اردو، کتاب بینی اور ہم

دوست محمد خان

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ

ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے!

داغؔ دہلوی کا یہ شعر جو اُن کے دور میں ایک حقیقت تھا آج ایک دستانِ پارینہ  بن کر رہ گیا ہے۔ اردو جو ایک زمانے میں پورے برصغیر کی  lingua franca یعنی رابطے کی زبان تھی آج  بالخصوص شمالی ہندوستان میں، جو اس کا مرکز تھا، اپنی بقا کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ شمالی ہندوستان میں پورے اتر پردیش، پنجاب اور ہریانہ میں یہ چند گنے چنے مقامات پر سمٹ کر رہ گئی ہے اور وہاں بھی اس کا مستقبل ایک غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار  ہے۔ شہرِ دہلی، خصوصاً پرانی دہلی کا فصیلی شہر جو شاہجہاں آباد کے نام سے بسایا گیا تھا، کئی سو سال تک مغلیہ سلطنت اور برطانوی راج کا دارالحکومت رہا۔ دہلی ہندوستان کا دل  تھی اور دہلی کا دل اردو زبان تھی۔ قلعۂ معلّیٰ اور جامع مسجد کےاطراف کا علاقہ اردو زبان کا مرکز تھا۔ میؔر نے جامع مسجد کی سیڑھیوں پر بولی جانے والی اردو کو اس زبان کی سند مانا تھا۔ اس علاقے کی جان اردو بازار تھا جہاں اردو کے بہت سے اشاعتی ادارے، کتب فروشوں کی دکانیں اور اردو کے کئی مطابع تھے۔ افسوس، صد افسوس کہ آج یہ منظر نامہ اتنا بدل گیا ہے کہ اب اسے اردو بازار کہنا ایک بھدا مذاق لگنے لگا ہے۔

تقسیم ہند کے بعد دہلی کے اردو داں طبقے کا ایک بہت بڑا حصہ پاکستان ہجرت کرگیا اور اس کے ساتھ ہی دہلی کے  نامور  اردو ادیبوں میں سے بھی بیشتر پاکستان ہجرت کر گئے ۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ  دہلی میں اردو کی ایک زندہ و تابندہ ادبی  روایت اپنی آخری سانسیں لینے لگی۔ ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے اور مولوی بشیرالدین احمد کے صاحبزادے شاہد احمد دہلوی اس کی نمایاں  مثال ہیں جو اپنے ساتھ ماہنامہ ‘ساقی’ جیسے عہدساز اور ادیب ساز جریدے  کو لے کر پاکستان  چلے گئے اور اردو بازار میں  واقع اس کا دفتر بند ہوگیا۔ شاہد احمد دہلوی کے علاوہ اشرف صبوحی، ملا واحدی، خواجہ محمد شفیع، سید یوسف بخاری دہلوی، علامہ اخلاق احمد دہلوی، رازق الخیری، صادق الخیری جیسے دہلی کے نامور ادیبوں کی ہجرت کے ساتھ ہی دہلی کی زبان و ادب کی ایک درخشاں روایت کا خاتمہ ہوگیا۔

آزادی  کے بعد کے نامساعد حالات اور اردو زبان کے تئیں غیروں کی معاندت اور اپنوں کی منافقت نے آج اردو کو ایک ایسے مقام پر لاکرکھڑا کردیا ہے جہاں اس کے مستقبل کے بارے میں قطعیت کے ساتھ کچھ بھی کہنا ممکن نہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ اردو داں طبقے کی  نئی نسل اردو سے تقریباً نابلد ہے اور پرانی نسل قوتِ عمل سے عاری ہے۔ اردو کے نام نہادہمدردوں کی فکرمندی بھی تشویش کے زبانی اظہار سے  شاذ و نادر ہی آگے بڑھتی ہے جبکہ اس وقت  ضرورت عمل کی ہے اور وہ بھی اجتماعی عمل کی۔ لیکن  عمل کا تقاضا آتےہی ان کے دست و بازوشل اور زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں۔

اردو یوں تو ویسے ہی  اجتماعی بے توجہی کا شکار تھی، اس پر رہی سہی کسر انٹرنیٹ نے پوری کردی۔ فارغ وقت میں انٹرنیٹ پر مشغولی اور انہماک نے اردو ہی نہیں ہر زبان میں کتب بینی کی روایت پر کسی نہ کسی حد تک منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ کتب بینی کا شوق رکھنے والوں کے لیے ہر زبان کی طرح اردو میں بھی پی ڈی ایف  (pdf) فارمیٹ میں بے شمار ایسی کتابیں بھی دستیاب ہوگئیں جن کا حصول کتابی صورت میں ممکن نہ ہوتا۔ کنڈل (Kindle) اور ای۔بُکس (E-books) نے یہ کام مزید آسان کردیا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ اصل کتاب کو ہاتھ میں لے کر پڑھنے کا لطف ہی کچھ اور ہوتا ہے، کتب بینی اور نتیجتاً   کتابوں کی  شوقیہ خریداری میں بے حد کمی واقع ہوگئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ  اردو کتابیں چھاپنے والے مطابع اور کتاب فروشوں کی دکانیں بند ہونے لگیں۔ آج صورت حال یہ ہے کہ جامع مسجد کے قریب واقع اردو بازار  بُک اسٹریٹ کے بجائے فوڈ اسٹریٹ بن چکا ہے۔ یہاں کے چند نامی گرامی پرنٹنگ پریس بند ہوچکے ہیں اردو کتب فروشوں کی دکانیں یا تو بند ہوچکی ہیں یا بند ہونے کے دہانے پر ہیں۔

ایک عرصے سےاردو کتابوں کی خریداری میں کمی واقع ہونے کی ایک وجہ اردو داں طبقے کی قوت خرید کی کمی بتائی جارہی ہے۔  لیکن آج جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس طبقے سے تعلق رکھنے والی چار افراد پر مشتمل ایک اوسط فیملی ایک وقت میں پانچ سو روپے یا اس سے زیادہ کا پِزا ماتھے پر شکن ڈالے بغیر بصد شوق خرید کر کھالیتی ہے یا جامع مسجد کے فوڈ بازار میں سیکڑوں روپے مرغ و ماہی کی خریداری پر بیک وقت ہنسی خوشی خرچ کردیتی ہے  لیکن کتابوں کی دکانوں کے سامنے سے گزرتے وقت ان کا ہاتھ جیب میں نہیں جاتا تو اس بات میں کوئی دم نظر نہیں آتا۔

قوتِ خرید کے حوالے سے اردو کتابوں کی قیمتوں میں اچھے خاصے اضافے کی بات بھی کہی جاتی ہے۔ قیمتوں میں اضافہ تو ایک عالمی رجحان ہے جس سے اردو کتابیں مستثنیٰ نہیں ہوسکتیں۔ دوسرے یہ کہ اگر پڑوسی ملک پاکستان میں کتابوں کی قیمتوں سے موازنہ کیا جائے تو ہندوستان میں چھپنے والی کتابیں پھر بھی کافی سستی ہیں۔ تاہم کتابوں کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ ایک اور بھی ہے۔آج سے پچاس ساٹھ سال پہلےکتابوں کے انفرادی خریداروں کی تعداد  مقابلتاً بہت زیادہ تھی اور کتابوں کی قیمتوں کا تعین ان کی ضرورت اور قوت خرید کو مد نظر رکھ کر کیاجاتا تھا۔ آج کتابوں کے انفرادی خریداروں کی تعداد اتنی کم ہوگئی ہے کہ اردو ناشر اور پرنٹر ان کے بارے میں سوچتا بھی نہیں۔ آج کتابیں لائبریریوں اور بڑےاداروں یا  کتب فروشوں کو تھوک میں بیچنے کے لئے شائع کی جاتی ہیں۔ ایسے اداروں اور پبلشروں کی تعداد بہت کم ہے جن کے پاس کتابوں کی فروخت کا اپنا نیٹ ورک  اور اپنے دم پر کتابیں بیچنے کی صلاحیت ہے۔ اس لئے زیادہ تر پبلشروں کو بحالت مجبوری بڑے کتب فروشوں کا سہارا لینا پڑتا ہے جو ان سے کتابوں پر چھپی ہوئی قیمت پر ستّر فیصد تک کمیشن پر کتابیں خریدتے ہیں۔ ایسی صورت میں اگر پبلشر کتاب کی قیمت کم رکھتا ہے تو کمیشن دینے کے بعد منافع تو دور، اس کی لاگت بھی وصول نہیں ہوسکتی۔ اس لیے مجبوراً اسے کتابوں کی قیمت زیادہ رکھنی پڑتی ہے۔ ادھر کتاب فروش  خود تو پچاس، ساٹھ، ستّر فیصد تک کمیشن وصول کرتا ہے لیکن کتاب کے اصل قاری کو بمشکل تمام دس فیصد کمیشن دیتا ہے۔ چنانچہ یہاں بھی مڈل مین کی وجہ سے کتاب کی قیمت اتنی ہوجاتی ہے کہ انفرادی خریدار کو اسے خریدنے سے پہلے کئی بار سوچنا پڑتا ہے۔ اردو کی کتابوں کی فروخت اور کتب بینی کی روایت میں کمی کا ایک سبب یہ بھی ہے۔ ۔  لیکن ایسا بھی نہیں کہ اردو کی سبھی کتابیں یا سبھی اداروں کی کتابیں مہنگی ہوتی ہیں۔    ہندوستان میں اردو کے فروغ کے سب سے بڑے سرکاری ادارے ،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان (NCPUL) اور مختلف ریاستی اردو اکیڈمیوں، بالخصوص اتر پردیش اردو اکیڈمی کی کتابیں نہ صرف معیاری ہوتی ہیں بلکہ ان کی قیمتیں بہت مناسب ہوتی ہیں  کیونکہ یہ ادارے ‘نو پرافٹ، نہ لاس’ کے اصول پر کتابیں چھاپتے اور فروخت کرتے ہیں۔ چند سال پہلے عالمی اردو ٹرسٹ نے دہلی میں عالمی اردو میلے  سے قبل اردو کی معیاری کتابوں کو عام قاری تک پہنچانے کے لیے اردو کے کلاسیکی اور جدید ادب  کی معیاری کتابیں  بے حد ارزاں قیمتوں پر چھاپ کر میلے میں فروخت کے لیے رکھی تھیں، لیکن وہاں یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ صرف پندرہ روپے کی قیمت کی کتاب پر بھی بہت سے خریدار ڈسکاؤنٹ دیے جانے پر اصرار کر رہے تھے۔ ان تمام حقائق کے پیش نظر  اردو کی کتابیں مہنگی ہونے کی شکایت عذر لنگ سے زیادہ  حیثیت نہیں رکھتی۔

اس تمام پس منظر میں اگر ہم آج کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں کتب بینی کی روایت میں ایک نئی روح پھونکنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اس سے جہاں ایک طرف ایک صالح روایت کو تقویت ملے گی وہیں دوسری جانب اردو زبان کے فروغ میں اس سے مدد ملے گی۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس کے لیے کیا قدم اٹھائے جائیں۔

اچھی عادتیں بچپن میں ہی ڈالی جانی چاہئیں۔ اگر ہم اپنے بچوں کو بچپن سے ہی کتابیں پڑھنے کی ہی نہیں بلکہ خریدنے کی بھی عادت ڈالیں گے تو بڑے ہوتے ہوتے یہ ان کی فطرتِ ثانیہ بن جائے گی۔ اس کے لئے کرنا یہ ہوگا کہ  ہم کمسنی سے ہی ہر ماہ اپنے بچوں کو ان کے جیب خرچ کے علاوہ ایک مخصوص رقم  اردو کی کتابیں خریدکر پڑھنے کے لئے بھی دیں اور کتابیں پڑھنے کے بعد ان سے ان کتابوں پر ان کی رائے بھی مانگیں۔ مختلف موقعوں پر انھیں تحفے میں کتابیں بھی دیں۔  اس طرح ہمیں ایسے اور بھی اقدامات کرنے چاہئیں جن سے گھر میں بچوں اور بڑوں میں بھی مطالعے کا رجحان پیدا ہو۔ والدین کو   چاہئے کہ خود بھی مطالعے کی عادت ڈال کر بچوں کے سامنے مثال قائم کریں اور اچھی کتابوں کے بارے میں ان سے گفتگو کریں۔ اسکول کی سطح پر بھی مطالعے کی عادت کو فروغ دینے کے لئے ہفتے میں ایک پیریڈ لائبریری میں مطالعے کا بھی ہونا چاہئے۔ محلے یا علاقے کی سطح پر چھوٹے پیمانے پر ہی سہی، لائبریری یا ریڈنگ روم کی سہولت فراہم کرنے کے لئے اجتماعی سطح پر کام کیاجانا چاہئے اور اس سلسلے میں اردو اکیڈمیوں اور  دیگر سرکاری  و غیر سرکاری اداروں، محلہ سدھار کمیٹیوں اورریزیڈنٹس ویلفئیر ایسوسی ایشنوں اور دیگر سماجی اور فلاحی اداروں سے بھی مدد لینی چاہئے۔ بین الاقوامی اور قومی سطح پر تو کتاب میلے منعقد کئے ہی جاتے ہیں، علاقائی اور مقامی سطحوں پر بھی پر ایسے میلوں کا انعقاد کیاجانا چاہئے بلکہ سال میں کم از کم ایک مرتبہ ہر اسکول میں کتاب میلے منعقد کئے جانے چاہئیں جن میں کتابوں کی فروخت کے ساتھ ساتھ بچوں کو کتب بینی کی طرف راغب  کرنے کے لئے مختلف مقابلوں اور لیکچروں کا اہتمام بھی کیا جانا چاہئے۔ کتابیں پڑھنے کے شوقین حضرات اپنے اپنے حلقۂ احباب میں چھوٹے بڑے گروپ بناکر اپنی کتابوں کا آپس میں تبادلہ کرکے کتب بینی کا شوق پورا کرسکتے ہیں۔

کمپیوٹر، موبائل اور انٹرنیٹ ایسی حقیقت ہیں جن سے نہ انکار کیا جاسکتا ہے نہ صرف ِنظر۔ ویسے بھی یہ چیزیں اپنے آپ میں نہ تعمت ہیں نہ لعنت؛ ان کا صحیح یا غلط استعمال ہمارے فائدے یا نقصان کا سبب بنتا ہے۔ یہ تو طے ہے کہ ہماری نوجوان نسل ہی نہیں ہر عمر اور ہر طبقے کے لوگ ان آلات اور سہولیات کے عادی ہوگئے ہیں اور دن رات ان کا استعمال کر رہے ہیں۔  اس میں شک نہیں کہ انٹرنیٹ نے معلومات کی فراہمی اور تحقیق کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کردیا ہے۔ جن کتابوں اور معلومات  تک رسائی پہلے ممکن نہیں تھی وہ ان ماؤس کی چند کلکس(clicks)  کے بعد ہمارے کمپیوٹر پر محفوظ ہوجاتی ہیں۔ اس طرح انٹرنیٹ کی افادیت اور اہمیت سے کسی طرح انکار نہیں کیا جاسکتا۔  چنانچہ ان نئی ایجادات کو کوسنےاوران کا استعمال کرنے والوں کی عادت چھڑانے کی کوشش کرنےکے بجائے ان جدید ایجادات کے صحیح اور مفید استعمال کو فروغ دینے کی کوشش کی جانی چاہئے۔ فیس بک، وھاٹس ایپ اور سوشل میڈیا کے دوسرے پلیٹ فارموں پر ایسے بہت سے گروپ ہیں  جہاں کتابوں کے بارے میں ہر طرح کی معلومات کے ساتھ ساتھ  کاغذی اور سافٹ کتابوں  کی فراہمی میں بھی مدد کی جاتی ہے۔   کتابوں کے ہر بڑے  ناشر کی اپنی ویب سائٹ ضرور ہوتی ہے جہاں گھر بیٹھے اس کی مطبوعات کی اچھے ڈسکاؤنٹ پر کتابیں خرید کر ان کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ  ہم کتب بینی کے جدید اور روایتی طریقوں میں صحت مند توازن قائم رکھنے کی کوشش کریں تاکہ ان دونوں کے لطف اور فوائد سے مستفید ہوتے رہیں۔

***

تبصرے بند ہیں۔