اردو ادب میں میلاد النبی ﷺ  کی روایت

سید عبداللہ علوی بخاری اشرفی

ارد وزبان دنیا کی ان خوش قسمت زبانوں میں سے ہے جس نے دنیا کے متعدد ممالک میں اپنی عظمت رفتہ کا علم بلند کر رکھاہے۔ اپنی چاشنی کی پر کشش خاصیت رکھنے والی اس زبان نے دنیا کے زبان و ادب میں نہ صرف ا پنا منفرد مقام پیدا کیا بلکہ اپنی شہنشاہیت کو بھی منوایا۔ اس زبان کے دامن میں وہ وسعت ہے کہ یہ جہاں گئی وہاں محبوب و مرغوب بن کر اس خطہ زمین کی تہذیب و تمدن کو اپنے دامن میں سموئے سب کو اپناتی چلی گئی۔ ایشیا ہو یا یوروپ دنیا کا کوئی چھور ایسانہیں جہاں کی تہذیب اس زبان کے دامن میں مسکراتی نظر نہ آتی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ عربی ہو یا فارسی، انگریزی ہو یا فرانسیسی، جرمنی ہو یا چینی ہر زبان کا ادب اس کے قالب میں ڈھلا نظر آتا ہے۔

اردو زبان و اب میں نہ صرف ملکی و بیرون ملکی تہذیب وثقافتوں کاجائزہ ملتا ہے بلکہ مذہبی نوعیت کی ثقافتی قدروں کا بھی احاطہ نظر آتا ہے۔ ادبا و شعرائے اردو نے زبان و ادب میں اسلامی ثقافتوں پر بھی قلم اٹھایا اور اسلامی روایات کا شاندار مظاہرہ کیاہے۔ اسلامی دنیاکی مذہبی تہذیب و ثقافتوں کا جائزہ لینے پر مسلمانان عالم میں ایک روایت ’’ میلاد النبی ‘‘ کے نام سے بھی ہمارے سامنے آتی ہے۔ اس روایت کے ابتدائی نقوش سرزمین عرب میں دکھائی پڑتے ہیں۔ نبیٔ رحمت  ﷺ کے چاہنے والوں کی ایک جماعت جنھیں دنیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نام سے جانتی ہے۔سب سے پہلے اس مقدس جماعت کے شعراصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس کی ابتدا کی اور آپ  ﷺ کی ولادت باسعادت کے حوالے سے اپنے رب کی نعمت عظمیٰ کے ملنے پر اظہار تشکر کے لیے اس روایت کی نیو رکھی۔ محبت رسو ل  ﷺ اور شکر خداوندی جیسے پاکیزہ جذبات نے اس روایات کو مذہبی تقدس و شناخت عطا کی جو جلد ہی اسلامی تہذیب و روایت کا حصہ بن گئی۔ سر زمین عرب سے یہ روایت سفر کرتے ہوئے یورپ و ایشیا کی متعدد ریاستوں میں پہنچی اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے عالم میں پھیل گئی۔ آج روئے زمین پر جہاں جہاں قوم مسلم آباد ہے وہاں یہ مذہبی روایت بڑے تزک و احتشام، ادب و احترام اور مذہبی تقدس کے ساتھ ادا کی جاتی ہے۔ بعض اسلامی ممالک میں یہ روایت حکوتی سطح پر بھی بااہتمام تعظیم و تکریم اور شان و شوکت کے ادا کی جاتی ہے۔ میلاد النبی  ﷺ  کی اسی روایت پر اردو کے ادبی پس منظر میں مختصراً روشنی ڈالی گئی ہے۔

مسلمانوں نے نبیٔ محترم  ﷺ سے اپنی پناہ محبت کے اظہار میں عشق رسول کے جذبے سے سرشار ہو کر نبیٔ اکرم  ﷺ کی سیرت طیبہ  بیان کرنے اور آپ  ﷺ کے فضائل و کمالات اور شان و عظمت کو پیش کرنے کے لیے پہلے پہل زبان اور پھر تحریر سے کام لیا اور اس طرح سیرت النبی  ﷺ، فضائل و خصائص النبی اور کمالات و عظمت نبوی کے موضوعات کے تحت ہزارہا کتابیں لکھی گئیں۔ یہی وہ دور تھا جب کتب میلاد لکھنے کی بھی ابتدا ہوئی۔ میلاد ناموں کے ابتدائی نقوش عربی اور فارسی میں ملتے ہیں جو علما ئے اسلام و ائمہ دین، اولیائے کرام اور صوفیائے کرام کے تحریر کردہ ہیں۔ ہندوستان کی سرزمین پرموجود علمائے اسلام اور اولیائے کرام نے بھی نبیٔ پاک  ﷺ کے میلاد نامے لکھے جو عربی و فارسی اور پھر اردو میں لکھے گئے۔ اردو زبان و ادب میں میلاد نامے، تولد نامے، پیدائش نامے، پیغمبر نامے، مولد نامے، اور ولادت نامے‘ کے عنوانات سے کتب میلاد لکھی گئیں۔ ان میلاد ناموں میں آپ  ﷺ کی حیات مقدسہ اور سیرت طیبہ کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے، آپ  ﷺ کی شان و عظمت ومعجزات کو بیان کیا گیا اور آپ  ﷺ کی ولادت اقدس پر رب قدیر جل مجدہ الکریم کا شکر ادا کیا گیا۔

ہندوستان میں دکن کے علاقے کو اس سلسلے میں اولیت حاصل رہی۔ اس سرزمین پر میلاد ناموں کی کثرت پائی جاتی ہے۔ اردو زبان کے ابتدائی میلاد نامے بزرگانِ دین، اولیائے کاملین اور صوفیائے کرام کی تصانیف کی شکل میں دستیاب ہوتے ہیں۔ ان کے بعد اردو زبان کے شعرا نے اس جانب توجہ کی اور منظوم میلاد نامے لکھے جانے لگے۔ بعض سلاطین و امرأ، روسأ و نوابین نے بھی درباری شعرا سے میلاد نامے لکھوائے اور انھیں انعامات و اکرام سے نوازا۔میلاد ناموں کے نثری شہ پارے اکثر بزرگان دین اور علمائے اسلام کی رشحات ِقلم کا نتیجہ نظر آتے ہیں جب کہ منظوم میلاد ناموں میں علماو صوفیا کے علاوہ اردو کے متعددشعراکی موجودگی بھی پائی جاتی ہے۔

محدثین و مفسرین اور ائمہ و فقہا کے ادوار میں میلاد النبی  ﷺ کا ذکر حدیث و سیرت کی کتابوں میں بطور جز نظر آتا ہے لیکن ان کے زمانے میں اس عنوان کے تحت مستقل کوئی کتاب نظر نہیں آتی۔ ایک عرصے کے بعد علمائے اسلام نے میلاد النبی  ﷺ کے حوالے سے مستقل کتابیں لکھنے کا آغاز کیا۔ ان کے بعداولیائے کرام اور صوفیائے کرام نے میلادالنبی  ﷺ کے موضوع پر میلاد نامے لکھے۔ پانچویں صدی ہجری سے اس موضوع کو عنوان بنا کر میلاد نامے لکھنے کی ابتدا ہے ہوئی۔ تلاش و تحقیق کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ’’ عبدالرحیم بن احمد برعی یمنی ‘‘ جو پانچویں صدی ہجری کے بزرگ گزرے ہیں  آپ نے ’’ مولد النبی ‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جو عربی زبان کا پہلا مستقل و باضابطہ تحریر کیا ہوا میلاد نامہ تھا۔ علمائے اسلام کے تحریر کردہ چند ابتدائی اور معروف عربی میلاد ناموں کی تفصیل حسب ذیل ہے :

}محدث علامہ ابن جوزی متوفی                           (۵۹۷ھ ) ’’ مولد العروس‘‘ اور ’’ بیان المیلاد النبوی‘‘،

}عمر بن حسن دحیہ کلبی متوفی                                           (۶۳۲ھ) ’’ التنویر فی مولد السراج المنیر ‘‘

}ابوالحسن احمد بن عبداللہ البکری متوفی                              (۶۹۴ھ)  ’’انوار و مفتاح السرور والافکار فی مولد النبی المختار‘‘

}شیخ شرف الدین ابو عبداللہ بوصیری متوفی       (۶۹۷ھ)  ’’ قصیدہ بردہ ‘‘

}سعد الدین محمد بن مسعود متوفی                                            (۷۵۸ھ)  ’’المتقی فی مولد المصطفیٰ ‘‘

}حافظ امام عما الدین اسمعٰیل بن عمر بن کثیرمتوفی             (۷۷۷ھ)  ’’الفصول فی اختصار سیرۃ االرسول مولد الرسول ‘‘

                ان علما ئے اسلام و بزرگان دین کے سن وصال سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کوئی دور ایسا نہ گزرا جب میلادا لنبی پر کتابیں نہ لکھی گئیں۔ ہر زمانے اور ہر دور میں اور ہر زبان و علاقے میں علمائے امت، اولیائے کاملین نے میلاد النبی کے عنوان پر کتابیں لکھیں۔

                اردو زبان میں میلاد ناموں کے دور کا آغاز ہندوستان کی سرزمین دکن سے ہوتا ہے۔ یہاں اولیاء، صوفیاء و مشائخین کرام کی مساعیٔ جمیلہ کے نتیجے میں منظوم میلاد نامے وجود میں آئے جن کی پیروی کرتے ہوئے دکن کے شاہی درباروں سے وابستہ شعرأ نے بھی منظوم میلاد نامے لکھے۔ دکن میں اولیاء و صوفیاء نے اردو میں میلاد ناموں کی روایت کو نہ صرف پروان چڑھایا بلکہ اسے اپنے عہد کی ایک مشہور شعری صنف کا درجہ بھی بخشا۔ شاہ علی محمد جیو (متوفی ۹۷۳ھ)جوحضرت شیخ احمد کبیر رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے ہیں  آپ کے دیوانِ کلام ’’ جواہر الاسرار ‘‘ میں ایک اردونظم بعنوان ’’میلاد النبی‘‘ ملتی ہے۔ قطب شاہی دور میں دکن کا مشہور فرمانروا ’’ محمد قلی قطب شاہ ‘‘گزرا ہے۔ یہ اردوکا پہلا صاحب دیوان شاعر ہونے کا اعزاز رکھتا ہے۔ اس کے دیوان میں ’’ میلاد النبی ‘‘ کے عنوان سے چھے (۶) نظمیں لکھی ملتی ہیں۔ قلی قطب شاہ نے میلاد النبی کے عنوان سے نظمیں ہی نہیں لکھیں بلکہ وہ ہر سال ماہ ربیع الاول میں بڑی شان و شوکت اوراحتشام و اہتما م کے ساتھ اپنے محل میں جشن میلاد النبی  ﷺ بھی منایا کرتا تھا۔اس دورتک محافل میلاد ایک مذہبی روایت کی شکل اختیار کی چکی تھیں۔ قلی قطب شاہ کے بعد اس کے نواسے عبداللہ قطب شاہ کا بھی ہر سال محافل میلاد کے انعقاد کا ذکر ملتا ہے۔

 ملانصرتی متوفی (۱۰۸۵ھ) عادل شاہی دور حکومت کے ایک بڑے اور اردو کے نامور شاعر ہو گذرے ہیں۔ آپ علی عادل شاہ کے درباری شاعر تھے۔ بادشاہ وقت نے انھیں ’’ ملک الشعرا‘‘ کے خطاب سے نواز ا تھا۔ اردو زبان و ادب میں ان کی شہرت ان کی مشہور زمانہ مثنوی ’’ گلشن عشق ‘‘ کی وجہ سے ہے۔ اس کے علاوہ’’ تاریخ اسکندری‘‘ اور’’ مثنوی علی نامہ ‘‘ اردو زبان و ادب میں ان کے تاریخی ادبی شاہکار ہیں۔ ’’ گلشن عشق‘‘ نصرتی کی میلادیہ مثنوی ہے جس میں انھوں نے  رسول اللہ  ﷺ کی خلقت، اور نور محمدی  ﷺ  کی آفرینش، معجزات و کمالات اور باقیات رسول  ﷺ کو بڑے ہی خوبصورت اور دلکش انداز میں بیان کیا ہے۔ اس زمانے میں گھر گھر میلاد کی محفلیں ہوا کرتی تھیں جن میں رسول اکرم  ﷺ کی ولادت کے واقعات، شان و عظمت اور معجزات کے ساتھ حیات مبارکہ کے مختلف ادوار کے کا ذکر کیا جاتا تھا۔

 محمد امین گجراتی بھی دکن کے نامور شاعر گزرے ہیں۔ ان کی منظومات بھی اردو شاعری کے ابتدائی نقش کا درجہ رکھتی ہیں۔ امینؔ نے ’’تولد نامہ ‘‘کے عنوان سے مثنوی کی ہئیت میں ایک طویل میلاد نامہ لکھا جو کہ چودہ سو بیاسی (۱۴۸۲ ) اشعار پر مشتمل ہے۔

 مولانامحمد باقر آگاہ متوفی (۱۲۲۰ھ) عربی، فارسی اور اردو کے صاحبِ دیوان شاعر تھے۔ انھیں اردو نظم و نثر پر یکساں قدرت حاصل تھی۔ ان کی تصانیف کی تعداد تین سو تین (۳۰۳) بیان کی جاتی ہے جن میں سولہ ( ۱۶) کتابیں اردو میں ہیں۔ باقرآگاہ نے آٹھ مختلف منظوم رسالے لکھے جن کے مجموعے کا نام ’’ ہشت بہشت ‘‘ ہے۔ انھوں نے رسول پاک  ﷺ کی سیرت طیبہ کے مختلف ادوار کو ان رسالوں میں ابواب کی تقسیم کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس کا پہلا رسالہ ’’ من دیپک‘‘ ہے جس میں انھوں رسول اللہ  ﷺ کے نور ہونے کا ذکر کیا ہے۔ ’’ ہشت بہشت ‘‘کے علاوہ انھوں نے نثر میں بھی ایک میلاد نامہ لکھا۔ اس کے دوم نام ہیں  ایک نام ’’ حقیقت نور محمدی ‘‘ اور دوسرا نام   ’’ ریاض السیر‘‘ ہے۔ اس مولود نامے کی ابتدا میں نور محمدی  ﷺ کا بیان ہے پھر اس کے بعد ولادت  نبیٔ کریم  ﷺ کا حال لکھا گیا ہے۔ مجموعی طور پر اس میلاد نامے میں ولادت شریفہ سے لے کر وفات اقدس تک کا حال قلمبند کیا ہے۔

 اردو زبان و ادب کی مقتدر و نامور ادبی شخصیات نے بھی اس عنوان کے تحت نظمیں لکھیں جن میں شعرأو اُدبا دونوں ہی شامل ہیں۔ امام بخش ناسخؔ متوفی (۱۸۳۸ء) اپنے عہد کے نامور اور استاد زمانہ شاعر ہو گزرے ہیں۔ ناسخؔ طرز لکھنؤ کے موجد تھے۔ انھوں نے اردو زبان کی تہذیبی روایات کے تحفظ کے لیے اردو سے سنسکرت لفظوں کے اخراج کی تحریک چلائی اور اپنے شاگردوں کے توسط سے اسے کامیاب بھی بنایا۔ ان کے منظوم خزانے میں تین دیوان اور پانچ مثنویاں ہیں۔ ان ہی مثنویوں میں ان کی ایک مستقل مثنوی  ’’ مولد شریف ‘‘ بھی ہے۔ اس میلاد نامے کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں انھوں نے آپ  ﷺ کی ولادت پاک سے لے کر وصال اقدس تک تمام واقعات و حالات کو بعنوان نظم کیا ہے اور دوسری بڑی خصوصیت یہ کہ اس بیان میں انھوں نے کہیں بھی ضعیف روایات کا سہارا نہیں لیا۔

سید محمدکفایت علی کافی مراد آبادی متوفی ( ۱۸۵۸ء)مشہور شاعر اور مجاہد آزادیٔ ہند گزرے ہیں۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں مولانا پیش پیش تھے۔ ایک مخبر کی مخبری کی وجہ سے آپ کی گرفتار ی عمل میں آئی۔ انگریز حکومت نے حکومت برطانیہ سے غداری کے الزام میں پھانسی کی سزا سنائی اور آپ مراد آباد جیل کے پاس سر عام پھانسی دے کر شہید کیے گئے اور وہیں دفن بھی کیے گئے حتیٰ کی قبر تک کونابود کردیا گیا۔ ۳۵؍ سال بعد ایک سڑک کی تعمیر کے وقت زمین کھودی جارہی تھی تب زیر زمین آپ کا جسم صحیح سلامت برآمد ہوا۔ مزدور کے پھاوڑا مولانا کی پنڈلی پر لگا تومزدور نے انجینئر کو اطلاع دی۔ اس نے احتراماً سڑک کا راستہ موڑ دیا اور ٹیڑھی سڑک نکالی۔ آج بھی آپ کا مزار اسی مقام پر موجود ہے۔

مولانا کی زیادہ تر تصانیف منظوم ہیں۔ ان کے دیوان’’ دیوان کافی ‘‘ میں کئی میلادیہ منظومات موجود ہیں جو محافل میلاد میں اکثر پڑھی جایا کرتی تھیں۔ علاوہ ازیں ’’مولود شریف بہاریہ ‘‘ان کا ایک مستقل منظوم رسالہ ہے جس میں انھوں نے رسول اعظم  ﷺ کی ولادت شریفہ کے واقعات شعری اہتمام کے ساتھ بیان کیے ہیں۔ ان کی منظومات میں رسول اللہ  ﷺ سے ان کی والہانہ محبت، قلبی وابستگی اور اخلاص و دردمندی کا اظہار ملتا ہے۔ کافیؔ کی میلادیہ منظومات اگرچہ فنی محاسن کے اعتبار سے بہت دقیق ہیں لیکن ان کا حسنِ بیان رواں و سلیس لفظوں کے استعمال سے اسے احساسات و جذبات کی تاثیر سے پر کرتا نظر آتا ہے۔

’’ محمد علی خاں لطف‘‘ متوفی ( ۱۲۹۸ھ)لکھنوی طرز شعری کے شاعر تھے۔ انھوں نے میلاد کے موضوع پر بطور خاص غزلیں لکھیں جو ان کے دیوان میں جابجا نظر آتی ہیں۔ ان کی میلادیہ منظومات کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنی منظومات میں محافل میلاد کے انعقاد کے آداب بھی بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ لطفؔ نے میلاد کے موضوع کو غزل کے اندا ز میں بیان کیا اور فنی اور صنفی سطح پر میلاد ناموں کی روایت کو آگے بڑھایا۔

 مولانا آل حسن حسرت موہانی متوفی (۱۸۷۰ء) نہ صرف شاعر بلکہ ایک بلند پایہ ادیب بھی تھے۔ انھوں نے ردِّ عیسائیت پر بہت کام کیا۔ انھوں نے اپنی متعدد تصانیف بطور یادگار چھوڑی ہیں جن میں ان کا ایک میلاد نامہ بعنوان ’’ مولود مصطفوی ‘‘ بھی شامل ہے۔ مولانا حسرت موہانی نے اسے اپنے اردو پریس علی گڑ ھ سے شایع کیا تھا۔

 معروف زمانہ استاد عصر شاعر ’’ امیر مینائی ‘‘ متوفی (۱۹۰۰ء) نے بھی ایک میلادنامہ بعنوان ’’خیابان آفرینش‘‘ لکھا۔ ان کا یہ میلاد نامہ منظو م نہیں بلکہ نثر ی ہے۔ انھوں نے اپنے اس میلاد نامے میں روایات صحیحہ کا اہتمام برتتے ہوئے رسول اللہ  ﷺ کے نورِ پاک، احوالِ پیدایش، بیان رضاعت، آپ  ﷺ کے لڑکپن اور سیرت طیبہ کے دیگر حالات و واقعات کا بھی احاطہ کیا ہے۔ ان کی ایک مسدس ’’ صبح ازل ‘‘ میلادیہ منظوم ہے جس میں انھوں نے نبیٔ کریم  ﷺ کی ولادت با سعادت کو بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ ’’ ذکر شاہ انبیاء ‘‘ ان کا مشہور منظوم میلاد نامہ ہے۔ اس میں انھوں نے رسول اللہ  ﷺ کی ولادت شریفہ سے لے کر وفات اقدس تک واقعات کو خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے۔ امیر مینائی کی میلادیہ منظومات اور نثری میلاد نامے نے محافل میلاد میں خوب شہرت و مقبولیت حاصل کی اس لحاظ سے امیر مینائی نے میلاد کی روایت کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔

 اردو کے نامور شاعر ’’ سید محمد محسنؔ کاکوروی ‘‘ کا نام میلادیہ منظومات میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ کلیات محسنؔ میں ان کی چودہ مثنویاں، پانچ قصیدے، ایک مسدس ’’سراپائے رسول اکرم ‘‘،اٹھائیس رباعیات، بیس غزلیں اور کچھ نظمیں بطور مناجات شامل ہیں۔ ان کی مثنوی ’’ صبح تجلّی ‘‘ ایک منظوم میلاد نامہ ہے جو تقریباً پونے دو سو اشعار پر مشتمل ہے جس میں انھوں نے نبیٔ کریم  ﷺ کی ولادت ِشریفہ کے واقعات و حالات بیان کیے ہیں۔ محسن ؔنے اپنے کلام کو شہرت کا ذریعہ نہ بنایا بلکہ اس کی بنیاد خلوص و عقیدت پر رکھی اور اپنی والہانہ شیفتگی میں حفظ مراتب کو بھی ملحوظ رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں بسیار تلاش کے لغزشیں نہیں ملتیں۔

 مفتی عنایت احمد کاکوروی متوفی ( ۱۸۶۳ء) اپنے عہد کے نامور عالم دین گزرے ہیں۔ ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی کے مجاہدین میں آپ شمار کیے جاتے ہیں کہ آپ نے حکومت برطانیہ کے خلاف فتویٔ جہاد دیا تھا جس کی پاداش میں آپ کو جزائر انڈومان میں قید کی سزا دی گئی۔ آ پ کو عربی، فارسی اور اردو ٗ تینوں زبانوں پر ملکہ حاصل تھی اور زبانوں کا یہی عبور آپ کی جزائر انڈومان سے رہائش کا سبب بنا۔ آپ نے نثری میلاد نامہ بنام ’’ تواریخ حبیبِ الہ ‘‘ لکھا۔ یہ تین ابواب پر مشتمل ہے جس کے پہلے باب میں نور محمدی  ﷺ، ولادت شریفہ، پچپن مبارکہ، شباب اقدس، اور آغاز نبوت شریفہ سے ہجرت تک کا بیان ہے جب کہ دوسرے باب میں ہجرت سے وفات پاک کے حالات اور تیسرے باب میں حلیہ شریف، خصائل و شمائل مصطفی ﷺ اور معجزات کا بیان ہے۔ اس کے اختتام میں شفاعت کا تذکرہ بھی شامل ہے۔

 مولانا نقی علی خاں معروف زمانہ عالم دین اور فقیہہ عصر گزرے ہیں۔ مولانا نقی علی خاں گرچہ ادیب و شاعر نہ تھے لیکن عربی و فارسی کے ساتھ اردو زبان ادب پر کمال دسترس رکھتے تھے۔ آپ نے عربی، فارسی اور اردو میں متعدد کتابیں تصنیف کیں جو مذہبی نوعیت کی تھیں۔ آپ نے ایک نثری میلاد نامہ بھی بعنوان ’’ سرورالقوب فی ذکر المحبوب ‘‘ تصنیف کیا۔ ان کا دوسرا نثری میلاد نامہ ’’ انوار جمال مصطفیٰ ‘‘   ہے جس میں آپ نے رسول اللہ  ﷺ کی ولادت اقدس کے واقعات، ایام رضاعت، گہوارے کے معجزات سے لے کر وصال مبارک اورآپ  ﷺ کے  فضائل و شمائل پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیے ہیں۔

مولانا احمد رضا خاں اپنے عہد کی ایک عبقری شخصیت تھے۔ ان کا نام عالم اسلام کے درمیان ان کے خصوصی وصف عشق رسول  ﷺ کی وجہ سے آفتاب کی روشنی کو ماند کرتا نظر آتا ہے۔ آپ اپنے عہد میں معقولات و منقولات کے اما م تھے۔ آپ ایک عالم، مفتی اور مسئلک حنفیت کے ثقہ فقیہہ گذرے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً ایک ہزار کتابیں تصنیف کیں جن میں آج بھی متعدد نسخوں کی شکل میں محفوظ ہیں۔ اردو میں آپ کا ترجمہ قرآن بنام ’’ کنزالایمان‘‘ آپ کی ادبی و فنی مہارتوں کا شاہکار ہے۔ آپ نے ایک نثری میلاد نامہ ’’ تجلی الیقین مع تمہید ایمان ‘‘ تصنیف کیا۔ اس میلاد نامے میں نبیٔ کریم  ﷺ کی ولادت شریفہ سے لے کر فتح مکہ تک کے تمام واقعات و حالات بڑی ہی وضاحت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔ اس میلاد نامہ کی ایک انفرادیت ہے اور وہ یہ کہ یہ ایک خالص علمی میلاد نامہ ہے جس میں آپ نے بیان ومحافل میلاد کے جواز بھی پیش کیے ہیں۔ آپ کا یہ میلاد نامہ چار ابواب پر مشتمل ہے جس کے پہلے باب میں آپ نے قرآنی آیات جمع کیں دوسرے میں احادیث طیبات، تیسرے باب میں طرق روایات اور باب چہارم میں صحابۂ کرام کے اخبار و آثار اور اقوال علمائے اسلام کو پیش کیا ہے۔ اس میلاد نامے کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے آپ نے ان سب روایات کو معتبر و مستند کتابوں سے اخذ کیا اور حاشیہ میں ان تمام کتابوں کی وضاحت کردی ہے۔

 مولانا احمد رضاخاں جہاں ایک اچھے نثر نگار تھے وہیں ایک بلند پایہ نعت گو شاعربھی تھے۔ آپ نے عربی، فارسی اردو میں نعتیں و قصائد  لکھے۔ آپ کی ایک نعت ایسی بھی ہے جس میں اردو فارسی اور عربی تینوں زبانوں کے الفاظ شامل ہیں اس سے تینوں زبانوں پر آپ کی دسترس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔آپ کی نعتوں کا مجموعہ ’’ حدائق بخشش‘‘ مقبول خاص و عام ہے جس کی نعتوں کے ہر شعر سے عشق رسول کا دریا بہتا نظر آتا ہے۔ آپ کی نعتوں میں میلادیہ اشعار جا بجا نظر آتے ہے ہیں۔

نواب صدیق حسن خاں کا تعلق ایرانی گھرانے سے تھا۔ وہ منفرد طرز کی علمی شخصیت تھے ان کے تخصص کے موضوعات میں قرآن، علوم القرآن، سنت اور فقہ الحدیث تھے۔ انھوں نے چھوٹے بڑے کم و بیش بیس رسائل و کتب تصنیف کیں۔ انھوں نے بھی ایک نثری میلاد نامہ تحریر کیا جو ’’ الثمامۃ العنبریہ من مولد خیر البریہ‘‘ کے نام سے ۱۸۸۷ء میں شایع ہوا۔ اس میلاد نامے میں آپ  ﷺ کے نسب شریف، وقت ولادت شریفہ کے واقعات اور حیات طیبہ کے حالات و واقعات، خصائص و شمائل اور معجزات و کمالات کا بھی خوبصورت احاطہ ملتا ہے۔

مولانااشرف علی تھانوی متعدد مذہبی کتابوں اوررسالوں کے مصنف گذرے ہیں۔ دعوت و تبلیغ ان کا خاص میدان رہا ہے۔ مولانا عربی، فارسی اور اردو زبانوں میں یکساں قدرت رکھتے تھے ٗ انھوں نے اردو میں قرآن مقدس کا ترجمہ بھی کیا۔ میلاد کے موضوع پر ان کی دو کتابیں موجود ہیں جن میں سے ایک اُن کے میلادیہ خطابات کا مجموعہ ہے۔ اس میں انھوں نے رسول اللہ  ﷺ کے حالات و واقعات کے بیان کے ساتھ ساتھ محافل میلاد کے فضائل و برکات بھی بیان کیے ہیں۔ جب کہ دوسری کتاب بعنوان ’’ نشر الطیب فی ذکر النبی الحبیب  ﷺ‘‘ کے عنوان سے ہے جو خالص محافل میلاد میں پڑھنے کی غرض سے لکھی گئی ہے جس کا اظہار انھوں نے خود اس کتاب کے ابتدائی اوراق میں کیا ہے۔ یہ ایک نثری میلاد یہ کتاب ہے۔ اس میں مولانا نے رسول اللہ  ﷺ کے نور ہونے اور آپ  ﷺ کے دنیا میں تشریف لانے، ایام رضاعت، دائی حلیمہ کے گھر پرورش پانے اور سیرت طیبہ کے دیگر حالات و واقعات مستند روایات کی روشنی میں شرح بسط کے ساتھ بیان کیے ہیں۔

مولانا حسن رضا خاں حسنؔ اردو نعتیہ شاعری میں استاد زماں مانے جاتے ہیں اور اسی مناسبت سے آپ کو نعت گو شعرا میں ’’استاذزمن‘‘ اور’’ شہنشاہِ سخن‘‘کے خطابات سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ نے داغؔ دہلوی سے شرف تلمذ حاصل کیااور اس سلسلے میں ان کا مدتوں استاد داغؔ کے ساتھ رامپور میں قیام رہا۔ میلاد ناموں میں ’’ میلاد حسن ’’ کو خاص اہمیت و مقبولیت حاصل ہے۔ یہ ایک نثری میلاد نامہ ہے۔ آپ نے اس میں نورِ محمدی  ﷺ، رسول پاک  ﷺ کی ولاد ت شریفہ، ایام رضاعت اور معراج النبی  ﷺ کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ آخری حصے میں آپ کی  میلادیہ منظومات بھی ہیں نیزاس میں دیگر نعت گو شعرا کے اردو و فارسی کے میلادیہ کلام کو بھی شامل کیا ہے۔ یہ میلاد نامہ ’’ نگارستان میلاد‘‘ کے نام سے بھی کئی بار شایع ہوچکا ہے۔

مولانا حبیب الرحمٰن خاں شروانی کو اصلاحی و تعمیری کاموں سے غضب کا شغف تھا۔ انھوں نے اپنی سرگرمیوں کے لیے علم و تعلیم اور خدمت دین کے شعبوں کا انتخاب کیا اور ہمیشہ ان ہی میں سرگرم عمل رہے۔ عمر کے آخری حصے میں وہ ملی مسائل کی جانب بھی راغب ہوئے۔ انھیں میلاد خوانی سے گہری دلچسپی تھی یہی وجہ ہے کہ وہ خود میلاد پڑھا کرتے تھے۔ سیرت نبوی  ﷺ سے متعلق ان کا مطالعہ بڑا وسیع تھا۔ انھوں نے حیدر آباد کی میلادیہ محفلوں کے مروج رواج میں اصلاح کی۔ وہ غیر مستند روایات کو کبھی بیان نہ کرتے۔ وہ قرآنی آیات، معتبر روایات و احادیث اور سیرت کے تاریخی و مستند واقعات ہی کو اپنی میلاد میں اس دل آویزی کے ساتھ پیش کرتے کہ لوگوں کو اعتراض و مخالفت کی گنجایش ہی نہ رہ جاتی۔

مولانا کے میلادیہ رسائل کا سلسلہ ’’ ذکر خیر ‘‘ کے نام سے حیدر آباد دکن سے شایع کیا جاتا رہا۔ ان رسائل میلاد میں ’’ شانِ رسالت، ذکر حبیب، آفتابِ رسالت، رسالۃ عامہ، پیغام رحمت، شمائل مبارک اور اسوۂ حسنہ ‘‘ قابل ذکر ہیں۔ یہ سبھی رسائل مجالس میلاد میں کی گئی ان کی تقاریر کا مجموعہ ہیں۔ مولانا کی تالیف ’’ ذکر جمیل ‘‘ میں میلاد کے موضوع پر رسول پاک  ﷺ کی حیات مقدسہ کے حوالے سے  واقعات کومفصل و مدلل اور ترتیب وار عنوانات کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔

 علامہ راشد الخیری اردو زبان و ادب کی منفرد اور مشہور شخصیت ہیں جو اپنے طرز تحریر کی وجہ سے ’’ مصور غم ‘‘ کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں۔ یہ اردو کے ان خوش قسمت مصنفوں میں سے ہیں جن کی تصنیفات قبول عام کی شہرت پاتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان کی تصانیف کی تعداد تیس (۳۰) سے کم نہیں۔ ’’آمنہ کا لال ‘‘ راشد الخیری کا وہ میلاد نامہ ہے جس نے شہرت کی وہ منزلیں طے کیں جو شاذ شاذ ہی کسی کے حصے میں آتی ہیں۔ انھوں نے اس میلاد نامہ کو مستورات کی محافل میلاد میں پڑھنے کے لیے مرتب کیا۔ اس میلاد نامے میں نبیٔ کریم  ﷺ کی ولادت اقدس کے لیے مانگی گئی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کو بھی پیش کیا گیا ہے نیزاس میں ولادت نبوی  ﷺ سے قبل عرب کے حالات، آپ  ﷺ کا خاندان، آپ  ﷺ کی ولادت مقدسہ، ایام شیر خوارگی، دائی حلیمہ کے گھر کی پرورش، والدہ اوردادا جان کی رحلت، ابو طالب کی کفالت، عالم شباب، سفر شام، نکاح اول، نزول وحی سے لے کر سفر معراج تک کے حالات بیان کیے گئے ہیں۔ ذکر میلاد سے متعلق سیرت مقدسہ کے احوال کو ترتیب وار بیان کیا گیاہے۔

 خواجہ حسن نظامی کو اردو شاعری کا صوفیانہ رنگ و آہنگ کا دوسرا نام کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ وہ ایک خالص مذہبی و صوفی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اس لیے ان کی طبیعت میں نبیٔ کریم  ﷺ سے والہانہ عقیدت و محبت کا رنگ خوب چڑھا ہوا تھا۔ سیرت کے موضوع پر ان کی چھے کتابیں ملتی ہیں جن میں ایک میلاد یہ تصنیف بعنوان ’’ میلاد نامہ ‘‘ بھی شامل ہے۔ ان کی طبیعت کو عشق رسول  ﷺ کی فراوانی نے اس طرح پر تاثیر کردیا تھا ان کااسلوب بھی اثر آفرینی کے تاثر سے بھر ا نظر آتا ہے۔

نظامیؔ کے ’’میلاد نامہ‘‘ میں میلاد کی فضیلت، اہتمام اور احتیاط کا ذکر نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ انھوں نے میلاد نامے میں خاندان قریش کی عظمت و بزرگی اور ان کی شرافت و کرامت کو بھی بیان کیا ہے۔ اس میں انھوں نے زائرین کعبہ کی میزبانی، اصحاب فیٖل جیسے واقعات کابھی احاطہ کیا ہے۔ وہ اس میلاد نامے میں ولادت مقدسہ کے حوالے سے ازل میں نور، ابد میں نور، حمل مبارکہ میں نور، وقت ولادت شریفہ کو بیان کرتے ہوئے سیرت مبارکہ کے سبھی حالات و واقعات زمانی ترتیب کے ساتھ بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ میلاد و سیرت کے واقعات کو بیان کرتے وقت رسول پاک  ﷺ سے گہرے قلبی تعلق کے سبب موجزن جذبات اور پر کیف تاثرات میں ڈوبے دکھائی دیتے ہیں۔

مولانا عبدالحلیم شررؔ اردو زبان و ادب کا ایک انتہائی معروف نام ہے۔ یہ اردو کے اسلامی ناول نگاروں میں اپنا مخصوص مقام رکھتے ہیں۔ شررؔ کے تاریخی ناولوں، سوانح عمریوں، ڈراموں اور نظموں کی تعداد قریباً ایک سَو دو (۱۰۲) بنتی ہے۔ اس لحاظ سے اردو زبان و ادب میں وہ اپنے تمام معاصرین میں ایک ممتاز حیثیت کے حامل ہیں۔ شررؔ نے ’’ سوانح خاتم المرسلین ‘ کے نام سے سیرت پر ایک کتاب لکھی جو نبیٔ کریم  ﷺ کے میلاد و سیرت کے حالات و واقعات پر مشتمل ہے۔ یہ پانچ سو چوبیس (۵۲۴) صفحات کی ایک ضخیم کتاب ہے۔ عبدالحلیم شررؔ نے ایک کتاب ’’میلاد شریف نبیٔ کریم  ﷺ‘‘ کے عنوان سے ترجمہ بھی کی۔ ’’مولانا عین القضا ‘‘نے کسی سے علامہ ابن جوزی کے رسالہ ’’ مولد شریف‘‘ کا اردو ترجمہ کرایا ٗ یہ ترجمہ باوجود صحیح ہونے کے ایسی زبان میں تھا کہ سننے والوں کو نہ پوری طرح سمجھ میں آرہا تھا اور نہ ہی سامعین اس سے لطف اندوزہو پارہے تھے۔ شررؔ نے علامہ ابن جوزی کی اصل کتاب سے اس کا ترجمہ کیا۔ شررؔ اس ترجمے سے متعلق خود لکھتے ہیں ’’ میں نے ابن جوزی کے مولد شریف کا ترجمہ اس طرح کیا کہ نثر کا ترجمہ نثر میں اور نظم کا ترجمہ نظم میں۔ ‘‘

اِس میلاد نامے میں نورِ محمدی  ﷺ کابیان، تخلیق اول، تقسیم نور، ولادت شریفہ سے متعلق بشارات، وقت ولادت با سعادت کے معجزا ت، حتیٰ کہ میلاد پاک سے متعلق ہر ہر روایت اور آپ  ﷺ کا حلیہ مبارکہ، خصائل و شمائل شریف کو باترتیب و مفصل ذکر کیا گیا ہے۔ علامہ ابن جوزی نے اس میلاد نامے کی اخیر میں میلاد منانے کی برکات اور دعائے ختم میلاد کو بھی بیان کیا ہے۔ شررؔ نے اس میلاد نامے کا بڑا ہی بامحاروہ و سلیں ترجمہ کیا۔ شرر ؔکے اس میلاد نامے کے ترجمے کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ انھوں نے عربی منظومات کااردو میں منظوم ہی میں ترجمہ کیا۔یہ میلاد نامہ ’’ولاتِ سرورِ عالم  ﷺ ‘‘ کے نا م سے بھی شایع ہوچکا ہے۔

سر سید احمد خاں اردو زبان و ادب کا وہ نام ہے جسے اردو کے عناصر خمسہ کی بنیاد تصور کیا جاتا ہے۔اردو زبان و ادب کے حوالے سے  ساری دنیا ان کی خدمات کا اعتراف کرتی ہے۔ سر سید احمد خاں ہی وہ ہستی ہے جنھوں نے اردو زبان کو حیات نو بخشی، جنھوں نے اردو کو آزادؔو نذیراؔ ور حالی ؔ و شبلیؔ دیے۔ سر سید احمد خاں نے بھی ایک میلاد نامہ بنام ’’ جلا القلوب بذکر المحبوب ‘‘ ۱۸۴۲ء میں لکھا جو اُن کے بڑے بھائی کے ہفت روزہ اخبار ’ سید الاخبار ‘‘ سے شائع ہوا۔ سر سید نے اس میلاد نامے میں نبیٔ کریم  ﷺ کی ولادت شریفہ سے وفات اقدس تک کے حالات بڑے خلوص و عقیدت سے بیان کیے ہیں۔

سر سید احمد خان کے بعد خواجہ الطاف حسین حالیؔ کو اردو زبان و ادب کا دوسرا بڑانام تسلیم کیا جاتا ہے۔ اردو شاعری کا معیار متعین اور بلند کرنے میں حالیؔ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ حالیؔ نے اردو نظم و نثر میں کئی تاریخی ویادگار تصانیف چھوڑی ہیں جن میں مقدمہ شعر و شاعری، یادگارِ غالب، حیاتِ سعدی، حیاتِ جاوید اور مسدسِ حالیؔ نے شہرت دوام حاصل کی۔ یہ حالیؔ ہی ہیں جنھوں نے اردو ادب کے جدید دور کا آغاز کیا۔ حالیؔ کی یادگار کتابوں میں ’’مولود شریف ‘‘ نامی کتاب میلاد کے موضوع پر لکھی گئی ان کی نایاب تصنیف ہے۔ یہ ان کا نثری میلاد نامہ ہے۔ حالیؔ نے یہ کتاب ۱۸۶۴ء میں لکھی جسے ان کے صاحبزادے خواجہ سجاد حسین نے حالی پریس ٗ پانی پت سے ۱۹۳۲ء میں اپنے مقدمے کے ساتھ شایع کیا۔ اس کتاب کا سن تحریر ایک قلمی نسخے سے دستیاب ہوتا ہے جس پر ۱۸۶۴ء کی مہر لگی ہوئی ہے اور اسی بنا پر ان کے صاحبزادے خواجہ سجاد حسین ’’مولودد شریف‘‘میں اپنے تحریر کردہ دیباچے میں اس کی توثیق کرتے نظر آتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں خواجہ سجاد حسین لکھتے ہیں کہ ’’یہ غالباً والدمرحوم کی پہلی تصنیف ہے۔‘‘

حالیؔ نے اپنے اس ’’مولود شریف ‘‘میں رسول اللہ  ﷺ کے خصائص و خصائل، اخلاق و عادات، شفاعت و معجزات کا ذکر بڑے دلنشیں انداز میں کیا ہے۔ حالیؔ اپنے میلاد نامہ میں نبیٔ کریم  ﷺ کی ولادتِ با سعادت کے واقعات پورے جوش و جذبے کے ساتھ پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ انھوں نے میلاد ناموں میں پائی جانے والی تقریباً تمام روایات کو قلمبند کیا ہے۔ اس میلادد نامے کے آخر میں حالیؔ نے اپنی قوم کو اتباع رسول اور اسوۂ حسنہ کی پیروی کا پیغام پیش کیا ہے۔

سیمابؔ اکبر آبادی اردو شعر و ادب کا وہ نام ہے جس کے ذکر کے بنا اردو کی تاریخ نامکمل ہے۔ سیمابؔ نے استادِ شعر و ادب داغؔ دہلوی سے تلمذ حاصل کیا۔ یہ داغ ؔکا فیض ہی تھا کہ انھیں علم عروض میں کامل دسترس حاصل ہوئی۔ انھوں نے’’ قصر ادب‘‘ کے نام سے تصنیف و تالیف کا ایک ادارہ قایم کیا۔ شعر و شاعری میں ان کا کمال دیکھ کر لوگ ہزاروں کی تعداد میں شاگردی کا شرف حاصل کرنے پہنچنے لگے۔ اس لحاظ سے سیمابؔ ایک کہنہ مشق، صاحبِ طرز، قادر الکلام، ایک مقبول و معروف اور کامیاب شاعر تھے۔ مختلف موضوعات پر ان کی ۲۸۴ ؍سے زائد تصانیف پائی جاتی ہیں۔ سیمابؔ کوشعر و شاعری پر اس درجہ کمال حاصل تھا کہ انھوں نے قرآن حکیم کا منظوم ترجمہ بھی کیا۔

مولوی محمد باقر آگاہ کا میلاد نامہ بعنوان ’’ ریاض الاظہر فی احوال سیدالبشر عرف بارہ چمن ‘‘  ایک منظوم میلاد نامہ ہے جسے انھوں نے ربیع الاو ل کے پہلے بارہ دنوں کی مناسبت سے بارہ ابواب میں تقسیم کرتے ہوئے لکھا تھا۔ یہ میلاد نامہ  بالخصوص خواتین کی محافل میلاد میں پڑھنے کے لیے لکھا گیا تھا۔سیمابؔ نے اس میلاد نامے کی نہ صرف منظوم شرح لکھی بلکہ اسے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کر تے ہوئے اس کے متن و مواد کو ازسرنو مرتب و مدون کیا۔ سیمابؔ کا کلام زبان کی لطافت اور فن کی تکمیل کی مکمل تصویر ہے۔ ان کی شاعرانہ عظمت کو یہ بہت ہے کہ انھوں نے نبیٔ کریم  ﷺ کے خصائل و شمائل کو انتہائی پاکیزہ الفاظ میں بیان کیا ہے۔ ان کی میلادیہ و معراجیہ و دیگر منظومات میں ان کے باطنی خلوص و عقیدت کا نظارہ صاف طور پر کیا جاسکتا ہے۔

مولانا ابوالکلام آزاد ایک ایسی عالمی شخصیت کا نام ہے جو اپنے آپ میں اپنی مثال خود تھی۔ جہاں وہ اپنے عہد کے عالم کی حیثیت سے ایک مفسرو محدث تھے وہیں وہ ملک کی سیاست کے ایک قابل رہبر و مدبر ہنما بھی تھے۔ مولانا آزاد کو عربی، فارسی اردو اور انگریزی زبانوں پر غضب کی دسترس حاصل تھی۔ وہ ان زبانوں میں بآسانی لکھ، پڑھ اور بول سکتے تھے۔ اردو زبان و بیان کو مولانا آزاد نے نیا رنگ و آہنگ، نئی راہ و سمت اورنیا انداز دے کر اسے ایک نئی جہت سے آشنا کیا۔

 مولانا نے چھوٹی بڑی تقریبا پچاس (۵۰) کتابیں لکھیں۔ ان کی کتابوں میں ان کا میلاد نامہ ’’ میلاد النبی  ﷺ ‘ ‘ بھی ہے۔ یہ اپنے طرز کا ایک منفرد نثری میلاد نامہ ہے۔ مولانا نے اس میں ولادت نبوی  ﷺ کے روایتی واقعات اور سیرت کے حالات بیان نہ کرتے ہوئے  رسول گرامی وقار  ﷺ کی شان و عظمت اور آپ  ﷺ کی سماجی نجات دہندہ ہونے کی حیثیت پر پرزور روشی ڈالی ہے اور یہ ثابت کیاہے کہ عالم انسانیت کی فلاح و بہبود اسی میں ہے کہ وہ رسول پاک  ﷺ کی اتباع و پیروی کو اختیار کر لے۔ انھوں نے حضور پاک  ﷺ کی ولادت سے قبل دنیا کے ظالمانہ حالات کا اشارتاًحوالہ پیش کرتے ہوئے آپ  ﷺ کی ولادت کو امن سکون، راحت و چین، خوشحالی و کامیابی کی ضمانت قرار دیا ہے۔ میلاد نامہ لکھتے وقت انھوں نے اس کی روایت سے انحراف کرتے ہوئے اپنے لیے نئی طرز نگارش کی راہ نکالی اوراس کے لیے انھوں نے جگہ جگہ آیات قرآنی واحادیث طیبات کو پیش کیا ہے۔ وہ جابجا فارسی کے اشعار سے اپنی نثر کو مرصع کرتے نظر آتے ہیں۔

حفیظؔ جالندھری اردو شاعری کا ماہتاب ہیں۔ اردو شاعری میں ان کا سب سے بڑا اور تاریخی کارنامہ ’’ شاہنامہ اسلام ‘‘ ہے۔ اس میں گیارہ ہزار اشعار ہیں جو چار جلدوں پر مشتمل ہے۔ حفیظؔ جالندھری نے ’’ شاہنامہ اسلام ‘‘ میں رسول اللہ  ﷺ کی ولادت پاک، سیرت و کردار، اخلاق و عادات، اعمال و اوصاف اور سیرت طیبہ کے دیگر واقعات کو جذبہ حب رسول  ﷺ کے ساتھ نظم کیاہے۔ اس میں انھوں نے عالمی سطح پر مسلمانوں کے جذبہ اخوت کو فروغ دینے کا پیغام دینے کی عمدہ اور عمدا ًکوشش کی ہے۔ فنی مہارت کے اعتبار سے ان کے اس شاہنامے میں ملی و قومی شاعری بھی موجود ہے اور اس کے ذریعے وہ مسلمانوں کے احساس قومیت و حمیت کو بیدار کرنے کی کامیاب کوشش کرتے نظر آئے ہیں۔ حفیظ ؔنے ’’شاہنامہ اسلام ‘‘ میں نبیٔ کریم  ﷺ کے دنیا میں تشریف لانے سے متعلق جو اشعار لکھے ہیں انھیں پڑھ کر قاری پر پر کیف و وجدان کی ملی جُلی کیفیت طاری ہوتی ہے۔

حفیظؔ کے مجموعہ کلام ’’ سوز و ساز ‘‘ میں ’’عید میلاد النبی ‘‘ کے عنوان سے منظوم کلام بھی موجود ہے۔ چوں کہ ’’سوز و ساز‘‘ اور ’’شاہنامہ اسلام ‘ ‘ کی اشاعت ایک ہی سال ہوئی اس لیے ان کی میلادیہ منظومات ان کے مجموعہ کلام کے بجائے شاہنامہ میں زیادہ نظر آتی ہیں۔

 دنیا کے زبان و ادب کی تاریخ اس امر پر شہادت پیش کر رہی ہے کہ اسلام کے دنیا میں چھا جانے کے بعد سے دنیا کی ہر زبان میں رسول گرامی وقار  ﷺ کی میلاد پاک بیان کی گئی۔ یہ ایک نہ تھمنے والا ایساسلسلہ ہے جس کے تار مسلمانوں کے لازوال جذ بے محبت رسول  ﷺ سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے آج تک شعرأ و ادبا اِس موضوع کے تحت نبیٔ پاک  ﷺ سے اپنی والہانہ عقیدت و محبت کا اظہار کرتے چلے آئے ہیں۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری و ساری ہے اور اس وقت تک جاری رہے گا جب تک دنیا میں زبانیں زندہ رہیں گی۔

مولانا آزاد محافل میلاد سے متعلق اپنے میلاد نامے ’’ میلاد النبی‘‘ میں لکھتے ہیں :

’’مولود کی مجلسیں بھی اپنے مقصد کے لحاظ سے اہم بہترین دینی عمل تھا ٗ جس کی صورت تو قایم ہے مگر حقیقت مفقود۔ ان مولود کی مجلسوں کا اصل مقصدد یہ ہونا تھا کہ وہ اس اسوۂ حسنہ کے جمال الٰہی کی تجلی گاہ ہوتیں  نبیٔ کریم کے صحیح حالات سنائے جاتے۔ ان کے اخلاق عظیمہ اور خصائل کریمہ کے اتباع کی لوگوں کو دعوت دی جاتی اور ان اعمال کا دلوں میں شوق و ولولہ پیدا کیا جاتا ٗ جو ایک مسلم و مومنزندگی کے کیریکٹر کا اصلی مایہ خمیر ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ظاہر ہے کہ ان مجالس سے بڑھ کر مسلمانوں کے لیے سعادت کونین کا ذریعہ اور کیا ہوتا ؟ یہ تمام کانفرنسیں اور انجمنیں جن کا چاروں طرف ہنگامہ بپا ہے ایک طرف اور اس مجلس کا ایک لمح ایک طرف ٗ جو اس اسوۂ حسنہ کے نظارے میں بسر ہو۔ ہماری مجلسیں اسی زکر کے لیے اور ہماری آنکھیں اسی جمال جہاں آرا کے نظارے کے لیے وقف ہونی چاہئیں۔

تبصرے بند ہیں۔