اختلاف و طائفیت کا رمز

 عبدالعليم بن عبدالحفيظ سلفى

اسلامی فرق کاتعارف یاان سے متعلق کسی بھی بحث کامقصد درحقیقت حق وباطل کی تمییزہوتاہے، اوران اسالیب وطرق کی  توضیح ہوتی ہے جن کی بنیادپرباطل فکرونظریات  کی بنیادپڑتی ہے، جومرور وقت کے ساتھ خوشنمامحل کا منظرپیش کرتا ہے، اوران کے قدم اتنے مضبوط ہوچکے ہوتے ہیں کہ ان کواکھاڑنا کارے مشکل بن جاتاہے، یہی وجہ ہے کہ ان باطل عقائد ونظریات کے حاملین  کی سوچ وفکراپنے مزعوم کی تصدیق اورتحسین میں صرف ہوتی ہے جس کے پردےمیں حق کی حقانیت اور سچائی  کوچھپانے کی کوششیں کی جاتی ہیں، پھر اتباع وتقلیدکی ایک نہایت ہی غلط رسم کی داغ بیل پڑجاتی ہے، اوراس تقلیدی  یگانگت کے اندربھی  اختلاف وانتشارکا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوجاتاہے، جسے ہم نے اپنی سنہری تاریخ کے صفحات میں بارہاملاحظہ کیاہے، اگرکوئی کہتاہے کہ فکری تنوع سے استخراج و استنباط اورتحقیق وبحث کا دروازہ کھلتاہے، توہم کہتےہیں کہ بلاشبہ فکری تنوع  مذکورہ مقاصدکے لئے ایک جزوی ذریعہ ہے بلکہ ایک کامیاب ترین وسیلہ ہے لیکن اگریہ تنوع اصولی دائرہ میں ہوتو ! اور اگریہی تنوع شرعی اصول ومبادی سے ہٹ کرہواورعقائد واعمال میں بگاڑاورفساد کا ذریعہ بن جا‏ئے توامت مرحومہ کے لئے عذاب اورانتشاراور طائفیت کا رمزبن جاتا ہے، خوارج کے وجود سے لیکرعصر حاضرتک کتنے فرقوں نے جنم لیااورامت کوکن کن  پریشانیوں سے دوچارہوناپڑا؟یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔

اپنی فکری اورتحزیبی مقصدبرآری کے لئے جن دلائل کاسہارالیاجاتاہے وہ زیادہ ترتاویلی اورغیرمناسب ہوتےہیں اوراگر دلائل مضبوط بھی ہوں تومقصدکے اندر کھوٹ ہوتاہے، مثلا: خوارج نے مسئلۂ تحکیم کے موقع سے علی اورمعاویہ رضی اللہ عنہماسے دوری اختیارکرتےوقت جودلیل دی تھی وہ اپنے آپ میں نہایت ہی مناسب اورمضبوط تھی، ظاہرہے کہ شرعی امور میں اللہ کے حکم اورفیصلہ کےسوا اور کسی کے حکم کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے ان کی دلیل سننے کے بعدکہا تھا کہ :”بات حق ہے مگرغلط مقصدبرآری کے لئے استعمال کی گئی ہے "اوروہ غلط مقصد اس کےعلاوہ کچھ نہیں تھاکہ امت کا شیرازہ منتشرہو اور خلیفۂ وقت کے امرکو کمزورکردیاجائے، یہاں پریہ بات بھی قابل غورہے کہ مذکورہ طائفہ کوئی ظاہری بددینیت پرنہیں تھابلکہ  ان کا ظاہری وضع  نہایت ہی شفاف تھا، اوراگرکہیں کمی تھی توصرف یہ کہ اپنے ظاہری تدین کے باوجودقرآنی تعلیمات اور اس کے فیوض سے محروم تھے، اسی وجہ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا: "یمرقون من الدین مروق السھم من الرمیة ” ” یہ دین سے   ایسے  نکل جائیں گے جیسے تیر شکارکے جسم سے نکل جاتاہے "۔

یہی حال دین میں پیداشدہ تمام فرقوں کاہے، ان کے استدلال اور وضع قطع سے لوگوں  کا دھوکا کھانا بدیہی ہے۔ یہاں یہ بھی بتاتےچلیں کہ نامناسب تشاجرات اور مناظرات نے ان باطل عقائدکے حاملین اوران کے افکارکواورجلا بخشاہے، ان کا تقریبا ہرمتبع صرف اس امرپردھیان دیتاہے کہ میراامیر یامناظرمخالف پرکس حد تک غالب رہتاہے۔ اگروہ صرف اس بات پہ اپنے ذہن کو مرکوزرکھتاکہ حق اور دلائل حق کہاں سے ملیں تو اس کے لئے راہ صواب ضرور واضح اورمزین ہوکرسامنے آتا،اور پھر ذہنی اورفکری بھٹکاؤسے محفوظ رہتا،اوراس کے لئے تحزب اورفرقہ بندی کوئی بات نہیں رہ جاتی، یہی مقصودآیت کریمہ:

وأن هذاصراطي مستقيماً فاتبعوه ولاتتبعوا السبل  فتفرق بكم عن سبيله}(الانعام :153)

(یہ دین میراراستہ ہے جو مستقیم  ہے، اسی پہ چلواوردوسری راہوں پرمت چلو کیونکہ وہ تمہیں اللہ  کے راستے یعنی اس کے دین سے الگ کردیں گی) کا ہے۔

خوارج ایک ایسا فرقہ ہے جسےدین میں ظاہری دینداری سے مزین لوگوں نے ایجاد کیا، اوریہ وہ زمانہ تھاجوصحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا تھااوران کووہ روایتیں ازبر تھیں جوان کی شرست  کی وضاحت کے لئے کافی تھیں، لیکن اس کے باوجوداس گروہ نے اسلامی  تعلیمات کے اندرکاری ضرب لگانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا، اور اپنے مفادکے لئے حتی الوسع متوفر وسائل کوبروئے کارلائے، جس کے نتیجے میں اسلامی صف میں جواتحاداوراتفاق مطلوب تھا بکھرتاہوانظرآنے لگا۔

 یہ فرقہ اپنے غیرمعمولی تدین کے باوجود اپنے عقائدکے اعتبارسے بھٹکاہواہے،ولی الامرکی اطاعت سے نکلنا، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کوسب وشتم کرنا، مرتکب کبیرہ کی تکفیر، حجیت سنت کا انکاراور صفات باری تعالی کی تاویل وتعطیل، یہ ایسےعقائد ہیں جوکسی بھی فرقہ کی گمراہی کے لئے کافی ہیں، یہی وجہ ہے کہ تمام صحابۂ کرام  رضی اللہ عنہم نے ان سے دوری اختیارکی اوران سےقتال کرنے میں  پس وپیش سے کام نہیں لیا۔

 قابل ذکربات یہ ہے کہ یہ روایت حدیث میں ثقہ ترین لوگوں میں سے تھے ان کی بعض روایتیں  صحیح ترین  سندوں میں شمارکی جاتی ہیں، جیساکہ خطیب بغدادی نے امام ابوداؤدکا قول نقل کیاہے کہ :” بدعت پرستوں میں سےخوارج کی روایتوں سے زیادہ صحیح روایتیں کسی کی نہیں ہوتیں ” اور شیخ الاسلام  ابن تیمیہ کےبقول : "خوارج جان بوجھ کرجھوٹ بولنے والوں میں سے نہیں تھے، یہاں تک کہاجاتاہے کہ ان کی حدیثیں صحیح ترین ہواکرتی تھیں،لیکن یہ جہالت کی  وجہ ہے اپنی بدعت میں گمراہ ہوگئے، اوران کی بدعت الحادو زندقیت کی بنیادپرنہیں تھی بلکہ قرآن کریم کے فہم سے جہالت  وگمراہی کی بنیاد پر تھی "۔(منہاج السنہ النبویہ  :1/68)۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جھوٹ جوکبیرہ گناہوں میں سے ہے ان کے نزدیک نہ یہ کہ اس کا مرتکب آثم ہے بلکہ اس کے اوپرکفرکا اطلاق ہوتاہے۔
معلوم ہواکہ روایت حدیث میں اپنی ثقاہت کے باوجود تاویلی اورتخریبی فکروعمل کااثران کی گمراہیت کاسبب بناجس کی پیشن گوئی پہلےہی کی جاچکی تھی :  "یقرءون القرآن لایجاوزحناجرھم ” "یہ قرآن کریم کی تلاوت تو کریں گے لیکن  ان کے حلق سے نیچے نہیں اترےگا”۔

  بسااوقات ایسابھی ہوتاہے کہ پیداشدہ گروہ فکری تنوع کے کی وجہ سے گروہ درگروہ منقسم ہوتاجاتاہے، اور آپسی اختلاف کاپیش خیمہ بن جاتاہے، اورہر گروہ خودکو برحق ثابت کرنے کی جی توڑکوشش میں لگ جاتاہے اورکتاب وسنت کاوہ ایک راستہ جونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کودکھایاتھا کہیں دورجاپڑتاہے،جبکہ مذکورہ صحیح راستہ ہراعتبارسے واضح اورروشن ہے جس کےاندرکوئی غموض اورپیچیدگی نہیں ہے، اورتعجب خیزبات تویہ ہے کہ بعض مکتبۂ فکرکی جانب سے نہایت ہی دریدہ دہنی کے ساتھ یہ کہاجاتاہے کہ قرآن وسنت کی باریکیاں ہماری سمجھ سے بالاترہیں اس لئے کسی نہ کسی مکتب فکرسےجڑناہمارے لئےواجب ہے،ورنہ دین پرعمل کرنا ہمارے لئےصعب اورمشکل ہوجائےگا۔ان کےلئے علماءکےپیچ درپیچ مسائل توواضح اوران پرعمل درآمدسہل ہےلیکن قرآن سنت کی واضح باتیں مشکل اورروشن راہ کانٹوں بھری ہے۔ جبکہ اللہ تعالی کا ارشادہے :

وأنزلناإليك الذكرلتبين للناس مانزّل إليهم ولعلهم يتفكرون(النحل :44)

 (یہ ذکر (کتاب)ہم نے آپ کی طرف اتاراہے تاکہ لوگوں کی طرف نازل کی گئی چیز کو آپ کھول کربیان فرمادیں، شایدکہ وہ غوروفکرکریں) نیز ارشادفرماتاہے:

ونزّلنا عليك الكتاب تبياناًلكل شيئ وهدى ورحمة وبشرى للمسلمين (النحل :89)

(اورہم نے آپ پریہ کتاب نازل فرمائی ہے جس میں ہرچیزکاشافی بیان ہےاورہدایت اوررحمت اورخوشخبری ہے مسلمانوں کے لئے) اوراللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:

"فقد تركتكم على البيضاء، ليلها كنهارها،لايزيغ عنها بعدي إلا هالك” (احمد:16812)

"میں تم لوگوں کوواضح ترین راہ پرچھوڑےجارہاہوں، جس کی راتیں بھی اس کے دن کی طرح روشن ہیں، میرےبعداس راہ سے ہلاک ہونےوالا ہی الگ ہوسکتاہے”۔

یہ روایت آگےچل کردین سے بھٹکےگروہوں کےلئے پیش خیمہ ثابت ہوئی کیونکہ جب جب کوئی طبقہ یاگروہ اس روشن اورجلی جادۂ حق سےبھٹکنے کا مرتکب ہوا دین حق سے دورہوتا چلا گیا اورطائفیت واختلاف کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔