اذان اور دعوت میں تعلق (چوتھی قسط)

 مفتی کلیم رحمانی

جمہوری نظام کی تاریخ میں  آج تک ایک بھی الیکشن کسی حکومت کو لانے اور گرانے کے لئے نہیں  ہوا ہے، بلکہ الیکشن صرف کسی پارٹی کو حکومت کے صرف بعض معاملات میں  مشورہ کے لیے ہوتے ہیں  اور کسی پارٹی کو مشورہ سے بے دخل کرنے کے لیے ہوتے ہیں  یہی وجہ ہے کہ کسی بھی جمہوری ملک میں  نہ حکومت کے اعلیٰ افسر کے تقرّر کے لیے عوام سے رائے لی جاتی ہے، اور نہ کسی ادنیٰ ملازم کے تقرّر کے لیے، اور دیکھا جائے تو جمہوری نظام کے بانیوں  نے بڑی چالاکی اورمکاری سے سیاسی پارٹیوں  کے انتخاب کے لیے ہر پانچ سال(5) میں  عوامی الیکشن کا ڈرامہ رکھ دیا، تاکہ ہر پانچ سال(5) میں  عوام جمہوری نظام ِحکومت کی خامیوں  اور خرابیوں  کا غصہ صرف سیاسی پارٹیوں  پر نکالتے رہے، اور حکومت کا پورا نظام اور عملہ عوامی غصہ سے محفوظ رہے، یہی وجہ ہے کہ حکومت کے عملہ کی نااہلی بدعنوانی، رشوت ستانی سے بڑی بڑی سیاسی پارٹیاں  عوامی الیکشن میں  ہار جاتی ہیں  لیکن اس ہار کا حکومت کے کسی بھی افسر اور ملازم پر کوئی بھی اثر نہیں  پڑتا، جبکہ عوام نے حکومت کے عملہ کی بدعنوانی ہی کی وجہ سے ہی اس پارٹی کے خلاف ووٹ دیا تھا، لیکن سیاسی پارٹی تو اقتدار سے معزول ہوگئی، مگر ایک بھی بدعنوان افسر اور ملازم حکومت سے معزول نہیں  ہوا، اسلئے اس الیکشن کو ڈرامہ اور دھوکہ نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے، جب کہ انصاف اور اصول کا تقاضہ تو یہ تھا کہ جب عوام نے حکومت کے عملہ کی بد عنوانی کی وجہ سے پارٹی کے خلاف ووٹ دیا تو پارٹی کے اقتدار سے معزولی کے ساتھ ہی حکومت کا تمام عملہ بھی معزول ہو جانا چاہیے تھا، لیکن جمہوری نظام کے بانیوں  سے عدل و انصاف کی امید لگانا ہی بیکار ہے، کیونکہ جمہوری نظام بنایا ہی اس لیے گیا کہ میدان سیاست میں  زیادہ سے زیادہ ظلم و ستم کیا جائے، اور بد عنوانی کو بڑھاوا دیا جائے، اور جہاں  تک انہیں  عوامی بغاوت اور غصہ سے اس نظام کے خاتمہ کا اندیشہ تھا تو بڑی چالاکی سے انہوں  نے ہر پانچ سال میں  صرف سیاسی پارٹیوں  کے خلاف غصہ نکالنے کا نظم کر دیا ہے۔

اس سلسلہ میں  مسلمانوں  اور اسلامی تحریکات سے ہی کچھ امید کی جا سکتی تھی کہ وہ جمہوری نظام کے بانیوں  کی اس چالاکی اور مکاری کو سمجھیں  گی، اور اس سے بچیں  گی اور عوام کو بھی بچائیں  گی، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بیشتر مسلمان اور بیشتر تحریکات اسلامی باطل پرستوں  کے دام فریب میں  آگئی ہیں ، اور انہوں  نے بھی سیاسی ترقی کے لیے اسی الیکشنی ڈرامہ کے راستہ کو اختیار کرلیا ہیں ، جس کی وجہ سے عالمی، ملکی اور مقامی سطح پر مسلمان اور تحریکات اسلامی اس وقت سیاسی لحاظ سے سب سے کمزور اور بے بس ہوگئی ہیں ، اور یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ دور نبویﷺ سے لے کرآج تک امت مسلمہ عالمی، ملکی اور مقامی سطح تک کبھی بھی سیاسی لحاظ سے اتنی کمزور اور بے بس اور مغلوب و مظلوم نہیں  ہوئی ہے، یہاں  تک کہ تاریخ میں  تاتاری قوم کا مسلمانوں  پر حملہ اور مسلمانوں  کا قتل عام مشہور و معروف ہے، لیکن اس وقت بھی مسلمان سیاسی لحاظ سے اتنے کمزور نہیں  ہوئے تھے، بلکہ دنیا کے کئی علاقوں  میں  مسلمان سیاسی لحاظ سے بہت مضبوط تھے، اور کئی شہروں  میں  مسلمانوں  نے تاتاریوں  کو شکست فاش دی تھی، ان ہی میں  سے ایک مصر تھا،

 چنانچہ جب تاتاریوں  نے مصر میں  گھسنے کی کوشش کی تو مسلمانوں  نے تاتاریوں  کے حملہ کا ایسا منہ توڑ جواب دیا تھا کہ تاتاریوں  کو پسپا ہونا پڑا، در اصل بات یہ تھی کہ مسلمانوں  میں  بہت سی عقائدی اور اخلاقی کمزوریا تھیں ، لیکن میدان سیاست میں مسلمانوں  نے اسلامی نظام کی سیاسی بالادستی سے انکار نہیں  کیا تھا، اور نہ ہی سیاست کے میدان میں  کسی غیر اسلامی نظریہ سیاست کی بالادستی کو قبول کیا تھا، جبکہ اِس وقت مسلمانوں  نے مجموعی لحاظ سے میدان سیاست میں  اسلامی نظام کی بالادستی کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہیں ، اور جمہوری نظام کی سیاسی بالادستی کو قبول کر لیا ہیں ، جس کی بنیاد لوگوں  کی حاکمیت پر مبنی ہے، جو پورے طور اور کھلے طورپر ایک غیر اسلامی نظریہ سیاست ہے، اِس لحاظ سے قرآن و حدیث کی روشنی میں  یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ مسلمان جب تک جمہوری نظام کی سیاست سے توبہ نہیں  کرتے، اور اس سے باز نہیں  آتے اور اسلامی سیاست کا راستہ اختیار نہیں  کرتے، تب تک یہ سیاسی کمزوری اور بے بسی دور نہیں  ہوسکتی۔اور اذان کے کلمہ اَللّٰہُ اَکْبَرْ یعنی اللہ سب سے بڑا ہے، میں  اسلام کے سیاسی نظام کی بڑائی اور بالادستی کو قبول کرنے کی بھی دعوت ہے، ا س لحاظ سے اگر کوئی میدان سیاست میں  اللہ کے حکم اور قانون کو سب سے بڑا حکم اور قانون تسلیم نہ کرے تو در اصل اس نے ابھی اذان کو تسلیم نہیں  کیا، اور اگر کوئی میدان سیاست میں  اللہ کے حکم کی بڑائی سے انکار کر رہا ہے تو وہ ایک طرح سے اذان کے پہلے کلمہ کا انکار کر رہا ہے، اور نہ صرف اذان کے پہلے کلمہ انکار کر رہا ہے، بلکہ نماز کے بھی پہلے کلمہ کا انکار کر رہا ہے، کیونکہ نماز کی ابتداء بھی  اَللّٰہُ اَکْبَرْ سے ہوتی ہے جس کو شرعی اصطلاح میں  تکبیر تحریمہ کہتے ہیں ۔اور اس کو اذان اور نماز کے گہرے تعلق کا اظہار ہی کہنا چاہیے کہ جس طرح ہر اذان میں   اَللّٰہُ اَکْبَرْ کا کلمہ چھ (6)مرتبہ ہے اسی طرح ہر نماز کی پہلی رکعت میں  بھی  اَللّٰہُ اَکْبَرْ کا کلمہ چھ(6) مرتبہ رکھا گیا ہے، ایک مرتبہ تکبیر تحریمہ کے طور پر اور دوسری مرتبہ رکوع میں  جاتے ہوئے، تیسری مرتبہ پہلے سجدہ میں جاتے ہوئے، چوتھی مرتبہ پہلے سجدہ سے اٹھتے ہوئے، پانچویں  مرتبہ دوسرے سجدہ میں  جاتے ہوئے، چھٹی مرتبہ دوسرے سجدہ سے اٹھتے ہوئے، ویسے نماز کی پہلی رکعت کے علاوہ بھی ہر نماز کی ہر رکعت میں   اَللّٰہُ اَکْبَرْ کا کلمہ پانچ (5)مرتبہ رکھا گیا  ہے اس لحاظ سے دو رکعت والی نماز میں   اَللّٰہُ اَکْبَرْ کا کلمہ گیارہ (11)مرتبہ ہے۔ تین رکعت والی نماز میں  سولہ(16) مرتبہ اور چار رکعت والی نماز میں  اکیس(21) مرتبہ  اَللّٰہُ اَکْبَرْ  کا کلمہ رکھا گیا ہے۔

 اب ایک لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے ایک ہی اذان میں  چھ (6) مرتبہ اَللّٰہُ اَکْبَرْ کے ذریعہ اپنی سیاسی حکمرانی اور بالادستی کی دعوت دی ہے، جو صرف ایک دن کی اذان میں  تیس(30) مرتبہ ہو جاتی ہے، اب اگر کوئی مسلمان میدان سیاست میں  اللہ کی حکمرانی سے انکار کر رہا ہے تو وہ دن میں  سے تیس(30) مرتبہ اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کر رہا ہے، اور اس میں  دن بھر کی صرف فرض نمازکی تکبیرات ہی شامل کر دی جائے تو یہ تعداد ایک سو بیس (120) مرتبہ ہو جاتی ہے، ظاہر ہے کوئی بھی مسلمان ایک دن میں  ایک سو بیس(120) مرتبہ اللہ کے حکموں  کی خلاف ورزی کرکے کبھی بھی سیاسی ترقی حاصل نہیں  کر سکتا، کیونکہ اذان اور نماز میں   اَللّٰہُ اَکْبَر کے کلمہ کی جو تکرار رکھی گئی ہے وہ تبرّک کے طور پر نہیں  رکھی گئی ہے، بلکہ توجہ کے طور پر رکھی گئی ہے، مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اذان اور نماز کے ذریعہ بار بار اپنی بڑائی کی طرف توجہ دلائی ہے اور اس لئے دلائی کہ چونکہ شیطان بھی بار بار اپنی بڑائی کی طرف توجہ دلاتا ہے، اللہ کی بڑائی کا مطلب اللہ کے حکم کو سب سے بڑا سمجھنا ہے، اور شیطان کی بڑائی کا مطلب شیطان کے حکم کو بڑا سمجھنا ہے، لیکن چونکہ شیطان انسان کا دشمن اور بڑا دھوکہ باز ہے، اس لیے وہ شکل و صورت بدل، بدل کر آتا ہے، چنانچہ حضرت آدم و حوا کے پاس وہ خیر خواہ بن کر آیا تھا۔جس کا تذکرہ قرآن مجید میں  صراحت کے ساتھ ہے:

  وَقَاسَمَھُمَآاِنّیِ لَکُمَا لَمِنَ الْنَّصِحِیْنَ۔  (اعراف آیت 21)

( اور اس نے ان دونوں  سے قسم کھایا کہ بیشک میں  تم دونوں  کے لیے خیر خواہ ہوں )

کبھی شیطان خواہش نفس کی صورت میں  آتا ہے، کبھی مال و اولاد کی صورت میں  آتا ہے، کبھی باپ اور خاندان کی صورت میں  آتا ہے، کبھی اقتدار اور حکومت کی صورت میں  آتا ہے، کبھی ڈر و خوف کی صورت میں  آتا ہے، کبھی وطن کی محبت کی صورت میں  آتا ہے، کبھی امیدو انتظار کی صورت میں  آتا ہے، کبھی انعام و لالچ کی صورت میں  آتا ہے، غرض یہ کہ شیطان کی بے شمار شکلیں  اور صورتیں  ہیں  اور بے شمار حربے اور حیلے ہیں ، لیکن سب سے بڑی شکل و صورت اور سب سے بڑا حربہ تکبر ہے یعنی اپنے حکم کو سب سے بڑا سمجھنا چنانچہ ابلیس کی نافرمانی کی شروعات ہی تکبر سے ہوئی ہے جیسا کہ قرآن میں  صراحت کے ساتھ ہے:

اَبیٰ واسْتکْبَرُ وَ کَانَ مِنَ الْکٰفِریْنَ  (بقرہ 34)

یعنی شیطان نے انکار کیا اور تکبر کیا، اور کافروں  میں  سے ہوگیا۔ مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جب ابلیس کو حکم دیا کہ وہ آدم کو سجدہ کرے تو اس نے حکم ماننے سے انکار کیا اور اپنے آپ کو حکم کے لحاظ سے اللہ سے بڑا سمجھا تو اللہ تعالیٰ نے اسے کافر قرار دیدیا۔ اس مذکورہ حدیث قدسی سے یہ بات واضح ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کو انسان کی بڑائی کسی بھی شعبہ میں  منظور نہیں  ہے، نہ عقائد میں  نہ شعبہ عبادات میں  اور نہ شعبہ سیاسیات میں ، لیکن یہ بھی افسوس کی بات ہے کہ آج انسانوں  کو شعبہ سیاست میں  اللہ کی بڑائی منظور نہیں  ہے، جس کی وجہ سے آج شعبہ سیاست ظلم وستم قتل و غارتگری سے بھرا ہوا ہے، اور خاص طور سے اس شعبہ میں  مسلمان سب سے زیادہ مظلوم و محکوم ہیں ، اس لیے کہ وہی سب سے زیادہ مجرم بھی ہیں ، کیونکہ مسلمانوں  کی یہ دینی ذمہ داری ہے کہ وہ سیاست کے شعبہ میں  خود بھی اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کرے اور دوسروں  کو بھی اس کی دعوت دے، لیکن خود مسلمانوں  نے سیاست کے شعبہ میں  دوسرے حکمرانوں  کی حاکمیت کو قبول کر لیا ہیں  جبکہ اس پوری کائنات کا صرف ایک ہی حکمراں  ہیں ، اور وہ اللہ ہے جس کی اہم صفت اکبر ہے یعنی سب سے بڑا، اور اذان و نماز کے ذریعہ خصوصیت کے ساتھ اسی صفت کی طرف باربار توجہ دلائی گئی ہے، علامہ اقبالؒ نے اللہ تعالیٰ کی اس صفت حکمرانی کو اپنے ایک شعر میں  بڑی وضاحت کے ساتھ پیش کیا ہے۔

سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے

حکمراں  ہیں  بس اک وہی باقی بتان آزری

 علامہ اقبالؒ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سرداری اور حکمرانی کے لائق اگر کوئی ذات ہے تو وہ صرف خدا کی ذات ہے، اور اللہ کے علاوہ جو سردار اور حکمراں  بنے ہوئے ہیں ، در اصل وہ ابراہیم ؑ کے، کافر باپ، آزر کے تراشے ہوئے بُت ہیں ، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ آج دنیا کی حکمرانی اور سرداری ان ہی بتوں  کے ہاتھ میں  ہے، بت نظریات بھی ہوتے ہیں  اور بت افراد بھی ہوتے ہیں، دورحاضر کا سب سے بڑا نظریاتی بت جمہوری نظام ہے

 جس نے پوری دنیا کو ظلم وستم سے بھر دیا ہے، جمہوری نظام کے ظلم وستم کو صرف اسلامی نظام ہی ختم کر سکتا ہے اسلئے میدان سیاست میں  شدومد کے ساتھ اسلامی نظام کو پیش کرنے کی ضرورت ہے، اور یہ امت مسلمہ کے فرض منصبی میں  شامل ہے۔ تکبر کے متعلق نبی کریمﷺ کا یہ ارشاد بھی پیش نظر رہنا چاہیے، جس میں  آپﷺ نے فرمایا:

وَ لاَ یَدْخُلُ الْجنَّۃَ اَحَدُ فِی قَلْبہِ مِثْقَالُ حَبَّۃِ مِنْ خَرْدَلِ مِنْ کِبْرِ( مسلم شریف)

( اور جنت میں  داخل نہیں  ہوگا وہ شخص جس کے دل میں  رائی کے دانہ کے برابر تکبر ہوگا)

مطلب یہ کہ جو ذرہ برابر اپنے حکم کو بڑا سمجھے گا، یا اللہ کے علاوہ ذرہ برابر کسی اور کے حکم کو بڑا سمجھے گا، وہ جنت میں  داخل نہیں  ہوگا۔ انسان کے لئے اونچے مقام اور مرتبہ کی چیز زندگی کے تمام معاملات میں  اللہ کے حکم کو سب سے بڑا سمجھنا ہے ۔ ایک حدیث میں  نبیﷺ نے تکبر کی وضاحت اور قباحت بیان فرمائی ہے:

عِنْ اِبْنِ مَسْعُودِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہﷺ لَا یَدْخُلُ الْجنّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہِ مِثْقَالُ ذَرَّۃِ مِنْ کِبْرِ فَقَالَ رَجُلُ اِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ اَنْ یَکُوْنَ ثَوبُہُ حَسَناً وَ نَعْلُہُ حَسَناً قَالَ اِنَّ اللہَ جَمِیلُ یُحِبُّ الْجَمَالَ اُلْکبِرُ بَطَرُ الْحَقَّ وَ غَمْطُ النَّاسِ(رواہ مسلم)

(حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ شخص جنت میں  داخل نہیں  ہوگا جس کے دل میں  رائی کے دانہ کے برابر تکبر یعنی بڑائی ہوگی، ایک آدمی نے کہا ائے اللہ کے رسول ﷺ ایک شخص اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں ، اس کا جوتا اچھاہو، رسول اللہﷺ نے فرمایا اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسندکرتا ہے، تکبر حق کو غلط سمجھنا اور لوگوں  کو حقیر جاننا ہے)

  مذکورہ حدیث سے یہ بات واضح ہوئی کہ لباس و رہن سہن میں  عمدگی اور سلیقہ مندی اللہ تعالیٰ کو پسند ہے وہیں  اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ تکبر صرف اپنے آپ کو لوگوں  سے بڑا سمجھنے اور لوگوں  کو کمتر سمجھنے ہی کا نام نہیں  ہے، بلکہ دین حق کو غلط سمجھنا اور کسی انسان کے حکم کو اللہ کے حکم سے بڑا سمجھنا بھی تکبر ہے، بلکہ بڑا تکبر یہی ہے، اسلئے حدیث میں  بھی اس کو پہلے نمبر پر بیان کیا گیا ہے، لیکن افسوس ہے کہ آج بہت سے لوگ حق کی مخالفت کو تکبر سمجھتے ہی نہیں  ہیں ، اس لحاظ سے دیکھا جائے تو آج دنیا کی اکثریت متکبر ین سے بھری ہوئی ہے، اور کچھ لوگ جو ذاتی طور سے حق کی مخالفت نہیں  کرتے وہ بھی حق کی مخالفت کرنے والوں  کو اپنا رہبر سمجھتے ہیں ، یوں  تو انسانی زندگی کے تمام ہی شعبوں  میں  حق کو غلط سمجھا جا رہا ہے، لیکن شعبہ سیاست میں  اسلام کی بالادستی کو بہت زیادہ برا سمجھا جارہا ہے، اور اس میں  بہت سے مسلم حکمراں  بھی شامل ہیں ، گویا کہ اس وقت دنیا کی ساست میں  متکبرین چھائے ہوئے ہیں ، یہاں  تک کہ مسلمانوں  کی اکثریت بھی انہیں  متکبرین کو اپنا سیاسی رہنماں    بنائے ہوئے ہیں ، اور اپنے ووٹوں  کے ذریعہ انہیں  منتخب کرتے ہیں ، اسی جرم کی پاداش میں  اللہ تعالیٰ نے پوری امت مسلمہ کو عالمی، ملکی، اور مقامی سطح پر سیاسی لحاظ سے سب سے زیادہ مغلوب اور مظلوم قوم بنا دیا ہے، لیکن افسوس ہے کہ بہت سے مسلمانوں  کو اس کا احساس تک نہیں  ہے۔

تبصرے بند ہیں۔