غیر نے سوچا تھا کیا ردِ عمل

افتخار راغبؔ

غیر نے سوچا تھا کیا ردِ عمل

مرحبا صد مرحبا ردِ عمل

۔

وسوسے بکھرے ہوئے ہیں ذہن میں

ہر عمل ہے آپ کا ردِ عمل

۔

بس مخالف ہے مساوی تو نہیں

آپ کا اتنا برا ردِ عمل

۔

آئنہ بننے کی جرأت کی ہے پھر

دیکھیے ہوتا ہے کیا ردِ عمل

۔

ہے عمل ظالم ہوا کا کشتگی

اور مرا رکھنا دیا ردِ عمل

۔

ظلم کب سے ڈھا رہا ہے یاد کر

ضبط ہو کب تک مرا ردِ عمل

۔

اے دلِ راغبؔ دعائیں دے سدا

اور کیا ہوگا بھلا ردِ عمل

تبصرے بند ہیں۔