اردومیں رائج فارسی محاورات و ضرب الامثال

نایاب حسن قاسمی

جس زمانے میں اردو زبان کی نمود ہوئی اور اس نے اپنے بال و پر پھیلانا شروع کیے، وہ ہندوستان میں فارسی زبان کے عام چلن کا زمانہ تھا، علم و نظر سے لے کر فکر و فن تک کے تمام شعبوں میں فارسی کا دوردورہ تھا، سرکارِبااختیار کے تمام تر امور اسی زبان میں انجام پاتے تھے؛اس لیے علم سیکھنے کی راہ عربی و دیگر زبانوں کے ساتھ فارسی زبان و ادب سے ہوکر ہی گزرتی تھی؛اسی وجہ سے اردو کی ساخت اور اس کے بنیادی ڈھانچے میں فارسی کی آمیزش رہی، اس زبان کا رسم الخط اور اس کے ذخیرۂ الفاظ کا اچھا خاصا حصہ فارسی زبان سے ہی اِدھر منتقل ہوا ہے۔ مفرد الفاظ کے علاوہ بہت سے مرکبات، محاورات، ضرب الامثال تب سے لے کر اب تک اہلِ اردو کے استعمال میں ہیں، تقریروں میں بھی ان کا استعمال کیاجاتاہے اور تحریروں میں بھی انھیں برتا جاتا ہے، بعض مصرعے، محاورے اور ضرب الامثال ایسے معنی خیز ہوتے ہیں کہ اگر انھیں برمحل برتا جائے، تو جملوں کی بندش میں حسن اور بات میں جان پیدا ہوجاتی ہے، قاری پھرک اٹھتا اور سامع جھوم جاتا ہے۔

 اس سلسلے میں پیش رومصنفین و مقررین میں مولانا ابوالکلام آزاد، سید عطاء اللہ شاہ بخاری، رشید احمد صدیقی، آغاشوش کاشمیری وغیرہ کے یہاں بے ساختگی کے ساتھ اہتمام پایاجاتا تھا، مولانا آزاد تو فارسی اشعار کو اپنے جملوں میں موتی کی طرح پرونے میں مہارتِ تامہ رکھتے تھے، ساتھ ہی جگہ بہ جگہ فارسی محاورے اور ضرب الامثال وغیرہ یا فارسی کے مشہور مصرعے اس خوبی کے ساتھ اپنی تحریروں میں کھپاتے کہ پڑھنے والا سردھننے لگتا، یہ کیفیت عطاء اللہ شاہ بخاری کی تقریروں میں پائی جاتی تھی، رشید احمد صدیقی کی سلسبیلی نثر میں بھی اس کے نمونے پائے جاتے ہیں، آغاشورش کاشمیری اپنی شوخ و رنگین تحریروں میں اس صلاحیت کا بڑی چابک دستی سے استعمال کرتے تھے، مولانا دریابادی بھی اس فن کاری کے اظہار میں چوکتے نہیں تھے۔

فارسی زبان سے آگاہی اس لیے ضروری ہے کہ اردو میں فارسی کے محاورات، ضرب الامثال یا کہاوتوں کی شکل میں بسااوقات باقاعدہ فارسی کے پورے پورے جملے بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ اب جو شخص فارسی زبان سے یکسر ناواقف ہے، وہ ان جملوں کو کیسے سمجھ سکے گا؟ایک بات اور قابلِ ذکر یہ ہے کہ مرورِ زمانہ کے ساتھ بہت سے فارسی کے محاوروں کو سامنے رکھ کر اردوزبان میں ان کے ہم معنی محاورے بنادیے گئے ہیں، مگر کونسا اردومحاورہ کس فارسی محاورے کا ترجمہ ہے، یہ جاننے کے لیے بھی فارسی زبان کا علم ضروری ہے۔

اردومیں عام طورپر رائج و مستعمل فارسی محاورات و ضرب الامثال امثال اوراشعار ومصرعوں کی باقاعدہ تحقیق اور ان کا تجزیہ فی الحال نہ ہمارے پیشِ نظر ہے اور نہ یہ کالم اس کے متحمل ہیں، آیندہ سطروں میں اپنی تلاش و تحقیق کی روشنی میں مختصراًاُن مختلف فارسی محاوروں، ضرب الامثال اور اشعارومصرعوں کی نشان دہی کرنے کی کوشش کی جائے گی، جو عام طورپر اردو زبان میں رائج ہیں، بعض تحریروں میں، بعض گفتگواور تقریروں میں اور بعض دونوں میں۔

1- یک من علم رادہ من عقل باید:

ایک من علم کے لیے دس من عقل چاہیے، یعنی کماحقہ حصولِ علم تبھی ممکن ہے، جب کہ جاننے کے ساتھ ساتھ سمجھنے کی بھی قوت و صلاحیت ہو؛بلکہ جاننے کے مقابلے میں سمجھنے کی صلاحیت دس گنا زیادہ مطلوب ہے۔ عربی زبان میں اسی قسم کی ایک کہاوت ہے’’العلم لایعطیک بعضہ حتی تعطیہ کلک‘‘یعنی جب تک آپ پوری طرح اپنے آپ کو علم کے حوالے نہیں کریں گے، تب تک وہ اپنا بعض یعنی تھوڑا سا حصہ بھی آپ کو نہیں دے گا۔

2-رموزِ مملکتِ خویش خسرواں دانند:

یہ دراصل حافظ شیرازی کے ایک شعر کا( قدرے ترمیم شدہ )مصرع ہے، ترجمہ ہے: حکومت و مملکت کے رموز و اسرار شاہانِ وقت ہی جانتے ہیں۔ یہ عموماًایسے موقعے پر مستعمل ہے، جب کوئی مقرریا مصنف کسی صاحبِ اختیار و اقتدار پر طنز کرنا چاہے، اس مصرعے کو استعمال کرنے والادراصل یہ کہناچاہتاہے کہ فلاں صاحب کے نزدیک میری تو کوئی اہمیت ہی نہیں ہے یا یہ کہ وہ جو بھی کرتے ہوں، اس سے مجھے کیالینا دینا، اردو میں اس مفہوم میں ’’بڑے لوگ، بڑی باتیں‘‘جیسامحاورہ بھی استعمال ہوتا ہے۔ حافظ کامکمل شعر یوں ہے:

رموزِ مصلحتِ ملک خسرواں دانند

گداے گوشہ نشینی توحافظامخروش

3-تا تریاق از عراق آوردہ شود، مار گزیدہ مردہ باشد:

یہ جملہ دراصل شیخ سعدی کی شہرہ آفاق تصنیف گلستاں، بابِ اول، حکایت نمبر16سے ماخوذہے، حکایت کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں، اسی حکایت کے اخیر میں یہ جملہ لکھاہے۔ اس کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ جب تک عراق سے تریاق آئے گا، تب تک سانپ کا کاٹا شخص مرجائے گا۔ یہ اردو میں بھی بہ طورمحاورہ ایسے موقع پر استعمال کیاجاتا ہے، جب سخت مصیبت کا عالم ہواور اسے دور کرنے کے لیے فوری دستیاب ذرائع کے استعمال کی بجاے باقاعدہ اہتمام کرنے میں وقت ضائع کیا جائے۔

4-خطائے بزرگاں گرفتن خطاست:

یعنی بزرگوں کی غلطی پکڑنا بھی غلط ہے۔ یہ جملہ دراصل ہماری مشرقی تہذیب کی نمایندگی کرتا ہے، جہاں بڑوں کے ادب و احترام کا عام مزاج پایاجاتا ہے؛بلکہ اس سلسلے میں چھوٹوں کی خصوصی تربیت کی جاتی ہے؛حالاں کہ یہ جملہ منطوق و مفہوم کے اعتبار سے اپنی ایک حد میں ہی درست ہوگا۔

5-گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل:

یہ غالب کے ایک قطعے کا مصرع ہے، مکمل قطعہ یوں ہے:

مشکل ہے زبس کلام میرا اے دل

سن سن کے اسے سخنورانِ کامل

آساں کہنے کی کرتے ہیں فرمایش

گویم مشکل، وگرنہ گویم مشکل

یہ انھوں نے اپنے معترضین کے جواب میں کہاتھا، جو غالب پر مشکل گوئی کا الزام لگاتے تھے۔ غالب کے کہنے کا مطلب تھا کہ میں اپنے اشعار میں مشکل معانی کو بیان کرتاہوں، جس کی وجہ سے میرے اشعار میں بعض دفعہ مشکل الفاظ بھی آجاتے ہیں؛لیکن کچھ لوگوں کو اس پر اشکال ہے، مگر پھر میری پریشانی یہ ہے کہ اگر ان معانی کو میں نہ بیان کروں، تو کون بیان کرے گا؟گویا شعر کہنااور نہ کہنا دونوں مشکل ہے۔ بہ طور محاورہ یہ مصرع ایسے موقعے پر استعمال کیاجاتا ہے جب کسی شخص کو کچھ بولنے میں بھی خطرہ یا دشواری کاسامنا ہو اور اگر خاموش رہے، تو بھی پریشانی سے دوچار ہو۔

6-ہنوز دلی دور است:

کہتے ہیں کہ اس جملے کے پس منظر میں حضرت نظام الدین اولیااور سلطان غیاث الدین تغلق کے مابین پیش آنے والا ایک واقعہ ہے، اس نے بعض اختلافات کی وجہ سے بنگال سے حضرت کو خط لکھاکہ دہلی خالی کردو، جس کے جواب میں انھوں نے’’ہنوزدلی دور است‘‘لکھ کر بھیج دیا اوراس کے بعد واقعی غیاث الدین کبھی دلی نہ پہنچ سکا، قریب آکر ایک حادثے کا شکار ہوکر مرگیا۔ یہ جملہ عموماً ایسے موقعوں پر استعمال کیاجاتاہے، جب کسی کام کا ہونا مشکل نظر آئے۔

7-کند ہم جنس باہم جنس پرواز:

یعنی ہر جنس(نسل)اپنی ہم جنس کے ساتھ پرواز کرتی ہے۔ یہ ایک مصرع ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اچھا انسان اچھے لوگوں کی صحبت اختیار کرتا ہے اور برا انسان برے لوگوں کی صحبت اختیار کرتا ہے۔ اسی مفہوم میں عربی میں ’’الجنس یمیل إلی الجنس‘‘بولاجاتا ہے۔ مکمل شعر یوں ہے:

کند ہم جنس باہم جنس پرواز

کبوتر باکبوتر، باز باباز

8-دروغ گورا حافظہ نباشد:

یعنی جھوٹا شخص حافظے کا کچا ہوتا ہے، ہرلمحہ اپنی بات بدلتا اور ایک موقف کے بعد دوسرا اختیار کرتا ہے۔

9-رسیدہ بود بلاے ولے بخیر گزشت:

مصیبت بس پہنچ ہی چکی تھی، مگر خیرسے بچ گئے۔ جب کہ کسی سخت حالت سے دوچار ہونے کا اندیشہ ہو، مگر انسان بچ جائے اور وہ مرحلہ عافیت کے ساتھ گزرجائے۔ اردو میں اس کے ہم معنی ’’جان بچی، تولاکھوں پائے‘‘بھی مستعمل ہے۔

10-تا دم است، غم است:

اردومیں اس کے ہم معنی’’ جب تک دم ہے، تب تک غم ہے ‘‘استعمال کیاجاتا ہے۔ یعنی جب تک انسان کی زندگی ہے، تب تک مصائب اور آزمایشوں سے گزرنا ہوگا۔

11-نیم حکیم خطرۂ جان، نیم ملا خطرۂ ایمان:

اردو میں یہ محاورہ بعینہ استعمال ہوتا ہے۔ یعنی جس طرح نیم ڈاکٹر اپنی نادانی و کم علمی کی وجہ سے مریض کی موت کا سبب ہوسکتا ہے، اسی طرح نیم عالم شخص انسان کے ایمان کے لیے خطرہ ہے اور اسے گمراہ کرسکتا ہے۔

12-خود می زند و خود فریادمی کند:

اردو میں اس کے ہم معنی ’’آپ ہی مارے، آپ ہی چلائے ‘‘مستعمل ہے، ایسے شخص کے لیے بولا جاتا ہے، جو خود ہی ظالم بھی ہو اور مظلوم بننے کا ڈھونگ بھی کرتا پھرے۔

13-اے روشنیِ طبع توبرمن بلاشدی:

یعنی اے میری طبیعت کی تیزی، تومیرے لیے مصیبت بن گئی۔ ایسے موقعے پر استعمال ہوتا ہے، جہاں کوئی شخص زیادہ ہوشیاری دکھانے کے چکر میں مصیبت سے دوچار ہوجائے۔ حفیظ جالندھری نے اس مصرعے کو یوں برتا ہے:

اے روشنیِ طبع توبرمن بلاشدی

پھر یہ نہیں تو کھاگئی کس کی نظر مجھے

14-خوش درخشیدولے شعلۂ مستعجل بود:

یعنی اچھا چمکا، مگر شعلۂ مستعجل تھا۔ ایسے موقعے پر استعمال ہوتا ہے، جب کوئی فردکسی حوالے سے اچانک مشہور و مقبول ہوجائے اور پھر اچانک ہی اس کا شعلہ کجلا جائے۔ یہ حافظ شیرازی کے ایک شعر کا مصرع ہے، مکمل شعر یوں ہے:

راستی خاتم و فیروزۂ بواسحاقی

خوش درخشیدولے شعلۂ مستعجل بود

15-ہرچہ باداباد:

جوہونا ہو، ہوجائے۔ مصائب و گردشِ دوراں کے تئیں بے پروائی کے اظہار کے کے لیے بولتے ہیں۔ یاس یگانہ چنگیزی کا شعر ہے:

لذتِ زندگی مبارکباد

کل کی کیا فکر، ہرچہ باداباد!

16-آب آمد تیمم بر خاست:

جب پانی مل جائے، تو تیمم ساقط ہوجاتاہے۔ یہ جملہ ایک فقہی مسئلے کو بیان کرتا ہے اور محاورے میں اس کا استعمال ایسے موقعے کے لیے کیاجاتا ہے جب کوئی کام بہ وجہِ مجبوری کیاجائے اور پھر وہ مجبوری ختم ہوجائے۔

17-قہرِدرویش برجانِ درویش:

یعنی غریب کا غصہ بھی خود اسی کے لیے وبال ہوتا ہے۔ یہ مجبوری وبے کسی کی انتہا کو بیان کرنے کے لیے بولتے ہیں۔

18-چاہ کن ر اچاہ در پیش:

کنواں کھودنے والے کے سامنے کنواں ہوتا ہے۔ یہ جملہ فارسی کی ابتدائی کتابوں میں بھی ملتاہے، اس کا استعمال اردو میں زبان زد خاص و عام ہے اور ایسے شخص کے لیے استعمال ہوتا ہے، جو ہمیشہ دوسروں کو تکلیف دینے میں سرگرم ہواور پھر اچانک خود کسی مصیبت میں پھنس جائے۔

19-عطر آنست کہ خود ببوید کہ، نہ کہ عطار بگوید:

عطر وہ ہے کہ خود ہی اس سے خوشبوپھوٹے، یہ نہیں کہ عطرفروش بتائے۔ محاورے میں اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر انسان کے اندر کوئی خوبی ہے، تو خود چھلک کر باہر آئے گی، اس کے لیے تشہیری مہم چلانے کی ضرورت نہیں۔

20-آفتاب آمد دلیل آفتاب:

سورج خود اپنے ہونے کی دلیل ہے۔ کسی چیز کی قطعیت کو بیان کرنے کے لیے بولتے ہیں۔

ہر کہ در کانِ نمک رفت نمک شد:جوبھی نمک کی کان میں گیا، وہ نمک ہوگیا۔ یعنی جو شخص جیسی صحبت اختیار کرے گا، اس کے اندر بھی اسی طرح کی عادات پیداہوجائیں گی۔

21-خودرافضیحت، دیگراں رانصیحت:

اردو میں اس کے ہم معنی ’’آپ کو فضیحت، اوروں کو نصیحت‘‘استعمال ہوتا ہے۔ یعنی دوسروں کو تو اچھے برے کی تمیز سکھاتے ہیں اور خود پرہیز نہیں کرتے۔

صحبتِ صالح ترا صالح کند

صحبتِ طالح تر ا طالح کند

یہ مولانا روم کا مکمل شعر ہے، معنی ہے نیکوں کی صحبت تیرے اندر بھی نیکی کی صفت پیدا کردے گی، جبکہ بروں کی صحبت تجھے بھی برا بنادے گی۔

22-جاے خدا تنگ نیست، پاے مرا لنگ نیست:

خداکی زمین تنگ نہیں ہے اور میں کوئی لنگڑا نہیں ہوں۔ یہ حوصلہ مندی و ہمت وری کے اظہار کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ فارسی میں ’’جاے خدا‘‘کی جگہ ’’ملکِ خدا‘‘بھی مستعمل ہے۔

23-قدرِجوہر شاہ داند یا بداند جوہری:

جوہرکی قدردانی یاتو بادشاہ کرتا ہے یا جوہری کرتا ہے۔ یہ کسی چیز یا انسان کی اہمیت و منزلت شناسی کے سلسلے میں کسی کی صلاحیت کو بیان کرنے کے لیے بولتے ہیں۔

24-تا مرد سخن نہ گفتہ باشد، عیب و ہنرش نہفتہ باشد

شیخ سعدی کا شعر ہے، گلستاں کے پہلے باب کی تیسری حکایت میں مذکور ہے۔ اس کے معنی ہیں کہ جب تک انسان کوئی گفتگو نہ کرے، اس کا عیب و ہنر پوشیدہ رہتاہے۔ اس کا محلِ استعمال مثبت اور منفی دونوں ہوسکتا ہے۔

25-گر نہ بیند بروز شپرہ چشم، تکمۂ آفتاب را چہ گناہ

اگر چمگادڑکو دن کی روشنی میں نظر نہیں آتا، تو اس میں سورج کے ٹکیے کی کیا خطا ہے۔ یہ کسی شخص کی ہٹ دھرمی اور نہ ماننے کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیاجاتا ہے۔

26-خود کردہ را علاجے نیست :

اردو میں اس کے ہم معنی ’’اپنے کیے کا علاج نہیں‘‘کا استعمال ہوتا ہے۔

27-ہم خُرمہ وہم ثواب:

خورمے الگ ملے اور ثواب الگ ہاتھ آئے۔ ایسے موقعے پر استعمال ہوتا ہے، جہاں مادی و معنوی ہر قسم کی منفعت حاصل ہو۔ ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی میں اس کی بے شمار مثالیں ہوسکتی ہیں۔

28-نشستندو گفتندو بر خاستند:

بیٹھے، بولے اور چلتے بنے۔ بے فائدہ جلسہ یا اجتماع کے لیے، عصرِ حاضر کے مسلمان جس کے عادی ہیں۔

29-من تُرا حاجی بگویم تو مُرا حاجی بگو:

میں تمھیں حاجی کہتاہوں اور تم مجھے حاجی کہو۔ بعض لوگ دوسرے’’حاجی‘‘کی جگہ لفظ’’ملا‘‘کو درست مانتے ہیں۔ اردو میں اس کے ہم معنی ’’انجمن ستایشِ باہمی‘‘ہوسکتاہے۔ یعنی ایک دوسرے کو جھوٹی تعریفیں کرکرکے اپنی اپنی مقبولیت گراف بڑھانا، مافیاقسم کے ادیبوں، پیروں اور دین فروشوں میں یہ حربہ عام طورپر رائج ہے۔

30-من آنم کہ من دانم:

میں کیاہوں، یہ میں جانتاہوں۔ اظہارِ تواضع کے لیے۔

31-پدرم سلطان بود:

میرا باپ بادشاہ تھا۔ شیخی بگھارنے کے لیے۔

32-ازدل خیزد بر دل ریزد:

جوبات دل سے نکلتی ہے، وہ دل تک پہنچتی ہے۔ اس مفہوم میں اقبال کے جوابِ شکوہ کا پہلا شعرہے:

دل سے جو بات نکلتی ہے، اثر رکھتی ہے

پرنہیں، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے

33-آوازِ سگاں کم نہ کند رزقِ گدارا:

کتوں کے بھونکنے سے فقیروں کے رزق میں کمی نہیں آتی۔ موقع بے موقع کسی کی راہ میں روڑا اٹکانے کی ناکام کوشش کرنے والے کے لیے۔

کورازخداچہ می خواہد؟دوچشمِ بینا:اردو میں اس کے ہم معنی ’’اندھاکیاچاہے؟دوآنکھیں‘‘مستعمل ہے۔

34-عاقلاں را اشارا کافیست:

عقل مندوں کو اشارہ ہی کافی ہے۔ عربی میں’’العاقل تکفیہ الإشارۃ‘‘مستعمل ہے۔

35-سخن ازسخن خیزد:

بات سے بات نکلتی ہے۔

دشمن دانا بہتر از دوست نادان: دانادشمن نادان دوست سے بہتر ہے۔

36-دوست آں باشد کہ گیرددستِ دوست:

اردو میں اس کے ہم معنی ’’دوست وہی، جو مصیبت میں کام آئے‘‘بھی استعمال ہوتا ہے۔

37-ازخودم ملاشدی، برجانِ من بلاشدی:

مجھ سے ہی علم و ہنر سیکھا اور میرے لیے ہی مصیبت بن گیا؟!اس کے ہم معنی اردو محاورہ ’’ہماری بلی، ہمیں سے میاؤں‘‘ مستعمل ہے۔

38-لذیذبود حکایت، دراز تر گفتم:

کہانی لذت آمیزتھی؛اس لیے میں نے تفصیل سے سنادی۔ یہ مصرع ایک مقرر یا مصنف اپنی دراز گوئی وطول نگاری پر اظہارِ معذرت کے لیے استعمال کرتا ہے۔ یہ دراصل عرفی کا مصرع ہے، مکمل شعر یوں ہے:

لذیذبود حکایت، دراز تر گفتم

چناں کہ حرفِ عصاگفت موسی اندر طور

39-ہمچومن دیگرے نیست:

میرے جیسا کوئی نہیں۔ شیخی بگھارنے کے لیے۔

یہ مثالیں تو’مشتے نمونہ ازخروارے‘ کے طورپر پیش کی گئی ہیں، ان کے علاوہ اور بھی بے شمار ایسے محاورات و ضرب الامثال اور فارسی کے مکمل اشعاریاان کے ٹکڑے ہیں، جو اردو تحریر وں اور بول چال میں عام طورپر رائج ہیں۔ ضرورت ہے کہ ان کے درست محلِ استعمال کو سمجھنے کاہنراور انھیں صحیح موقعوں پر برتنے کا سلیقہ سیکھا جائے۔ یہ اردو زبان کے مزاج و ساخت کا تقاضا بھی ہے اور ہماری اپنی ادبی و علمی ضرورت بھی۔

تبصرے بند ہیں۔