اختلاف امت  اور اعتدال کی راہ

الطاف جمیل شاہ

دور حاضر کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اختلاف جسے امت کے لئے رحمت قرار دیا گیا تھا اسے غیر ذمہ درانہ رویوں اور کج فہمی کی وجہ سے باعث زحمت بنا کر امت کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا گیا ہے۔ آج ہمارے نوجوان ہر مسئلہ میں پریشان دکھائی دیتے ہیں کہ کس فتویٰ پر عمل کریں، ایک صاحب کے فتویٰ پر عمل کریں گے تو دوسرے کے نذدیک وہ کفر ہو جائے گا اور یہ ایک ایسا موذی مرض ہے جو نوجوان طبقہ کو اسلام سے دور کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ بحثیت مسلمان اگر ہم اسلام کو دیکھیں تو قرآن میں واضح حکم ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو، ہم نے اس آیت سے اتفاق کا فارمولااخذ کر رکھا ہے جبکہ اس فرمان خداوندی سے اتفاق نہیں بلکہ اتحاد کا درس ملتا ہے   دلائل و براہین، علم و تحقیق کی روشنی میں اختلاف کرو لیکن اتحاد کی رسی کو ہاتھ سے نہ جانے دو اسلام نے چند چیزیں (نماز، روزہ، زکوۃ، حج وغیرہ) فرض فرما دیں ہمیں سمجھ آئے یا نہ آئے لیکن یہ کام کرنے ہی کرنے ہیں، اور اسی طرح چند چیزیں (شراب، بدکاری، جوا، وغیرہ) مطلقاً حرام قرار دے دیں، ہمیں ان سے اجتناب کرنا ہی کرنا ہے، سمجھ آئے یا نہ آئے۔ لیکن دیگر معاملات میں اصول قواعد کے لئے فارمولے دے کر فرمایا گیا ہے کہ اب سوچو غور کرو تحقیق کرو جو سمجھ آئے دلیل کی روشنی میں اس کی روشنی میں اس  پر عمل  کرو اختلاف کب نہ تھا پر اسلامی بھائی چارے اتحاد و اتفاق کے قرآنی درس کو روندا  نہیں گیا سر بازار اسلامی تعلیمات کا تماشہ نہیں بنایا گیا جیسا کہ آج کل دیکھا گیا کہ کچھ لوگ انتہائی ترش روئی اور ہاتھا پائی کے ساتھ خود کو حق پرست کی قبیل سے ثابت کر رہے ہیں یہ ہرگز بھی اسلام کی خدمت نہیں۔

تاریخ اسلام میں پڑھئے  کہ آئمہ، محدثین، مفسرین، فقہاء میں اختلاف رہا لیکن اتحاد بھی تھا۔ دور صحابہ کو ہی دیکھ لیں کہ سینکڑوں مسائل پر صحابہ کرام علیھم الرضوان کا آپس میں علمی و تحقیقی اختلاف موجود تھا۔ آئمہ کے ادوار کو دیکھیں تو جن کو امام اعظم ابو حنیفہ کہا جاتا ہے ان کے اپنے شاگرد قاضی امام ابو یوسف تین چوتھائی مسائل و احکام میں امام صاحب کے ساتھ ہی اختلاف رکھتے ہیں لیکن وہ حنفیت سے خارج ہوتے ہیں نہ ہی امام صاحب ان کو اپنے درس سے نکلنے کا حکم دیتے ہیں، کیونکہ اختلاف تھا لیکن اتحاد کا دامن بھی ہاتھ میں تھا۔ آپ امام صاحب کے بعد باقی تین آئمہ کرام کو دیکھ لی، اگر اختلاف منع ہوتا، بلکہ اصول و قواعد میں اختلاف کرنا بھی منع ہوتا تو امام مالک، امام شافعی، امام احمد مجتہد اور امام کیسے بنتے؟؟ امام شافعی اور امام ابو حنیفہ کا تو اصول و قواعد میں ہی اختلاف ہے اور اسی اختلاف کی بنیاد پر دونوں کے ہاں مختلف فیہ مسائل بیان ہوتے ہیں۔ بعض صورتوں میں شافعیہ کے ہاں احکام موجود ہیں کہ حنفی امام کے پیچھے نماز نہ ہو گی اور بعض صورتوں میں احناف کے ہاں حکم موجود ہے کہ ان کی شافعیہ کے پیچھے نماز نہ ہو گی۔

اس قدر شدید اختلاف کے باوجود بھی اتحاد قائم ہے اور کسی شافعی نے کسی حنفی پر یا کسی حنفی امام نے کسی شافعی فقیہ پر فتوی صادر نہ کیا۔ آپ امام احمد بن حنبل کی مثال لے لیں، وہ امام شافعی کے شاگر د ہیں لیکن اپنے ہی استاد امام شافعی سے اتنا اختلاف رکھتے ہیں کہ ان کے مقابلے میں ایک نئے فقہی مذہب کے امام بنتے ہیں۔ آپ محدثین کی مثال میں امام بخاری اور امام مسلم کو لے لیں، امام مسلم امام بخاری کے شاگرد ہیں، لیکن اپنے ہی استاد سے (اور استاد بھی امام بخاری) سے حدیث کی روایت و درایت کے اصول و قواعد پر اختلاف کر لیتے ہیں اور اسی اختلاف کی بنیاد پر پوری صحیح مسلم شریف میں امام بخاری سے کوئی حدیث روایت نہیں فرماتے لیکن اس اختلاف کے باوجود کبھی امام بخاری پر کوئی فتویٰ نہیں دیتے بلکہ انہیں امام الحدیث تسلیم کرتے ہیں۔ آپ امام ابو حنیفہ اور ان کے بعد آنے والے امام الحدیث امام بخاری کے آپس میں بنیادی اختلاف کو لے لیں، امام ابو حنیفہ کے نذدیک ایمان قول اور اقرار کا نام ہے اور عمل ایمان کی تقویت کا باعث بنتا ہے جبکہ امام بخاری کے نذدیک ایمان قول اور عمل دونوں کا نام ہے، گویا کہ امام بخاری کے نذدیک اگر عمل نہ کیا جائے تو انسان کا ایمان ہی نہیں رہتا۔یہ اختلاف اس مثال سے اظہر من الشمس ہوتا ہے کہ امام ابو حنیفہ کے نذدیک اگر ایک شخص جان بوجھ کر نماز ادا نہیں کرتا وہ تب بھی مسلمان ہی رہتا ہے لیکن گناہ گار ہو گا جبکہ امام بخاری کی ایمان کی تعریف کے مطابق اگر کوئی ایک نماز بھی قضا کر دے تو وہ مسلمان ہی نہ رہا اور اسے تجدید ایمان کرنا پڑے گی۔ اس قدر شدید اور بنیادی اختلاف کے باوجود امام بخاری کبھی امام ابو حنیفہ پر کوئی فتویٰ جاری نہیں کرتے بلکہ ان کی اور ان کے شاگردوں کی کتب سے استفادہ کرتے ہیں۔

اگر اختلاف نہ ہوتا تو اسلام کو جمود ہوتا، اور اگر اسلام کو جمود ہوتا تو (معاذ اللہ) اسلام صدیوں قبل ہی کالعدم ہو گیا ہوتا۔ یہ اختلاف کا حسن  ہی ہے جس نے مختلف علاقوں، تہذیبوں میں ان کی روایات کے مطابق احکام میں اختلاف کے ساتھ اسلام کو پروان چڑھایا۔ لیکن اس اختلاف کے ساتھ اللہ کریم کے حکم کے مطابق اتحاد بھی قائم رہا قرآن مجید اور احادیثِ مبارکہ میں احکام موجود ہیں تعلیمات موجود ہیں  اتحاد کو قائم رکھنے اور آپسی خلفشارو انتشار سے بچنے کے لئے مگر ان سب کے باوجود بھی خلفشارو انتشارعام مرض ہے اور امت کو گھن کی طرح کھائے جارہا ہے اور عصبیت کے روگ کی بو ہر جگہ محسوس ہوتی ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید کی روشن آیتیں اورپیارے آقا حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم کی احادیثِ مبارکہ اب ہمارے علم کا حصہ نہیں رہیں بلکہ وہ ہمارے ذہن کے گوشے میں معلومات کے درجہ میں باقی ہیں ورنہ کیا عجب ہے کہ وہ ہماری عملی زندگی کا حصہ نہیں بعض لوگ ہمارے انتشار کو اغیار کی سازشوں کا حصہ قرار دے کر اپنی غلطی سے پہلو تہی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ اس میں اغیار کی ریشہ دوانیاں شامل حال ہیں تب تو یہ بات ثابت ہوئی جاتی ہے کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے؛ مگر ہم اپنی ایمانی فراست و بصیرت کو کام میں نہ لا سکے، جس کے لیے ہم خود ذمہ دار ہیں؛بلکہ زیادہ صاف لفظوں میں اگر کہہ دیا جائے تو یہ ایسا ہی ہے، جیسا کہ کوئی شخص اپنے گناہوں کے لیے شیطان کو ذمہ دار ٹھرائے۔ بعض لوگ یہ کہتے پھرتے ہیں کہ اغیار اپنے باطل افکار و نظریات کی ترویج و اشاعت کے لیے امت مسلمہ کے افراد کو عورت، دولت و شہرت،جاہ و منصب اور حکومت و سیاست کی لالچ دے کر امتِ مسلمہ کے اندر پھوٹ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر اسے بھی درست مان لیا جائے تب بھی قصور ہمارا اپنا ہی سامنے آتا ہے کہ ہم نے اپنے افراد میں ا لله تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید محبت، جنت کا شوق،جہنم کا خوف اور آخرت میں خدا کے حضور جوابدہی کا احساس پیدا کرنے میں بری طرح ناکام ہو گئے ہیں۔

 اتّحاد کے لیے ضروری ہے کہ عصبیت سے پوری طرح بچا جائے۔علاقہ،نسل، رنگ، ملک، قوم، وطن، زبان ،خاندان،حسب و نسب وغیرہ کی بنیاد پر گروہ بندی ہی عصبیت ہے۔ ا گر کسی فرد یا گروہ کی کسی تقریر تحریریا عمل سے عصبیت کی بو آئے تو اسے فوری طور پر روکنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے کہ ایک آدمی کی شورش بھی بڑی چیز ہے۔دیا سلائی کی ایک سلائی پوری دنیا کو جلا سکتی ہے، ٹھیک اسی طرح ایک انسان بھی پوری دنیا میں فتنہ برپا کر سکتا ہے؛ اس لیے ضروری ہے کہ عصبیت سے پوری طرح بچا جائے نیز ہر حال میں اتحاد کو قائم و دائم رکھا جائے؛ کیوں کہ یہ ایسی اجتماعی ضرورت ہے، جس کے بغیر کسی بھی خاندان و قوم کی بقا و ترقی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔اتحاد کی راہ کی سب سے بڑی رکا وٹ عصبیت ہے، یہ جذبات کو منفی سمت میں پروان چڑھاتی ہے۔ یہ اندھی ہوتی ہے، یہ عقل کو ماؤف اور مفلوج کرتی ہے،یہ تفریق اور بھید بھاؤ پیدا کرتی ہے،اس کی پکار جاہلیت کی پکار ہے۔عصبیت اتحاد کی ضد ہے، جہاں عصبیت ہوگی، وہاں اتحاد قائم نہیں رہ سکتا۔ بالفاظ دیگر،جہاں اتحاد ہوگا، وہاں عصبیت کا گزر نہیں ہو سکتا۔عصبیت کو چھوڑے بغیر امت میں اتحاد کی آرزو اور تمنا رکھنا ایسا ہی فضول ہے، جیسا کہ مشرق کی سمت میں سفر کرنا اور مغرب میں پہنچنے کے خواب دیکھنا۔ عصبیت ، اتحاد کے لیے زہر ہلا ہل ہے۔

پیارے آقا حضرت محمد … نے سخت  الفاظ میں اس سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے؛چنانچہ حدیث شریف میں وارد ہواہے کہ جو عصبیت پر مرا وہ جہالت پر مرا۱ور جو عصبیت کا علمبردار ہو وہ ہم میں سے نہیں،اور جو عصبیت پر جنگ کرے وہ ہم میں سے نہیں اور جس کی موت عصبیت پر ہو وہ بھی ہم میں سے نہیں۔ اتحاد ہی سب سے بڑا اصول ہے اور سب سے بڑی بے اصولی آپس کا تفرق۔ اتحاد زندگی ہے اور نا اتفاقی موت۔ اتحاد ترقی کی اولین شرط ہے۔  اور نا اتفاقی بر بادی کا پہلا زینہ۔ متحد رہیں گے تو زمانہ ٹھو کر میں ہوگا اور منتشر ہوں گے ُ تو زمانہ کی ٹھو کر میں ہم ہوں گے۔ یہی تاریخ کا سب سے بڑا سبق ہے؛ مگر شایدتاریخ کایہی سب سے بڑا سبق ہے ،جسے مسلمانوں نے سب سے زیادہ بھلا رکھا ہے۔آج بھی وہ آپس میں ایسی بری طرح بر سر پیکار ہیں، جیسے انھوں نے اپنے ماضی سے کچھ سیکھا ہی نہیں۔

پیارے آقا… نے عصبیت کی ساری دیواروں کو گرا تے ہوئے کالے گورے،عربی عجمی،چھوٹے بڑے،بادشاہ غلام، کے فرق کو مٹا کرعرب کے ابو بکر،حبشہ کے بلال،روم کے صہیب، فارس کے سلمان؛ وغیرہ کی مخفی صلاحیتوں کو پروان چڑھا کر نہ صرف رضی اللٰہ عنہم ورضو عنہ کے درجہ پر پہنچا دیا تھا؛ بلکہ اسلام کے تقاضوں کو پورا کرنے میں بھی استعمال کرکے انسانیت کے باغ کو سینچ کر نوعِ انسانی کو ایک خاندان میں تبدیل کر دیا تھا،جس کے نتیجے میں انسانی معاشرہ ایک بے خار گلد ستہ بن گیا تھا؛مگر ہم امتیوں کا حال یہ ہے کہ عصبیت کا طوق غلامی گلے میں ڈال کر امت کے شیرازہ کو بکھیر تے ہوئے اپنے سے قریب لوگوں کو دور کرکے انسانیت کو خانہ در خانہ تقسیم کرتے ہوئے، ا لله کے بندوں کو اس کے خالق و مالک سے دور کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

اگر مسلمان اپنے باہمی مسلکی اختلاف میں پہلو تہی سے کام لیں اور اختلاف بڑھانے والی باتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے دعوت دین کی طرف متوجہ ہوں ، تو ان کو اپنی کاوشوں اور صلاحیتوں کے استعمال کے لئے ایک بہتر میدان مل جائے گا ، ان کی قوتیں صحیح سمت میں خرچ ہوں گی۔

مشکلات اور دشواریاں بھیڑیا اور بکری اور سانپ اور نیولے کو اکٹھا کردیتے ہیں  مقام افسوس ہے کہ جس اُمت کو اس کے پیغمبر نے آخر آخر تک اتحاد و اتفاق کی تلقین کی ہے  اور جس کے درمیان اتفاق و اشتراک کے نکات کے مقابلہ اختلافی نکات شاید دو فیصد بھی نہ ہوں ، وہ اُمت نقش دیوار کو پڑھنا چھوڑ دے اور بلا امتیاز اس کے جان و مال اور عزت و آبرو کی ارزانی بھی اسے متحد نہ کرسکے ، وہ اپنے دشمنوں کی منصوبہ بندی کی طرف سے غافل ہوجائے اور اپنی صفوں کو متحدہ چٹان کے بجائے بکھرے ہوئے ذرات بنالے ، کیا اس سے زیادہ کم نصیب بھی کوئی گروہ ہوسکتا ہے کہ ہم اب اپنوں ہی کو دھتکارتے رہیں اور اپنے عروج  کے سوا کسی کا عروج گوارہ نہ ہو۔

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    فرقہ بندی سےزیادہ خطرناک جدیدیت

    بریلویت،دیوبندیت اور وہابیت وغیرہ اتنے خطرناک نہیں جتنا کہ جدیدیت ہے.
    "مذہبی گروہ بندی” مذہب سے نکلنے کا نام نہیں،بلکہ کسی خاص نظریے کےساتھ شدید محبت کی وجہ سے محدود ہونا "گروہ بندی” کا اثر ہے.
    لیکن بہرکیف!مذہبی گروہ بندی اپنے ہم مسلک علماء کےساتھ عقیدت کا اثر ہے.
    جب کہ دوسری طرف "جدیدیت” الحاد،دہریت اور مذہب بیزاری کا مجموعہ ہے.
    جدیدیت کا آخری نتیجہ مذہبی حدود سے آزادی اور لا مذہبیت کے صحراؤں میں نکلنا ہے.
    حاصل کلام یہ کہ گروہ بندی میں انسان کسی نہ کسی مذہبی نظریے کے اندر رہ کر علماء کےساتھ رہتا ہے،
    جب کہ جدیدیت انسان و انسانیت کو سب کچھ سمجھ کر،کسی بھی مسلک کے علماء کے قریب جانے نہیں دیتی۔
    قصہ مختصر! کہ آپس کے اختلاف کو چھوڑ کر،الحادی و دہری فکر کا خاتمہ کرنا ہوگا ورنہ آئندہ نسل ہماری نہیں ہوگی۔
    سوشل میڈیا پرایسے ایسے پوسٹ ملتےہیں کہ:”خدا کہاں ہے؟ کیسا ہے؟”وغیرہ نعوذباللہ.
    پس اس سیلاب کے سامنے بند باندھنے کےلیے حلیف و حریف کی تعیین ضروری ہے.

تبصرے بند ہیں۔