اردو ادب کی دو صدیاں: تاریخ، تہذیب اور ادب (3)

جاوید رحمانی

اردو کے ادارے ہمارے مستقبل اور آئندہ کی تہذیب وتمدن کے ضامن: صدیق الرحمن قدوائی

قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے اشتراک سے انجمن ترقی اردو (ہند)اور غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام منعقد چار روزہ بین الاقوامی کانفرنس ’اردو ادب کی دو صدیاں :تاریخ، تہذیب اور ادب ‘کے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انجمن ترقی اردو ہند اور غالب انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ پروفیسر صدیق الرحمان قدوائی نے کہا کہ اختتامی کلمات کہنا اس لئے اچھا نہیں ہوتا کہ اس کے بعد ایک صحبت ختم ہوتی ہے، مجھے امید ہے کہ آپ حضرات ہر سال اس جشن میں شریک ہوں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس سمینار کی وجہ سے دلی کی آب و ہوا تبدیل ہوگئی۔ یہ اردو کے ادارے ہمارے مستقبل اور آئندہ کی تہذیب وتمدن کے ضامن ہیں۔

یہ سمینار اس لئے بھی بہت اہم ہے کہ اس میں مقالات پیش نہیں کیے گئے۔ بلکہ اجتماعی مکالمے اور تبادلہ خیالات کیے گئے۔ سوالات پر غور وفکر کیا گیا۔ یہ تبادلہ خیالات کا موقع تھا اور یہاں اس موقع پر بلاتفریق علاقہ وعمر افراد موجود تھے۔ اس میں بہت مختلف اور متنوع پروگرام منعقد کئے گئے مجھے امید ہے کہ آئندہ بھی یہ پروگرام جاری رہے گا اورکامیاب بھی۔ اختتامی اجلاس میں غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر سیدرضا حیدر نے کہا کہ اردو ادب کی دوصدیاں :تاریخ، تہذیب اور ادب کے عنوان پر منعقد یہ سمینارکافی کامیاب رہا۔ اصل کام ہے مقالات کا آنا، وہ مقالات آئے اور ہم کامیاب رہے۔ مختلف، رنگارنگ اور منفرد پروگرام اس چارروزہ بین الاقوامی سمینار میں منعقد کیے گئے۔ ان دونوں اداروں نے مل کر یہ جشن منایا اور ہم اس جشن کے انعقاد میں کامیاب رہے۔ اگلے جشن کو ہم مزید بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔

اس سمینار میں مصروف ترین ساٹھ لوگوں کو ہم نے اکٹھا کیا اور تمام لوگ یہاں تشریف لائے انہوں نے ہمارے پروگرام کو کامیاب بنایا۔ دوصدیوں کو سمجھنے کے لیے اس چار روزہ بین الاقوامی سمینار مقالات کا مجموعہ سنگ میل کی حیثیت اختیارکرجائے گا۔ اختتامی اجلاس میں اظہار تشکر کے دوران انجمن ترقی اردو (ہند)کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر اطہر فاروقی نے کہا کہ پروفیسر صدیق الرحمان قدوائی کی تحریک پر ان دونوں اداروں نے اپنے اشتراک سے یہ بین الاقوامی سمینار منعقد کیا۔ ایک بڑا طبقہ اردو والوں کی وجہ سے ہی اردو اور اردواداروں سے دور ہوگیا ہے انہیں اپنے اداروں میں واپس لانا ضروری ہے۔اسی لیے ہم نے یونیورسٹیوں کے شعبہ ہائے اردو کے اساتذہ اور طلبہ کے علاوہ دیگر حلقوں کے سرگرم اور متحرک افراد اورماہرین کوبھی اس جشن میں مدعو کیا۔ ہم نے ہندوستان کے معروف پبلی کیشنز کو بھی مدعو کیا۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ کمیونیکیشن گیپ ہے جسے ختم کرنا ناگزیر ہے۔کمزور ترجموں کی وجہ سے دیگر زبانوں تک یہ پیغام جاتا ہے کہ اردومیں یہی ادب لکھا جارہاہے۔ حالاں کہ یہ غلط ہے۔ ہمیں اپنے اداروں کے وقار و تشخص کو بھی بحال رکھنا ہے۔

اس سے قبل چوتھے روز کے پہلے اجلاس میں داستان گوئی کے احیاکی کہانی کے عنوان کے تحت منعقد پروگرام میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے انوشا رضوی نے کہا کہ داستان کے احیا کی کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی وہ سلسلہ جاری ہے، داستان گوئی کے نئے طریقے میں بھی ہم باربار روایت کی طرف لوٹ رہے ہیں، داستان کے احیا کے بعد جتنا داستان گو آگے بڑھے ہیں داستان کے سامعین بھی آگے بڑھے ہیں، وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ ہیں۔ فن تو یہ ہے کہ داستان چاہے جتنی بڑی ہو آپ کا سامع آپ کا ساتھ نہ چھوڑے داستان گوئی کا فن یہ ہے کہ ایک یادوشخص موسیقی اور آلات موسیقی کے بغیر داستان سنائے۔ شمس الرحمان فاروقی صاحب نے زبان اور شاعری کی درست ادائیگی پر توجہ دی، داستان کے احیا کے وقت جب پہلی بار داستان پیش کی جارہی تھی تو فاروقی صاحب اور حبیب تنویر صاحب ہال میں موجود تھے اور دونوں ہماری اصلاح کررہے تھے۔متن کو آواز اور چہرے کے بہتراوربرمحل تاثرات کے ساتھ پیش کرنا ہے۔

پونم گردھانی نے کہا کہ آج بہت سے لوگ داستانیں سنارہے ہیں۔ مگر درحقیقت کام نہیں ہورہاہے۔ داستان گوئی بظاہر بہت آسان کام لگتا ہے مگریہ کام بہت مشکل ہے۔ داستان چھوٹی اور بڑی ہر جگہ پیش کی جاسکتی ہے۔ اس میں کوئی رکاوٹ نہیں آتی۔ میں داستان میں پائی جانے والی زبان کی وجہ سے داستان گوئی کی طرف راغب ہوئی۔ بین الاقوامی کانفرنس کے آخری دن کے دوسرے اجلاس میں ’اردو میں جاسوسی ادب کی روایت ‘اجتماعی مکالمے میں ڈاکٹر خالد جاوید نے کہا کہ جاسوسی ادب کا باضابطہ آغاز ابن صفی سے ہی ہوا اور میں مانتاہوں کہ آج بھی ابن صفی پڑھے جارہے ہیں۔ نام نہاد سنجیدہ ادب لکھنے والوں کے ذہن میں تجزیہ اور ناقد ہوتا ہے۔ مقبول عام ادب لکھنے والوں کے ذہن میں قاری ہوتا ہے اوروہ مارکیٹ کو ٹارگیٹ کرتے ہیں۔ ادب اپنے اندر ادبیت کا تقاضہ کرتا ہے اور وہ ادبیت ابن صفی کے یہاں موجود تھی۔ اس زمانے میں تانیثیت ایک فیشن نہیں تھا لیکن خواتین کے بہت سے کردار ہیں۔

پروفیسر انیس اشفاق نے کہا کہ طلسم ہوش ربا میں بھی جاسوسی ادب کا بڑا حصہ موجود ہے۔ ابن صفی کا کمال یہ ہے کہ ان کے یہاں سنجیدہ ادب کا بڑا حصہ موجود ہے۔ ان کے ناولوں سے سنجیدہ ادب تلاش کریں اور اسے نکال لیں تو کوئی اسے مسترد نہیں کرسکتا، جس زمانے میں ابن صفی لکھ رہے تھے اس زمانے میں خواتین کردار کو باربار نوٹ کرنا آسان نہیں تھا۔ اب ویسا لکھنے والا اس لئے نہیں ہے کہ اب ویسا قلم نہیں ہے ویسا قلم ہوتو پھر ویسا ادب لکھا جائے گا۔ دور درشن نیوز کے سابق اسسٹنٹ ڈائرکٹر ادریس احمد خان نے کہا کہ ابن صفی کی روایت کا آگے نہ بڑھنا اس کی کمی نہیں ہے بلکہ ان کی کردار نگاری تک لوگ پہنچ ہی نہیں سکے۔ ابن صفی فحش نگاری کے خلاف ناول نگاری کے میدان میں آئے تھے اور وہ یہاں سے کامراں گزرے ہیں۔ ابن صفی کے علاوہ دیگر قلم کاروں کے جاسوسی ناول مجھے سپاٹ سے لگتے ہیں۔ میڈیا کی وجہ سے ایک تو ناول کی لیڈر شپ بہت کم ہوگئی اور دوسری بات یہ کہ ابن صفی کی طرح لکھنے والے بھی موجود نہیں ہیں۔

اس اجلاس کوڈاکٹرزمرد مغل نے موڈریٹ کیا۔آخری روز کے تیسرے اجلاس میں ہندی فلموں میں اردو کے موضوع پر گفتگو ہوئی۔ دانش اقبال نے کہا کہ ماہرین زبان کا کہنا ہے کہ ہندی اور اردو میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ فلمیں پاپولر آرٹ کا اہم وسیلہ ہیں اور فلموں میں اردو کا بہت اہم کردار ہے۔ فلموں میں ادب اور موسیقی بہت اہم جزو ہیں۔ ہندی فلموں کا مطلب ہندی زبان کی فلمیں نہیں ہے ہندی فلموں کا مطلب ہندوستانی فلمیں ہے۔ منوج پنجابی نے کہا کہ جب ایک فلم بنتی ہے توبہت سے گھروں میں چولہے جلتے ہیں۔ سنگاپورسے آئے ظفر انجم نے کہاکہ زیادہ تر ہندوستانی فلمیں بیرون ممالک میں ریلیز ہوتی ہیں۔ نئی نسل کے لوگوں کا رجحان صوفی موسیقی کی طرف زیادہ ہے۔ یہ زمانہ بہت زیادہ کمر شیل ہوگیا ہے اس لیے فلم میکر بھی اب سماج، معاشرہ اور تہذیب پر کم مارکیٹنگ پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ عاصم صدیقی نے کہا کہ فلموں میں زبان کا کردار بہت اہم ہے۔ دلیپ کمار کو فلموں میں جگہ ملنے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اردو بہت اچھی جانتے تھے۔ فلموں میں اردو کے لیے ساٹھ کی دہائی بہت اہم ہے۔

اس موقع پر الہ آباد یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر نوشاد کامران نے اردو زبان اور قومیت کا منظر نامہ کے موضوع پر اپنا مقالہ بھی پیش کیا۔ چوتھے روز کے چوتھے اجلاس کا عنوان تھا’کتابیں بولتی ہیں ‘جس میں ارمیلا گپتا، شیراز حسن عثمانی، ویشالی ماتھر، اروشی بھوٹالیہ، آر شیوا پریہ اور ظفر انجم نے شرکت کی۔دراصل یہ اجلاس کتابوں، تراجم اور پینٹنگس وغیرہ کی طباعت پر گفتگوکا اجلاس تھا۔ اس اجلاس میں ہندوستان کے بڑے ہندی وانگریزی پبلی شرز کے نمائندوں نے شرکت کی اور انہوں نے بتایاکہ اردو کی کن کتابوں کو وہ ترجمے اور رسم الخط تبدیل کرکے ہندی میں چھاپنے کو اہمیت دیتے ہیں۔

خیال رہے کہ یہ اجلاس اپنی نوعیت کا منفرد اجلاس تھا۔ چوں کہ عمومی طورپر اردو حلقے میں اس طرح کے اجلاس کا اب تک رواج نہیں ہوسکا ہے۔ انہوں نے بتایاکہ ہماری ترجیح یہ ہوتی ہے کہ عوام بالخصوص نئی نسل کس طرح کے اردوشعرا اور اردو نثر کو پڑھنا چاہتے ہیں، جب کہ انہیں اردو رسم الخط نہیں آتی تو ہم انہیں ہندی میں اسے فراہم کراتے ہیں یا انگریزی میں اس متن کو ترجمہ کرتے ہیں۔ پانچوں اجلاس ’دلی جو اک شہرتھا‘کے عنوان سے منعقد ہوا۔جس میں ہلال احمد،سہیل ہاشمی، عزیزالدین اور رعنا صفوی نے شرکت۔ اس پروگرام میں شریک تمام ماہرین نے دہلی کی تہذیب وتمدن اورکھان پان، رہن سہن اور مغل عہد کی دلی پر بھی گفتگو کی۔

شام شہریاراں کے تحت صوفیانہ شام کا انعقادہوا،جس میں صابری برادران نے اپنی قوالی سے سامعین کو لطف اندوز کیا۔ بین الاقوامی سمینار کے چاروں دن دہلی کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ، طلبہ وطالبات، معززین شہر کے علاوہ بالخصوص عالمی اردو ٹرسٹ کے چیئرمین اے رحمان، انجمن ترقی اردو (ہند) کے میڈیا کورڈی نیٹر جاوید رحمانی، غالب ا نسٹی ٹیوٹ کے پروگرام آفیسر ڈاکٹر ادریس احمد، انیس احمد وارثی،ثاقب صدیقی، محمد عارف خان، امیر الحسن رحمانی، محمد ساجد، فاروق ارگلی، نورین علی حق وغیرہ نے شرکت کی۔

تبصرے بند ہیں۔