اختلاف رائے: حدود وآداب

مولاناعبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

 دین ودنیا کے ہرمعاملے میں اختلاف ایک ناگزیر امر ہے، جو ہر دور میں ہوتا آیاہے اورقیامت تک ہوتا رہے گا،غورکیاجائے تویہ بھی اللہ کی قدرت کا حسین مظہراور انسانی فطرت کا عظیم شاہ کارہے، خودباری تعالی کاارشاد ہے :اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی تخلیق (بھی)ہے اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف بھی،بیشک اس میں اہلِ علم و تحقیق کے لئے عبرت کا سامان ہے(الروم)

فطری طور پرہر انسان دوسرے انسان سے مختلف ہوتاہے، مزاج و مذاق میں ، فکر و تخیل میں ، اطوار وعادات میں ،شعور واحساس میں ؛یہی وجہ ہے کہ ایک باخبرانسان دوسرے انسان کے بنائے ہوئے ذہنی سانچے میں ڈھلنے کے لیے جلد تیار نہیں ہوتا، وہ اپنی نگاہ سے دیکھتا ہے، اپنے دماغ سے سوچتاہے، اپنے دل سے سمجھتا ہے پھر حال و استقبال، انجام وعواقب کو پیش نظر رکھ کر نظریہ قائم کرتاہے ؛اسی لیے اختلاف کو زندہ قوموں کی علامت بتلایا جاتاہے، ؛مگراختلاف کے ساتھ وسعت ظرفی،تحمل وبرداشت اور احترام انسانیت بھی نہایت ضروری ہے۔

 ہر اختلاف نہ تو مذموم ہے اور نہ ہی ہر اختلاف محمود ہوسکتاہے، وہ اختلاف جس کا منشاء وسبب قبیح ہو وہ اختلاف یقینا مذموم ہے۔ البتہ تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جب کبھی امت میں فکر ونظر کاشدید اختلاف پیدا ہوا،امت اصل مقاصد پر توجہ دینے کے قابل نہیں رہی، اس کی اجتماعیت منتشر ہوگئی،اس کی وحدت پارہ پارہ ہوگئی، اس کا وجود خطرے میں پڑگیا،دشمنوں کے دلوں سے اس کا رعب کم ہوگیا اور وہ اغیار کا آلۂ کار بن گئی۔

اختلاف رائے اور جھگڑے فساد میں فرق:

 اس عنوان کے ذیل میں حضرت مفتی شفیع صاحب ؒ لکھتے ہیں : اہل عقل وبصیرت پر مخفی نہیں کہ دینی اور دنیوی دونوں قسم کے معاملات میں بہت سے مسائل ایسے آتے ہیں جن میں آراء مختلف ہوسکتی ہیں ، ان میں اختلاف کرنا عقل و دیانت کا عین مقتضیٰ ہوتا ہے، ان میں اتفاق صرف دو صورتوں سے ہوسکتا ہے، یا تو مجمع میں کوئی اہل بصیرت واہل رائے نہ ہو، ایک نے کچھ کہہ دیا سب نے مان لیا اور یا پھر جان بوجھ کر کسی کی رعایت و مروت سے اپنے ضمیر اور اپنی رائے کے خلاف دوسرے کی بات پر صادکردیا ورنہ اگر عقل و دیانت دونوں موجود ہوں تو رائے کا اختلاف ضروری ہے اور یہ اختلاف کبھی کسی حال میں مضر بھی نہیں ہوتا، بلکہ دوسروں کے لیے بصیرت کا سامان مہیا کرتا ہے، اسمبلیوں میں حزب اختلاف کو اسی بنیاد پر ضروری سمجھا جاتا ہے۔

قرآن و سنت کے مجملات اور مبہمات کی تشریح و تعبیر میں اسی طرح کے اختلافات کو ’’رحمت‘‘ کہا گیا ہے جو اسلام کے عہد اول سے صحابہ و تابعین اور پھر ائمہ دین میں چلے آئے ہیں ۔ ان مسائل میں جو اختلافات صحابہ کرام میں پیش آچکے ہیں ، ان کو مٹانے کے معنی اس کے سوا نہیں ہوسکتے کہ صحابہ کرام کی کسی ایک جماعت کو باطل پر قرار دیا جائے، جو نصوص حدیث اور ارشاداتِ قرآنی کے بالکل خلاف ہے، اسی لیے حافظ شمس الدین ذہبی نے فرمایا ہے کہ جس مسئلے میں اختلاف صحابہ کرام کے درمیان ہوچکا ہے اس کو بالکل ختم کردینا ممکن نہیں ۔

اسی کے ساتھ صحابہ و تابعین اور ائمۂ مجتہدین کے دور کی وہ تاریخ بھی سامنے رکھنا ضروری ہے کہ تعبیر کتاب و سنت کے ما تحت جو ان میں اختلاف رائے پیش آیا ہے اس پوری تاریخ میں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں کہ اس نے جنگ و جدال کی صورت اختیار کی ہو، باہمی اختلاف مسائل کے باوجود ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنا ا ور تمام برادرانہ تعلقات قائم رہنا اس پوری تاریخ کا اعلیٰ شاہکار ہے۔ (دین وشریعت کی بنیادیں ،ص112)

اختلاف کے اصول و آداب :

1: اختلاف قرآن وسنت کی بنیاد پراخلاص و للّٰہیت کے ساتھ ہو اور اختلاف کرنے والوں میں وہ اہلیت بھی موجود ہو جو اس کے لئے ضروری ہے، تو یہ اختلاف ممنوع نہیں ؛بلکہ امت کے لئے رحمت ہے۔

اختلاف رائے رکھنے والے مختلف قسم کے لوگ ہوتے ہیں ۔بعض نادان، کم فہم،بے دین، ان پڑھ اور میڈیائی پروپیگنڈے کے شکار؛ جو انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ کسی رائے کا اظہار کر بیٹھتے ہیں ، پھر ہوتا یوں ہے کہ نہ تو انہیں سمجھایاجاسکتا ہے، نہ ان کے پاس اپنی رائے سے متعلق معقول دلائل ہوتے ہیں اور نہ ہی انہیں نتائج کا ادراک ہوتا ہے یا کبھی کھبار ایسا ہوتا ہے کہ چند ٹوٹے پھوٹے دلائل تو رکھتے ہیں لیکن ایسے نامعقول کہ صرف جان چھڑانے کے لئے ان کو استعمال میں لایاجاتا ہے، جس سے ان کا اپنا ضمیر بھی مکمل طور پر مطمئن نہیں ہوتا۔

ٍبعض حضرات ایسے ہوتے ہیں کہ ناقص معلومات، مفروضوں ، پروپیگنڈوں اور افواہوں کے زیر اثر رہ کر کچھ عجیب وغریب رائے کا اظہار کرکے اپنی عقلمندی کا پردہ چاک کردیتے ہیں ؛ لیکن جب انہیں حقائق کا پتہ چل جاتا ہے تو خاکساری اور حقیقت پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی سابقہ رائے سے دستبردار ہوجاتے ہیں ۔

فی زمانناہر شخص اپنے آپ کو اختلاف کا اہل سمجھتاہے، ہر معاملے میں اپنی مستقل رائے رکھنے کو بڑائی تصور کرتاہے، بالخصوص سوشل میڈیا کی اس برق رفتاری میں معمولی سے معمولی مسئلہ پر فورا دو فریق ہوجاتے ہیں پھر دونوں کے مویدین و مخالفین کے درمیان، بحث و مباحثہ، لفظی تکراروجنگ، سب وشتم اوربسااوقات جنگ و جدال تک کی نوبت آجاتی ہے۔ واٹس ایپ اور فیس بک کے بے شمارمفتی وہ ہیں جو نہ مسئلہ سے متعلق احکام کا علم رکھتے ہیں نہ کسی شخصیت کے مقام و مرتبے سے واقف ہیں محض سنی سنائی باتوں پر تکفیر وتضلیل کا بازار گرم کرتے ہیں اور اسی کو قرین انصاف سمجھتے ہیں ۔

2: اختلاف ایسے مسائل میں ہو جن میں قرآن و سنت نے کوئی دو ٹوک فیصلہ نہ کیا ہو، ایسے مسائل جن میں اجتہاد کی گنجائش ہوتی ہے، یعنی ایک سے زیادہ آراء کا احتمال ہوتا ہے ان میں جو فریق بھی جو رائے دلائل کی بنیاد پر قائم کر لے وہ ناجائز اور ناپسندیدہ نہیں ہوتی۔

جب وہ ناجائز نہیں تو کسی کے لئے یہ درست نہیں کہ دوسرے کو اس بنیاد پر ٹوکے مثلًا ایک شخص رفعِ یدین کرتاہے، دوسرا نہیں کرتا۔ توکرنے والے کے لئے جائز نہیں کہ وہ نہ کرنے والے کو ٹوکے، اور نہ کرنے والے کے لئے بھی جائز نہیں کہ وہ کرنے والے کو ٹوکے، کیونکہ یہاں کوئی رائے بھی منکر نہیں اور غیر منکر پر اعتراض کرنا خود منکر ہے۔

3: دلائل کی روشنی میں اپنی جو بات بھی راجح ہو اسے صواب، محتمل خطا اور فریق مخالف کی رائے کو خطا، محتمل صواب سمجھاجائے، اس سے اختلاف اپنے دائرے میں رہے گا اور عناد و شقاق کی نوبت کم آئے گی ورنہ اپنی رائے پر اصرار تفرقہ اور انتشارکا سبب ہوسکتاہے۔

اجتہادی مسائل اور فقہی و علمی اختلا ف میں ہماراطریقہ یہ ہونا چاہیے کہ اپنے مسلک کو چھوڑا نہ جائے اور دوسرے کے مسلک کو چھیڑا نہ جائے، نہ چھیڑنے کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ علمی تنقید نہ کی جائے بلکہ علمی تنقید کا دروازہ ہمیشہ کھلا رکھنا چاہیے، البتہ اسے لڑائی جھگڑے او ر دلوں میں دور ی کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیے، کشادہ دلی کے ساتھ اختلاف اور تنقید کو بر داشت کرنا چاہیے نیزکسی کو اپنے خیال اور رائے کا پابند نہیں بنانا چاہیے، یہ ایک بے جا اور غیر فطری خواہش ہے کہ تمام لوگ کسی ایک رائے پر جمع ہوجائیں ، اپنے مسلک و مذہب کو دلائل کے ساتھ بیان کرنے میں اور اسے راجح قرار دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

باہمی جنگ و جدال کے دو رُکن:

  اس عنوان کے تحت حضرت مفتی شفیع صاحب ؒ ارقام فرماتے ہیں : آج مذہب کے نام پر جو جنگ و جدال کا بازار گرم ہے اس کے دو رکن ہیں ۔ ایک ہر فرقہ اور جماعت کے علماء‘ دوسرے وہ عوام جو اِن کے پیچھے چلنے والے ہیں ۔ علماء اگر اپنی تحقیق و تنقید میں قرآنی اصولِ دعوت کے مطابق دوسرے کی تنقیص و توہین سے پرہیز کرنے لگیں ‘ اور اسلام کے وہ بنیادی مسائل جن میں کسی فرقے کو اختلاف نہیں اور اسلام اور مسلمانوں پر جو مصائب آج آ رہے ہیں وہ سب انہی مسائل سے متعلق ہیں ‘ اپنی کوششوں اور محنتوں کا رُخ اس طرف پھیر دیں ‘ اسی طرح عوام اپنی مقدور بھر پوری کوشش کر کے کسی صحیح عالم کا انتخاب کریں اور پھر اس کے بتائے طریقے پر چلتے رہیں ‘ دوسرے علماء یا ان کے ماننے والوں سے لڑتے نہ پھریں ‘ تو بتائیے کہ ان میں اشکال کیا ہے ؟ سارے فرقے اور ان کے اختلافات بدستور رہتے ہوئے بھی یہ باہمی جنگ و جدل ختم ہو سکتا ہے ‘ جس نے آج مسلمانوں کو کسی کام کا نہیں چھوڑا۔ صرف ذرا سی توجہ دینے اور دلانے اور طرزِ عمل بدلنے کی ضرورت ہے۔ کاش میری یہ آواز اُن بزرگوں اور دوستوں تک پہنچے جو اِس راہ میں کچھ کام کر سکتے ہیں ‘ اور محض اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے نام پر اس ہمدردانہ دعوت کے لیے کھڑے ہو جائیں تو اُمت کی بہت سی مشکلات حل ہو جائیں ‘ اور ہمارا پورا معاشرہ جن مہلک خرابیوں کی غار میں جا چکاہے ان سے نجات مل جائے۔ (وحدت امت)

حضرات صحابہ کے مابین اختلاف :

حج کے موقع پر رسول اللہ ﷺچار رکعت والی نماز کو مسافر ہونے کی وجہ سے دورکعت پڑھا کرتے تھے، حضرت ابوبکر صدیقؓ و حضرت عمر فاروقؓ کا بھی یہی طریقہ تھا، خلافت کے بعد کچھ سالوں تک حضرت عثمان غنیؓ بھی اسی پر عامل رہے لیکن پھر انہوں نے چار رکعت پڑھنا شروع کردیا، صحابہ کرام میں سے بہت سے لوگوں نے اس سلسلے میں ان پر تنقید کی، جن میں سر فہرست حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کانام ہے، لیکن جب نماز شروع ہوئی تو وہ بھی شامل ہوگئے اور چا ر رکعت ادا کی، ان سے اس کی بابت سوال کیاگیا تو فرمایا الخلاف شر(لڑنا، جھگڑنا بری بات ہے )( مصنف عبد الرزاق) یعنی اختلاف او رتنقید اپنی جگہ لیکن اسے افتراق اور انتشار کا ذریعہ بنا لینا اور دوسروں پر اپنی رائے مسلط کرنا درست نہیں ہے۔

 حضرت عمر فاروقؓ کے پاس ایک صاحب مسئلہ دریافت کرنے کے لیے آئے، انہوں نے کہا کہ جاؤ علی اور زید سے پوچھ لو، وہ معلوم کرکے آئے اور حضرت عمرؓ کو اس کی اطلاع دی، انہوں نے کہا کہ اگر میں ہوتا تو اس کے برخلاف فیصلہ کر تا، سائل نے کہا کہ آپ با اختیار ہیں ، آپ کو ایسا کرنے سے کس نے روکا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ اگر کتاب و سنت میں صراحتاً اس کا حکم مذکور ہوتا تو میں ضروراسی کے مطابق فیصلہ کرتا لیکن یہ صرف میری ایک رائے ہے اور رائے کے سلسلے میں ہم دونوں برابر ہیں ، اس لیے کسی کو دوسرے کی رائے کا پابند نہیں بنایا جاسکتا۔ (اعلام الموقعین )

خلاصۂ کلام :

 حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ تحریر فرماتے ہیں کہ کسی بھی انسانی سماج میں اختلاف و نزاع کا پیدا ہونا ایک فطری چیز ہے، جس سے بچنا ممکن نہیں ، لیکن یہ ضروری ہے کہ جہاں آگ لگے، وہاں پانی ڈالنے والے لوگ بھی موجود ہوں ، جہاں سیلاب آتا ہے تو وہاں ہر شخص پانی کی ظالم موجوں کے آگے بند باندھنے کی کوشش کرتا ہے، ورنہ آگ پوری بستی کو اپنا لقمہ بنالے گی اور سیلاب پوری آبادی کو غرقاب کرکے رہے گا، اس لئے مسلمانوں میں جو ’’ اربابِ حل و عقد ‘‘ ہوں — یعنی ذمہ دار، سمجھ دار، بااثر، اہل علم و دانش، علماء و مشائخ، مذہبی اور سماجی قائدین — ان کی نیز ملی تنظیموں اور جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلم معاشرہ میں اُبھرتے ہوئے اختلاف کی بروقت تشخیص کریں ، اس کے اسباب و عوامل کو سمجھنے کی کوشش کریں اور ان کے تدارک کی طرف متوجہ ہوں ، ورنہ یقینا عنداﷲ وہ اس سلسلہ میں جوابدہ ہوں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔