اردو ادب میں تاریخ، تہذیب اور وطن کا تصور

جاوید رحمانی

برِّصغیرِ ہند و پاک میں اردو کے قدیم ترین اور نہایت ہی قابلِ احترام ادارے انجمن ترقی اردو (ہند) اور غالبؔ اور غالبیات کے مخصوص مطالعات کے لیے قائم کردہ واحد ادارے غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیرِ اہتمام ایک چار روزہ بین الاقوامی سمینار اور اردو فیسٹول کا انعقاد ایوانِ غالب، ماتا سندری مارگ، نئی دہلی میں 15 سے 18 مارچ 2018 تک کیا جارہا ہے۔ سمینار کم فیسٹول منعقد کرنے کا اردو کے کسی علمی ادارے کا یہ پہلا تجربہ ہوگا۔

 اردو میں اب تک یا تو سمینار منعقد ہوتے رہے ہیں جن میں سامعین و ناظرین کی تعداد روز بہ روز کم ہوتی جارہی ہے اور جن میں پڑھے جانے والے مقالات میں تو شاذ ہی کوئی کام کی بات کہی جاتی ہے، تو دوسری طرف خالص اردو فیسٹول منعقد ہونے شروع ہوئے ہیں جن میں — بہ استثناے جشنِ ریختہ— شائقین کی قابلِ ذکر تعداد شرکت تو کرتی ہے مگر ایسے جشن اردو زبان و ادب سے متعلق کسی نئی بحث کا اب تک آغاز نہیں کرپائے ہیں ۔انجمن ترقی اردو (ہند) جسے عرفِ عام میں اردو گھر— جو نئی دہلی میں انجمن کے مرکزی دفتر کی عمارت کا نام ہے— بھی کہتے ہیں اور غالب انسٹی ٹیوٹ کے اس سمینار میں تقریباً پچاس اسکالرز شریک ہوں گے جن میں بڑی تعداد ان علما کی ہے جنھوں نے اردو پر نہایت اہم کام تو کیا ہے مگر وہ چوں کہ اردو درس و تدریس سے وابستہ نہیں ہیں ، اس لیے، اردو دنیا ان سے ناواقف ہے۔

اس سمینار میں ایسے موضوعات پر بحث و تمحیص کے لیے مختلف سیشن مختص کیے گئے ہیں جو ابھی تک تشنۂ التفات تھے مثلاً اردو سے ہندی اور انگریزی ترجمہ جس نے اردو کے عظیم شہ پاروں کو غیر اردو داں لوگوں کی وسیع تر دنیا تک پہنچایا ہے۔ اسی طرح ایک سیشن ان ناشرین کے لیے بھی مختص کیا گیا ہے جو ان تراجم کو شائع کرتے رہے ہیں اور اردو دنیا ان کی سماجیات سے بالکل ہی ناواقف ہے۔ اس سیشن میں پینگوئن- رینڈم ہاؤس، جکرنوٹ، زبان پبلشرز، رولی بکس اور راج کمل پرکاشن کے وہ عہدے داران حصہ لیں گے جو اردو شہ پاروں کے انگریزی اور ہندی تراجم کی اشاعت کے پیچیدہ عمل میں شریک رہے ہیں۔

افتتاحی جلسہ جو 15 مارچ کی شام 5 بجے ایوانِ غالب میں منعقد ہوگا، اس کی صدارت پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی کریں گے جو انجمن ترقی اردو (ہند) اور غالب انسٹی ٹیوٹ دونوں ہی کے سربراہ اور اس مہتم بالشان سمینار کم فیسٹول کے محرک بھی ہیں۔

 کلیدی خطبہ عہد ساز نقاد اور اردو کے سب سے بڑے عالم پروفیسر شمس الرحمن فاروقی پیش کریں گے۔دہلی یونیورسٹی کے شعبۂ انگریزی کے پروفیسر گوتم چکرورتی مہمانِ معظم ہوں گے۔ پروفیسر چکرورتی صرف اردو کے شیدائی ہی نہیں ہیں بلکہ انھوں نے بڑی تعداد میں انگریزی ادب کے ریسرچ اسکالروں کو اردو سیکھ کر اردو اور انگریزی کے تقابلی مطالعے کے موضوعات پر کام کرنے کی نہ صرف تحریک دی بلکہ ان کی ہر ممکن معاونت بھی کی جس میں ان طالبِ علموں کے لیے غیر ملکی یونی ورسٹیوں میں مزید تعلیم کے لیے وظائف سے لے کر ان کی نوکریوں میں مدد کرنے سمیت ہر ممکن تعاون شامل ہے۔

اس موقعے پر قومی کونسل براے فروغِ اردو زبان کے ڈائرکٹر پروفیسر سیّد ارتضیٰ کریم جو اس اہتمام کے میزبان بھی ہیں، افتتاحی اجلاس سے خطاب کریں گے۔ اس چار روزہ سمینار اور اردو فیسٹول میں ہر شام ثقافتی پروگرام کے لیے مخصوص کی گئی ہے جس میں 15 مارچ کو رادھیکا چوپڑہ غزل سرائی کریں گی، 16 مارچ کو ڈاکٹر ایم۔ سعید عالم ’سر اقبال‘ نام کا پلے پرفورم کریں گے، 17 مارچ کو محمود فاروقی داستان گوئی کی محفل سجائیں گے اور 18 مارچ کو جے پور گھرانے کے مشہور قوال صابری برادران محفلِ سماع کا سماں باندھیں گے۔ امید کہ اردو شائقین علم و ثقافت کے اس چار روزہ سمینار اور اردو فیسٹول سے فیض یاب ہوں گے.

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    زبان، زبان کو کہتے ہیں اور تہذیب کی مختصر تعریف یہ ہے کسی بھی انسانی گروہ کے رہن سہن کے طریقوں کو تہذیب کہتے ہیں۔ اگلی بات یہ ہے کہ زبان اور تہذیب کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے بلکہ یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ اگر زبان کو جسم فرض کیا جائے تو تہذیب اس کی روح ہوگی۔
    ہر زبان اپنی تہذیب کو بیان کرنے میں سب سے فصیح ہوتی ہے۔ اس لئے کسی دور دراز دیہاتی علاقے کی تہذیب کو بیان کرنے کی سب سے زیادہ صلاحیت مقامی زبان کو حاصل ہوتی ہے اگرچہ اس کا دائرہ کتنا ہی تنگ کیوں نہ ہو۔ اسی طرح کوئی بھی زبان اپنے تہذیبی ورثے کو ساتھ لے کر چلتی ہے اور جہاں ضرورت پڑتی ہے، دوسری زبانوں کو اپنے الفاظ دیتی اور ان سے الفاظ لیتی بھی ہے۔ اس کا یقین کرنے لئے زراعت کی کوئی کتاب پڑھیں تو اندازہ ہوگا کہ اردو میں لکھی کتاب میں پنجابی کے الفاظ کس قدر زیادہ ہیں۔
    اسی سے یہ عقدہ بھی حل ہو جاتا ہے کہ کسی زمانے میں (اگر یہ درست ہو) برصغیر پاک وہند کے علماء نے انگریزی سیکھنے کو حرام کیوں قرار دیا تھا۔ اس بات کی وضاحت اس مثال سے ہو جائے گی کہ عربی ایک زبان ہے اور عرب کے لوگ عام طور پر مسلمان ہیں۔ ایسے میں اگر آپ عربی زبان کی تعلیم کے لئے کسی عربی کا روزنامچہ پڑھیں گے تو وہ اس کے معمولات زندگی کو بیان کرے گا جو فجر کی نماز سے شروع ہو کر عشاء کی نماز پر ختم ہوگا کیونکہ ایک مسلمان پر یہ کام فرض ہے۔
    اس کے مقابلے میں اگر آپ انگریزی کی تعلیم کے لئے کسی انگریز کا روزنامچہ پڑھیں گے تو وہ معمولات کا آغاز منھ دھونے سے کرے گا اور اختتام شاید نائٹ کلب پر ہوگا اور اگر یہ نہ بھی ہو تو عمومی طور پر انہی کاموں کا تذکرہ ہوگا جو ایک انگریز کرتا ہے۔
    اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ زبان کے اندر تہذیب پوشیدہ ہوتی ہے جس کے دور رس اثرات ہوتے ہیں اور آدمی چاہتے اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مثلاً پہلے روزنامچے سے طہارت اور نماز وغیرہ کی ترغیب ملے گی جب کہ دوسرا روزنامچہ ذہنوں میں شراب وکباب کی اہمیت بٹھائے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ زبان اکیلی نہیں آتی بلکہ اپنے ساتھ تہذیب کا لاؤ لشکر بھی لاتی ہے جو مفتوح قوموں کا ستیاناس کر دیتا ہے۔

    اسی طرح ایک مترجم کے لئے یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے کہ جن دو زبانوں کا ترجمہ کرتا ہے، ان کی تہذیب سے بھی واقف ہو ورنہ ترجمے میں بڑے بڑے لطیفے جنم لیتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔