احترام

سیدہ شیما نظیر

آج جب اخبار دیکھنے کے بعد فائزہ کا فون آیا میں جیسے گنگ ہوگئی، مکمل سکوت طاری ہوگیا اور گہری سوچ میں پڑ گئی۔

قانتہ ٹیچر میرے آئیڈیل رہے ہیں۔

میری ہی کیا اسکول میں کوئی ایسا نہ تھا جو ان کی تعریف کرتے نہ تھکتا ہو۔

ہر کسی کو ان کی تعریف کرتے دیکھ کر ان کو دیکھنے کا تجسس اور بڑھ جاتا تھا۔

ان کا انداز، ان کی ادا، ان کے اخلاق اور ان کی  مسکراہٹ سب کچھ تو اپنالیا میں نے،

کیونکہ وہ میری سب سے پسندیدہ ہستی تھی۔

ان کی ہرادا کاپی کرنا میں اپنا فرض سمجھتی تھی۔

حد تو یہ ہوگئی کہ  میں نے لہجہ بھی ان ہی کا اختیار  کرلیا۔

اور جب اسکول کی تعلیم مکمل ہوگئی تب بھی ان سے ٹچ میں رہی۔

یہاں تک کہ ان کی شادی میں شرکت کی اور بے تحاشہ روئی ان کی وداعی میں۔

ہم سب سہیلیوں میں مجھے وہ بہت پسند تھیں۔

میرا ہر جملہ قانتہ ٹیچر سے شروع  ہوکر انہی پر ختم ہوتا تھا۔

دھیرے دھیرے زندگی میں سب کچھ بدلا میری شادی ہوئی، میں پردیس چلی گئی، بچے ہوگئے، کچھ سہیلیوں سے رابطہ میں رہی، بہت سوں سے تو رابطہ ٹوٹ گیا۔ مما پپا نہیں رہے۔

ان سب کے بیچ اگر کوئی چیز نہی بدلی تو وہ میرے دل میں قانتہ ٹیچر کی محبت اور ان کا احترام، وہ آج بھی برقرار تھا۔

ان ہی سوچوں میں غلطاں میں نے اپنے آنسو پوچھے،

پھر میں نے سوچا کہ کاش مجھے آج فائزہ کا فون نہ آیا ہوتا!

آج جو کچھ میں نے سنا وہ میری ذات کو تباہ کرنے کے لئے کافی تھا۔

میرے اندر اتل پتھل مچی تھی۔

میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ کیا کوئی شخص اپنے اندر اتنا دورخا رویہ رکھ سکتا ہے؟

خصوصاً ایک عورت

کیا وہ محبت، اخلاق، خلوص سب دکھاوا تھا؟؟؟

یا اللہ میرا دل چاہا کہ اپنے ہی سر کے بال نوچ لوں؟

وہ جملہ کاش میں نہیں سنتی!

کاش کہ میرے کان بہرے ہوگئے ہوتے!

کتنا طنز تھا اس جملہ میں جو فائزہ نے کہا مجھ سے ایسے جیسے ان کی اچھائیوں سے متاثر ہوکر میں نے گناہ کردیا ہو۔

ان سے محبت میری سب سے بڑی غلطی ہو۔۔

ان کا احترام میری زندگی کی بڑی بھول ہو۔۔۔۔

فائزہ نے فون کرکے مجھ سے کہا:

کیا ہوا ثانیہ بڑا دم بھرتی تھیں قانتہ ٹیچر کا آج کے اخبار میں غالباً پڑھ لیا ہوگا تم نے ان کے کرتوت کے بارے میں۔۔۔

اس نے بڑی نخوت سے کہا اور فون رکھ دیا۔

نیوز آئی تھی کہ 45 سالہ  خاتون گھر کا سارا زیور اور دو لاکھ نقد لے کر عاشق کے ساتھ فرار جب کہ تین جوان بیٹیاں اور ساس گھر میں موجود، شوہر سعودی ملازم ہے۔

تمام اہلِ خاندان صدمہ میں!

نیچے تفصیل لکھی تھی۔

نہ صرف انھوں نے میرے آئیڈیل کی وہ تصویر کرچی کرچی کرڈالی بلکہ اپنے قریبی عزیز رشتہ داروں کی عزت و ناموس کا تماشہ بنادیا۔

ان کے بھروسے کو توڑ کر انھیں دکھ  دے کر کس طوفان میں ڈھکیل دیا۔

"کیوں آخر ایسا کیوں کیا قانتہ ٹیچر آپ نے”؟

میں خود سے گویا ہوئی کہ میں اس احترام کا کیا کروں جو برسوں سے دل کے ایک حصہ میں آپ کے لئے مختص کردیا تھا۔

وہ حصہ خالی ہوچکا تھا۔۔۔

میں بے تحاشہ روتی رہی..!

تبصرے بند ہیں۔