احمد ندیمؔ قاسمی: ذات و صفات

ابراہیم افسر

 علامہ اقبالؔ اور فیض احمد فیضؔ کے بعد برِ ّصغیر ہند و پاک میں اگر کسی بڑے شاعر، ادیب، صحافی، افسانہ نگار، خاکہ نگاراورکالم نویس کا نام معلوم کیا جائے تو یقیناًلوگوں کی زبان پر بے ساختہ احمد ندیمؔ قاسمی کا نام آئے گا۔ اُردو کے اِس عظیم شاعر ادیب ا، فسانہ نگار، صحافی، نقادپر لا تعداد مضامین و کتب تحریر ہو چکے ہیں۔ کتنی ہی یونیورسٹیز میں اِن کی شخصیت اور ادبی کارناموں پر ایم فل اور پی۔ ایچ، ڈی کے مقالات سپردِ قلم ہو چکے ہیں۔ ان کی غزلوں نظموں اور افسانوں کو دنیا بھر کی یونی ورسٹیز کے کورس میں شامل کر طلبا کو پڑھایا جاتاہے۔ ساتھ ہی اِن کے فن پارے ہندی، روسی، جاپانی، چینی اور انگریزی زبانوں میں تراجم ہو کر دادِ تحسین حاصل کر چکے ہیں۔ کئی اخبارات و رسائل میں اِن کی ادبی جہات پر خصوصی گوشے نکل چکے ہیں۔ احمد ندیم ؔقاسمی برِّ صغیر کے واحد ادیب و قلم کار ہیں جو بیک وقت شاعر، افسانہ نگار، خاکہ نگار، بچوں کے ادیب، مدیر، نقاد، صحافی اور کالم نگار تھے۔ 2016ء میں ہم احمد ندیمؔ قاسمی کی صد سالہ تقریب منا رہے ہیں۔ اِن کی شخصیت ایک عہد ساز ادیب کی تھی۔ احمد ندیم ؔقاسمی ترقی پسند تحریک کے نمائندہ ادیب و نقیب تھے۔ تا حیات وہ اس تحریک کی فکر و نظرسے متاثر رہے۔ احمد ندیمؔ قاسمی کی ترقی پسند تحریک سے وابستگی اور اس تحریک سے متاثر ہو کر انھوں نے جواکتسابی ادب تخلیق کیا، اور اپنے فن میں جو بلند آہنگ پیدا کیا، اس کے بارے میں ڈاکٹر انور سدید نے اپنی رائے کا اظہاریوں کیا۔ لکھتے ہیں۔

  ’’ندیم کے یہاں ترقی پسندی رویّہ اکتسابی ہے۔ ’’دھڑکنیں ‘‘کے قطعات میں ان کا مزاج رومانی ہے۔ لیکن ترقی پسندتحریک نے انھیں بلند آہنگ ہونے پر مائل کیا۔ چناں چہ ان کے ہاں دو لہجے پیدا ہوئے۔ ایک لہجہ ان کے فکری رِقّت کا غمّازتھا۔ دوسرا غیر معمولی جوش EUOPHORIAسے ہم کنار ہے۔ صدّیق کلیم کے خیال میں ’’قاسمی اس کوشش میں رہتاہے کہ ذہن کو ماورائیت سے مادّیت کی طرف رجوع کرے۔ لیکن یہ ان کی شاعری کی کمزوری نہیں بل کہ قوت ہے۔ ‘‘معروضیت ندیم کے فن کا قیمتی عنصر ہے۔ اور یہ ان کی موضوعاتی نظموں میں زیادہ واضح ہوتا ہے۔ ‘‘(اُردو ادب کی مختصر تاریخ، صفحہ 444، ایم۔ آر پبلی کیسنز نئی دہلی، 2013ء)

  احمد ندیمؔ قاسمی کی ترقی پسند تحریک سے جنونی وابستگی اور کیفیت کے بارے میں مزید روشنی ڈالتے ہوئے میرٹھ کالج میرٹھ کے سابق صدر شعبہ ء اُردو ڈاکٹر خالد حسین خاں لکھتے ہیں۔

  ’’ترقی پسند تحریک کو ایامِ طفولیت سے نکال کر عالمِ بلوغیت سے ہم کنار اور ہم دوش کرنے میں احمد ندیمؔ قاسمی نے میرِ کارواں کا فریضہ بھی ادا کیا، اسی کے ساتھ ساتھ اُنھوں نے اس تحریک کو نیا خون، نیا جوش اور نیا ولولہ بھی بخشا۔ احمد ندیمؔ قاسمی جیسا ادیب و شاعر، صحافی و مدیر، مربی و مرشد اس صفحہ ء گیتی میں کبھی کبھی ہی نمودار ہوتا ہے۔ ان جیسے فن کاروں کے لیے صحیح ہے کہ:

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا‘‘ (اُردو ادب کا عظیم فن کار، مشمولہ ہماری زبان، صفحہ26، انجمن ترقی اُردو ہند، نئی دہلی، جنوری 2008ء)

احمد ندیمؔ قاسمی کی وفات کے بعدپاکستانی ادب کے معمار سیریز کے تحت’’ احمد ندیم قاسمی شخصیت اور فن‘‘ نامی کتاب کو 2009ء میں اِن کی بیٹی ڈاکٹر ناہید قاسمی نے ترتیب دیا۔ یہ کتاب احمد ندیم قاسمی کے ادبی کارناموں کا دستاویز ہے۔ ۔ اس کتاب کے پیش نامے میں احمدندیمؔقاسمی کی ادبی جہات اور کارناموں کے بارے میں نگرانِ اعلا فخر زمان تحریر کرتے ہیں۔

 ’’احمد ندیم قاسمی ادب کی دنیا میں ایک عہد ساز ادیب کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان کی بطور ادیب کئی جہتیں ہیں۔ شاعر کے طور پر انھوں نے ادب کو گراں قدر شاعری کے گراں قدر مجموعے دیے۔ افسانہ نگار کی حیثیت سے اُن کے متعدد مجموعے افسانوی ادب میں مسلم اہمیت رکھتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ صاحب اسلوب کا لم نگار کے طور پر بھی پہچانے جاتے ہیں اُن کی ایک اور انفرادیت بطور مدیر ’’فنون‘‘ کی ہے۔ وہ نہ صرف ’’فنون‘‘ کے مدیر رہے بل کہ ’’ادب لطیف‘‘اور نقوش کی ادارت سے بھی وابستہ رہے۔ احمد ندیم قاسمی کی شاعری میں غزلیں اقبال اور فیض کی شعری روایت کے بعد بہت اہم گردانی جاتی ہیں۔ انھوں نے افسانوی ادب میں لا زوال کہانیاں تحریر کی ہیں۔ ان کی تنقیدی اور سوانحی تحریریں بھی اُردو ادب میں حوالے کے طور پر یاد رکھی جائیں گی۔ انھوں نے بچوں کے لیے بھی گراں قدر ادب تخلیق کیا۔ اُن کے کالم ہماری معاشرتی زندگی کے بھر پور عکاس ہیں اور اُن سے پاکستان کی معاشرت اور سیاست کی تاریخ لکھی جا سکتی ہے۔ ‘‘(پاکستانی ادب کے معمار، پیش نامہ، صفحہ 7تا8، اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد، 2009ء)

  احمد ندیمؔ قاسمی کی ولادت 20؍نومبر1916ء کو غیر منقسم ہندوستان کے گاؤں انگہ، وادیء سون سکیسر، ضلع خوشاب، پنجاب کے ایک  قبیلہ اعوان میں ہوئی۔ ان کا اصل نام احمد شاہ تھا۔ اپنے پردادا محمد قاسم کی رعایت سے ’’قاسمی‘‘ کہلائے۔ اِن کے والد پیر غلام نبی اور والدہ غلام بیوی تھیں۔ احمد ندیم قاسمی کی تعلیم کی ابتدا قرآن ِ کریم سے گاؤں کی مسجد سے ہوئی1931ء میں انھوں نے گورنمنٹ ہائی اسکول شیخو پورہ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ 1933ء میں انٹر میڈیٹ اور 1935ء میں پنجاب یونی ورسٹی سے بی۔ اے کا امتحان پاس کیا۔ احمد ندیم قاسمی انگریزی سے ایم۔ اے کرنا چاہتے تھے لیکن مالی حالت خستہ ہونے کی وجہ سے گورنمنٹ کالج لاہور کی فیس ادا نہ کر سکے اور ایم۔ اے کرنے کی حسرت دل میں ہی رہ گئی۔ 1936ء میں انھوں نے اپنا پہلا افسانہ ’’بد نصیب بت تراش‘‘تخلیق کیا جو رسالہ’’ رومان ‘‘میں شائع ہوا۔ احمد ندیم ؔ قاسمی نے اپنی پہلی ملازمت 1936ء میں ریفارمز کمشنر لاہور میں بہ طور محرر کی۔ اس کے بعد انھوں نے مختلف شعبہ ذات میں خدمات انجام دیں۔ ملتان میں ایکسائز سب انسپیکٹر رہے، ریڈیو پاکستان پیشاور میں بہ حیثیت اسکرپٹ رائٹر بھی کام کیا، (خیال رہے کہ ادارہ تقسیمِ ہند سے قبل آل انڈیا ریڈیو کا حصّہ تھا)’’بزم اقبال‘‘ کے اعزازی سکریٹری بھی رہے اور مجلس ِ ترقی ء ادب، لاہور کے ڈائریکٹرکے عہدے پر بھی خدمات انجام دیں۔ صحافت میں دل چسپی ہونے کے سبب ’’تہذیب ِ نسواں ‘‘اور’’ پھول‘‘نامی جریدوں کے ادارت کے فرائض بھی انجام دیے۔ اس کے بعد حاجرہ مسرور اور خدیجہ مستور کے ساتھ مل کر ’’نقوش‘‘ کی ادارت بھی سنبھالی۔ اس کے علاوہ ’’ادبِ لطیف‘‘، ’’سویرا‘‘، ’’سحر‘‘، ’’امروز‘‘، ’’اقبال‘‘، ’’صحیفہ‘‘اور رسالہ ’’فنون ‘‘ (یہ ان کاذاتی رسالہ تھا۔ 1963ء میں اس کا اجرا کیا گیا)میں بھی اپنی کار ہائے نمایاں خدمات دیں۔ احمد ندیم ؔقاسمی پر حکومتِ پاکستان کا عتاب کئی بار ٹوٹا۔ حکومتِ پاکستان نے قاسمی صاحب کو SAFTY ACTکے تحت 1951ء اور1959ء میں گرفتار بھی کیا۔

   اپنی تمام تر مصروفیات کے با وجود قاسمی صاحب نے اپنے قلم کے جوہر اُردو ادب کی ہر اصناف میں دکھائے۔ قاسمی صاحب نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز ’’نثری ادب‘‘سے کیاتھا۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ’’چوپال‘‘1939ء میں منظرِ عام پر آیا تھا۔ اس کے بعد1941ء میں ’’بگولے‘‘، 1942ء میں ’’طلوع و غروب‘‘، 1943ء میں ’’گرداب‘‘، 1944ء میں ’’سیلاب‘‘، 1945ء میں ’’آنچل‘‘، 1946ء میں ’’آبلے‘‘، 1948ء میں ’’آس پاس‘‘، 1949ء میں ’’درو دیوار‘‘، 1952ء میں ’’سنّاٹا‘‘، 1955ء میں ’’بازارِ حیات‘‘، 1959ء میں ’’برگِ حنا‘‘، 1961ء میں سیلاب و گرداب‘‘، 1963ء میں ’’ گھر سے گھر تک‘‘1973ء میں ’’ کپاس کا پھول‘‘، 1980ء میں ’’نیلا پتھر‘‘، 1995ء میں ’’کوہ و پیما‘‘، 2007ء میں ’’پت چھڑ‘‘ (افسانے اور ناولٹ) نے شائع ہو کر قبولِ عام کی نئی منازل طے کیں۔

   احمد ندیمؔ قاسمی نے شاعری کے میدان میں قدم مولانا محمد علی جوہر کی وفات پر نظم لکھ کر رکھا۔ اس نظم کی بہت پذیرائی ہوئی۔ یہ نظم روز نامہ ’’سیاست‘‘ میں شائع ہوئی۔ شاعری میں ان کے 12شعری مجموعے شائع ہوئے۔ 1941ء میں ’’دھڑکنیں ‘‘، 1944ء میں ’’رم جھم‘‘، 1946ء میں ’’جلال و جمال ‘‘، 1953ء میں ’’شعلہ و گل‘‘، 1963ء میں ’’دستِ وفا‘‘، 1976ء میں ’’محیط‘‘، 1979ء میں ’’دوام‘‘، 1988ء میں ’’لوحِ خاک‘‘، 1992ء میں ’’جمال‘‘(نعتیہ)، 1995ء میں ’’بسیط‘‘، 2006ء میں ’’ارض و سما‘‘اور 2007ء میں حمد، نعت، دعا، سلام کا مجموعہ ’’انوار جمال‘‘ منظرِ عام پر آیا۔ اُردو ادب کی بیش بہا ادبی خدمات دینے کے بعداپنے آخری ایام میں احمد ندیم ؔ قاسمی استھما کے مرض میں مبتلا ہو گئے تھے۔ 10؍جولائی 2006ء کی صبح برّ ِ صغیر کا یہ عظیم شاعر اور فن کا اس دارِ فانی سے ہمیشہ کے لیے چلا گیا۔ احمد ندیم ؔ قاسمی کی تدفین شاہ مشائخ قبرستان، ملت چوک، سمن آباد، لاہور، پاکستان میں کی گئی۔ احمد ندیمؔ قاسمی کی موت پر انھیں کا یہ شعرخراجِ عقیدت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔

زندگی شمع کی مانند جلا تا ہوں ندیمؔ

بجھ تا جاؤں گا مگر صبح تو کر جاؤں گا

 احمد ندیم ؔقاسمی نے غزل، نظم، قطعہ، رباعی، حمد، نعت، سلام غرض یہ کہ ہر صنف ِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان کی شاعری میں شدید احساس، حالات کا صحیح تجزیہ، حیات انسانی کی حقیقی ترجمانی، خلوص و صداقت اور اسلوب کی پختگی نمایاں ہے۔ ان تمام خصوصیات نے مل کر ان کے کلام اور خیال کو نہ صرف ایک نیا رنگ وآہنگ بخشا، بل کہ اسے ادب اور شاعری کی معر اج و مناہیج پر پہنچا یا جہاں پر شعر ایک ابدی صورت اختیار کر لیتا ہے اور شاعری عوام و خواص دونوں کو متاثر کرتی ہے۔ قاسمی صاحب کی شاعری میں ہمیں انسانی احساس کی جوسمتیں اور جہتیں نظر آتیں ہیں وہ انتہائی نازک ہوتی ہیں۔ یہ احساس ہی ان کے تخیل کو قوت دیتا ہے۔ جب شاعر اوروں کے احساسات و جذبات کو اپنے اندر سمو کر اُسے غزل یا نظم کی شکل میں پیش کرتا ہے تو ایسی شاعری دل کو چھو لیتی ہے۔ احمد ندیم ؔقاسمی نے اپنی شاعری کے لیے مواد اپنے ارد گرد سے لیا۔ کیوں کہ ان کا بچپن خستہ حالی میں گزرا  تھا۔ پریشان حال لوگوں کے جذباتوں کی نمائندگی انھوں اپنی شاعری میں کی۔ اس غزل سے ان کے جذبات و احساساتاور میری بات کی تائید ضرور ہوجائے گی۔

انداز ہو بہو تری آواز پا کا تھا

دیکھا نکل کر گھر سے تو جھونکا ہوا کا تھا

اس حسن اتفاق پہ لٹ کر بھی شاد ہوں

تری رضا جو تھی وہ تقاضا وفا کا تھا

دل راکھ ہو چکا تو چمک اور بڑھ گئی

یہ تری یاد تھی کہ عمل کیمیا کا تھا

چھپ چھپ کے روؤں اور سر انجمن ہنسوں

مجھکو یہ مشورہ میرے درد آشنا کا تھا

ٹوٹا تو کتنے آئینہ خانوں پر زد پڑی

اٹکا ہوا گلے میں جو پتھر صدا کا تھا

حیران ہوں کہ دار سے کیسے بچا ندیمؔ

وہ شخص تو غریب و غیور انتہا کا تھا

       احمد ندیمؔ قاسمی جب شعر و ادب کی محفل میں شامل ہوئے تو اُس وقت اس محفل میں چاروں جانب ہنگامے بپا تھے۔ اُس دور میں اقبال ؔ کی شاعری کا جادو لوگوں کے سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ ایسے حالات میں احمد ندیمؔ قاسمی کے لیے شاعری کرنا کسی معجزے سے کم نہ تھا۔ لیکن قاسمی صاحب نے کسی منفی رویہ کو اپنانے کے بجائے انتہائی مثبت انداز میں اقبالؔ کے نقش پا پر چلنا پسند کیا۔ احمد ندیم ؔ قاسمی اقبالؔ کی شاعری کو پڑھ کر جوان ہوئے اور شاعری کے وآداب بھی کافی حد تک انھیں سے سیکھے۔ احمد ندیمؔ قاسمی نے اپنے مطالعہ کو وسعت بخشی۔ اقبالؔ کی مانند وہ بھی شاعری سے عوام کو پیغام دینا چاہتے تھے۔ انھوں نے اپنے شعری سرمائے سے اپنے خیالات کی ترسیل کی۔ پرو فیسر نورالحسن نقوی نے ان تمام باتوں کا احاطہ کرتے ہوئے لکھا۔

       ’’قاسمی کو نثر اور نظم دونوں پر یکساں قدرت حاصل ہے۔ افسانہ نگار ی میں بھی ان کا رتبہ بہت بلند ہے لیکن یہاں ان کی شاعری کے بارے میں گفتگو مقصود ہے۔ قاسمی کا مطالعہ بہت وسیع ہے۔ ان کے کلام پر سرسری نظر ڈالنے سے بھی یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔ ان کا شمار پیامی شاعروں میں ہے۔ لیکن ان کا کلام نثریت اور خطابت جیسے عیبوں سے پاک ہے۔ اس کا سبب یہ کہ انھوں نے غریبی کا درد خود سہا ہے۔ اس لیے ان کی حمایت میں جو کچھ کہتے ہیں محسوس کرکے کہتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ درد و اثر پیدا ہو جاتا ہے۔ شعری وسائل سے وہ بہت سلیقے کے ساتھ کام لیتے ہیں۔ ‘‘(تاریخ ادب اُردو، صفحہ220، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، 2011ء)

  جب احمد ندیم ؔ قاسمی ادبی اُفق پر طلوع ہوئے تھے، اُس وقت ادبی فضاؤں میں سجاد حیدر یلدرم، نیاز فتح پوری، اور اختر شیرانی کی رنگین مزاج مگر سطحیت زدہ رومانیت کا بول بالا ہر سوں تھا۔ ایسے میں احمد ندیمؔ قاسمی کا مولانا محمد علی جوہر کی شخصیت سے متاثر ہو کر اشعار کہنا اِس بات کی جانب اشارہ تھا کہ ندیمؔ قومی اور بین الاقوامی مصائب سے گہری واقفیت اور دل چسپی رکھتے تھے۔ اس جذبے نے آگے چل کر شعری اُفق پر خوش گوار اثرات مرتب کیے۔ وطنِ عزیز کی کے لیے ان کا دل دھڑکنے لگا۔ وطنِ عزیز کی مٹّی سے انھیں کتنا لگاؤ اور شغف تھا اس بات کا اندازہ ان کی اس نظم سے بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے۔

        میں روتا ہوں

        میں روتا ہوں

        اے ارض ِ وطن

       میں روتا ہوں

        المیوں کی تانبے طرح تپتی ہوئی زرد فصلوں کے آئینوں میں

        جب خود کو مقابل پاتا ہوں

        میں روتا ہوں

        میں جب بھی اکیلا ہوتا ہوں

        میں روتا ہوں

        اے ارضِ وطن میں روتا ہوں۔

        احمد ندیم قاسمی کی شعری جہت، فہم و ادراک پر تبصرہ کرتے ہوئے رفعت سروش رقم طراز ہیں۔

 ’’احمد ندیم قاسمی غزل اور نظم دونوں اصناف سخن میں مہارت رکھتے تھے۔ ان کے یہاں خیال کی گہرائی تھی۔ سوچ واضح تھی۔ انسان کی عظمت کے وہ قائل تھے وہ ترقی پسند تحریک کو ساتھ جوان ہوئے تھے۔ اس لیے اِ ن کے یہاں زندگی کے مسائل سے سروکار، بہتر زندگی کی جد و جہد اور عصری تہذیب کے لیے ناقدانہ رویہ ہے۔ ‘‘(ماہ نامہ اُردو دنیا، صفحہ 25، قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان، نئی دہلی، ستمبر2006ء)

  احمد ندیمؔ قاسمی نے اپنی شاعری میں ایک نئی حرارت اور صراحت پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ان کے کلام میں اُس عمر کا  ذکر بڑے سلیقے سے کیا گیا ہے جسے ماہرین ِ نفسیات نے طوفانی عمر قرار دیا ہے۔ اس عمر کو بنیاد بنا کر قاسمی صاحب نے جو کلام پیش کیا یا تخلیق کیا اس میں نیا پن اور بادِ صبا کا ایک تازہ جھونکا صر صر چلتا ہوا ہمیں محسوس ہوتا ہے۔ ایسے کلام کو پڑھ کر قاری یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ قاسمی صاحب کے پاس عہد جوانی کو ناپنے اور پرکھنے کا بادِ پیماں ہے۔ ویسے غور سے دیکھا جائے تو ہمیں یہ بات تسلیم کرنا ہی ہوگی کہ قاسمی صاحب عنفوانِ شباب کے تمام مراہل کو بہ خوبی جانتے اور پہچانتے ہیں۔ اپنی اس نظم میں قاسمی صاحب نے اپنے خیالات، احساسات اور جذبات کی ترجمانی بہ خوبی کی ہے۔ نظم ملاحظہ ہو۔

        شبنم آئینہ بدست آئی سرِ برگِ گلاب

        ایک معصوم کلی

        شاخساروں سے ہمک کر نکلی

        آئینہ دیکھ کے شرمائی، لجائی کانپی

        جھر جھری لے کے سنبھلنا چاہا

        لیکن احساس ِ جمال

        ایک کوندا ہے جو پہلے تو لپکتا ہی چلا جاتا ہے

        اور معصوم کلی

         کپکپاہٹ کے تسلسل سے چٹکنے پہ مجبور ہوئی

          چور ہوئی

          غنچہ تخلیق ہوا

          آئینہ چونک اُٹھا

 احمد ندیمؔ قاسمی نے مقامی سطح پر ہونے والے واقعات کو بھی اپنی شاعری میں پیش کیا۔ وہ اپنی بات کو ببانگ دُہل کہتے تھے۔ جب پاکستان کے سیاسی حالات بد سے بد تر ہو گئے اور وہاں پر امر جینسی نافذ کی گئی اور انسانی حقوق کی پامالی سرِ عام کی گئی تو ایسے سنگین اور نازک حالات و ماحول میں احمد ندیمؔ قاسمی نے بہ ذریعہ قلم فوجی حکمرانوں کا مقابلہ کیا۔ ایک غیرت منداور غیور ادیب ان پابندیوں کو کب تک برداشت کرتا۔ کیوں کہ احمد ندیمؔ قاسمی نے قلم پر لگائی گئی پابندی کو بہ ذاتِ خود جھیلا تھا۔ حکومتِ وقت کے خلاف لکھنے پر وہ دو مرتبہ جیل جا چکے تھے۔ لیکن ان کا قلم اس ظلم کے خلاف اور انسانیت کی بقا اور وجودکے لیے بول اُٹھا۔

        بولنے سے مجھے کیوں روکتے ہو

        بولنے دو کہ میرا بولنا در اصل گواہی ہے میرے ہونے کی

       تم نہیں بولنے دوگے تو میں سناٹے کی بولی میں ہی بول اُٹھوں گا

       میں تو بولوں گا

       نہ بولوں گا تو مر جاؤں گا

       بولنا ہی تو صرف ہے میرا

       کبھی اس نکتے پہ بھی غور کیا ہے تم نے

       کہ فرشتے بھی نہیں بولتے

        میں بولتا ہوں

        حق سے گفتار کی نعمت  فقط انساں کو ملی

        صرف وہ بولتا ہے

        صرف میں میں بولتا ہوں

        بولنے مجھ کو نہ دوگے تو میرے جسم کا ایک ایک مسام بول اُٹھے گا

        کہ جب بولنا منصب ہی فقط میرا ہے

         میں نہ بولوں گا تو کوئی بھی نہیں بولے گا

        اگر چہ احمد ندیم ؔ قاسمی کے اصل شاعرانہ جوہر ان کی نظموں میں نظر آتے ہیں لیکن انھوں نے غزلیں بھی ایسی کہی ہیں جو اس قدر مقبول ہوئیں کہ یہ ضرب المثل کا درجہ رکھتی ہیں۔ سچائی جس کا مسلک، دبے کچلے انسانوں سے جسے محبت ہو اور کرّہ ء ارض کی عظمت کا پرچم آسمانوں پر بھی بلند کرنے کا حوصلہ رکھنے والا شخص واقعی یہ کہنے کا حق رکھتا ہے کہ’’میرا ایک ایک لمحہ ایک ایک صدی ہے، ایک زمانہ ہے‘‘وہ موت کے منظر سے بھی زندگی کا لطف اٹھاتا ہے اور انسانیت کو ڈوب کر اُبھرنے والا سورج تصور کرتا ہے، ایسا شخص لوگوں کے دلوں میں حکمرانی کرتا ہے۔ یہ سچّے فن کار کی علا مت ہے۔ ادب کے تئیں یہ اس کی تڑپ ہے۔

       احمد ندیم ؔقاسمی کو جتنی مقبولیت شاعری میں تھی اُس سے کہیں زیادہ اُن کے افسانے بھی مقبول تھے۔ قاسمی صاحب کا اُردو افسانہ نگاری میں منفرد مقام و مرتبہ ہے۔ اُردو میں اِنھوں نے ایک سے بڑھ کر ایک افسانے تخلیق کیے۔ جو شاہ کار کے زمرے میں آتے ہیں۔ ان کے کئی افسانے کلاسیکل افسانوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ’’رئیس خانہ ‘‘، ’’گھر سے گھر تک ‘‘، ’’ہیرو شیما سے پہلے ہیرو شیما کے بعد‘‘، ’’مامتا‘‘، کپاس کا پھول ‘‘، ’’پرمیشر سنگھ ‘‘، ’’گنڈاسا‘‘، سناٹا‘‘، ’’چوپال‘‘، ’’وحشی ‘‘، ’’سلطان‘‘وغیرہ افسانے اس کی بہترین مثال ہیں۔ ان کے افسانوں میں اکثر دیہات کی منظر کشی دیکھنے کو ملتی ہے۔ پاکستان کی دیہاتی زندگی کے مسائل کو قاسمی صاحب نے مہذب طریقے سے قاری کے سامنے رکھا۔ اُردو افسانہ نگاری میں پریم چند، منٹو، بیدی، قراۃالعین حیدر، عصمت کے ساتھ ان کا شمار کیا جاتا ہے۔ افسانہ نگاری کی بدولت ہی انھیں ایک لیجینڈ کا درجہ دیا گیا۔ سید وقار عظیم نے احمدندیم قاسمی کی فن افسانہ نگاری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا۔

        ’’ندیم کی انفرادیت اور یگانگت بہ حیثیت انسان اور اس کی انفرادیت اور یگانگت بہ حیثیت فن کار، ترازو کے دونوں پلڑوں کو یوں ایک سطح پر لے آتی ہے کہ وہ انسان بھی عظیم تر ہی نظر آتا ہے اور فن کار بھی، اس کی وجہ میری اپنی نظر میں یہ ہے کہ ندیم جو باطن میں ہے وہ ظاہر میں بھی ہے اور جو اس کا ظاہر ہے اس کا باطن بھی ہے۔ کوئی مجھ سے ندیم کی زیر بحث افسانوں کا خلاصہ دو جملوں میں بیان کرنے کو کہے تو میں کہوں گا کہ ان کی کہانیاں زندگی کے زہر اور اس کے تریاق کی کہانیاں ہیں اوران کی کہانیاں انسانیت اور فن کی بہترین قدروں کی غیر واعظانہ تلقین کی کہانیاں ہیں۔ ‘‘(ندیم کے افسانے سناٹا کے بعد، صفحہ 270اور290’’ندیم نامہ‘‘(محمد طفیل اور بشیر موجد)لاہور، پاکستان، 1976ء)

 احمد ندیم قاسمی کی افسانہ نگاری، فن، مقام، ماحول، علاقائیت اور مرتبے کے بارے میں شمس الر حمٰن فاروقی لکھتے ہیں۔

  ’’میں نے قاسمی صاحب کے بہت سے افسانے اپنے زمانۂ نو جوانی میں پڑھے۔ بعض مجھے اچھے لگے، بعض نے مجھے اس لیے متاثر کیا کہ وہ اس روایتی خوبی سے معرا تھے جو احمد ندیم قاسمی کی خاص صفت بتائی جاتی ہے، یعنی پنجاب کے دیہات کی منظر کشی۔ ویسے مجھے یہ بات ہمیشہ نا مناسب لگی کہ افسانہ نگاروں کو اس طرح علاقوں میں بانٹ دیا جائے، کیوں کہ پھر ان کی شخصیت انھی علاقوں کے حوالوں سے متعارف اور مذکور ہوتی ہے۔ بیدی صاحب جیسے بڑے افسانہ نگار تو اس علاقائی پھندے سے بچ نکلتے ہیں اور بیدی صاحب یوں بھی اس قدر متنوع ہیں اور ان کے تنوع کا ہر رنگ اس قدر توجہ انگیز ہے کہ ان پر کوئی لیبل فٹ نہیں آتا۔ لیکن بلونت سنگھ، سہیل عظیم آبادی، احمد ندیم قاسمی جیسے عمدہ لیکن نسبتاً محدود افسانہ نگار نقصان میں رہتے ہیں۔ ‘‘(ماہ نامہ اُردو دنیا، صفحہ 9، قومی کونسل برائے فروغ اُردوزبان، نئی دہلی، ستمبر 2006ء)

    احمد ندیم قاسمی ایک نیک دل اور درد مند انسان تھے۔ اس بات کا علم ہمیں ان کے لکھے خطوط سے ہوتا ہے۔ ادبی رسائل و جرائد کی ادارت کرتے ہوئے ان کے تعلقات دنیا بھر کے ادیبوں سے ہو گئے تھے۔ ادیبوں کو خطوط لکھنا، پھران کے خطوط کا جواب دینا ادبی فرض کے ساتھ اخلاقی ذمہ داری بھی تھی۔ ان خطوط میں قاسمی صاحب کی ہمہ جہت شخصیت کے مختلف پہلو نمایاں ہوتے ہیں۔ نئی نسل کو ادب میں روشناس کرانے میں ان کا اہم کردار رہا۔ جن ادبی شخصیتوں کے نام قاسمی صاحب نے مکتوبات تحریر کیے ان میں سعادت حسن منٹو، انتظار حسین، عبادت بریلوی، شمس الرحمٰن فاروقی، مشفق خواجہ، خورشید ربانی پروفیسر فتح محمد ملک، خواجہ عبید الرحمٰن طارق، اختر شاہ جہاں پوری اور رشید حسن خاں کے اسما ء سرِ فہرست ہیں۔ احمد ندیم قاسمی نے اختر شاہ جہاں پوری کے نام 25؍مئی 2002ء کولکھے خط میں اپنے دل کے جذبات کو صفحہ قرطاس پر لکھ کر عام قاری کے دل میں خاص جگہ بنا لی ہے۔ کیوں کہ اس خط میں قاسمی صاحب نے محقق و مدون رشید حسن خاں کی صحت یابی کا جس انداز میں حال چال معلوم کیا ہے وہ قابل ِ تعریف اورانسانیت کا اعلا نمونہ ہے۔ ایک درد مند انسان ہی کسی بیمار آدمی کی عیادت اور بیمار پرشی کے لیے تڑپتا ہے۔ احمد ندیم قاسمی اپنے مکتوب میں لکھتے ہیں۔

      ’’  مکرمی اخترؔ صاحب

         سلام مسنون!

         آپ کا خط ملا۔ ممنون ہوں، غزلوں کا انتخاب فنون میں درج کرا دوں گا۔ انشاء اللہ۔

   میرے محترم و مکرم رشید حسن خاں کی علالت کے ذکر نے چکرا دیا، میں نے اور بیٹی منصورہ احمد نے فوراً فون پر رابطہ کی کوشش کی مگر معلوم ہوتا ہے خاں صاحب کا نمبر بدل چکا ہے۔ بمبئی میں عزیزی گلزار کو فون کیا کہ خاں صاحب کے بارے میں معلوم کریں۔ اُنھیں بھی ہم نے وہی فون نمبر دیا تھا۔ سو وہ بھی نا کام رہے۔ اب کراچی میں شبنم رومانی صاحب کو لکھا ہے اور آپ سے بھی درخواست کر رہا ہوں کہ مجھے فوراً محترم کی صحت کے بارے میں لکھیے اور ان کے نئے فون نمبر سے بھی مطلع کیجیے اور ان کی خدمتت میں میرا اور منصورہ بیٹی کا آداب پہنچا دیجیے۔

   مخلص /احمد ندیمؔ قاسمی

     مدیر فنون

 25؍مئی2002ء(ترسیل، مشاہیر کے خطوط بنام اخترؔ شاہ جہاں پوری، مرتب مدہوش بلگرامی، صفحہ 30، تخلیق کار پبلشرز، دہلی، 2009ء)

 مذکورہ خط کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ احمد ندیمؔ قاسمی ایک سادہ لوح، افراط و تفریط سے کوسوں دور، عیش و عشرت سے پرہیز کرنے والے، سب کچھ دوسروں کی خوشیوں پر قربان کرنے والے انسان تھے۔ اپنی ان باتوں کی تصدیق کے لیے میں قاسمی صاحب کی بیٹی ڈاکٹر ناہید قاسمی کا اعتراف نامہ تحریر کر رہا ہوں۔

 ’’ندیمؔ ؔ صاحب واقعی درویش صفت انسان تھے۔ وہ زندگی اور اُس کے حُسن کے قدر دان تو تھے لیکن انھیں زیادہ کا حرص اور عیش و آرام کا لالچ نہیں تھا، جب کہ وہ ضروریات ِ زندگی خود اپنے دستِ محنت سے پوری کر لیتے۔ وہ کبھی چھینتے نہیں تھے لیکن اپنا کچھ چھیننے بھی نہیں دیتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ اپنی مرضی سے جتنا چاہا بانٹ دیا۔ وہ اُن کا قیمتی وقت ہی کیوں نہ تھا، کیوں کہ اُن کا پختہ یقین اس میں تھا کہ سکھ سب میں برابر تقسیم ہونا چاہیئں۔ ‘‘(احمد ندیمؔ قاسمی، شخصیت اور فن، ڈاکٹر ناہید قاسمی، صفحہ14، اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد، 2009ء)

تبصرے بند ہیں۔