہ ہی مختلف میدانوں  میں  کمال حاصل کرنے سے روکتا ہے، بلکہ حالات اس بات کا شدید تقاضے کررہے ہیں  ہر بلندی پر مسلمان پہنچے ،ہر کامیابی حاصل کرے ،ہر اونچا مقام پانے میں  پیچھے نہ رہے ،لیکن ان تمام کے ساتھ ہماری صلاحیتیں  اپنے دین کے لئے لگے ،ہماری فکروں  میں  دین سمایا ہوا ہو،ہماری تمنائیں  تعلیماتِ محمدی کو عام کرنے کی ہوں ۔الحمدللہ امت میں  قابل اور باصلاحیت نوجوانوں  اور بڑوں  کی کمی نہیں  ہے ،ہر فن کے ماہر اور ہر خوبی کے حامل افراد بڑی مقدارمیں  موجود ہیں  ،ٹیکنالوجی میں  خوب مہارت رکھنے والے اور حالات ِ زمانہ پر گہری نگاہ رکھنے والے بھی دست یاب ہیں ،اور دل میں  درد اور تمنائیں  بھی رکھنے والے جیالے بھی ہیں۔  بس یہ کہ حالات کن باتوں  کا تقاضا کررہے ہیں  اور کس طرح ہمیں  کام کرنے کی ضرورت ہے اس کے لئے علمائے کرام سے جڑ کر اشاعت ِ دین میں  اپنا بھی حصہ لگاتے رہیں  اور اپنے بھی ہنر وفکر کا مظاہرہ کرتے رہیں ،تاکہ کل خدا کے حضور ہم سب کامیاب وکامران حاضرہوسکیں  اور ان کے سامنے چہرہ دکھانے کے قابل بن سکیں  کہ جنہوں  نے اپنی جان اور اپنا تن من دھن سب کچھ صرف اسی دین کے لئے نچھاور کردیا تھا۔

تبصرے بند ہیں۔