اختر مسلمی: فکر و فن

ڈاکٹر فیاض احمد

(یکم جنوری ۱۹۲۸۔ ۲۵ جون ۱۹۸۹ )

کشادہ پیشانی، پیشانی پر سجدوں کا چمکتا ہوا نشان، اللہ کے نور سے منور چہرہ، چشمے کے پیچھے سے گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی چمکتی آنکھیں، میانہ قد، گندمی رنگ اور چہرے پر متانت و سنجیدگی کے ساتھ ہی زمانے کے پیچ و خم کے آثار نمایاں۔ یہ تھے اختر مسلمی صاحب جن کو ان کی عمر کے آخری پڑاو پر اور اپنے طالبعلمی کے دور میں مدرسۃالاصلاح پرکئی باردیکھنے اور سننے کا اتفاق ہوا، لیکن کبھی ملاقات اور بالمشافہ گفتگوکی ہمت یا ضرورت نہ ہوئی اس لئے کہ بچپن کا زمانہ تھا، کھیل کود سے رغبت تھی، شعر و ادب سے دلچسپی تھی نہ شوق، غزل کا معنی و مطلب پتہ تھا نہ تغزل کا ادراک و شعور۔ اس کے باوجود جب کبھی اختر مسلمی صاحب مدرسہ تشریف لاتے اور غزل سناتے تو لا شعوری طور پر انھیں سننے کا شوق ضرور ہوتا تھا۔ اب پتہ نہیں یہ ان کی آواز کا جادو تھا یاکلام کی اثر آفرینی ؟ ہم انہیں سنتے ضرور تھے۔ اسی دورمیں سنے ہوئے ان کے دو اشعار آج تک ذہن کے کسی گوشے میں محفوظ ہیں جو آج بھی اکثر زبان پر آ جاتے ہیں۔

ساری دنیا جو خفا ہے تو خفا رہنے دو

میرے ہونٹوں پہ مگر حق کی صدا رہنے دو
شاید آ جائے کوئی نورِ بصیرت کی کرن 

ذہن کا ا پنے دریچہ تو کھلا رہنے دو

مذکورہ دونوں اشعار اختر مسلمی کی پوری شخصیت اور ان کے فکر و فن کی بھر پور ترجمانی کرتے ہیں اور ان کی پوری شاعری انھیں دو اشعار کی تفہیم و تشریح ہے۔ کھلے ذہن کے ساتھ کسی مصلحت کا شکار ہوئے بغیر بر ملا حق گوئی اور قدیم و جدید کا امتزاج ہی اختر مسلمی کا طرہ امتیاز ہے اورتمام عمراسی اصول پر کار بند رہتے ہوئے خدا سے یہی دعا کرتے رہے کہ

تضادِ قول و عمل میں نہ کوئی رہ جائے

مرے خدا مرے فن کی طرح سنوار مجھے 

اختر مسلمی کی کلیات کے مطالعہ کے بعد اب جا کر یہ حقیقت وا شگاف ہوئی کہ دور طالبعلمی میں ان کی غزل سننے کی وجہ ان کے حسن ترنم کے ساتھ ساتھ ان کا رنگ تغزل بھی تھا جو سامع کو دست بستہ بیٹھنے اور ہمہ تن گوش ہونے پر مجبور کر دیتا تھا۔راقم السطور بھی شاید اسی وجہ سے ان کی محفلوں میں وقتا فوقتا دور سے ہی سہی اور کچھ نہ سمجھنے کے باوجود انہیں دیکھتا اور سنتا رہا۔

اختر مسلمی کا آبائی وطن علامہ حمیدالدین فراہی کا گاوُں پھریہا ( جس کی نسبت سے علامہ اپنے نام کے ساتھ ’’ فراہی ‘‘لکھا کرتے تھے )، ثانوی یا پیدائشی وطن مرزا احسان بیگ کی سر زمین مسلم پٹی تھا جس کی نسبت سے اختر صاحب ’’ مسلمی‘‘ لکھتے تھے جبکہ وطن ثالث سرائمیر تھا جہاں رشید انصاری، ناطق اعظمی، ایاز اعظمی، اور اشتیاق راشد وغیرہ ان کے ہم مشرب و ہم مذہب تھے۔ مزید براں مدرسۃالاصلاح کا علمی فیضان۔ اختر مسلمی کی شخصیت در حقیقت انھیں عناصر اربعہ کا مجموعہ تھی۔ یعنی پھریہا سے فکر فراہی، مسلم پٹی سے مرزا احسان بیگ کا ذوق شاعری، مدرسۃالاصلاح کا علمی فیضان اور سرائمیر کی شعری نشستوں اور ادبی محفلوں کو یکجا کرنے کے بعد جو تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے اسی کا نام اختر مسلمی ہے۔ اس تصویر کی نوک پلک سنوارنے اور اس میں تغزل کا رنگ بھرنے میں علامہ اقبال سہیل نے اپنا خون جگر صرف کیا اور اس ذرے کو نیر اعظم بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اقبال سہیل کی شفقتوں اور ان کی رہنمائی کے طفیل خود اقبال سہیل  کے اس مصرعہ

’’ جو ذرہ یہاں سے اٹھتا ہے نیر اعظم ہوتا ہے ‘ِ ِ‘

کے مصداق اختر مسلمی بہت جلد آسمان شعر و ادب پر نیر اعظم بن کر نمودار ہوئے اور علم و ادب کی دنیا میں سرائمیر کی شناخت بن گئے۔ بقول قمر اعظمی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’ سرائمیر کی جب بھی ادبی تاریخ لکھی جائے گی تو شبلی اور سہیل کا جو سلسلہ ہے  اس سلسلۃالذھب کی ایک کڑی اختر ہوں گے۔ ‘‘

قمر اعظمی کی اس رائے سے اتفاق کرتے ہوئے بلا شبہ یہ کہا جا سکتا ہے کی سرائمیر کی ادبی، تہذیبی اور ثقافتی تاریخ میں اختر مسلمی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔اور بیرونی دنیا میں سرائمیر کی شناخت اس کے تعلیمی اداروں کے ساتھ ہی اختر مسلمی کی بھی رہین منت ہے۔بقول رئیس الشاکری۔ ۔۔۔۔۔۔۔

’’ سرائمیر کی ادبی تاریخ جب بھی مرتب ہو گی، اقبال سہیل کے اس چہیتے شاگرد یعنی  اقلیم غزل کے شاہزادے اختر مسلمی کو نظر انداز نہ کر سکے گی ‘‘

بلا شبہ مدرسۃالاصلاح کا پروردہ، فکر فراہی کا نمائندہ، اقبال سہیل کا چہیتا اور سرائمیر کا باشندہ اختر مسلمی نام کا یہ روشن ستارہ زندگی کے آخری وقت تک سب کی توجہ کا مرکز رہا اور ایک دنیا اس کی شیدائی رہی۔ بقول قمر اعظمی۔۔۔۔۔

’’ تیس سال سے برابر ہندوستان بالخصوص مشرقی یو پی اعظم گڑھ کے مشاعروں کی جان،  دلوں کی دھڑکن اختر مسلمی کو کون بھول سکتا ہے ‘‘

اختر مسلمی نے جس دور میں شاعری کا آغاز کیا اس وقت ترقی پسند تحریک اپنے بام عروج پر تھی۔ ہر چھوٹا بڑا شاعر و ادیب اس سے وابستگی کو باعث فخر سمجھتا تھا۔ لوگ دیوانہ وار اس کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔ اس تحریک سے زبان و ادب کو فائدہ ہوا یا نقصان ؟ یہ ایک الگ مسئلہ ہے۔ لیکن اس کی وجہ سے صنف غزل کوضرو ر نقصان پہنچا اور روایتی غزل کی سادگی، اس کا حسن و جمال، اس کا سوز و سازسب اس تحریک کے شور میں گم ہو گیا۔ ادیبوں کے فکری زاویے بدل گئے۔ مذہب بیزاری، فحاشی اورعریانیت ادب کا حصہ بن گئے۔ ادب کے تقدس اور فکر و فن کی عظمت پر آنچ آنے لگی۔ سعادت حسن منٹو اور عصمت چغتائی جیسے ادیبوں نے ادب کا مفہوم ہی بدل دیا۔ ’ لحاف ‘ اور ’ کالی شلوار ‘ جیسی تخلیقات کا شمار ا دب عالیہ میں ہونے لگا۔ سر سید کی اردو تحریک اور حالی و شبلی کی اصلاحی کوشسیں مخصوص حلقے تک محدود ہو کر رہ گئیں۔ اس پر آشوب دور میں بہت سے شعراء نے ادب کے اس گرتے ہوئے معیار پر نہ صرف تشویش کا اظہار کیا بلکہ ادب کے نام پر فحاشی، ذہنی بے راہ روی اور فکری آوارگی سے نئی نسلوں کو بچانے کے لئے صالح اقدار و روایات پر مبنی ادب بھی تخلیق کیا۔ ملک کے تمام صوبوں اور حصوں کے سنجیدہ شعراء نے اس کار خیر میں حصہ لیا۔ مدرسۃ الاصلاح کے سپوتوں نے بھی زبان وادب کی اصلاح میں اہم کردار ادا کیا جن سے اکثر لوگ یا تو ناواقف ہیں یا تجاہل عارفانہ کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر انور اعظمی، قمر الدین قمر اعظمی، احمد محمود کوثر اعظمی، اختر مسلمی وغیرہ جیسے شعراء کی ایک طویل فہرست ہے جن پر باقاعدہ ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔

بہر کیف۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مدرسۃالاصلاح کے ان شعراء میں اختر مسلمی سب سے خوش نصیب شاعر ہیں جن کو اول تو ان کے ورثہ نے زندہ رکھا دوسرے مدرسۃ الاصلاح کے ترانہ  کے خالق ہونے کی وجہ سے بیرونی دنیا میں نہ سہی کم از کم مدرسۃ الاصلاح کے فارغین اورا س کے بہی خواہان کے دائرہٗ اثر میں تو اس ترانہ کے حوالے سے انتہائی مقبول تھے اور آج تک ان کی بہت سی باتیں اوریادیں لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہیں۔

اختر مسلمی اسلامی اقدار و روایات کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ مدرسۃالاصلاح کے پروردہ تھے اس لئے ان کی شاعری بھی ’’ شاعری برائے شاعری ‘‘کے بجائے ’’ شاعری برائے اصلاح ‘‘ کا نمونہ ہے۔ انھوں نے شاعری کو محض تفریح طبع کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ  شاعری کے توسط سے فرد اور معاشرہ دونوں کی اصلاح کو مطمح نظر رکھا۔ جدیدیت کی آندھی میں بھی روایت و ہدایت کے چراغ کو روشن رکھا۔ منفی نظریات کے بجائے مثبت اقدار و روایات کے فروغ پر ساری توانائی صرف کی۔ ان کا یہ فکری میلان مدرسۃالاصلاح کی تعلیم و تربیت کا نتیجہ ہے جبکہ ان کا فن قدیم اساتذہ سے استفادہ کے ساتھ ساتھ ان کے استاد علامہ اقبال سہیل کی شاگردی کا ثمرہ ہے جس میں ان کا اپنا انداز تخیل اور نظریہُ فکر بھی شامل ہے جو ان کے فکر و فن کو پختگی اور بالیدگی عطا کرتا ہے بقول نجم الدین اصلاحی۔۔۔۔

’’ موج نسیم کے اندر زبان کی لطافت اور تخیلات کی پاکیزگی میں اختر مسلمی صاحب اپنے استاد علامہ سہیل مرحوم کی صحیح عکاسی کرتے نظر آتے ہیں اور کامیاب ہیں ‘‘

اختر مسلمی کی شخصیت اور ان کا فکر و فن دونوں ’’انما الشعراء ھم الغاوُن ‘‘ کے بجائے ’’الا الذین آمنوا ‘‘ کا نمونہ ہے وہ
ذ اتی زندگی سے لیکر میدان شاعری تک ہر جگہ ’’امر بالمعروف ونہی عن المنکر ‘‘ کے اصول پر کار بند رہے۔ وہ صرف نام کے مسلمی نہیں بلکہ اسم با مسمی سراپا مسلم ہیں۔ فکری و فنی ہر لحاظ سے انھوں نے اس کا ثبوت دیا ہے۔ ان کا ظاہر و باطن ایک جیسا ہے۔ یہی وجہ ہے کی ان کی شاعری میں امرا ء ا لقیس کی آوارگی نہیں بلکہ لبید ابن ربیعہ کی سادگی اور حسان ابن ثابت کی اسلام پسندی نمایاں طور سے محسوس کی جا سکتی ہے۔اور یہی مذہبی رجحان اور حق گوئی و بے باکی ان کی شاعری کا نمایاں عنصر ہے جس کا بین ثبوت ان کی غزلوں کے ساتھ ساتھ ان کی کلیات میں شامل خوبصورت حمد، نعت اور مناجات ہیں جو صرف لفظی بازیگری نہیں بلکہ ان کے ذہنی و فکری رجحانات کا آیئنہ ہیں۔

ا ختر مسلمی نے اسلامی تعلیمات اور اخلاقی اقدار و روایات کی روشنی میں فن کی عظمت اور اس کے تقدس کو برقرار رکھا اور ترقی پسند تحریک، جدیدیت و ما بعد جدیدیت کسی کو لائق اعتناء نہ سمجھا۔ پورے اعتماد کے ساتھ لیلائے غزل کو اس کے روایتی رنگ و آہنگ اور حسن و جمال کے ساتھ سینے سے لگائے رکھا۔ اس کی آ برو کی حفاظت کے ساتھ ہی اس کے خد و خال کو بھی محفوظ رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں فطری لطافت و تازگی کے ساتھ ساتھ زندگی کی دللشی، جذبات کی پاکیزگی، خیالات کی بلندی اور غزل کا بانکپن بھی موجود ہے۔ ادبی لسانیات کے ساتھ ہی شعری جمالیات بھی نمایاں ہے۔ غم دوراں کی بات ہو یا غم جاناں کا تذکرہ اختر مسلمی نے ہر جگہ غزل کے روایتی حسن اور اس کے تغزل کو برقرار رکھا ہے اور تما م عمر وہ صرف غزل کی زلف گرہ گیر کے اسیر رہے۔

اصناف سخن یوں تو سبھی خوب ہیں اختر ؔ 

جو صنف غزل میں ہے مزہ اور ہی کچھ ہے

اختر مسلمی بنیادی طور سے خالص غزل کے شاعر ہیں۔ اور قدیم روایتی اسلوب سے اپنی غزلوں کو مرصع کیا ہے۔ اس معاملے میں وہ قدامت پسند ضرور ہیں مگر قدامت پرست ہرگز نہیں۔ وہ ترقی پسند بھی ہیں لیکن ترقی پسند تحریک کے گرویدہ نہیں بلکہ انھوں نے اپنے ذوق سلیم اور ’’ خذ ما صفا و دع ما کدر ‘‘ کی روشنی میں قدیم و جدید کی تمام خرابیوں سے گریز کرتے ہوئے دونوں کی خوبیوں کو اپنایا ہے

رنگ جدید روئے غزل سے عیاں رہے

لیکن غزل کی روح غزل میں نہاں رہے

اس طرح۔قدیم و جدید کے امتزاج سے انھوں نے غزل کی ایک نئی صہباء تیار کی ہے جس میں محبوب سے گفتگو کے ساتھ ہی زندگی کے تلخ حقائق و واقعات کو بلا کم و کاست غزل کا موضوع بنایا ہے۔ محبوب کی بے وفائی، ھجر کا درد، وصال کی لذت کے ساتھ ہی سیاسی کشمکش، سماجی انتشار، معاشی بحران جیسے تمام مسائل حیات کو بھر پور تغزل کے ساتھ غزل میں پیش کیا ہے۔زبان و بیان کی سادگی کے باوجود ان کی غزلوں میں شوخی اور تغزل کا جو رنگ ہے وہ کہیں کہیں خدائے سخن میر تقی میر کی یاد تازہ کر دیتا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

اس نظر سے جو چھلکے گلابی 

میکشی بھول جائیں شرابی

لوگ یوں راز تعلق پا گئے 

تذکرہ میرا تھا، تم شرما گئے

کیا ستم ہے، آئے، بیٹھے، چل دئے

تم تو آ کر اور بھی تڑپا گئے

وہیں دوسری طرف زندگی کے گوناگوں مسائل،حالات کی ستم ظریفی، اقتصادی بد حالی، زمانے کی ناقدری اور احباب کی بے وفائی کے باعث لا شعوری طور پر ان کی شاعری میں یاسیت بھی در آئی ہے اور ان کی غزلوں میں جا بجا فانی کا رنگ بھی نمایاں طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے

درددل، زخم جگر، سوز نہاں، اشک رواں 

تو سلامت ہے تو کس شےُ کی کمی ہے اے دوست

کون سے وقت میں اخترؔ کو سہارا دو گے

اب تو امید بھی دم توڑ چکی ہے اے دوست 

اختر مسلمی کی پوری شاعری ان کی ذاتی زندگی کے نشیب و فراز کی داستان ہے۔ تمام عمراقتصادی بد حالی اور معاشی پریشانیوں کے باوجود ذاتی درد و کرب کو منظر عام پر لانے کے بجائے اندر ہی اندر تمام درد کو انگیز کرتے رہے۔ اسی درد کو چھپانے کے لئے اختر مسلمی نے غزل کا سہارا لیا اور تغزل کے پردے میں ہر زخم کو پھول بنا کر پیش کیا۔ اس طرح غم جاناں و غم دوراں کے امتزاج سے وہ ادب تخلیق کیا جو زندگی کے ہر موڑ پر یاس و حرماں نصیبی کے باوجود زندگی جینے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔

ہائے اس چشم فسوں ساز کا عالم اے دوست

راحت دیدہُ و دل بھی ہے دل آزار بھی ہے
کیا کہیں اخترِؔ برباد کا عالم کہ اسے 

فکرِ دنیا بھی ہے اور عشق کا آزار بھی ہے

یہی عشق کا آزار ان کے لئے باعث سکون بھی تھا۔ان کے جذبے کی شدت اور ان کا وفور شوق زندگی کی ہر مشکل کو آسان کرتا گیا جس کی روشنی میں انھوں نے زندگی اور شاعری کے تمام مراحل طے کئے۔ عشق کے اسی آزار نے، محبت کے اسی درد نے انھیں فلسفہُ حیات سے روشناس کرایا۔ انھوں نے خرد کو نہیں جنوں کو اپنا راہنما کیا۔ اور ہر درد کو مشیت ایزدی سمجھتے رہے۔اور خوشی کے ساتھ غم کو بھی زندگی کا جزو لا ینفک مان کر انگیز کرتے رہے۔

خوشی ہی شرط نہیں لطف زندگی کے لئے

متاعِ غم بھی ضروری ہے آدمی کے لئے
کیوں نہ آساں ہو رہِ عشق کہ میرے ہمراہ

جذبہُ قیس بھی ہے ہمتِ فرہاد بھی ہے

اختر مسلمی درد کو دوا کرنے کے ہنر سے واقف تھے۔ وہ درد کی شدت سے چیختے نہیں بلکہ زیرِ لب مسکراتے ہیں۔ ایسی مسکراہٹ جو درد کے ساتھ درد دینے والے کو بھی شرمندہ کر دے۔ در حقیقت زیرِ لب مسکرانے کا یہ ہنر آدمیت کی معراج ہے جس کو یہ ہنر آتا ہے وہ صحراء کو بھی گلستاں کر لیتا ہے، زندگی کی تلخیوں کو بھی خوشگوار بنا لیتا ہے، دکھ درد کی وادیوں سے ہنستا مسکراتا گزر جاتا ہے محبوب کی ستم شعاری کو اس کی ادا سمجھتا ہے۔ اختر مسلمی نے بھی اسی ہنر کے سہارے زندگی کو گلزار بنائے رکھا۔ اور دنیا کے ہر ستم کو چرخ کہن سے منسوب کر کے اہلِ ستم کو پشیمانی کا موقع تک نہ دیا

کر دیئے سارے ستم چرخ کہن سے منسوب 

مجھ سے دیکھا نہ گیا ان کا پشیماں ہونا

موجِ خونِ دلِ صد چاک سلامت اختر

کیا بڑی بات ہے زنداں کا گلستاں ہونا 

شاعر جس سماج میں رہتا ہے اس سماج کی اچھائیوں اور برائیوں سے بے خبر نہیں رہ سکتا۔ اگر وہ بے خبر رہتا ہے تو حقائق پر مبنی اچھی شاعری اور اچھا ادب تخلیق نہیں کر سکتا۔ اس لیے کہ سچی شاعری اور اچھے ادب کی جڑیں اسی سماج میں پیوست ہوتی ہیں اور اس کے برگ و بار، اس کے مواد و موضوعات اسی سماج اور معاشرے سے ماخوذ ہوتے ہیں۔ کہانی کا ہر کردار اسی سماج کا حصہ ہوتا ہے۔ غزل کا ہر موضوع اسی معاشرے کا قرض ہوتا ہے جسے شاعر بصورتِ شعر ادا کر رہا ہوتا ہے اس لیے کہ شاعر اور ادیب اسی سماج کا ایک حساس فرد، اسی معاشرے کا ایک ذمہ دار شہری ہوتا ہے۔ اختر مسلمی نے بھی ایک ذمہ دار فرد کی حیثیت سے اپنے گرد و پیش پر گہری نظر رکھی ہے۔ ان کا مطالعہ عمیق اور مشاہدہ انتہائی وسیع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ صرف لب و رخسار، گل و بلبل، حسن و عشق اور ھجر و وصال کی بات نہیں کرتے بلکہ زندگی کی تلخیو ں، سماج کے مسائل، انسانی اقدار و روایات، اخلاقی تعلیمات اور وقت کے نشیب و فراز کے ساتھ ساتھ انسانی رشتوں کی اتھل پتھل، خاندانی چپقلش،غربت وافلاس میں رنگ بدلتے رشتوں، خود غرضی پر مبنی تعلقات اور مادیت پرستی جیسے تمام مسائل اور موضوعات کو غزل میں پیش کیا ہے جو تھوڑی دیر کے لئے ہی سہی قاری کے ذہن کو جھنجھوڑتے اور غور و فکر پر مجبور کرتے ہیں

اپنوں نے وہ سلوک کیا مجھ سے دوستو

اغیار کے ستم بھی فراموش ہو گئے

نہ جانے حشر کا میداں ہے یہ، کہ دنیا ہے

جسے بھی دیکھئے تنہا دکھائی دیتا ہے

کس قدر انوکھا ہے شیوہ اہلِ دنیا کا 

میٹھی میٹھی باتوں میں تلخیاں دبی رکھنا 

اپنے وسیع مشاہدے کی بنیاد پر اختر مسلمی نے سماج کے ہر طبقے پر بڑی گہری نظر رکھی ہے۔اور سماج کے ہر ذ مہ د ار فرد کواس کی خامیوں اور کوتاہیوں کا احساس دلایا ہے۔خصوصا ان افراد کو اپنا جائزہ لینے کی دعوت دی ہے جن کے ظاہر و باطن میں واضح تضاد موجود ہے۔ ان نام نہاد مذہبی ٹھیکیداروں اور زہد و تقوی کی نمائش کرنے والے لوگوں کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے جن کا بیشتر وقت تو نمائشی تبلیغ میں گزرتا ہے لیکن حقوق العباد کو دانستہ یا غیر دانستہ کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ سفید پوشی کی آڑ میں سارے سیاہ کارنامے انجام دیتے رہتے ہیں۔ ان کو کبھی براہ راست تو کہیں اشاروں کنایوں میں خود احتسابی کی دعوت دی ہے۔

یہ اعتمادِ عبادت بھی خوب ہے زاہد

خدا تو خوش ہے خفا ہیں بلا سے ہمسائے
ہیں ترے دل کی طرح داغ مرے دامن پر

دل مگر صاف ہے ناصح ترے دامن کی طرح
میں تو پوجتا ہوں کسی بت کو بت سمجھ کر 

تمہیں سابقہ پڑے گا تو اسے خدا کہو گے
دیکھا اتر کے دل میں تو سب بے ضمیر تھے 

چہرے لگائے یوں تو بہت پارسا ملے
کب اہلِ کفر کی پروا ہے واعظِ ناداں

تمہارے جیسے مسلماں سے ڈر لگے ہے مجھ

اختر مسلمی کی شاعری میں رومانی رنگ بھی نمایاں ہے جو قدیم روایتی شاعری سے ماخوذ ہونے کے باوجود انفرادیت کا حامل ہے۔ان  کی رومانی شاعری کی انفرایت ان کی زبان و بیان اور اسلوب کے ما سوا عشق میں ان کا تصور وحدانیت ہے۔ اس لئے کہ وہ صرف مذہبی اعتبار سے توحید کے قائل نہیں ہیں بلکہ محبوب سے عشق میں بھی وہ توحید کے پرستار ہیں۔ ان کے نزدیک محبت بھی ایمان کی طرح ہے اور اگر محبوب ایک سے زیادہ ہو جائے تو محبت کفر ہو جاتی ہے۔ در حقیقت محبت کی بنیاد ہی توحید ہے۔ اگر محبت میں توحید نہ ہو تو وہی محبت ہوس بن جاتی ہے جو صرف جسم تک محدود ہوتی ہے جبکہ حقیقی محبت یا عشق کی جڑیں روح میں پیوست ہوتی ہیں جو عاشق کو جسمانی لذت نہیں بلکہ روحانی سرور عطا کرتی ہیں۔ ہوس تو جانوروں میں بھی پائی جاتی ہے لیکن عشق صرف انسانوں کو ودیعت کیا گیا ہے۔یہ عشق بھی سب کے بس کا روگ نہیں۔ بقول میر تقی میرؔ

عشق اک میر ؔ بھاری پتھر ہے

کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے
۔۔۔۔۔۔

لیکن جب یہی انسان عرفان ذات سے ہمکنار ہوتا ہے تو اس کا عشق جنون بن جاتا ہے۔اس جنوں کے جوش میں انسان ہر ناممکن کو ممکن بنا لیتا ہے۔ بقول میر تقی میر

سب پہ جس بار نے گرانی کی

اس کو یہ ناتواں اٹھا لایا
۔۔۔۔۔۔

اختر مسلمی نے بھی ضعف و ناتوانی کے باوجود اس بار گراں کو دوش ناتواں پر تمام عمر اٹھائے رکھا۔ عشق کی پر پیچ راہوں سے ہوتے ہوئے آگہی و معرفت کی معراج تک پہنچے۔ بقول اختر مسلمی

مرے لئے تو سہل تر ہو گئی حق کی معرفت

زینہُ معرفت بنا عشق صنم کا سلسلہ

عشق کی معراج تک پہنچنے کے لئے عرفان ذات پہلا زینہ ہے۔ ’’من عرف نفسہ فقد عرف ربہ ‘‘ کے مصداق خود شناسی کے بغیر خدا شناسی حاصل نہیں ہو سکتی۔ عشق کی حقیقت اسی مذکورہ مقولے میں پوشیدہ ہے اختر مسلمی عشق کے اس نکتے سے بخوبی واقف تھے اورخودی و خود شناسی کی تمام صفات ان کے اندر موجود تھیں۔ عشق ان کے نزدیک کوئی مشغلہ یا شوق نہیں بلکہ ایک جنون تھا۔ اپنے استاد اقبال سہیل کی طرح انہیں بھی اپنے جذبہ عشق پر غرور کی حد تک اعتماد تھا۔

ہے ذوق طلب دل میں جو ترے کچھ اس کو بلند اتنا کر دے

تو جس کی تمنا کرتا ہے وہ تیری تمنا کر بیٹھے

میں اورکروں سجدہُ اغیار، ارے توبہ 

پیشانی فرشتوں نے مرے سامنے خم کی ہے

عشق میں توحید کا یہ نظریہ اور یہ تصور قدیم و جدید شاعری بھی میں مختلف انداز اور اسلوب میں ملتا ہے مثلا احمد فرازؔ کا یہ شعر
ہم محبت میں بھی توحید کے قائل ہیں فرازؔ * ایک ہی شخص کو محبوب بنائے رکھا۔

احمد فراز کے مذکورہ شعر میں کس قدر سچائی ہے اور احمد فراز اپنے محبوب کے تئیں کتنے سچے ہیں۔ فی الحال اس کی تائید یا تردید کی ضرورت نہیں۔ نہ ہی فی الحال اس پر بحث مقصود ہے۔ اس لئے یہ فسانہ پھر کبھی۔لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اس قسم کی رومانی شاعری قدیم و جدید ہر جگہ زیادہ تر محض تخیل پر مبنی لفاظی اور لن ترانی ر ہی ہے حقیقت سے ان کا دور کا واسطہ نہیں۔ رومانی شاعری در حقیقت تصوراتی دنیا کی سیر ہے اور شاعر تصورات میں گم ہو کر محبوب کے حسن و جمال، اس کے عادات و اطوار، اس کے ناز و انداز کو اس انداز سے بیان کرتا ہے گویا سب کچھ اس کے سامنے موجود ہے۔ بقول شاعر

تصورات کی دنیا عجیب دنیا ہے 

کہ میرے گھر سے تیرا گھر دکھائی دیتا ہے

اس طرح تصور ات میں کھو کرشاعر نہ صرف محبوب سے گفتگو کرتا ہے بلکہ بسا اوقات خیالی محبوبائیں بھی تخلیق کر لیتا ہے۔ جس کی  بہت سی مثالیں قدیم عربی شاعری کے ساتھ ساتھ اردو اور دیگر زبانوں کی شاعری میں بھی ملتی ہیں۔ عر بی شاعری میں امراء القیس جبکہ ا ردو شاعری میں شاعر رومان اختر شیرانی کی شاعری میں خیالی محبوباوُں کا تذکرہ سب سے زیادہ ملتا ہے۔ اختر شیرانی کی خیالی محبوباوُں (سلمی، عذرا، شیریں، لیلی، ریحانہ وغیرہ ) کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں تھا، نہ ہی وہ اس دنیا میں موجود تھیں صرف شاعر کا تخیل اور تصور تھا جو اسے ان کی محبت میں سرشار رکھتا تھا۔ یقیناًاسی قسم کی شاعری کی وجہ سے شعراء کے بارے میں قرآن میں کہا گیا ہے کہ ’’ انہم یقولون ما لا یفعلون ‘‘۔ لیکن جب ہم اختر مسلمی کی زندگی اور ان کی شاعری کا مطالعہ اور تجزیہ کرتے ہیں تو بلا شبہ ہم انہیں شعراء کی مذکورہ صف سے الگ حق گوئی و بے باکی کا نمونہ پاتے ہیں جو تصورات میں گم رہنے کے بجائے ہر جگہ حق بیانی سے کام لیتے ہیں۔ اختر مسلمی کا یہ تصور عشق اور عشق میں یہ نظریہُ توحید گر چہ نیا نہیں ہے لیکن ان کی استقامت، ان کا جذبہ، ان کا جنون، ان کے قول و فعل کی یکسانیت انہیں ہر قسم کی منافقت سے محفوظ رکھتی ہے۔ اور ان کی یہی صفات انہیں دیگر شعراء سے ممتاز کرتی ہیں۔

اختر مسلمی کے دل و دما غ پر تمام عمر ایک ہی محبوب کی اجارہ داری رہی۔ان کی جلوت و خلوت میں ہر جگہ ایک ہی محبوب جلوہ فگن رہا  وہ محبت میں بھی کفر و شرک کے مرتکب نہیں ہوئے۔ یہی ان کی رومانی شاعری کا طرہُ امتیاز ہے اور ان کا یہی جذبہُ توحید اور ان کا یہی نظریہُ عشق انہیں تصوف سے قریب کر دیتا ہے۔ان کا یہی عشق انہیں آگہی کی منزل سے روشناس کراتا ہے۔ اس جنوں خیز آگہی سے گزر کر ان کا لب و لہجہ اور غزل کا رنگ و آہنگ بھی تبدیل ہو جاتا ہے

جلا کے تری شمع آرزو اے دوست

ہر ایک چراغ تمنا بجھا دیا میں نے
کہاں جائیں چھوڑ کے ہم اسے کوئی اور اس کے سوا بھی ہے

وہی دردِ دل بھی ہے دوستو وہی دردِ دل کی دوا بھی ہے
مانگوں میں دردِ دل کی دوا کس سے اے خدا 

تیرے سوا جہاں میں کوئی دوسرا بھی ہے
نہ دنیا کے لائق نہ عقبی کے قابل

کہاں تیری محفل سے جائیں نکل کے

ان کا یہی تصور عشق، ان کی یہی معرفت، ان کی یہی دیوانگی، ان کا یہی وفور شوق اور محبوب کے تئیں ان کی یہی عقیدت انہیں ہر گام حوصلہ بخشتی رہی اور زندگی کی پر پیچ راہوں میں انکی رہنمائی کے ساتھ مسکرانے کا سلیقہ عطا کرتی رہی۔

مجھ کو منظور نہیں عشق کو رسوا کرن

ہے جگر چاک مگر لب پہ ہنسی ہے اے دوست

نہ گلہ مصیبتوں کا نہ شکایت ستم ہے

ترے عشق نے سکھایا مجھے غم میں مسکرانا 

اختر مسلمی کی رومانی شاعری میں کہیں بھی فحاشی یا سطحیت نہیں ہے بلکہ سنجیدگی و متانت سے بھر پور غنائیت سے آراستہ رومانی اسلوب قاری کو محبت کے خوشگوار احساس سے ہمکنار کرتا ہے اور جا بجا قاری کو اپنی آپ بیتی محسوس ہوتی ہے۔ان کی رومانی غزلوں میں شاعر رومان اختر شیرانی کی طرح مختلف محبوباوُں جیسے سلمی، عذرا، شیریں، لیلی وغیرہ وغیرہ کا برملا تذکرہ نہیں ملتا۔ نہ ہی امراء القیس کی طرح محبوب سے بوس و کنار کی رنگین داستان اور اس کے جسمانی اعضاء کی ساخت اور اس کی پیمائش کا بیجا تذکرہ ہے۔ بلکہ مذہب کی طرح عشق میں بھی توحید کے قائل اختر مسلمی کا اکلوتا محبوب ہر جگہ پردہُ خفاء میں رہتا ہے۔ اس کے باوجود اس کا حسن و جمال، اس کی شوخی و ظرافت، اس کی نزاکت و لطافت، اس کی صباحت و ملاحت، اس کی ادائیں و جفائیں سب کچھ پردہُ تغزل سے جھلکتی ہیں۔ اختر مسلمی کی رومانی شاعری میں میر کی شوخی، غالب کی ظرافت، مومن کی متانت اور فانی کی یاسیت کے ساتھ ساتھ ان کے استاد علامہ اقبال سہیل کا رنگِ تغزل بھی نمایاں ہے۔ ان تمام خوبیوں کے ساتھ ان کا اپنا تخیل، اپنا ترنم اور ان کا اپنا منفرد اسلوب ہے جو انہیں انفرادی شان عطا کرتا ہے

مرے دل پہ ہاتھ رکھ کر مجھے تسکین دینے والے

کہیں دل کی دھڑکنوں سے تجھے چوٹ آ نہ جائے

شبِ غم نکل پڑا تھا مرے دل سے ایک نالہ 

مجھے ڈر ہے ان کو یا رب کوئی آنچ آ نہ جائے

ہم چھو بھی لیں زلفوں کو تو ہوں موردِ الزام

گستاخ ہواوُں کو سزا کیوں نہیں دیتے
ہنستے ہیں بہت اہلِ خرد اہلِ جنوں پر

پردہ رخِ زیبا سے اٹھا کیوں نہیں دیتے

محبوب کے حسن و جمال، اس کی نازک مزاجی اور حسن و عشق کے معاملات کا اتنا سادہ اور خوبصورت اظہار اور اتنا محتاط اندازِ تخاطب صرف قدیم روایتی شاعری کا حصہ ہے جسے اختر مسلمی نے د ورِ جدید میں نہ صرف زندہ رکھا بلکہ مذہب عشق کو وحدانیت سے روشناس  کرا کے اسے مزید معتبر اور توانا بنا دیا ہے۔ کلیاتِ اختر میں اس طرح کے بے شمار اشعار موجود ہیں۔ صاحبِ ذوق حضرات کو اختر شناسی کے لئیے اس کی ورق گردانی ضرور کرنی چاہئیے۔

اختر مسلمی نے غلام ہندوستان میں آنکھ کھولی اور آزاد ہندوستان میں وفات پائی۔ انہوں نے آزادی اور غلامی دونوں کو بہت قریب سے دیکھا اور بھگتا تھا، دونوں کے آزار جھیلے تھے اس لئے ان کی سیاسی شاعری میں دونوں کے تقابلی موازنہ کے ساتھ ساتھ دونوں کا سیاسی منظر نامہ موجود ہے۔ جنگِ آزادی سے لے کر جمہوریت تک کے حالات کا انتہائی قریب سے مشاہدہ کرنے والے اختر مسلمی کو غلامی اور آزادی کے حالات میں کوئی خاص فرق محسوس نہیں ہوتا تھا۔ صرف اقتدار بدلا تھا صاحبِ اقتدار بدلے تھے لیکن حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی بلکہ ملک کے حالات اور بد سے بد تر ہو گئے تھے، سیاست کا معیار اور گھٹیا ہوتا گیا۔ سیاسی تعصبات، مذہبی منافرت اور سماجی انتشارکی جڑیں اور مضبوط ہوتی گئیں۔ نام نہاد سیکولر رہنما اور جمہوریت کا راگ الاپنے والے اربابِ حل و عقدکا رویہ عوام الناس خصوصا مسلمانوں کے ساتھ غیر منصفانہ رہا۔ ان تمام حالات کا تجزیہ اختر مسلمی نے بڑے لطیف اور خوبصورت انداز میں اپنی شاعری میں کیا ہے

مضموم فضائے گلشن ہے پھولوں کا دریدہ دامن ہے

اس سے تو قفس ہی بہتر تھاصحنِ گلستاں کیا ہو گا
ہر شاخِ چمن ہے افسردہ، ہر پھول کا چہرہ پژمردہ

آٖغاز ہی جب ایسا ہے، تو پھرانجام بہاراں کیا ہو گا
۔۔۔۔۔۔ 
نہاں ہے خوئے صیادی ہمارے باغبانوں میں

 عنادل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں
بس اک احساسِ آزادی سے دل ہے مطمئن ورنہ

قفس کا رنگ پیدا ہو گیا ہے آشیانوں میں

زمینِ وطن کو اپنے لہو سے سینچنے والے آزادی کا پروانہ ملتے ہی غیر ہو گئے۔ صبح کے تخت نشیں شام کو مجرم ٹھہرے۔ قید و بند کی صعوبتیں جھیلنے والے پھر اسی کے سزاوارٹھہرے۔ آزادی کی جنگ لڑنے والے آزاد ہندوستان میں اجنبی ہو گئے۔ پھانسی کے پھندے کو گلے لگانے والے غدارِ وطن ہو گئے۔ سرفروشی کے گیت گانے والے دہشت گرد ہو گئے۔ ان تمام مسائل اور ان کی وجہ سے ہونے والی ذہنی اذیتوں کا ذکر بھی اختر مسلمی نے اپنی شاعری میں بڑے واضح لفظوں میں کیا ہے

خدا کی شان اس پر آج ہے الزامِ غداری

ابھی کل تک جو تھا رسمِ وفا کے رازدانوں میں

چمن میں اس کو وحشت ہے ہماری ہم نشینی سے

جنہیں کل تک تھا بے حد انس ہم سے قید خانوں میں
۔۔۔۔۔۔ 
گلوں کو جس نے دیا خوں شگفتگی کے لئے

حرام نکہتِ گل ہے آج اسی کے لئے
چمن کی تیرہ نصیبی نہ مٹ سکی پھر بھی

جلا چکا ہوں نشیمن بھی روشنی کے لئے
۔۔۔۔۔۔
یہ وہ چمن ہے جہاں گل بھی خار خصلت ہیں 

چمن پرست بھی دامن بچا بچا کے چلے

ملک کی اس بد حالی، حکمرانوں کی بد دیانتی،اربابِ اقتدارکے تعصب اور ان کی مسموم ذہنیت کے ماحول میں نام نہاد سیکولر افراد اور پارٹیوں کی بے حسی، مسلم رہنماوُں اور دانشوروں کی مجرمانہ خاموشی ان کی بزدلی کے ساتھ ساتھ ان کی خاموش حمایت کی دلیل کل بھی تھی اور آج بھی ہے۔ مذہبی رہنما اور مسلک کے ٹھیکیدار مصلحت کا لبادہ اوڑھے خاموش تماشائی کل بھی تھے اور آج بھی ہیں تقریبا ہر دور میں۔ حکمراں جماعت کی خوشنودی کی خاطر اکثر لوگ صم بکم عمی کی تصویر نظر آتے ہیں۔ ایسے ماحول میں شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں کا ایک طبقہ ایسا بھی ہو تا ہے جو کسی مصلحت کا شکار ہوئے بغیرحالات کی نہ صرف ترجمانی کر تا ہے بلکہ حسبِ ضرورت واستطاعت صدائے احتجاج بھی بلند کر تا ہے۔ان حق پسندشعراء میں اختر مسلمی کا نام بھی بلا تردد لیا جا سکتا ہے۔

لالہُ و گل سے پوچھئیے، سرو سمن سے پوچھئیے

میری چمن نوازیاں حسنِ چمن سے پوچھئیے
۔۔۔۔۔۔
میری نوائے حریت گونجی اسی فضاء میں تھی

کوہ و دمن سے پوچھئیے، گنگ و جمن سے پوچھئیے
۔۔۔۔۔۔
وفا تو میری سرشت میں ہے وفا پرستی شعار میرا

جفائیں تم اپنی دیکھو پہلے،وفائیں میری پھر آزمانا
۔۔۔۔۔۔
ہمیں مٹاوٗ نہ باغبانو، کلامِ اختر کی قدر جانو

نہ ہوں گے ہم تو اکیلے تم سے چمن کا بیڑا نہ پار ہو گا

اختر مسلمی کا سماجی شعور اور سیاسی بصیرت دونوں انتہائی پختہ ہیں۔ انہوں نے حالات کا جائزہ صرف ایک تماشائی کی حیثیت سے نہیں لیا ہے بلکہ ان کا گہرائی سے تجزیہ بھی کیا ہے اور اس میں بصارت و بصیرت دونوں سے کام لیا ہے۔ ان کے مشاہدے اور تجزیے کے مطابق ملک کی تمام بد حالیوں، تیرہ بختیوں اور بد نصیبیوں کے ذمہ دار بہت حد تک سیاسی رہنما ہیں جو شرافت وایمانداری کی نقاب اوڑھے ملک اور قوم دونوں کے ساتھ غداری کے مرتکب ہوتے ہیں بقول اختر مسلمی

اتار دے گا نقاب اپنی انتخاب کے بعد

یہ شخص آج بڑا خاکسار لگتا ہے
۔۔۔۔۔۔
ہونے کو جلوہ ریز ہوئے لاکھ آفتاب

شامِ خزاں کو صبحِ بہاراں نہ کر سکے
۔۔۔۔۔۔
فریب کاریٗ انساں سے ڈر لگے ہے مجھے

پیامِ امن کے عنواں سے ڈر لگے ہے مجھے
علاجِ دردِ زمانہ بھی لازمی ہے مگر

مسیحِ وقت کے درماں سے ڈر لگے ہے مجھے
جلیں گے کتنے نشیمن نہ پوچھئیے اختر

چمن میں جشنِ چراغاں سے ڈر لگے ہے مجھے

سیاسی رہنماوُں کی بد دیانتی اپنی جگہ لیکن ان تمام حالات کا ذمہ دار صرف ان سیاسی رہنماوٗں کو ہی قرار دینا بھی مناسب نہیں۔ اس لئے کہ یہ بد عنوان لوگ اقتدار کے گلیاروں تک خود سے نہیں پہنچ جاتے یا وزارت کی کرسیاں کسی دکان سے خرید کر نہیں لاتے۔ اس لئے ان بدعنوان رہنماوٗں سے کہیں زیادہ ذمہ داراس ملک کے عوام ہیں جو ان رہنماوٗں کو ووٹ دے کر ایوان اقتدار تک پہنچاتے ہیں۔ ان کی ہر غلط بات اور غلط پالیسی پرآمنا و صدقناکہتے ہیں۔ ان کے ظلم و استبداد، ان کی لوٹ گھسوٹ اور ان کی تمام تر بدعنوانیوں کے باوجود کبھی ذات برادری کے نام پر، کبھی علاقائیت کی بنیاد پر، کبھی مذہبی و لسانی بنیاد پر تو کہیں پارٹی کے عنوان سے بار بار انہیں رہنماوٗں کو ووٹ دے کر

اقتدار تک پہنچا تے رہتے ہیں۔ اس طرح عوام کی بے حسی، دانشوروں کی مجرمانہ خاموشی ان رہنماوٗں کا حوصلہ بڑھاتی رہتی ہے۔ اختر مسلمی نے ملک کی سیاسی بد حالی کے لئے سیاسی رہنماوٗں کے ساتھ عوام الناس کو بھی برابر کاذمہ دار قرار دیا ہے

اب راہزن کو رہنما کہہ رہے ہیں لوگ

حیراں ہوں دوستو کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں لوگ
اس درجہ بے ضمیر ہیں اللہ کی پناہ

ان کی ہر اک جفا کو وفا کہہ رہے ہیں لوگ 
جس درد سے لبوں پہ ہے انسانیت کی جاں

اس درد کو بھی دوا کہہ رہے ہیں لوگ
کیا دیکھتے نہیں کہ سلگتے ہیں آشیاں

چھایا ہوا دھواں ہے گھٹا کہہ رہے ہیں لوگ 
اختر ؔ فتورِ عقل نہیں ہے تو کیا ہے یہ

کشتی کے ناخدا کو خدا کہہ رہے ہیں لوگ

ہر زمانے میں ملک کی بدحالی اور اس کی بدنامی میں ملک کے رہنماوُں اور عوام کے ساتھ ساتھ ملک کا میڈیا سب سے زیادہ ذمہ دار رہا ہے۔ سب تو نہیں لیکن اکثر میڈیا کے لوگ حالات و واقعات کو غلط انداز میں پیش کرتے ہیں۔ خواہ پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا سب ہر دور میں بکاوُ رہے ہیں۔ یہ بکاوُمیڈیا حالات کی صحیح تصاویر اور خبریں دکھانے کے بجائے وہی چھاپتے اور دکھاتے ہیں جو ان کے آقا چاہتے ہیں جن کے وہ تلوے چاٹتے ہیں۔ ملک میں کتنا بھی بڑا حادثہ ہو، فسادات ہوں، خون خرابہ ہو، لوگوں کی جانیں چلی جائیں، بچے یتیم ہو جائیں، عورتیں بیوہ ہو جائیں، سرِعام عصمت دری کی جائے لیکن چند حق پسند افراد کے ما سوا اکثر میڈیا والوں کا ضمیر نہیں جاگتا۔کسی کے دل میں درد نہیں ہوتا؛ کسی کی روح نہیں کانپتی۔بلکہ سب کو صرف اپنے آقا کی خوشنودی اور اپنے اخبار و چینل کی ٹی آر پی کی فکر ہوتی ہے کیرئیر کی پرواہ ہوتی ہے۔ لاشوں کے ڈھیر پر کھڑے ہو کر سب اپنا قد بلند کرنا چاہتے ہیں۔ خون کی سرخی سے ہر خبر کو رنگین بنانا چاہتے ہیں اکثر۔میڈیا کا ہر دور میں یہی رول رہا ہے اور آج بھی ہے۔ آج بھی میڈیا مجرموں کی پشت پناہی کے ساتھ معصوموں کو سولی پر لٹکانا اپنا فریضہ سمجھتا ہے۔ فرضی مڈبھیڑکی سنسنی خیز تصویریں کھینچنا، چھاپنا، اور دکھانا ان کا مشغلہ رہا ہے۔ زخمیوں کی مدد کے بجائے ان کی خون آلود تصویریں اپ لوڈ کرنا فیشن ہو تا جا رہا ہے۔بہر کیف۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میڈیا کا ہر دور میں یہی حال رہا ہے۔ کل بھی تھا آج بھی ہے اور شاید کل بھی رہے گا۔ میڈیا کی اس بد دیانتی پر بھی اختر مسلمی نے درد بھرے لہجے میں کہا تھا

کسی کو فکر نہیں زخمیوں کے مرہم کی

جسے بھی دیکھئے نامہ نگار لگتا ہے

اختر مسلمی کی دور رس نگاہوں اور ان کے دور بیں تخیل کی داد دینی چاہئیے کہ انہوں نے آج سے نصف صدی قبل ملکی سیاست کا جو تجزیہ کیا ہے اور اس تعلق سے جو شاعری کی ہے وہ حرف بہ حرف آج کے حالات پر صادق آتی ہے۔ ان کی سیاسی شاعری کو پڑھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ ان کی پوری شاعری موجودہ سیاسی منظر نامہ کی داستان ہے۔ہندوستان کی بد قسمتی کہئیے یا حالات کی ستم ظریفی کہ یہاں جمہوریت کے نام پر روز اول سے آج تک ہر دور میں اقلیتوں خصوصا مسلمانوں کے ساتھ حکومت وقت کا رویہ تقریبا یکساں رہا ہے۔ نام نہاد سیکولر پارٹیوں سے لے کر بی جے پی تک، ہر پارٹی اور حکمراں جماعت نے ہر روز نت نئے ستم ایجاد کئے اور تمام قوانین اور عدلیہ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مسلمانوں پر تمام ظلم روا رکھے۔ ان تمام مسائل اور سیاسی حالات پر ہر دور میں شعراء اور ادباء نے خامہ فرسائی کی ہے اور احتجاجی ادب تخلیق کیا ہے۔خاص طور سے مشاعروں کے اسٹیج سے پیشہ ور شعراء ہر دور میں سب سے زیادہ گلا پھاڑتے رہے ہیں لیکن ان کے کلام انتہائی گھٹیا، سطحی، وقتی اورجذباتی ہوتے ہیں جس میں شاعری کہیں نہیں ہوتی۔صرف بازاری نعرے، بھدے جملے اور براہ راست ذاتیات پر حملے ہوتے ہیں اور وقت گذرنے کے ساتھ ہی ان کا جوش بھی ہوا ہو جاتا ہے۔ سرکار بدلتے ہی ان شعراء کا سر، لے، تال سب کچھ بدل جاتا ہے۔ لیکن اختر مسلمی نے آج سے تقریبا نصف صدی قبل جو سیاسی شاعری کی ہے اس کی معنویت آج بھی برقرار ہے اور ان کا ایک ایک لفظ آج کے حالات کی عکاسی کرتا ہے۔در حقیقت یہی اچھی اور با مقصد شاعری کی پہچان ہے کہ وہ داخلی کیفیات اور خارجی امکانات ہر لحاظ سے دیر پا اثرات کی حامل ہونے کے ساتھ ساتھ زمان و مکا ن کی قید سے آزاد آفاقی اہمیت اور معنویت کی حامل ہوتی ہے۔ اس کی افادیت و معنویت ماضی، حال اور مستقبل تک محیط ہوتی ہے۔ اس کی لفظیات اور اس کا اسلوب ایسا ہوتا ہے کہ کسی بھی دور میں اس کی الگ سے تفہیم و تشریح کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ شعر سنتے یا پڑھتے ہی قاری و سامع کا ذہن از خود اس کے مفہوم تک پہنچ جاتا ہے۔قدیم روایتی شاعری کا یہی خاصہ ہے۔ اختر مسلمی نے بھی اسی روا یتی ا سلوب کو اپنے فکری و فنی امتیازات کے ساتھ اپنی شاعری میں برتا ہے۔جس کی وجہ سے آج بھی اس کی اہمیت و افادیت نیز معنویت برقرار ہے اور اس کے مطالعہ سے ماضی سے حال بلکہ مستقبل تک کا نقشہ بھی سامنے آجاتا ہے۔ان کی شاعری ایک عہد کی داستان ہے جس میں انہوں سیاسی، سماجی معاشرتی، تہذیبی اور ثقافتی مسائل کے ساتھ ذاتی درد و کرب کو بھی شامل کر کے وحشی غزل کو شوخ اور سنجیدہ بنا دیا ہے۔

ملک کے موجودہ حالات اور سیاسی پس منظر میں جب ہم اخترمسلمی کی غزل کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس کے ایک ایک لفظ سے آج کے حالات کی عکاسی ہوتی ہے۔ اور ایسا لگتا ہے جیسے کوئی موجودہ مودی سرکار پر تبصرہ کر رہا ہے

اک میں ہی نہیں ہوں تم جس کو جھوٹا کہہ کر بچ جاوٗ گے

دنیا تم کو قاتل کہتی ہے، کس کس کو جھٹلاوٗ گے 
۔۔۔۔۔۔
کہیں لٹ رہا ہے خرمن، کہیں جل رہا ہے گلشن

اسے کس نے سونپ دی ہے یہ چمن کی پاسبانی
۔۔۔۔۔۔
کون ہے جو چمن میں پریشاں نہیں ہے

باغباں پھر بھی خوش ہے پشیماں نہیں ہے
۔۔۔۔۔۔
مجھ کو اسے بہار ہی کہنے میں عذر ہے

ہر نوکِ خار کو جو گلستاں نہ کر سکے
اختر اس انقلاب کی اڑ جائیں دھجیاں

دشواریٗ عوام جو آساں نہ کر سکے

اس طرح کے بے شمار اشعار اختر مسلمی کی کلیات میں موجود ہیں جن کو پڑھتے ہوئے ملک و قوم کی موجودہ صورت حال کا پورا منظر نامہ آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے اور بغیر کسی تفہیم و تشریح کے عام قاری بھی اس کی تہ تک پہنچ جاتا ہے۔ یہی اختر مسلمی کا فکری و فنی امتیاز ہے جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہو تا ہے۔

اختر مسلمی کوئی فرشتہ نہیں بلکہ ایک انسان تھے اس لئے ان کے اندر بھی بشری کمزوریاں اور فنی خامیاں موجود تھیں جن کا انہیں احساس بھی تھا اور جا بجا انہوں نے اس کا اعتراف بھی کیا ہے جو ان کی اعلی ظرفی کی مثال ہے۔

عیب سے پاک بشر ہو تو بشر ہی کیا ہے

خوب کہتے ہیں جو اخترؔ کو برا کہتے ہیں
اختر ؔ ہے کس کی چشم عنایت سے فیض یاب

اک رند بادہ نوش بھی ہے پارسا بھی ہے
۔۔۔۔۔۔
اخترؔ تباہ سے اس قدر نہ چونکئے 

حال ہی برا ہے صرف آدمی برا نہیں

ا س اعتراف حقیقت کے باوجود اختر مسلمی کے اندر کوئی ایسی برائی یا کوئی ایسا عیب بظاہر نطر نہیں آتا جو ان کی شخصیت یا ان کے فن کوداغدار سکے۔ اگر کچھ کمزوریاں ہیں بھی توبشریت کا تقاضہ ہیں کہ ’’ آدمی ہیں تو گنہگار ہیں ہم ‘‘ اور فنی خامیاں بھی مشق سخن کا نتیجہ ہیں کہ ’’گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں ‘‘۔ اس کے باوجود ان کی خامیاں ان کی خوبیوں کے حصار میں ایسی گم ہیں کہ پہلی نظر میں ان تک پہنچ پانا ہر آدمی کے لئے ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ بقول رئیس الشاکری

’’مقصود کلام ہرگز یہ نہیں کہ اختر مسلمی کی ذات بے عیب ہے اور ان کا کلام نقص سے بالا تر ہے بلکہ میں کہنا چاہتا ہوں کہ اختر اور ان کے کلام میں کوتاہیوں اور خامیوں کے گرد و پیش خوبیوں  کی وہ گھنی باڑھ ہے کہ ہر کوتاہی اور خامی چھپ کے رہ جاتی ہے۔ انسان کے عظیم ہونے کے  لئے یہ بہت ہے کہ اس کی کوتاہیاں اس کی خوبیوں میں اس طرح چھپ جائیں کہ باریک بیں نگاہوں کو بھی دیکھنے میں دقت محسوس ہو۔ ‘‘

بہر کیف۔۔۔۔۔۔۔۔۔اختر مسلمی کی شاعری میں فرد اور معاشرے کی اصلاح کے ساتھ ساتھ غم جاناں ا ور غٖم دوراں کا حسین امتزاج بھی ہے۔ لیکن ان کی شخصیت کا نمایاں پہلو ان کی سادگی،ان کا فکری امتیاز ان کی حق گوئی و بے باکی اور ان کا فنی اختصاص ان کا منفر د رنگ تغزل اور ان کی شاعری کا مقصد وحید دنیا سے نفرت کی تاریک کو مٹا کر محبت کی روشنی کو عام کرنا ہے

چار سو بغض و عداوت کی گھٹا چھائی ہے

دہر میں شمع محبت کو فروزاں کر دیں
ظلمت شب میں بھٹکتا ہے زمانہ اخترؔ

آو ہر ذرے کو خورشید درخشاں کر دیں

تبصرے بند ہیں۔