احادیث کی صحت و تشریح کے لیے قرآن کی اساسی اہمیت

مولانا ولی اللہ مجید قاسمی

 اللہ تبارک و تعالیٰ کی حکمت و رحمت کا تقاضا ہوا ہے کہ آخری دین کی بنیادی اور کلی احکام کو الفاظ کے ساتھ نازل کیاجائے تاکہ اسے سینوں میں محفوظ رکھنا آسان ہو اور اس کی جزئیات و تفصیلات کو معانی کی شکل میں اتارا جائے تاکہ اس کی حفاظت میں دقت اور سمجھنے میں پریشانی نہ ہو، پہلی وحی کو قرآن اور دوسری وحی کو سنت کہاجاتاہے۔

 کتاب و سنت دونوں اللہ کی طرف سے ہیں اور دو جسم ایک جان کی طرح وحی الٰہی کے دو الگ الگ روپ ہیں ۔اس لیے دونوں ایک دوسرے کی تائید اور تاکید کرتے ہیں اور تشریح و تبیین بھی اور بسااوقات ایک دوسرے سے زائد مستقل حکم بھی بیان کرتے ہیں ، اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:

الا اِنّی اوتیت القرآن ومثلہ معہ (ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ، صحیح الجامع رقم الحدیث 643۔)

’’سنو! مجھے قرآن دیاگیاہے اور اس کے ساتھ اسی جیسی ایک اور چیز بھی‘‘۔

 اس لیے حدیث کی وہی شرح معتبر ہوگی جو قرآنی تعلیمات کے مطابق ہو اور قرآن کی شرح و بیان کے لیے سنت کی طرف رجوع کیے بغیر کوئی چارہ نہیں اور اس کی وہی شرح

قابل قبول ہوگی جوسنت کے معیار پر پوری اترتی ہو۔

البتہ ثبوت کے اعتبار سے قرآن مکمل طور پر قطعی ہے اور حدیثیں دو طرح کی ہیں ، متواتر اور غیرمتواتر،متواترروایت ثبوت کے اعتبار سے قرآن کے ہم پلہ ہے اور غیرمتواتر حدیث کی صحت و ثبوت کے لیے قرآن کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے اور وہی حدیث صحیح مانی جائے گی جو قرآن کے کسی قطعی حکم کے خلاف نہ ہو۔

قرآن اور حدیث میں اختلاف:

  قرآن و حدیث دونوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور جوچیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو اس میں اختلاف ممکن نہیں ہے ، اس لیے صحیح حدیث کبھی قرآن کے مخالف نہیں ہوسکتی ہے ، چنانچہ علامہ ابن قیم لکھتے ہیں :

’’ہم اللہ اور اس کے فرشتوں کو گواہ بناکر کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول کی حدیث میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو قرآن یا عقل صریح کے مخالف ہو بلکہ آنحضور ﷺ کا کلام، قرآن کا بیان، اس کی تفسیر اور تفصیل ہے، جس حدیث کو کسی نے یہ خیال کرکے رد کردیا کہ وہ مخالف قرآن ہے تو وہ درحقیقت قرآن کے موافق ہے، زیادہ سے زیادہ یہ کہاجاسکتاہے کہ ایسی حدیثیں قرآن سے زائد ہیں اور خود اللہ کے رسول ﷺ نے ایسی روایتوں کو قبول کرنے کا حکم دیاہے‘‘۔(الصواعق المحرقۃ:529۔)

 اگرکوئی روایت ، قرآن کے قطعی حکم کے خلاف ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کی نسبت اللہ کے رسول کی طرف مشکوک ہے، چنانچہ حدیثوں کی صحت کے سلسلہ میں محدثین نے جو معیار مقرر کیے ہیں ان میں ایک اصول یہ بھی ہے کہ

’’ولا یقبل الخبر الواحد فی منافاۃ حکم العقل وحکم القرآن الثابت المحکم والسنۃ المعلومۃ‘‘ (الکفایۃ فی علم الروایۃ للخطیب:15۔)

’’ایسی غیرمتواترروایت کو قبول نہیں کیاجائے گا جو عقل، قرآن کے محکم اور قطعی حکم اور سنت معلوم کے خلاف ہو‘‘۔

حدیث کے مخالف قرآن ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دونوں میں اس طرح سے اختلاف ہو کہ موافقت کی کوئی گنجائش نہ رہے یعنی اگر کتاب و سنت میں بظاہر اختلاف محسوس ہوتو جس طرح سے قرآن کی دو آیتوں میں اختلاف کی صورت میں مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اسی طرح سے کتاب و سنت کی اختلافی امور میں تطبیق کی کوشش ہونی چاہیے۔ یہ طرز عمل سخت ناروا ہے کہ اپنی کم فہمی یا کج فہمی کی وجہ سے کسی حدیث کو رد کرنا چاہا تو اسے مخالف قرآن کہہ کر غلط قرار دے دے۔

دوسرے یہ دیکھنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ قرآن کے کسی قطعی اور محکم حکم کے خلاف ہے یا قرآن سے ہم نے جو سمجھا ہے اس کے مخالف ہے ، ایسی صورت میں حدیث قرآن کے مخالف نہیں ہوتی ہے بلکہ ذہنی اپج کے برخلاف ہوتی ہے اور ایسی حالت میں سیدھا راستہ یہ ہے کہ حدیث کو اختیار کیاجائے اور عقلی مفہوم سے گریز ، یہ بڑی جرأت اور جسارت کی بات ہوگی کہ انسانی کاوش اور ذہنی ورزش کو قرآن بنانے اور عقل کو معصوم سمجھنے کی غلطی کی جائے اور اس کی وجہ سے ایسی حدیث کو رد کردیاجائے جسے جمہورامت نے اخذوقبول کی سند عطا کی ہو، حدیث سے بے نیازی برتنے والے عام طور پر اسی غلطی میں مبتلا ہوتے ہیں ، وہ اپنے خیالات و وسائس ، باطل شبہات اور مستشرقین کے اعتراضات سے مرعوبیت کی وجہ سے حدیثوں کا انکار کرتے ہیں اور اس کے لیے مخالف قرآن ہونے کا سہارا لیتے ہیں ۔

 یہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ قرآن کے خلاف ہونے اور قرآن سے زائد ہونے میں زمین و آسمان کا فرق ہے مگر کچھ لوگ اس فرق کا لحاظ نہیں رکھتے اور حدیث کے صحیح ہونے کا یہ معیار مقرر کرتے ہیں کہ وہ قرآن کے مطابق ہو اور قرآن کے علاوہ کسی اصول اور احکام کو بیان نہ کرے، ظاہر ہے کہ اس معیار کے بعد حدیث کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ہے ، اس لیے کہ اگر اس سے کوئی زائد بات معلوم نہ ہو تو پھر قرآن ہی کافی ہے ، قرآن کو اپنی تائید اور تاکید کے لیے کسی روایت کی ضرورت بھی کیاہے، نیز نماز کی رکعتوں کی تعداد اور کیفیت ادا وغیرہ قرآن کی کس آیت کے مطابق ہے، کیا یہ تفصیلات قرآن سے زائد نہیں ہیں ؟ یقینی طور پر قرآن سے زائد ہیں لیکن اس کے مخالف نہیں ، اور جو چیز بھی واقعی قرآن کے مخالف ہوگی ، محدثین اسے رد کرنے کے سلسلہ میں مغرب سے مرعوب اور مستشرقین کے شاگردوں اور خوشہ چینوں سے زیادہ حساس ہیں۔

حدیث کی شرح:

 حدیث کی شرح کے لیے بھی قرآن کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اور کسی حدیث کی وہی شرح معتبر ہے جو قرآن کے قطعی حکم کے موافق ہو اور اگر کسی حدیث کا ظاہری مفہوم، قرآن کے کسی حکم کے خلاف ہو تو اس کی ایسی وضاحت کی جائے گی جس سے وہ قرآن کے مطابق ہوسکے، درج ذیل مثالوں سے اس اصول کی تائید ہوتی ہے۔

1۔اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ جس کسی کا حساب لیاگیا وہ تباہ ہوگیا، یہ سن کر حضرت عائشہ ؓ نے دریافت کیاکہ قرآن میں ہے :

’’فَاَمَّامَنْ اُوْتِیَ کِتٰبَہٗ بِیَمِیْنِہٖo فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًا‘‘(سورۃ الانشقاق:7،8۔)

’’جسے نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں دیاگیا تو اس سے آسان حساب لیاجائے گا‘‘۔

 وہ کہنا یہ چاہ رہی تھیں کہ یہ حدیث تو قرآن کے خلاف معلوم ہوتی ہے ، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ آیت میں ’’حساب‘‘ سے مراد سرسری پیشی ہے اور حدیث میں ’’حساب‘‘ کا مفہوم پوچھ گچھ اور چھان بین ہے کہ جس کے ساتھ یہ طریقہ اپنایاگیا اس پر عذاب لازمی ہے۔ ذالک العرض یعرضون ومن نوقش فی الحساب ھلک(صحیح بخاری 6/81۔ط دارعالم الکتب، ریاض۔)

 آنحضور ﷺ نے آیت و روایت دونوں کی ایسی تاویل فرمائی کہ ان میں کوئی تعارض

اور اختلاف باقی نہیں رہا۔

 2۔ حضرت عائشہؓ کو حضرت عمرؓ کے حوالے سے یہ حدیث سنائی گئی:

’’ان المیت لیعذب ببکاء أھلہ‘‘

’’میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیاجاتاہے‘‘۔

سننے کے بعد انھوں نے کہاکہ تم ایسے لوگوں کی حدیث بیان کررہے ہو جو نہ جھوٹے ہیں اور  نہ جھٹلائے جاسکتے ہیں ،مگرسننے میں غلطی ہوسکتی ہے،اللہ ان پر رحم فرمائے کیا انہوں نے قرآن مجید کی یہ آیت نہیں پڑھی ہے ۔

’’لَا تَزِرُ وَازِرَۃ’‘وِّزْرَ اُخْرٰی‘‘(سورۃ الاعراف:164۔)

’’کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا‘‘۔

  اور اللہ کے رسول نے یہ نہیں کہاتھاکہ کسی مومن میت کو اس کے گھروالوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیاجائے گا بلکہ یہ فرمایاتھاکہ:

’’ان اللّٰہ یزید الکافر عذاباً ببکاء أھلہ‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الجنائز/600 ط بیت الافکار الدولیۃ ، بیروت)

’’اللہ تعالیٰ کافر کے عذاب میں اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے اضافہ کردیتاہے‘‘۔

  حضرت عائشہؓ نے اللہ کے رسول سے براہ راست جو کچھ سناتھا اس پر اعتماد کیا، حالانکہ وہ بھی بظاہر قرآن کے خلاف ہے کہ اس صورت میں بھی ایک کافر کے گناہ کے وبال کو دوسرے پر لاداجارہاہے لیکن انہیں معلوم تھاکہ مشرکین کے یہاں نوحہ گری کا رواج ہے اور وہ لوگ مرتے ہوئے اس کی وصیت کرجاتے ہیں (کان من عادۃ العرب الوصیۃ بذلک، المنھاج فی شرح صحیح مسلم بن الحجاج/598، بیت الافکار ۔) اور اس رسم بد سے راضی رہنے اور

اس کی وصیت کرجانے کی وجہ سے عذاب کا ہونا خود اس کے عمل کی وجہ سے ہے ، لیکن مومن ایسانہیں کرتاہے ، اس لیے دوسروں کے جرم کی وجہ سے اس کو سزا دینابے معنی ہے۔

حضرت عمرؓ نے عمومی اندازمیں یہ روایت سنی تھی یعنی جوشخص بھی اپنے یہاں نوحہ  کو باقی رکھے گا اور اس سے منع نہیں کرے گا تو وہ مومن ہو یا کافر، دونوں کو عذاب دیا   جائے گا کیونکہ یہ عذاب اس کے اپنے فعل کی وجہ سے ہے اور علت کے اعتبار سے یہ حکم ہرایک کو عام ہے ۔

 غرضیکہ حضرت عمرؓ و عائشہؓ میں سے ہر ایک نے حدیث کے ظاہری مفہوم کو مراد نہیں لیا بلکہ اس کی تاویل کرکے اسے قرآن کے مطابق بنانے کی کوشش کی اور حدیث کے شارحین نے بھی اس کی وہی شرح اختیار کی جس سے وہ مذکورہ آیت کے خلاف معلوم نہ ہو۔ علامہ نووی لکھتے ہیں :

’’اختلف العلماء فی ھذہ الاحادیث فتاولھا الجمھور علی ان من وصی بأن یبکی علیہ ویناح بعد موتہ فنفذت وصیتہ فھذا یعذب ببکاء أھلہ ونوحھم لأنہ بسببہ ومنسوب الیہ‘‘ (المنھاج فی شرح صحیح مسلم بن الحجاج/598، بیت الافکار)

’’ان احادیث میں علماء کا اختلاف ہے اور جمہور نے اس کی تاویل کی ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو رونے اور نوحہ کرنے کی وصیت کرجائے اور اس کے مرنے کے بعد اس کی وصیت کے مطابق نوحہ کیاگیا تو ایسے شخص کو اس کے گھروالوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیاجائے گا، کیونکہ اس کا سبب یہ خود ہے‘‘۔

3۔ حضرت عائشہؓ کے سامنے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی یہ روایت بیان کی گئی کہ اللہ کے رسول ﷺ نے بدر میں ہلاک ہونے والے کافروں کی لاش سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: کیا اللہ تعالیٰ نے تم سے کیے گئے وعدے کو پور ا کردیا، کسی نے پوچھا کہ آپ

مرے ہوئے لوگوں کو مخاطب بنارہے ہیں ، اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:

’’ما أنتم باسمع لما اقول منھم وفی روایۃ انھم الآن یسمعون ما اقول‘‘(صحیح بخاری 5/9 ط دار عالم الکتب ریاض)

’’میری اس بات کو وہ تم سے زیادہ سن رہے ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ وہ اس وقت میری بات کو سن رہے ہیں ‘‘۔

 ابن عمر ؓکی اس روایت کو سننے کے بعد حضرت عائشہؓ نے کہاکہ آنحضورﷺ نے ان لاشوں کو دیکھ کر یہ فرمایاتھا :

’’انھم لیعلمون الآن ان ما کنت اقول حق ‘‘(فتح الباری 3/2836 ط بیت الافکار الدولیۃ بیروت)

’’اب وہ لوگ جان رہے ہوں گے کہ میں جو کچھ ان سے کہتاتھا وہ حق ہے‘‘۔

اور اس کے بعد انہوں نے قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی:

’’اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی‘‘(النمل:80۔)

’’بلاشبہ تم مردوں کو سنا نہیں سکتے ہو‘‘۔

 حضرت عائشہؓ نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت کے الفاظ کو قرآن کی مذکورہ آیت اور انھیں جو روایت پہنچی تھی اس کے خلاف پایا، اس لیے ان پر نقد کرتے ہوئے کہاکہ ان سے چوک ہوگئی ہے ، لیکن انھیں روایت کا صرف ایک حصہ معلوم ہواتھا اور جب دوسرا حصہ ان کے علم میں آیا تو وہ انھیں قرآن کے خلاف معلوم ہوا اور ابن عمرؓ بھی بظاہر اسے قرآن کے خلاف ہی سمجھتے تھے ، اس لیے کہ بعض روایتوں میں صراحت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے جب ان کی لاشوں سے خطاب کیاتو حضرت عمرؓ نے دریافت کیا کہ کیا یہ مردے سن رہے ہیں ؟ حالانکہ قرآن میں ہے کہ آپ مردوں کو کوئی بات نہیں سناسکتے، اس کے جواب میں

اللہ کے رسول نے فرمایا:

’’ما أنتم باسمع لما اقول منھم لکن لایستطیعون ان یجیبوا‘‘(فتح الباری:3/2836،بیت الافکارالدولیۃ۔)

’’میں جو کچھ ان سے کہہ رہا ہوں وہ اسے تم سے زیادہ سن رہے ہیں لیکن ان میں جواب دینے کی صلاحیت نہیں ہے ‘‘۔

یعنی عمومی ضابطہ تو یہی ہے کہ مردے نہیں سن سکتے لیکن بطور معجزہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی باتیں ان کافروں کو سنوادیں ، چنانچہ حضرت قتادہؓ کہتے ہیں :

’’احیاھم اللّٰہ حتی اسمعھم قولہ توبیخا وتصغیرا‘‘(صحیح بخاری:5/9۔)

’’ان کی تذلیل اور توبیخ کے لیے اللہ تعالیٰ نے انھیں زندہ کرکے آپ کی بات سنادی ہے‘‘ ۔

 غرضیکہ مذکورہ روایت بھی بظاہر قرآن کے خلاف ہے اس لیے اس کی ایسی شرح کی گئی جس کی وجہ سے وہ قرآن کے موافق ہوسکے۔

4۔ بعض روایتوں میں تین مواقع پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف ’’کذب‘‘ کی نسبت کی گئی ہے، ’’کذب‘‘ بمعنی جھوٹ، قرآنی تعلیم ’’عصمت انبیاء‘‘ کے خلاف ہے ، اس لیے یہ روایت ظاہری مفہوم کے اعتبار سے لائق قبول نہیں ہے اور نہ ہی کسی نے اس حیثیت سے اسے صحیح کہاہے، بلکہ اس کی ایسی تشریح کی گئی جس کی وجہ سے وہ عصمت انبیاء کے خلاف نہ ہوجیسے کہ بعض نبیوں کے تعلق سے خود قرآن میں ’’عصی‘‘ اور ’’غوی‘‘ کالفظ استعمال کیاگیاہے جو اپنے ظاہری مفہوم کے اعتبار سے عصمت انبیاء کے خلاف ہے لیکن اس کا ظاہری مفہوم مراد نہیں لیاجاتاہے۔

 بعض لوگ اس طرح کی روایتوں کو کسی تاویل اور توجیہ کے بغیر رد کردیتے ہیں جیسے علامہ فراہی لکھتے ہیں :

’’اور سب سے زیادہ تعجب ان لوگوں پر ہے جو ایسی روایتیں تک قبول کرلیتے ہیں جو نصوص قرآن کی تکذیب کرتی ہیں مثلاً حضرت ابراہیم کے جھوٹ بولنے کی روایت‘‘۔

لیکن ان کے شاگرد ان سے اختلاف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’اگرکذب کے معنی ’’توریہ‘‘ کے لیے جائیں تو اس روایت کا صحیح محمل متعین ہوجاتاہے اور عربی ز بان کی رو سے یہ معنی صحیح ہیں ‘‘۔(نظام القرآن:39۔)

یہ چند ایسی مثالیں ہیں جن میں حدیث کا ظاہری مفہوم قرآن کے خلاف ہے لیکن تاویل اور تشریح کے ذریعہ انھیں موافق قرآن بنانے کی کوشش کی گئی ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حدیث کا وہی مفہوم معتبر ہوگا جو قرآن کے مطابق ہو لیکن کبھی اس کے برعکس بھی ہوتا ہے کہ حدیث کا معنی بالکل واضح ہوتاہے اور قرآن کی دلالت اجمالی اور غیر قطعی ہوتی ہے ، ایسی صورت میں قرآنی آیت میں تاویل کا راستہ اختیار کیاجاتاہے اور اس کا وہی مفہوم لائق قبول ہوتاہے جو سنت سے ثابت ہے یعنی حدیث کے ذریعہ قرآن کے عام کو خاص ، مطلق کو مقید اور کبھی اباحت کو وجوب کادرجہ دیاجاتاہے، عام کو خاص کرنے کی متعدد مثالیں ہیں جو بہت مشہور ہیں ، اس لیے ذکرکرنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اباحت کو وجوب کا درجہ دیے جانے کی دو مثالیں پیش کی جارہی ہیں ۔

 1۔حضرت عروہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین حضرت عائشہؓ سے دریافت کیا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:

’’اِنَّ الصَّفَاوَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِاللّٰہِ ج فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِاعْتَمَرَ فَلاَ  جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا‘‘(سورۃ البقرۃ:158۔)

’’بلاشبہ صفا اور مروہ اللہ کی علامتوں میں سے ہیں لہٰذا جو کوئی خانہ کعبہ کا حج کرے یا

عمرہ کرے تو اس کے لیے کوئی گناہ نہیں ہے کہ ان دونوں کا طواف بھی کرے‘‘۔

جس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ اگر ان کا طواف نہ کیاجائے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے ، اس کے جواب میں حضرت عائشہؓ نے پہلے تو آیت کے پس منظر کو ذکرکرکے اس کے مفہوم کو بیان فرمایا کہ زمانہ جاہلیت میں ان دونوں پر بت رکھے ہوئے تھے اور لوگ دوڑدوڑ کر انھیں کو بوسہ  دیاکرتے تھے ، اس لیے اسلام لانے کے بعد لوگوں کو ان کے درمیان سعی کرنا ناگوار معلوم ہوا کہ ان پہاڑیوں کے درمیان آمد و رفت شرک کی علامتوں میں سے تونہیں ؟ اور اس کے متعلق اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھا جس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی جس میں بتلایاگیاکہ یہ شرک کی نہیں بلکہ توحید کی یادگار ہیں ، اس لیے ان دونوں کے درمیان طواف میں جو گناہ کا تصور ہے وہ غلط ہے ، اس توجیہ کے بعد حضرت عائشہؓ نے فرمایا:

’’ثم قد سن رسول اللہ ﷺ الطواف بھما فلیس لاحد ان یدع الطواف بھما‘‘(متفق علیہ، ابن کثیر:1/247، دارعالم الکتب۔)

 ’’پھر اللہ کے رسول نے ان دونوں کے درمیان طواف کو سنت قرار دیاہے ، لہٰذا کسی کے لیے درست نہیں ہے کہ وہ اس کو چھوڑ دے‘‘۔

معلوم ہوا کہ حضرت عروہ نے قرآن کے ظاہر سے جو سمجھا تھا وہ غلط ہے۔

2۔ قرآن مجید میں ہے کہ:

’’وَاِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاح’‘ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوۃِ صلے ق اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَکُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا‘‘ (سورۃ النساء :101۔)

’’جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے لیے کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ نماز میں کمی کردو، اگر تمہیں کافروں کے ستانے کااندیشہ ہو‘‘۔

 اس آیت سے بظاہر معلوم ہوتاہے کہ سفر کے دوران دشمن سے خوف کی حالت ہی میں قصر جائز ہے اور حدیث سے بے نیازی برتنے والے بعض فرقے جیسے خوارج اسی کے قائل بھی ہیں لیکن جمہور نے سنت کی روشنی میں قصر کے حکم کو ہر سفر کے لیے عام رکھا ہے ، خواہ امن کی حالت ہو یا خوف کا موقع اور آیت کی یہ تاویل کی ہے کہ یہ نزول آیت کے وقت کی صرف حالت واقعی کا بیان ہے ۔

حاصل یہ ہے کہ قرآن کا مرتبہ اس اعتبار سے بہت بلند ہے کہ اس کے الفاظ بھی اللہ کی طرف سے ہیں اور اس جیسا کلام پیش کرنے سے انسان عاجز ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ دلیل کے اعتبار سے کتاب و سنت میں کوئی فرق ہے، اس لیے کہ قرآن کی حجیت صر ف اس پہلو سے ہے کہ وہ ’’وحی الٰہی ‘‘ ہے۔اگر وہ معجزہ نہ ہوتا اور اس کے الفاظ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوتے پھر بھی اس کی حجیت کا اقرار کرنا لازم ہوتا۔ لہٰذا حجیت اور اتباع کے پہلو سے دونوں یکساں ہیں ۔ ’’ان دونوں کی باہمی ترکیب ہی سے دین کا پورا نظام کھڑا ہوتاہے ، ان میں سے کسی ایک کو بھی الگ کرلیجئے تو سارا شیرازہ درہم برہم ہوجائے گا۔‘‘

 اہمیت صرف اس بات کی ہے کہ سنت ثابت ہے یا نہیں ،اگر وہ ثابت ہے اور ثبوت کے اعتبار سے قرآن کی طرح قطعی ہے تو اس کے ذریعہ قرآن کے کسی عام حکم کی تخصیص کی جاسکتی ہے اور قرآن کی وہی تشریح معتبر ہوگی جس کی تائید حدیث سے ہوتی ہو، اس لیے کہ نبی اللہ کا نمائندہ ہوتاہے وہ عالم الغیب سے خبریں حاصل کرتاہے اور اس کے بندوں تک پہنچاتاہے ، وہ اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کہتا۔ اس لیے وہ صرف مبلغ ہوتاہے اور یہ اعلان کرتارہتاہے کہ وما علینا الا البلاغ۔

اور غیرمتواتر روایتوں کی صحت اور تشریح کے لیے قرآن ایک معیار ہے اور ایسی ہی روایتیں قبول کی جائیں گی جو اس کسوٹی پر پوری اترتی ہوں ۔

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    ائمہ تاریخ نے ضعیف روایات کیوں درج کیں..____________________________
    ہمارے قدیم ائمہ نے تاریخ لکھنے اور تاریخی روایات بیان کرنے میں عموما وہی اسلوب اختیار کیا جوکہ حدیث میں تھا – یعنی کسی بھی تاریخی واقعے کو بذریعہ سند بیان کیا جاتا ہے – پھر ان اسناد کو جرح و تعدیل کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے –
    دوسری طرف ایک ایک راوی کے حالات ائمہ رجال نے اپنی کتب میں درج کر دیے ہیں – کون سچا ہے کون جھوٹا ، کون روایات گھڑنے والا ہے ، کون جھوٹ کو سچ سے ملانے والا ، کون ہر حال میں سچ بولتا ہے ، کون سچا ہے مگر کبھی کبھی بھول جاتا ہے – سب کچھ لکھ کر کے ان کی درجہ بندی کر دی – اور جب تاریخی روایات بیان کیں تو ساتھ میں اسناد بھی درج کر دیں –
    اب آپ کے ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ بھلا اتنی زحمت کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی ؟- آسان سی بات تھی کہ سیدھا سیدھا خود سے فیصلہ کرتے ، درست روایات کو نقل کرتے اور جھوٹ کو نکال باہر کرتے –
    لیکن ائمہ کرام نے مشکل راستہ اختیار کیا ، کہ جو بھی روایات ملیں اور جیسے بھی ملیں ان کو کسی نہ کسی صورت درج کر دیا اور ساتھ اسناد دے دیں – اور آپ کو ساتھ میں ہی ایک ترازو دے دیا کہ
    "لو خود فیصلہ کرو کیا سچ ہے ، کیا جھوٹ ؟”
    اس سے ایک فائدہ یہ ہوا کہ بحث اور درست نا درست کی تلاش کا عمل رکا نہیں اور تحقیق جاری و ساری رہی –
    اگر وہ اپنی دانست میں صرف صحیح روایات درج کرتے تو ممکن تھا بہت سی تاریخی روایات جو کہ درست ہوتیں معدوم ہو کے رہ جاتیں کہ امام کی نظر میں درست نہیں تھیں –
    اور ایسا بھی تھا کہ بہت سی کمزور روایات کہ جن کو امام صاحب تحقیق کی غلطی سے درست جان چکے ہوتے ہمارے پلے پڑ جاتیں –
    اور آج جو ہم تحقیق کر کے ان کی تنقیح کر سکتے ہیں اس سے محروم ہو جاتے – اور جھوٹ ہمارا مقدر ہو جاتا –
    ایک اور فائدہ یہ ہوا کہ ہمارے اس زمانے کے بہت سے کذاب بھی کھل کے سامنے آنے کا امکان ہر وقت تازہ رہتا ہے – کیونکہ اگر کوئی اپنے خبث باطن کے سبب مرضی کی روایت کو لے کر مطلب براری کے لیے استعمال کرتا ہے تو ان علوم کے سبب اس کو پکڑا جا سکتا ہے –
    امام طبری رحمہ اللہ اپنی کتاب تاریخ طبری کے مقدمے میں بیان کرتے ہیں کہ:
    ” ہم کو جو پہنچا ہم نے آگے بیان کر دیا ، اب یہ قاری پر ہے کہ وہ درست کو اختیار کرے ”
    یعنی تحقیق کے دروازے قاری پر کھول دیے کیونکہ ساتھ ساتھ اسناد بھی بیان کر دی گئیں –
    اب خود سوچیئے کہ اگر یہ روایات بنا اسناد کے ہوتیں اور امام کو کسی روایت میں غلطی لاحق ہوجاتی یا بھول جاتے یا محبت اور نفرت جیسی انسانی کمزوری کا شکار ہو کر کے تعصب کے تحت غلط بات لکھ جاتے تو ہمارے لیے کیا صورت تھی اس کو پرکھنے کی ؟؟

تبصرے بند ہیں۔