اردو اور مدارس

گنگا جمنی تہذیب کی زبان اردو کو آب کوثر و تسنیم نے ہی روانی اور تابانی عطا کی ہے!

حقانی القاسمی

یہ عجب اتفاق ہے کہ اردو جیسی سیکولر زبان مذہبی راسخ الاعتقادی کے گہواروںمیں زندہ ہے۔ زبان و بیان کی سطح پر اُردو کو جو توسع اور تنوع میسر آیا ہے وہ مدارس ہی کا فیض ہے۔ اردو کے عناصر خمسہ (سر سید ‘ حالی ‘ شبلی ‘ محمد حسین آزاد ‘ مولوی عبد الحق ) کا رشتہ بھی مدرسے سے ہی ہے ۔ غالب ‘ میر ‘ مومن ‘ سراج اورنگ آبادی ‘ مفتی صدر الدین آزردہ ‘ وحید الدین سلیم صاحب وضع اصطلاحات سب مدارس سے ہیں ۔
اُردو کی صرفی، نحوی ساخت کی تشکیل، نئی لفظیات، مصطلحات، مترادفات، استعارات، تشبیہات اور تلمیحات مدارس کی عطا ہیں، اس کا اعتراف اربابِ فضل و کمال کو بھی ہے اور اُردو زبان و ادب سے وابستہ باشعور بالغ نظر اساتذہ کو بھی۔ سچ پوچھیے تو آج کے عہد زوال اور اُردو کشی کے دور میں اُردو زبان کی بقا مدارس سے مشروط ہے۔ اس زبان کا نامیاتی ارتقا اور تسلسل بھی مدرسوں پر ہی منحصر ہے، ورنہ اہلِ اُردو تو ہمیشہ آئینی مطالبات میں ہی اُلجھے رہے اور اُردو کو مال و منال کا ذریعہ بنانے کی کوشش میں مصروف صرف نعرے لگاتے رہے، جب کہ اہلِ مدارس نے اُردو کے احیا کے عملی اقدامات کیے۔
رسم الخط کی تبدیلی، استعارات و علائم میں تغیر، لسانی مزاج کو بدلنے کے خطرناک منصوبوں سے بھی سب باخبر ہیں، ایسے پرخطر ماحول میں اُردو کی ہیئتِ حقیقی کومدارس نے برقرار رکھا اور اُردو زبان کی اصلی روح اور اس کے تہذیبی حسن کا تحفظ مدارس نے ہی کیا، زبان کی جمالیات اور حرکیات کو نئی توانائی عطا کی، عملی حیاتین کے ذریعہ اُردو زبان کو ان جراثیم سے محفوظ رکھا جو اس کے جسم کو دیمک کی طرح چاٹ رہے تھے اور زبان کو بنجر میں تبدیل کررہے تھے۔
اُردو اور مدارس، دونوں ایک دوسرے سے اس طرح مربوط ہوگئے ہیں کہ ذکر اردو کا ہو تو بات مدارس تک پہنچتی ہے۔ مدارس کئی سطحوں پر اُردو زبان و ادب کو فروغ دینے میں منہمک ہیں۔ پہلی سطح تو یہ ہے کہ ہندوپاک کے بیشتر مدارس کا میڈیم اُردو ہے، دوسری سطح میں وہ مجلات آتے ہیں جو مختلف شہروں، قصبات اور مضافات کے مدارس سے اُردو میں شائع ہورہے ہیں
یہ بات اب سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ اُردو مدارس کی وجہ سے زندہ ہے۔ ہندوستان میں اگر مدارس نہ ہوتے تو اُردو زبان کا دائرہ نہایت سکڑا اور سمٹا ہوتا۔ اردو کے ممتاز ناقد پروفیسر وہاب اشرفی نے یہ اعتراف کیا ہے کہ ’’ملک میں بکھرے ہوئے مدارس دراصل اردو کے فروغ کی بے بہا خدمت انجام دے رہے ہیں۔ کالجوں سے اردو غائب ہوتی جا رہی ہے ۔ مدرسوں میں عربی فارسی کے علاوہ اردو کی کتابیں مسلسل پڑھی جا رہی ہیں ۔‘‘
یہ اہلِ مدارس ہی ہیں جنھوں نے اُردو زبان کی لفظیات اور لغت میں اضافہ کیا اور اُردو زبان کو ان علوم و فنون و موضوعات سے آشنا کیا جو یقینا اُردو کی فکری ثروت میں گرانقدر اضافے کی حیثیت رکھتے ہیں اور جس سے اُردو زبان کو فکری تحرک اور توانائی حاصل ہوئی۔ مدارس نے اُردو زبان کے احیا کے لیے عملی اقدامات کیے اور تدریسی میڈیم کے طور پر اُردو زبان کو اختیار کیا اور اس طرح اُردو زبان کی ترقی کی راہیں ہموار کیں کہ دیگر لسانی معاشروں سے تعلق رکھنے والے بھی اُردو زبان میں ہی تعلیم پاتے ہیں، چاہے ان کا تعلق برمی، بنگلہ، کنڑ، تمل، تلگو، گجراتی، مراٹھی زبان سے ہو، مگر مدارس کے طلبا اُردو زبان کے ذریعے ہی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اس کے برعکس عصری جامعات یا کالجز کے اُردو شعبہ جات میں طلبا اُردو کو اختیاری یا لازمی مضمون کے طور پر لیتے ہیں؛لیکن مدارس میں ہر سطح پر اُردو لازمی ہوتی ہے کہ اُردو ہی ذریعۂ تعلیم ہے۔ اس طرح اُردو جاننے والوں کے حلقے میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے، حتیٰ کہ بنگلہ دیش میں فاضل دیوبند مولانا اطہر علی جو وہاں کی جمعیۃ علماء اسلام کے صدر بھی تھے، کشورگنج میں دارالعلوم دیوبند کا مثنیٰ قائم کیا تو وہاں بھی ذریعۂ تعلیم بنگلہ کے بجائے اُردو زبان ہی رکھا جبکہ وہاں عوامی سطح پر ہی نہیں بلکہ حکومتی سطح پر بھی لسانی تعصب کچھ زیادہ ہے۔
اُردو زبان و ادب کے فروغ اور ارتقا میں مدارس کے کردار کی اہمیت اس اعتبار سے بھی ہے کہ ان کے علمی، ادبی اور لسانی فیض کا دائرہ ملکی و جغرافیائی حدوں سرحدوں سے ماورا ہے۔ صرف برصغیر نہیں بلکہ بیرونِ ممالک میں بھی ان مدارس کے فیض یافتہ فضلائے کرام نے اُردو کی شمع کو جلائے رکھا ہے اور ان خطوں کو بھی اُردو سے روشناس کیا ہے جو لسانی اور تہذیبی اعتبار سے کلی طور پر مختلف ہیں، اس طرح بہت سے علاقوں میں اُردو مذہبی، سماجی اور ثقافتی شناخت کا ذریعہ بھی بن گئی ہے۔جنوبی افریقہ اس کی نمایاں ترین مثال ہے، جہاں اُردو کو Riligious Lingua Franca کی حیثیت حاصل ہے۔ پروفیسر حبیب الحق ندوی نے اپنے مضمون ’جنوبی افریقہ میں اُردو‘ کے حوالے سے لکھا ہے کہ: ’’ڈربن میں پانچ عظیم مراکز ہیں،جہاںاُردو ذریعۂ تعلیم ہے۔درجنوں مدارس ہیں جن کے اساتذہ زیادہ تر ہندوستانی مدارس، مثلاً دیوبند، راندھیر، ڈابھیل کے فارغین ہیں‘‘۔ان اساتذہ کی وجہ سے جنوبی افریقہ میں اُردو کو فروغ حاصل ہوا۔
دارالعلوم دیوبند نے اُردو کو بین الاقوامی زبان بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، جس کا اعتراف پروفیسر ہمایوں کبیر بھی کرتے ہیں۔ ’تاریخِ دارالعلوم دیوبند‘ کے حاشیہ میں ایک واقعہ اس تعلق سے ’الجمعیۃ‘ دہلی 18جون 1900 کے حوالے سے درج کیا گیا ہے کہ ایک صاحب جنھوں نے مختلف ممالک کی سیاحت کی تھی، دارالعلوم آئے تھے، وہ کہتے تھے: ’’جب میں بخارا پہنچا جو وسط ایشیا کا اہم مقام ہے تو وہاں ایسے لوگوں سے میری ملاقات ہوئی جنھوں نے مجھے ہندوستانی سمجھ کر ہمدردانہ لہجے میں اُردو میں مجھ سے گفتگو کی۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ ہندوستان سے اس قدر دوردراز اتنی صاف اُردو اُن کو کیوں کر آتی ہوگی۔ میرے دریافت کرنے پر انھوں نے بتایا کہ یہ دارالعلوم دیوبند کا تعلیمی فیض ہے اور ہم ہی نہیں بلکہ یہاں کا علمی حلقہ بالعموم اُردو بولتا اور سمجھتا ہے۔ انھوں نے نہایت اخلاق و محبت سے میرے ہندو ہونے کے باوجود مجھے اپنے یہاں مہمان ٹھہرایا اور میرے اعزاز میں ایک شاندار پارٹی دی ،جس کی یہ خصوصیت کبھی نہ بھولوں گا کہ اس میں جس نے بھی تقریر کی، میری خاطر اُردو میں کی‘‘۔ (سیّد محبوب رضوی ’تاریخِ ددارالعلوم دیوبند‘جلد اوّل، ص365)
’تبلیغی جماعت‘ کے پلیٹ فارم سے بھی مدارس کے فیض یافتگان علما و فضلاکا اُردو کے فروغ میں نمایاں کردار ہے، صرف برصغیر ایشیا یا افریقہ میں نہیں بلکہ یووپی ممالک میں بھی اُردو کا تہذیبی و لسانی چراغ روشن ہے۔ پروفیسر حبیب الحق ندوی کے بقول: ’’1964 سے جنوبی افریقہ میں تبلیغی جماعت کی تحریک شروع ہوئی، اس کا پہلا اجتماع 1963 میں شہر ڈربن میں منعقد ہوا، 1972 تک لاکھوں کے مجمع میں تمام تقریریں اُردو زبان میں ہی ہوتی رہیں۔
مولانا اشرف علی تھانویؒ نے جہاں اپنے رسالہ ’النور‘ رمضان 1340ھ میں یہ لکھا ہے کہ: ’’اُردو کی خدمت حسب استطاعت ہر مسلمان پر فرض ہے۔‘‘ وہیں مولانا عبیداللہ سندھی نے عملی طور پر اُردو کے فروغ میں حصہ لیا۔ شاید بہتوں کو علم نہ ہو کہ کابل افغانستان میں پہلی اُردو یونیورسٹی مولانا عبیداللہ سندھی کی کوششوں سے قائم ہوئی تھی ؛جس کی پوری تفصیل یونیورسٹی کے اوّلین منتظم ظفرحسن بیگ نے اپنی آپ بیتی میں لکھی ہے کہ: ’’قبلہ مولانا صاحب مرحوم نے صرف قانونی و سیاسی کارروائی کرنے کے فیصلے کے سلسلے میں دوسرا کام یہ کیا کہ افغانی گورنمنٹ سے کابل میں ایک ہندوستانی اُردو یونیورسٹی بنانے کے لیے چارٹر مانگا اور اس یونیورسٹی کا نظام نامہ تیار کرکے سردار محمود بیگ طرزی وزیر خارجہ افغانستان کو دیا، اس نے وعدہ کیا کہ وہ افغانی گورنمنٹ اور امیر صاحب سے اس کی منظوری لے گا‘‘۔ چنانچہ یہ ادارہ قائم ہوا اور اس کا ذریعۂ تعلیم اُردو زبان قرار پایا۔ آج اس یونیورسٹی کا ذکر صرف تذکروں میں ہے، اب اُردو یونیورسٹی کی جگہ کابل یونیورسٹی قائم ہوگئی ہے ؛جس کا شمار ایشیا کے چند اہم عصری جامعات میں ہوتا ہے۔ اس کی تمام تفصیلات افغانستان کے مشہور محقق اور دانشور پروفیسر عبدالخالق رشید نے اپنے مضمون ’افغانستان میں اُردو کی پہلی یونیورسٹی‘ میں درج کی ہیں۔ (یہ مضمون سہ ماہی ’دیوان‘ پٹنہ، مدیر شاہ حسین احمد قبلہ سجادہ نشین درگاہِ ارزانی پٹنہ، شمارہ3-4 میں شائع ہوا ہے)
عالیہ مدارس میں اردو نصاب میں شامل ہے اور یہ نصاب بھی سیکولر اقدار کا حامل ہے۔ اگرچہ نظامیہ مدارس میں اردو ادب کی تعلیم نہیں دی جاتی مگر انہی مدارس کے فیض یافتگان ہیں جنھوں نے اردو ادب کی مشعل کو جلائے رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ کیا ادب کی تاریخ تہذیب نسواں کے مدیر مولوی سید ممتاز علی کو فراموش کر سکتی ہے جنھوں نے اس طبقہ نسواں کو تحریری پلیٹ فارم عطا کیا جس کے خط و کتابت پر بھی پابندی عائد تھی ۔ یہی وہ رسالہ ہے جس نے ادبی دنیا کو نذر سجاد حیدر ‘ محمدی بیگم ‘ حجاب امتیاز علی ‘ سلطانہ آصف فیضی اور صغریٰ ہمایوں مرزا جیسی خواتین قلمکار دی ہیں ۔ اس رسالے کا مدیر دیوبند کا فیض یافتہ تھا ۔ ممتاز علی مرحوم نے ہی سب سے پہلے بچوں کے اخبار کا تصور دیا اور ’پھول ‘ کے نام سے اخبار نکالا۔ مشہور اخبار الامان اور وحدت کے مدیر اور مشہور ناول نگار مظہر الدین شیر کوٹی کا تعلق بھی مدرسہ سے تھا ۔ ادبی دنیا ’ ہمایوں اور شاہکار جیسے ممتاز رسائل کی ادارت کرنے والے علامہ تاجور نجیب آبادی کو کون فرا موش کر سکتا ہے جنھوں نے دیوبند سے تعلیم حاصل کی تھی ۔جن کے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد پنجاب میں اردو شعر و سخن کا چراغ روشن کیے ہوئے تھی ۔ ہفت روزہ نئی دنیا کے بانی مولانا عبد الوحید صدیقی ‘‘ مدینہ بجنور اور جمہوریت ممبئی سے وابستہ حامد الانصاری غازی ‘ ماہنامہ تجلی دیوبند کے مدیر مولانا عامر عثمانی ‘ روزنامہ عصر جدید کلکتہ کے مدیر شائق احمد عثمانی یہ سب مدارس کے فارغین ہی تھے نگار جیسے علمی اور ادبی مجلہ کے مدیر علامہ نیاز فتح پوری نے ندوہ لکھنو سے تعلیم حاصل کی تھی مجلاتی تاریخ میں نگار کی انفرادیت آج بھی مسلم ہے۔ اردو صحافت کو نیا معیار اور مزاج عطا کرنے والے قومی آواز کے بانی مدیر حیات اللہ انصاری نے مدرسہ فرنگی محل لکھنو سے علوم شرقیہ کی سند حاصل کی تھی۔اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ اردو صحافت کو نئے نقش عطا کرنے میں بھی ارباب مدارس آگے رہے ہیں ۔ صرف ہند و پاک ہی نہیں بلکہ اہل مدارس نے چین میں بھی اردو صحافت کا پرچم لہرایا۔ پاکستان کے ممتاز انگریزی صحافی ضمیر نیازی نے لکھا ہے کہ ’’مولانا محمود الحسن اسیر مالٹا کی ہدایت پر ان کے دو شاگرد مولانا مقبول الرحمن سرحدی اور شوکت علی بنگالی ہجرت کرکے چین چلے گئے تھے وہاں سے انھوں نے اردو اور چینی زبان میں ماہنامہ ’العین‘ جاری کیا جو 1909 تک شائع ہوتا رہا۔ (صحافت پابندِ سلاسل، ص 338)
جہا ں تک اردو نثر کی بات ہے تو مدارس کے علما کی ایک بڑی تعداد ہے جس نے اردو کو نئے اسالیب دیے ہیں۔ مولانا ابو الکلام آزاد ‘ سید سلیمان ندوی اور دیگر ارباب نثر اردو سے سبھی واقف ہیں جنھوں نے مدارس سے اکتساب فیض کیا ہے ۔ بیانیہ نثر کے جمال کی دوشیزگی میں اپنے بے نظیر، منفرد اسلوب سے اضافہ کرنے والوں میں مولانا مناظر احسن گیلانیؒ (1956) کا نام نمایاں ہے۔ انھوں نے لطافتِ بیان اور سلاستِ زبان سے اپنی تحریر کا رشتہ عوام و خواص کے دل و دماغ سے براہِ راست جوڑ دیا ہے۔ ان کی نثر کا آہنگ دلوں کو ارتعاش بھی عطا کرتا ہے اور جذب و جنون کی اس کیفیت سے بھی گزارتا ہے جو ان کی البیلی نثر کا ایک غیرمنفک عنصر ہے۔
مولانا مناظر احسن گیلانیؒ کی نثری زبان کی ساخت، دیگر نثرنگاروں سے مختلف ہے۔ متخیّلہ اور متفکرہ کے امتزاج سے ان کی نثر کی تشکیل ہوئی ہے۔ ان کی نثر میں بیانیہ عناصر کی فراوانی کی وجہ سے کہانویت اور دستانویت بھی درآئی ہے۔ یہ امتیاز ان کے معاصر نثرنگاروں میں بہت کم لوگوں کو حاصل ہے۔ ان کی نثر کی سب سے بڑی خوبی برجستگی اور بے ساختہ پن ہے۔ وہ ایجاز و اطناب بلکہ استطراد دونوں طریق کار کا استعمال اپنی نثر میں کرتے ہیں اور موضوع کے مقتضیات کو پیشِ نظر رکھتے ہیں۔
وضاحتِ عبارت اور متانتِ فکر نے ان کی تحریروں کو ادبی اور علمی دونوں حلقوں میں اعتبار عطا کیا ہے اور ان کی نثر کے شیدائیوں کا ایک بڑا حلقہ دونوں طرف ہے۔ سیّد سلیمان ندویٖ، عبدالماجد دریابادیؒ، ماہرالقادریؒ جیسے سخن فہم اور ادب شناس نے ان کی تحریروں میں نئے تموج اور ان کی لفظیات کی جولانی کی ستائش کی ہے اور ان کے طرزِ اظہار کو یکسر مختلف اور منفرد قرار دیا ہے۔
مولانا مناظر احسن گیلانیؒ کے جادوئی طلسم میں بہت سے لوگ اسیر ہیں اور صرف یہی نہیں کہ انھوں نے نثر کو جلال و جمال عطا کیا بلکہ اُردو کی لفظیات اور تراکیب میں گرانقدر اضافہ بھی کیا ہے۔ انھوں نے اُردو کو نئے الفاظ بھی عطا کیے ہیں اور اُردو کی محدود ڈکشن کی توسیع کا فرض بھی ادا کیا ہے۔
ان کی تصنیفات ’النبی الخاتمؐ‘، ’ سوانح قاسمی‘، ’حضرت ابوذرغفاریؓ‘، ’الدین القیم‘ اور’امام ابوحنفیہؒ کی سیاسی زندگی‘ میں علمیت کے ساتھ ادبیت کا وہ رنگ اور اسلوب بھی روشن نظر آتا ہے جو صرف انہی سے مخصوص ہے۔ علمی و ادبی دونوں معیارات پر پرکھنے سے ان کتابوں کی قدروقیمت اور بڑھ جاتی ہے۔ جہاں ادب کی نکتہ آفرینیاں ہیں، وہیں علمی حقائق و دقائق بھی ہیں۔ ادب اور علم دونوں موجیں ایک ساتھ رواں دواں ہیں۔ ان کی نثر کا کوئی بھی ٹکڑا ادبی لطف سے خالی نہیں اور نہ علمی نکتہ سے عاری ہے۔
ان کی نثر میں جو قوت، تاثیر اور تابندگی ہے، اس میں بہت کچھ دخل مختلف ادبیات سے آگہی اور لسانیات کے تعامل کا ہے۔ مولانا عبدالماجد دریابادی نے بالکل سچ لکھا ہے کہ : ’’وہ ایک خاص طرزِ انشا کے مالک تھے اور اس میں کسی کے مقلد نہیں، خود اس کے موجد تھے۔‘‘
ان کی نثر میں ان کی تخلیقی فطانت اور ذہنی ذکاوت کے ساتھ خونِ جگر کی نمود بھی ہے جس نے ان کی تحریر کو تاثیر عطا کی ہے۔ ’القاسم‘ اور ’الرشید‘ دیوبند میں شائع شدہ مضامین ان کے وہ ادبی شاہکار ہیں جن کا لسانی تجزیہ کیا جائے تو بہت سی حیرتوں کے در وا ہوں گے اور یہ پتہ چلے گا کہ نثر کی جو بوطیقا یا نثر کی شعریات مولانا نے تشکیل دی ہے، وہ شعریات منجمد نہیں بلکہ متحرک اور سیال ہے اور یہی ہمارے عہد زوال کے لیے نثر کا ایک ماڈل بھی ہے کہ ادب سے آگہی نے علم کے بحران کو جنم دیا ہے ،جب کہ یہ نثر، ادب اور علم کے امتزاج سے معاشرہ کی منفیت اور مجہولیت کا ازالہ بھی کرتی ہے اور لسانی لذتوں سے ہمکنار بھی۔ ہمارے عہد کو نثر کی ایک ایسے ماڈل کی ضرورت ہے جو معاشرتی تقاضوں سے ہم آہنگ ہو اور جو لسانی آگہی کے ساتھ ازدیادِ علم کا وسیلہ بھی ہو۔ علم اور ادب کی تقطیب اور تفریق نے نثر کو جس زبونی اور شکستگی سے دوچار کیا ہے ایسے میں یہ علمی ادبی نثر، اسے بہت بڑے علمی، ادبی بحران سے بچاسکتی ہے۔
مدارس نے نثر کی کئی جہتوں کا اکتشاف کیا ہے اور نثر میں نئے تجربے بھی کیے ہیں۔ اس ضمن میں مولانا محمدولی رازی کا نام نمایاں ہے، جنھوں نے علم بدیع کی ایک مشکل صنعت (غیرمنقوط) میں کتاب لکھی ہے۔ ایسے تجربوں کے لیے زبان پر عبور اور علم کامل ضروری ہے۔ ’ہادیِ عالمؐ‘ نثر کا ایک نہایت مشکل تجربہ ہے اور اپنے اظہاری تجربہ کے اعتبار سے یہ اُردو ادب میں گراںقدر اضافہ بھی ہے۔ گو کہ قدیم زمانہ میں انشاء اللہ خاں انشا نے ’سلک گہر‘ میں ایسا ہی نثری تجربہ کیا ہے اور ’طورالاسرار‘ میں نظمیہ تجربہ، مگر ’ہادیِ عالمؐ‘ کی بات ہی کچھ اور ہے، یہ نثر کی ایک نئی جہت کی اطلاقی شکل ہے جو ’ہادیِ عالمؐ‘ کی صورت میں نمایاں ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیانیہ نثر کے اس تجربہ کو اربابِ ادب نے سراہا اور اس نثری ریاضت کی تحسین کی، ڈاکٹر سیّد محمد عبداللہ جیسے ممتاز ناقد اور صاحبِ نظر نے یہ اعتراف کیا:
’’مولانا محمد ولی رازی نے ایک ایسا کارنامہ انجام دیا ہے جس کی مثال اُردو زبان میں موجود نہیں۔ حضرت رسولِ اکرمؐ کی مکمل زندگی غیرمنقوط حروف کی ترکیب و ترتیب سے اُردو میں لکھ کر اپنی ذہانت و فطانت کا کمال کر دِکھایا ہے۔ علم بدیع کی ایک مشکل صنف (غیرمنقوط) کو مکمل طور سے بامعنی عبارتوں میں استعمال کرکے جاںفشانی کا ایک ایسا نادر نمونہ پیش کیا ہے جسے اُردو زبان کے ذخیرے میں ایک بیش بہا اضافہ قرار دیا جاسکتاہے۔‘‘
ڈاکٹر عبدالحی نے یوں تحسین و ستائش کی:
’’ادیبانہ انداز میں سیرت کے موضوع پر ’ہادیِ عالمؐ‘ اپنی شانِ انفرادیت کا ایک عجیب شاہکار ہے۔ماہرین علم و ادب و نکتہ سنجانِ فکرونظر جو اس کتاب کا مطالعہ کریں گے تو ان کو جس طرح ادب اُردو کی وسعت و جامعیت پر تعجب ہوگا، اس طرح ادب اُردو پر مصنف کا عبور کامل اور اسلوبِ نگارش کی جدت پر بھی حیرت ہوگی۔‘‘
اربابِ نظر خود بھی اس نثری تجربہ سے درج ذیل اقتباس سے محظوظ ہوسکتے ہیں:
’’ہادیِ کامل صلی اللہ علیہ وسلم سارے رسولوں کے سردار ہوکر اہلِ اسلام کی اصلاح کے لئے سراسر کرم و عطا ہوکر آئے۔ اِک معلوم عرصہ کے لئے اس عالمِ مادّی میں آکررہے۔ لوگوں کو راہِ ہدیٰ دِکھائی۔ اسلام کے احکام و اسرار عطا کئے۔ لوگوں کو حلال و حرام کا علم عطا ہوا۔ عدل و صلہ رحمی، عطا و کرم، ہمدردی و مددگاری کا عمل عام ہوا۔ لوگوں کی اصلاح کا اہم کام مکمل ہوا۔ اگلے لوگوں کے لئے ہر ہر گام کے لئے اسوۂ مطہرہ عطا ہوا۔ اسی لئے سارے دوسرے رسولوں کی طرح سرورِ عالم کے لیے حکم وصال آکر رہا۔‘‘ (رسول اللہ کا وصالِ مسعود)
’’اللہ اللہ وہ رسولِ امم موعود ہوا کہ اس کے لئے صدہا سال لوگ دعا گو رہے۔ اہلِ عالم کی مرادوں کی سحر ہوئی، دلوں کی کلی کھلی، گمراہوں کو ہادیؐ ملا، گلے کو راعی ملا، ٹوٹے دلوں کو سہارا ملا، اہلِ درد کو درماں ملا، گمراہ حاکموں کے محل گرے، سالہا سال کی دہکی ہوئی وہ آگ لٹ کے رہی کہ لاکھوں لوگ اس کے آگے سر ٹکائے رہے۔‘‘ (مولودِ مسعود)
اسالیب کے صرف دو نمونے پیش کئے گئے ہیں ۔ مدارس میں نثری تجربوں سے اردو کی اسلوبی وسعت میں اضافہ کرنے والوں کی کمی نہیں ہے ۔ قاری محمد طیب ‘ مولانا سالم قاسمی ‘ مولانا انظر شاہ کشمیری ‘رضوان القاسمی ایسے نام ہیں جن کی نثر ادبیت سے مملو ہے ۔
تحقیق و تنقید کے میدان میں بھی اہل مدارس کے امتیازات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ ممتاز محقق مولانا امتیاز علی خاں عرشی ‘ قاضی عبد الودود ‘ پروفیسر مختار الدین احمد آرزو ‘ نجیب اشرف ندوی یہ وہ نام ہیں جو تحقیق کی دنیا میں اعتبار کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ۔ عرشی صاحب ماہر غالبیات ہیں جنہوں نے رامپور کے مدرسوں میں تعلیم حاصل کی ۔ قاضی عبد الودود حافظ قران تھے ۔ مختار الدین آرزو جنھوں نے کئی نایاب تذکروں کی تدوین کی۔ مدرسہ شمس الہدی پٹنہ سے فاضل کا کورس کیا تھا ۔ نجیب اشرف نے لغات گجری مرتب کی تھی ۔ تنقید میں ایسے کئی اہم نام ہیں جن کا تعلق مدارس سے رہا ہے ۔پروفیسر عبد المغنی کا نام بہت اہم ہے کہ انہوں نے اقبال اور عالمی ادب ‘ قرۃ العین حیدر کا نظام فن کے علاوہ تنقید کو برناڈ شا سے متعارف کرایا۔ عبد المغنی انگریزی ادب کے پروفیسر تھے اور مدرسہ شمس الہدی سے فارغ ۔ ماہنامہ مریخ کے مدیر کے علاوہ متھلا یونی ورسٹی دربھنگہ کے وائس چانسلر بھی رہے ۔ پروفیسر شوکت سبزواری جو اردو لسانیات کے ماہر سمجھے جاتے تھے ۔ لسانی مسائل اور اردو لسانیات کے علاوہ فلسفہ کلام غالب ان کی اہم کتاب ہے ۔ انھوں نے مدرسہ امداد العلوم میرٹھ سے تعلیم حاصل کی تھی۔ مولانا عبد الصمد صارم ازہری ایسے ہی ممتاز ناقد تھے جن کے بارے میں پاکستان کے ممتاز ناقد ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے لکھا ہے کہ: صارم ہی غالبا وہ واحد نقاد غالب ہیں جنہوں نے عربی اور فارسی زبانوں پر مکمل عبور کے ساتھ غالب پر ہمدردانہ طریقے سے اعتراضات کیے ہیں۔ بطور غالب شناس مولانا نور الحسن راشد ‘ مفتی مشتاق احمد تجاروی کے نام نمایاں ہیں اور یہ دونوں بھی دیوبند سے فارغ التحصیل ہیں۔ معاصر تنقیدی افق پر ایک اہم نام پروفیسر ابو اکلام قاسمی کا ہے جنھوں نے اردو تنقید کو اس کی اساس سے روشناس کرایا اور مشرقی شعریات سے اردو نقد کو نئی وسعتوں سے ہمکنار کیا ۔ ان کی کتاب ’ مشرقی شعریات اور اردو تنقید کی روایت ‘ ایک حوالہ جاتی کتاب کی حیثیت رکھتی ہے جو بقول پروفیسر گوپی چند نارنگ زندہ رہنے والی کتاب ہے ۔ تخلیقی تجربہ ‘ شاعری کی تنقید اور کثرت تعبیر ان کی اہم کتابیں ہیں۔ ان کا امتیاز یہ ہے انہیں مشرق و مغرب کی ادبی تنقیدی روایت اور رویے سے نہ صرف آ گہی ہے بلکہ ان کی اطلاقی صورتوں کا بھی عرفان ہے ۔ ان کی تنقید میں جو تابش ‘ تابندگی وسعت اور ہمہ گیری ہے وہ ان دونوں روایتوں سے کسب فیض کا نتیجہ ہے
فکشن کے میدان میں بھی کئی اہم نام ہیں جن کا رشتہ مدارس سے ہے ۔ جدیدیت کے اہم افسانہ نگار ظفر اوگانوی جو کلکتہ یونی ورسٹی کے شعبہ اردو کے صدر بھی رہے انھوں نے مدرسہ شمس الہدی سے عالم فاضل کی ڈگریاں لیں ۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ ’بیچ کا ورق ‘ ادبی حلقوں میں موضوع بحث رہا ۔ معاصر فکشن کے منظر نامہ پر انجم عثمانی ایک اہم اور روشن دستخط کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ٹھہرے ہوئے لوگ ‘ شب آشنا ‘ سفر در سفر ان کے مشہور افسانوی مجموعے ہیں ۔ انھوں نے دار العلوم دیوبند سے فضیلت کی ڈگری لی ۔
اہل مدارس نے ادب کے جملہ اصناف میں منفرد اور مختلف تجربے کیے ہیں ۔ شاعری میں تو فہرست بہت لمبی ہو جائے گی ۔ مجروح سلطان پوری ‘ کیفی اعظمی ‘ جون ایلیا‘ فضا ابن فیضی یہ کچھ نام ہیں جن سے پوری اردو دنیا واقف ہے ۔ مدارس نے ا ردو کے پودے کو تناور درخت میں بدلا ہے اس کا اعتراف بغیر کسی تامل اور تعصب کے کرنا چاہیے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔