اختلافات کی صورت میں غیر شرعی اقدام سے گریز کرنے کا مشورہ!

عمیر کوٹی ندوی

فرد وخاندان کی شیرازہ بندی، انفرادی اور اجتماعی زندگی میں امن وسکون کے حصول ، رشتوں کی پاسداری ،باہمی حقوق اور واجبات کے تحفظ میں اسلام کے عائلی قوانین اپنا جو کردار ادا کرتے ہیں اس کی افادیت کا اندازہ لگانے کے لئے یہ بات کافی ہے کہ اس وقت رشتوں ناتوں ، مساوات اور حقوق کی ہر طرف جو باتیں ہورہی ہیں وہ اسلام کا ہی عطیہ ہیں ۔یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ جنہیں اس حقیقت سے انکار ہو انہیں ماقبل اسلام کی انسانی زندگی کا مطالعہ کرنا چاہئےیا از سرنو اس پر ایک نظر ڈال لینی چاہئے۔ اگر اس کا بھی موقع نہ ہو تو پسماندگی، کسمپرسی اور اخلاقی زوال سے دوچار ہونے  اور اغیار کی ریشہ دوانیوں کا شکار ہونے کے باوجود اس درماندہ مسلم معاشرہ اور مبینہ ترقی یافتہ اور روشن خیال مدمقابل معاشرہ  کا جداگانہ اور تقابلی مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔

یہ حقیقت کھل کر کے سامنےآجائے گی کہ اخلاقیات کا عالم کیا ہے۔باہمی رشتوں خاص طور  پر درون خانہ رشتوں کی اعلانیہ اوردرپردہ نوعیت کیا ہے۔خواتین کو کہاں کس نظر سے دیکھا جاتا ہے ،ان کے ساتھ کیا سلوک روا  رکھا جاتا ہے اور اس کے لئے کیسے کیسے حیلے بہانے اور نت نئے نام تلاش کئے جاتے ہیں ۔وہ کون ہیں جنہوں نے خواتین کو عزت کے مقام سے ہٹاکر بازار میں لاکر سامان تجارت بنا دیا ہے۔ ان پر پہلے سے عائد ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ دہری ذمہ داری کا بوجھ ڈالنے والے کون ہیں اور ان کے مقاصد کیا ہیں ۔

ان پہلوؤں پر نظر ڈالنے کے بجائے مسلم معاشرہ کی طرف انگلی اٹھادی جاتی ہے اور مسلم خواتین کی فرضی کسمپری پر گھڑیالی آنسو بہادئے جاتے ہیں ۔ مسلم خواتین کی مظلومیت کا رونا روتے ہوئے اس پر سیاست کرنےکا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔  حال ہی میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو حاصل ہونے والی کامیابی  کے بعد اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ بنے تریویندر سنگھ راوت نے کہا ہے کہ "تین طلاق غیر انسانی، غیر آئینی اور عورتوں کے استحصال کا ذریعہ ہے، لہذا اسے ختم کیا جانا چاہئے……سپریم کورٹ میں تین طلاق پر سماعت کے دوران بحث سے واضح ہو گیاہے کہ شریعت قانون کے تحت ایسے چلن کو صحیح نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے……خواتین اس معاشرے کی آدھی آبادی ہیں اور اس طبقہ کا’استحصال’ہو رہا ہے……یہ چلن ہمیشہ کے لئے ختم ہونا چاہئے”۔

یہ کیوں ہورہا ہے اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔اس وقت خاص طور پر طلاق کےنام  پرجو  ہنگامہ آرائی جاری ہے، اس کے نشانہ پر نہ تو طلاق ہے اور نہ خواتین کی مبینہ کسمپرسی بلکہ اصل نشانہ شریعت اسلامی ہے۔ اس کی چغلی وزیر اعلیٰ کا خود یہ جملہ کر رہا ہے کہ "شریعت قانون کے تحت ایسے چلن کو صحیح نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے”۔ذرا سی بھی سوجھ بوجھ رکھنے والا بھی  ہنگامہ آرائی اور اس کے پس پردہ عزائم کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ مسلم معاشرہ کے علاوہ ملک کا غیر جانبدار طبقہ اس حقیقت کو سمجھ بھی رہا ہے اور اس تعلق سے اپنی آراء کا اظہار بھی کررہا ہے۔

مسلمانان ہند کی مذہبی قیادت کی جہاں تک بات ہے تو وہ روز اول سے اس بحث کے حقائق اور عزائم سے پردہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ ملت کے شعور کو بیدار کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس نے حکومت اور عدالت کے سامنے اپنے موقف کو پرزور انداز سے پیش کیا ہے۔منشاءشریعت کو مدلل انداز سے پیش کرنے کے ساتھ ساتھ مسلم سماج میں درآئی خامیوں اور کم علمی وجہالت کی وجہ سے غیر شرعی اقدام کوکسی صورت گوارا  نہ کرنے اور اس کی اصلاح کی طرف توجہ دینے کی بات بھی اس نے پرزور انداز سے کہی ہے۔ سپریم کورٹ  میں داخل کردہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ  کا حلف نامہ اس کا ثبوت ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ  مسلم پرسنل لاء بورڈاپنی ویب سائٹ، مطبوعات اور سوشل میڈیا کے ذریعے مسلم نوجوانوں کے لئے مشاورتی اپیل جاری کرے گا۔

مشاورتی اپیل میں قاضیوں سے کہا جائے گا کہ وہ عقد نکاح کے وقت نکاح نامہ کی تکمیل کے وقت دولہوں کو یہ تاکید کریں کہ میاں بیوی کے درمیان اختلافات کی صورت میں بیک وقت "طلاق ثلاثہ” کے عمل سے گریز کیا جائے کیونکہ "یہ شریعت میں ایک ناپسندیدہ عمل ہے "۔ طلاق ثلاثہ دینے والوں کا سماجی بائیکاٹ کرنے کابھی فیصلہ کیا گیا ہے ۔مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سکریٹری محمد فضل الرحیم کی طرف سے داخل کردہ حلف نامہ میں کہا گیاہے کہ عقد نکاح کے وقت نکاح کے ضابطہ کی تکمیل کرنے والے حضرات یہ مشورہ دیں گے کہ دولہا اور دلہن اپنے نکاح نامہ میں بیک وقت ایک مجلس میں تین طلاق کہنے سے گریز کرنےوالی شرط شامل کریں۔

 چیف جسٹس جے ایس کھیہر کی زیر قیادت پانچ رکنی دستوری بنچ جو”طلاق ثلاثہ” کے مقدمہ پر اپنا فیصلہ محفوظ کرچکی ہے اس  نے دوران سماعت مسلم پرسنل لاء بورڈ  کو ایک حلف نامہ داخل کرنے کی ہدایت دی تھی ۔اب بورڈ کےداخل کردہ حلف نامہ کا دستوری بنچ جائزہ لے گی۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے تین صفحات پر مشتمل اپنے حلف نامہ کے ساتھ 15؍16؍اپریل 2017 کو لکھنؤمیں منعقدہ مجلس عاملہ کی طرف سے منظور کردہ 4 تجاویز2تا5کو بھی منسلک کیا ہے۔

ان میں بطور خاص یہ کہا گیا تھا کہ طلاق کے معاملہ میں شریعت کا رخ بالکل واضح ہے۔بغیر کسی وجہ کے طلاق دینا اور تین بار بولنا صحیح طریقہ نہیں ہے۔شریعت میں اس کی سخت مذمت کی گئی ہے۔اس سلسلہ میں  بورڈ عوامی تحریک شروع کرے گااور مسلمانوں میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کرے گا۔ائمۂ مساجد اور خطیبوں سے مدد لی جائے گی۔تین طلاق دینے والوں کا سماجی بائیکاٹ کیا جانا چاہئے ۔ یہ سماجی بائیکاٹ طلاق کی تعداد کو مزید کم کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔

ا س میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ بورڈ کی طرف سے نکاح وطلاق کے سلسلہ میں ایک ضابطہ بھی جاری کیا گیا ہےجس میں اس بات پر  زور دیا گیا ہےکہ میاں بیوی کے اختلاف کو باہمی گفتگو سے دور کرنا چاہئے، اگر آپسی طور پر معاملہ طے نہ ہو تو دونوں کے بزرگوں کو مل کر نزاع دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، اگر مصالحتی تدبیریں نتیجہ خیز نہ ہوں تب طلاق دینی چاہئے اور وہ بھی صرف ایک طلاق۔اسی کے ساتھ ہندوستانی مسلمانوں سے یہ توقع بھی کی گئی ہے کہ وہ طلاق کے مسئلہ میں شریعت اسلامی پر عمل کرنے کو یقینی بنائیں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔