اردو اخبارات کو ملنے والے اشتہارات اور اخباروں کی ذمہ داری 

ڈاکٹر سلیم احمد

متعدد ریاستی حکومتوں کی جانب سے اردو میں ماہانہ رسالے شائع ہوتے ہیں جس کے لئے حکومت خطیر رقم بھی صرف کرتی ہے مگر اس میں سے چند ایک رسالے کو چھوڑ کر کسی بھی رسالے کو علمی حلقوں میں مقبولیت حاصل نہیں ہوئی۔ یہ سچ ہے کہ حکومت اترپردیش ہر سال اردو اخبارات کو اشتہارکے نام پر لاکھوں روپئے صرف کرتی ہے۔ اشتہار کی اس فہرست میں ریاست کے وہ اخبار بھی شامل ہیں جن کی چند کاپیاں دفتروں میں خانہ پری کے لئے جمع کر دی جاتی ہیں۔ ان کا نہ اپنا پریس ہوتا ہے، نہ دفتر اور نہ اخباری عملہ۔ مگر ایسے اخبارات افسروں اور کلرکوں کی ملی بھگت سے لاکھوں کا وارا نیارا کرتے رہتے ہیں۔ اس سے کیا حکومت کی منشا پوری ہوتی ہے؟ کیا حکومت کی ترقیاتی اسکیموں سے عوام با خبر ہوتے ہیں یا اردو کے فروغ میں یہ اشتہارات اپنا حق ادا کرتے ہیں۔ ایسے اردو کے اخبارات جو برائے نام شائع ہوتے ہیں ان سے اردو اخبارات کی مجموعی فہرست میں اضافہ تو ہو جاتا ہے مگراس سے اردو کے فروغ میں منفی اثرات کے علاوہ اور کیا حاصل ہو سکتا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ ہر سال اردو اخبارات کو مل رہے اشتہارات کی تفصیلی فہرست جاری کرے تاکہ اردو والوں کو بھی معلوم ہو سکے کہ اردو کے نام پر کس اخبار کو کیا ملا۔
اردو رسالوں کی اگر بات کی جائے تو اترپردیش میں سرکاری رسالے کے علاوہ ادبی رسالوں کی بے حد افسوسناک حالت ہے اور جو رسالے کسی طرح شائع بھی ہو رہے ہیں تو وہ بھی کسمپرسی کی حالت میں ہیں۔ اترپردیش میں اردوکو دوسری سرکاری زبان کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ اس کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا حکومت یہ نہیں کر سکتی ہے کہ جتنی رقم اردو اخبارات کے اشتہار کیلئے مختص ہے اسی طرح بجٹ کا کچھ فیصد اردو کے ادبی رسالوں کیلئے بھی مختص کر دے حالا نکہ اس کام کیلئے ادبی انجمنوں اور اردو دانشوروں کو آگے آنا ہوگا۔

یہ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اگر حکومت ادبی رسائل کے لئے امداد کے طور پر بجٹ میں غیر مشروط اشتہار کا بندوبست کر دیتی ہے تو ریاست سے علمی، ادبی اور معیاری رسائل کی اشاعت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے اور وہ ادبی رسالے جو جانکنی کی حالت میں ہیں انہیں دوبارہ حیات مل سکتی ہے۔ اس کیلئے ضرورت ہے حکومت کے سامنے اپنی بات کو مستحکم طریقہ سے رکھا جائے۔
حالا نکہ موجودہ حکومت سے اردو کے فروغ اور ترویج کی امید رکھنا نا بینہ کو چراغ دکھا نے کے مانند ہے لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ہم ہا تھ پر ہا تھ رکھ کر بیٹھ جائیں اور تو کلت الا اللہ کے سہارے وقت کا انتظار کریں ۔ ہمیں اردو کی ترقی کے لیے حکومت سے مطالبہ کر تے رہنا چاہئے حکومت کو اس بات سے بھی با ور کر انا چاہئے کہ ریاست میں ارد وکو دوسری سر کا ری زبان کی قانونی حیثیت حاصل ہے لہٰذا اردو کو سر کا ری طور پر ہر وہ مرا عات حا صل ہو نی چاہیے، قانوناً وہ جس کی مستحق ہے۔

آج اترپردیش میں اردو پرآشوب دور سے گزر رہی ہے۔ ایسے میں اردو کا رسالہ نکالنا جوئے شیر سے کم نہیں ہے۔ اردو کے نام پر مالی دشواریوں اور اردو قلم کاروں کے ناز و نخرے کے ساتھ ادبی نشیمن کے نام سے سہ ماہی رسالہ کی اشاعت کی جا رہی ہے، جس میں نئے لکھنے والوں کو اہمیت دئے جانے کا مصمم ارادہ ہے تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔ساتھ ہی تمام قلم کاروں کا تعاون بھی اس رسالہ کی اشاعت میں اہمیت کا حامل ہے۔

عموماً کسی بھی رسالے کا آغاز تو بڑی آب و تاب کے ساتھ ہوتا ہے مگر مالی وسائل کی وجہ سے بہت جلد یہ مرض الموت تک پہنچ جاتے ہیں ۔ نتیجہ یہ ہوتاہے کہ چند رسالوں یا چند برس کے بعد دم توڑ دیتے ہیں ۔ میر ی کو شش رہے گی کہ اگر تخلیق کاروں اور مضمون نگاروں کا قلمی تعاون ملتا رہا تو رسالہ پا بندی کے ساتھ شایع ہو تا رہے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔