ادبستان کی افسانوی نشست کا انعقاد

شہر میں  نثری نگاری کی طرف اٹھائے گئے قدم میں  استقامت برقرار ہے۔ ادبستان کی تشکیل کے سبب بہت سارے نئے لوگ نچر نگاری کی طرف مائل ہورہے ہیں  اور امید سے کہیں  بہتر تخلیقات سامنے آرہی ہیں ۔ اس مستحسن اقدام کے لیے ہم منتظمین ومؤسسین کو مبارک باد دیتے ہیں ۔ ہمارے بزرگوں  نے شاید ایک کوتاہی کی تھی کہ اس جانب دھیان نہیں  دیا تھا مگر نوجوانوں  کی اس جماعت نے اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی، ہم لوگوں  نے بھی کبھی ایک ایسی ہی انجمن قائم کرنے کا ارادہ کیا تھا مگر وہ ارادہ ذہن سے نکل کر عملی میدان میں  نہیں  آسکا لیکن آج ایک طرح سے ہمارے دیرینہ خواب کی تکمیل ہوگئی۔ ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر شکیل احمد نے ادبستان کی تیسری افسانوی نشست کے موقع سے خطبہ صدارت کے دوران کیا۔

نشست کا انعقاد ایم اے اے فاؤنڈیشن آفس میں  کیا گیا تھا۔ جس میں  کل چھ افسانے اور ایک فکاہیہ پیش کیا گیا۔ نشست کا باضابطہ آغاز مشہور ادیب کئی کتابوں ں  کے مصنف ڈاکٹر شکیل احمد کی صدارت میں  اسلم صادق کی نعت سے ہوا۔ سب سے پہلے دانش اثری نے زارا فرازکا افسانہ ’’کتاب ذات کے دکھ‘‘ کے عنوان سے پیش کیا جس کے اندر افسانہ نگار نے عدم خود مختاری نسواں  اور غیر آسودہ ازدواجی زندگی کے حوالے سے اپنے نظریات کا اظہار کیا تھا۔ صدر مجلس نے اس افسانے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس افسانے کو سن کر انتظار حسین کی یاد تازہ ہوگئی وہی اسلوب وہی انداز ، وہی الفاظ ایسا لگتا ہے کہ افسانہ نگار کو فن پر پوری مہارت حاصل ہے۔شاہد کلیم نے ’’لذت درد‘‘ کے حوالے سے مختلف قسم کے درد کا بہترین تجزیہ کیا اور سامعین کو حقیقی درد کی لذت سے آشنا کرایا۔

اسماعیل شاداں نے ’’لذت درد‘‘ کے عنوان سے ابتدائے اسلام کی تاریخ اور عشق نبی کے حوالے سے بھرپور تحریر پیش کی اور راجستھان کے ریگستانوں  سےے صحرائے عرب کا سفر بہت عمدگی سے طے کیا جس کے لیے انھیں  داد و تحسین سے نوازا گیا۔
محفل کی خشکی کو دور کرنے کے لیے نہال جالب نے ایک قطعہ اور غزل پیش کی اس کے بعدحماد احمد حماد نے ’’تصویر درد‘‘ کے عنوان سے مکافاتت عمل کے حوالے سے بہترین افسانہ پیش کیا۔

کلیم جاذل اور امتیاز ثاقب کیغزلوں  کے بعد شمیم صادق نے ’’تصویر درد‘‘ کے عنوان سے ناکام محبت پر مشتمل افسانہ پیش کیا جس میں  انھوں  نے ان کہےے جذبات کی بہترین عکاسی کی۔ذکی محفوظ نے بھی ایک غزل پیش کی۔ اور دانش اثری نے ’’لذت درد‘‘ کے عنوان سے تنہائی اور بے اصولی پر مبنی شعور کی رو تکنیک پر مشتمل افسانہ پیش کیا۔

ڈاکٹر امتیاز ندیم نے ادبستان کے قیام پر اپنی مسرتوں  کا اظہار کیا ، تخلیق کاروں  کی حوصلہ افزائی فرمائی اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ جولوگ نثر نگاری کیی کارگاہ میں  ایک بار قدم رکھ چکے ہیں  انھیں  دوبارہ اس سے گریز نہیں  کرنا چاہیے بلکہ استقلال کے ساتھ لگے رہنا چاہیے۔ آنجناب نے بھی ’’لذت درد‘‘ کے عنوان سے ایام ماضی کی خوشگوار یادوں  کے حوالے سے سماجی المیہ پر مشتمل ایک شاہکار افسانہ پیش کیا۔
ڈاکٹر رفیق اشفاق صاحب نے تاثرات پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک خوش آئندہ قدم ہے اور اسے بہت پہلے ہی عمل مین لانا چاہیے تھا لیکن خیر اب اس کیی طرف توجہ دی گئی تو امید ہے کہ مستقبل میں  سرزمین مئو سے بہترین نثر نگار بھی پیدا ہوں  گے۔

مہمان خصوصی مشہور سوشل ورکر جمال ارپن نے بھی تمام تخلیق کاروں  کو مبارک باد دی اور انھیں  ہر قسم کے تعاون کا یقین دلایا۔ انھوں  نے کہا کہ یہ ایکک اچھے کام کی ابتداء ہوئی ہے اس لیے آپ لوگ کوشش کریں  ہمارے شہر میں  نہ ذہانت کی کمی ہے اور نہ محنت کشی۔ آپ نے ارادہ باندھ لیا ہے تو منزل خود آپ کے قدم چومے گی۔

تاثرات کے بعد پروگرام کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا اور واٹس گروپ ’’بزم شعراء ‘‘ میں  منعقد 5 روزہ ’’تنقید و تبصرہ ایونٹ‘‘ میں  کامیاب ہونے والے شعراء کوو مہمان خصوصی جمال ارپن کے ہاتھوں  انعامات سے سرفراز کیا گیا۔ اس ایونٹ میں  بالترتیب شمیم صادق، مئو۔ صبیحہ تبسم ، حیدرآباد۔ حماد احمد حماد، مئو نے پہلا ، دوسرا، اور تیسرا مقام حاصل کیا۔

صدر پروگرام ڈاکٹر شکیل احمد نے تمام تخلیق کاروں  کی تخلیقات پر مختصرا گفتگو فرمائی ، ان کی حوصلہ افزائی کی اور انھیں  استقلال کے ساتھ لکھتےے رہنے کی تلقین کی۔ انھوں  نے کہا کہ آج کی اس بزم سے مجھے اتنی عمدہ تخلیقات کی امید نہیں  تھی کیونکہ میں  یہ مزاج بنا کر آیا تھا کہ سب نئے لکھنے والے لوگ ہیں  اس لیے تحریروں  میں  یقینا ناپختگی اور بے ربطی ہوگی لیکن آج کے افسانوں  کو سننے کے بعد مجھے یہ احساس ہوا کہ ہمارے شہر میں  نثر نگاری کے ذوق کی کوئی کمی نہیں  ہے بس کمی تھی تو کسی مہمیز کرنے والے کی اور یہ کمی بھی ادبستان کے ذمہ داروں  نے پوری کردی۔

دانش اثری نے اگلی نشست کے لیے بجائے کسی عنوان کے تھیم کے مرکزی عنصر ’’موسم‘‘ کا اعلان کیا اور کہا کہ تمام تخلیق کار صرف موسم کو مد نظرر رکھ کر خود سے کوئی بھی عنوان طے کرکے افسانے تخلیق کریں ۔ اگلی نشست حسب سابق نصف مارچ کے کسی دن منعقد ہوگی۔
پروگرام کے انعقاد میں  معاونین اور خاص طور سے امتیاز نعمانی ، غفران ساجد اور تمام سامعین و حاضرین کے شکریہ کے ساتھ باجازت صدر محفل کےے اختتام کا اعلان کیا گیا۔

تبصرے بند ہیں۔