اردوگان کے خلاف بغاوت میں کس کا ہاتھ؟

ابو ارسلان،  ممبئی

ہمارے ایک بزرگ صحافی جنہیں ہم اورہمارے کئی احباب اس دور میں اردو صحافت کا امام مانتے ہیں۔ آج کل وہ ایک مسلم صحافی کم اور ایک خاص مسلک کے نمائندے زیادہ نظر آتے ہیں۔ اس لئے وہ سلفیت اور وہابیت کی آڑ میں مسلمانوں کے ایک خاص طبقہ کو نشانہ بنانے مصروف عمل ہیں۔ لیکن انہیں اپنے ہمنواؤں میں کوئی کمی نہیں نظر آتی۔ ایک واٹس ایپ گروپ پر انہوں نے تین مختصر پوسٹ شامل کئے یہاں ذیل میں ان کو پیش کرتے ہیں اور پھر جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ارودگان کے خلاف بغاوت میں کن نادیدہ ہاتھوں کا ہاتھ ہے؟ وہ لکھتے ہیں ’’باغیوں کے لئے قبرستان میں بھی جگہ نہ دینا یہ کسی اسلام پسند کا فعل نہیں ہوسکتا کیوں کہ جن لوگوں نے بغاوت کی وہ کسی زمانے میں موجودہ سربراہان حکومت کے دوست اور بہی خواہ تھے اب سیاسی نقطہ نظر مختلف ہونے سے خارج المذہب کیسے ہو گئے۔ یہ وہ نقطہ ہے جہاں سے دہشت گردی اور انتقام کی شاخیں پھوٹتی ہے۔ امت مسلمہ مسلح گروہوں میں تقسیم ہو تی ہے۔ میرے حساب سے باغیوں کو سزا دینا حکمرانوں کا وطیرہ ہے لیکن دفن نہ ہونے دینا غیر انسانی اور غیر اسلامی فعل ہے اسکی ستائش ہر گز نہیں کی جانی چاہئے ‘‘۔دوسرے پیغام میں لکھتے ہیں’’کسی بھی لاش کی بے حرمتی اسلام میں کبھی بھی جائز نہیں رہی ہے۔ خیبر میں مولائے کائنات نے جب مرحب کو واصل جہنم کیا تھا اسوقت اسکی لاش کو ایسے ہی چھوڑ دیا۔ جبکہ عرب میں دستور تھا کہ قتل کے بعد مقتول کے سارے زیور اتارنا کان ناک کاٹ دینا اورلاش کو بے حرمت کرنا عام بات تھی‘‘۔اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ عرض کرنی ہے کہ باغیوں کے خلاف انتقامی کارروائی حکومتوں کا وطیرہ ہو سکتا ہے رہا ہو لیکن یہ قرآنی حکم بھی ہے کہ زمین اصلاح کردیے جانے کے بعد جو فساد کرے اسکے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمت سے کاٹے جائیں۔دوسری بات یہ کہ بلا شبہ انتقام میں اندھا ہو کر کسی طرح کی ایسی حرکت کرنا جس کی اسلام نے کسی بھی طور اجازت نہیں دی ہو غلط ہے اور کسی اسلام پسند یا کسی اسلامی تحریک کے سربراہ سے ایسی حرکت ناقابل برداشت ہے۔ لیکن جہاں تک میرے مطالعہ کا تعلق ہے۔ ہم نے کہیں ایسی باتیں نہیں پڑھیں جو مذکورہ بالا سطور میں بزرگ صحافی نے لکھی ہیں۔ ممکن ہے کہ میرے مطالعہ کی کمی ہو کہ میری نظر وہاں تک نہیں گئی جہاں وہ بزرگ صحافی پہنچے ہیں۔ لیکن ہمیں بہر حال حسن ظن سے کام لینا چاہئے اور میرا خیال یہ ہے کہ طیب اردگان نے کہا ہو گا کہ ’’باغیوں کو قبرستان میں بھی جگہ نہیں ملے گی ‘‘۔جو ایک اصطلاحی جملہ ہے کہ انہیں کہیں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی خواہ وہ قبرستان ہی کیوں نہ ہو۔ہم روز مرہ کی بول چال میں ایسے کئی جملے اور ضرب ا لمثل بولتے ہیں جس کا لغوی معنی کچھ اور اصطلاحی معنی دوسرا ہوتا ہے۔لیکن ایسی باتوں کو پھیلانا اور رجب طیب اردگان کو اس کے لئے مطعون کرنا کس حد تک درست ہے یہ غور کرنے کا مقام ہے۔  مذکورہ بزرگ صحافی کے نزدیک شاید ایران کے انقلاب کے علاوہ کوئی دوسرے ملک میں اسلامی انقلاب قابل قبول ہی نہیں ہے۔ ایسا وہ دو سال قبل لکھ بھی چکے ہیں کہ صرف ایران کا انقلاب ہی قابل تقلید ہے کہ وہاں تین دہائیوں سے زیادہ سے اسے کسی چیلنج کا سامنا نہیں ہے۔ لیکن یہ ایک لمبی گفتگو کا تقاضہ کرتا ہے کہ آخر ایران میں کوئی نیا انقلاب یا فوجی بغاوت کیوں نہیں ہوتی۔لیکن ایک سیدھا سادہ جواب یہ ہے کہ اسی درخت کو پتھروں سے نوازا جاتا ہے جو پھل دار ہوتا ہے۔ بے ثمر درخت تک تو کوئی جاتا تک نہیں۔ یا نمازکے دوران دلوں میں شیطانی وسوسوں سے متعلق ایکبزرگ کا قول ہے کہ شیطان وہیں حملہ کرے گا جہاں اللہ کا خوف یا دوسرے معنی میں ایمان ہوگا۔ جو دل اللہ کے خوف یا ایمان سے خالی ہو وہاں شیطان کیوں وقت برباد کرے گا؟ بعد کی خبروں سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے عام قبرستان میں دفن کرنے کے بجائے باغیوں کے لئے الگ سے قبرستان کا انتخاب کیا گیا ہے تاکہ لوگوں معلوم رہے کہ یہ ملک و قوم کے غدار اور باغی ہیں۔یہ میرے نزدیک صحیح فیصلہ ہے کیوں کہ اب صرف معاملہ باغی اور غدار سے آگے نکل کر منافقت پر آچکا ہے۔ ایک ہر طرح سے ترقی یافتہ اور بتدریج اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی جانب گامزن ملک کو جو عدم استحکام سے دو چار کرنے کی کوشش کرے وہ منافق ہی ہو سکتا ہے۔

وہ اپنے تیسرے پیغام میں کہتے ہیں کہ ’’ترکی حکومت کا اسرائیل سے جمہوریت کے لئے اظہار تشکر کرنا بھی عجیب و غریب بات دکھائی دیتی ہے۔ کیوں کہ جس ہوائی اڈے پر باغی پناہ گزیں ہوئے وہ امریکہ کے زیر استعمال تھا۔امریکہ پورے خطے میں بنا اسرائیلی اور سعودی تعاون کے کوئی عمل نہیں بجا لاسکتا۔ با لواسطہ یا بلا واسطہ ان ممالک کا تعاون باغیوں کو ملا ہو اس بات سے گریز کرنا قدر مشکل ہے۔ ویسے بغاوت کی گہرائی میں جائیں تو گولن اور اردگان دونوں کی آپسی کشمکش زیادہ ذمہ دار ہے باقی دیگر وسائل ضمنی اور معاون ہیں‘‘۔ اس میں بھی بزرگ صحافی سعودی سے ازلی دشمنی کو بروئے کار لانا نہیں بھولتے۔ جبکہ دنیا جانتی ہے کہ موجودہ شامی بحران میں ترکی کا سعودی یا ایران سے کوئی اختلاف نہیں تھا اور نہ ہے۔ یہی حال داعش کے خلاف آپریشن میں بھی سعودی امریکی اور ترکی ایک پلیٹ فارم پر نظر آتے ہیں۔ یہاں موجودہ بحران میں اختلاف ایران ،روس اور اسرائیل سے ہے۔ داعش آپریشن کے بہانے جب ترکی کی خود مختاری پر حملہ کرتے ہوئے اس کے سرحدی حدود کی روس نے مسلسل خلاف ورزی کی تواس کے فائٹر پلین کو مار گرایا جس کی وجہ سے روس سے شدید اختلافات رونما ہوئے لیکن ترکی نے ترکی بہ ترکی جواب دیا سرخ آندھی کے بچے کھچے حصے کا سربراہ پوتن کسی زہریلے سانپ کی طرح کھسیاہٹ مٹانے کے لئے صرف دھمکی پر ہی اکتفا کرتا رہا کیوں کہ اس کے علاوہ وہ کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ اسی طرح ایران سے بھی ترکی کے شام کے بحران پر شدید اختلافات ہیں۔ ترکی نے بقول سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کے’ ترکی رجب طیب اردگان کی قیادت میں عالم اسلام کے لئے قائدانہ رول ادا کررہا ہے‘۔ اس سے قبل ایران انقلاب کے بعد احمدی نژاد کے آٹھ سالہ دور حکومت میں ان کی باتوں اور امریکہ اور اسرائیل کے خلاف عالمی فورم پر منھ توڑ جواب دینے کی وجہ سے پورے عالم اسلام خصوصاًعالم عرب میں انہیں خصوصی مقام حاصل تھا۔ بلکہ کئی سروے رپورٹ بتاتے ہیں کہ وہ اسلامی دنیا میں سب سے قابل قدر شخصیت بن گئے تھے۔ لیکن شام میں ایران کی مداخلت نے ایران کی طرف سے امت مسلمہ کو مایوس کیا۔ یہ مایوسی شدید اختلافات میں تبدیل ہو گئیں۔ کیوں کہ شام میں عام رپورٹ کے مطابق چار لاکھ سے زیادہ شہریوں کی ہلاکت ہو چکی ہے اور اس قتل عام میں اسی فیصد سے زیادہ بشاری افواج ملوث ہے۔ لیکن ایران محض اپنی مسلکی عناد کی وجہ سے شامی عوام کی مخالفت میں بشار کی حمایت میں وہاں کے عوام کی ہلاکت میں معاون بنتا رہا جو کہ ہنوز جاری ہے۔  حالانکہ ایران یہ کہتا ہیکہ وہ مسلکی جھگڑوں میں نہیں پڑتا لیکن عمل اس کے قول کی تائید نہیں کرتے۔ تہران اور مشہد سے سنیوں کی مساجد کو ڈھانے یا بند کرنے کی خبریں آچکی ہیں۔ حسن روحانی کو اس سلسلے میں میڈیا کے لوگوں کے سخت سوالات کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔لیکن وہ کوئی واضح جواب دینے سے قاصر تھے۔ بہر حال یہاں ایران بحث کا موضوع نہیں ہے۔ یہ کچھ باتیں تو برسبیل تذکرہ آگئی ہیں۔

کافی دنوں سے دیکھا جارہا ہے کہ جو گروہ عالم اسلام کو نقصان پہنچانے میں سب سے آگے رہا ہے اس کے ہمنوا کسی بھی معاملہ کو اس کی حمایت اور سعودی کی مخالفت میں لے جاتے ہیں خواہ وہ اس پرمنطبق ہو تا ہو یا نہیں۔ اسی طرح موجودہ ترکی میں اردگان کے خلاف بغاوت میں سعودی کہیں سے بھی فٹ نہیں ہوتا لیکن اسے زبردستی گھسیٹنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ امریکہ بھی ترکی میں فی الحال بغاوت کرکے اس کو عدم استحکام سے دو چار نہیں کرسکتا۔ کیوں کہ اسے مسلم دنیا میں اپنے دوستوں کی تلاش ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ روس ایک بار پھر شام کے بہانے ایران کی شہ پر عرب میں اپنی ساکھ مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ اور اگر روس ایران کی مدد سے عرب خطے میں اپنی ساکھ دوبارہ بنانے میں کامیاب ہو گیا تو امریکہ کا وجود صفر رہ جائے گا۔ اس لئے اسے سعودی عرب اور ترکی جیسے دوستوں کی ضرورت ہے۔ ہاں شام والے میٹر میں امریکہ کمزور ہوا ہے۔ اس کمزوری کی وجہ افغانستان میں امریکہ کی زبردست ہزیمت ہے۔ دوسری بات یہ کہ امریکہ نے اوبامہ کی قیادت میں مسلم دنیا میں کسی طرح کی مداخلت کو کم کیا ہے۔ اس نے دوستی کے ہاتھ زیادہ بڑھائے ہیں۔ جارحیت کو کم کیا ہے بلکہ باوجود نئی زمین مہیا ہونے کے اس نے اپنے آپ کو راست فوجی مداخلت سے روکا ہے۔ شام میں بھی اس کے لئے میدان تیار تھا لیکن اس نے سفارتی ذرائع کا استعمال زیادہ کیا۔ اس نے اسرائیل کو بھی لگام دینے کی کوشش کی۔ یہی سبب ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کے درمیان اوبامہ کے دور میں تعلقات میں وہ جوش و خروش نظر نہیں آیا جو ماضی قریب میں نظر آتا تھا۔

ترکی اور اسرائیل کی چپقلش میں میدان ترکی نے ہی مارا۔ ماوی مرمرا کے معاملے میں اسرائیل نے ترکی کو تاوان ادا کیا اس کے علاوہ ترکی نے اسرائیل کے اس مطالبہ کو بھی پائے حقارت سے ٹھکرا دیا کہ وہ اپنی سرزمین کو اسرائیل کے خلاف استعمال نہیں ہو نے دے گا۔ شاید اس دور میں اسرائیل کو اس کی اوقات سفارتی طور پر کسی نے بتائی ہے تو وہ ترکی ہی ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس معاملے میں وہ خاموش تو نہیں رہا ہوگا کہ اسے تاوان ادا کرنا پڑا اور دوبارہ غزہ کے لئے امدادی سامان لے کر بھی ترکی کا جہاز پہنچ گیا اور یہ سمجھوتہ کا حصہ بھی ہے کہ ترکی غزہ کے لئے امدادی سامان بھیجا کرے گا اور اسرائیل اسے روکے گا نہیں۔سوچیں تو یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ لیکن اس کی طرف سے نظر پھیر کر معمولی معمولی خبروں پر تبصرہ کے ذریعہ عالم اسلام کے اس شیر کے کردار کو داغدار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اسرائیل کے موساد نے یقینی طور پر نادیدہ ہاتھوں کا سہارہ لے کر طیب اردگان کو ہٹا کر ترکی کو عدم استحکام میں مبتلا کرکے اس کو بھی عراق و شام میں بدل دینے کی کوشش کی ہو۔ اسرائیل نے ایسا نہیں کیا ہوگا اس کے لئے کوئی واضح دلیل نہیں ہے۔ اس میں روس بھی ملوث ہے اور وہ یقیناًفرنٹ لائن پر ہوگا۔ کیوں کہ شام اور داعش کے خلاف کارروائی کے نام پر اس کے خفیہ ادارے کے جی بی کو علاقے میں دسترس حاصل ہے۔ عراق و شام کے ان علاقوں میں جہاں ایران کا عمل دخل ہے یا ایران کا قبضہ ہے وہاں بھلا کے جی بی کے دہشت گردوں کو روکنے والا کون ہے۔ ہمارے دوست احباب موجودہ بغاوت میں امریکہ کا ہاتھ تو تلاش کرتے پھر رہے ہیں اور سعودی کو بھی کہیں نہ کہیں سے گھسیٹ لیتے ہیں۔ جبکہ اس کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ لیکن انہیں روس اسرائیل اور ایران کا گٹھ جوڑ نظر نہیں آتا۔ غور سے حالات پر نظر رکھیں تو یہ سب کچھ واضح ہو جائے گا۔ ہر معاملہ میں امریکہ کوگھسیٹنے کی بیماری بھی بہت پرانی ہو چکی ہے۔ مصر میں سیسی کی بغاوت کو امریکہ کا کارنامہ بتایا گیا تھا لیکن وہاں بھی امریکہ کے بجائے سعود،اسرائیل اور کچھ ممالک شامل ہیں جس میں روس اور ایران بھی ہے۔ یہی سبب ہے کہ بغاوت کے بعد امریکہ نے مذمت بھی کی اور آج کی تاریخ تک سیسی امریکہ نہیں گیا ہے جبکہ روس کے تین سے زیادہ دورے کرچکا ہے۔ اگر امریکہ مصر کے بغاوت میں شامل ہو تا تو اس نے مصری فوجیوں کو دی جانے والی امداد کیوں بند کی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم آنکھیں کھلی رکھیں اور حالات کا جائزہ لینے کے بعد ہی کوئی رائے پیش کریں۔ دنیا میں حالات ہر لمحہ بدل رہے ہیں۔ کل کے دشمن آج دوستوں کی فہرست میں شامل ہیں۔ یہ تو ملکوں کے باہمی مفاد کا معاملہ ہے۔

حالانکہ رجب طیب اردگان نے ابھی تک فتح اللہ گولن کے علاوہ کسی کو مورود الزام نہیں ٹھہرایا ہے جبکہ فتح اللہ گولن صرف ایک مہرہ ہو سکتے ہیں۔ اصل میں تو اس کے پیچھے کوئی اور ہی ہے جس کو واضح ہونا ضروری ہے۔شاید اصل محرک کا چہرہ کبھی سامنے ہی نہ آئے ایسا ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ ملکی سطح پر کئی باتیں ایسی ہو تی ہیں جس کاپردہ اخفامیں رہنا ضروری ہو تا ہے۔ آج کی دنیا میں حالات ایسے ہیں کہ سفارت کے نام پر منافقت کا بازار گرم رہتا ہے۔ یہ مغرب اور یہودیوں کی دین ہے لیکن اب مسلم قائدین کو بھی خواہی نا خواہی اسے ڈھونا پڑرہا ہے۔ ایک ہی وقت میں ایک ملک دوسرے ملک کے خلاف سازشیں بھی کرتا ہے وہاں عدم استحکام اور انارکی پھیلانے کی بھی درپردہ کوشش کرتا ہے اور ساتھ ہی فون پر انہیں جمہوریت کی بحالی اور بغاوت کی ناکامی پر مبارکباد بھی دیتا ہے۔لیکن اس پورے معاملے میں سفید ریچھ خاموش ہے۔  شاید مستقبل قریب میں اس کی خاموشی ٹوٹے اور یہ راز کھلے کہ ترکی میں رجب طیب اردگان سے بدلہ لینے اور جہاز گرانے کی قیمت چکانے کے لئے اسی نے یہ کارروائی کو انجام دیا تھا۔ جو الٹے منھ ترکی کے بدخواہوں کے منھ پر ہی آپڑا۔ طیب اردگان نے ایک بات کہی تھی کہ بغاوت کی جڑ ہی کاٹ دی جائے گی۔ اس سے یقیناًان کا اشارہ ملک میں ہر اہم جگہوں پر موجود وہ غدار ہیں جو ہمیشہ خطرہ بنے رہتے ہیں۔  اب ان لوگوں کی بلبلاہٹ قابل دید ہے جنہوں نے ترکی کو تر نوالہ سمجھ کر ہضم کرنے کی کوشش کی تھی۔ انہیں ڈر ہے کہ اسی بہانے وہ سارے دلال باہر ہو جائیں گے اور اپنے انجام کو پہنچیں گے اور ترکی ایک لمبے عرصے تک مامون و محفوظ ہو جائے گا۔ یہاں رجب طیب اردگان کو اپنی ایک الگ سے وفادار فوج بنانے کی بھی ضرورت ہے جیسے صدام نے ریپبلیکن گارڈ یا ایران نے پاسداران انقلاب بنا رکھی ہے۔ تاکہ وقت ضرورت ان افواج کے ذریعہ اسلام کے باغیوں پر شکنجہ کسا جاسکے۔

تبصرے بند ہیں۔