اردو تلفظ و املاء کے چند اہم مسائل (قسط دوم)

حامد محمود راجا

تبلیغی مرکز رائے ونڈ کے سابق امام حافظ محمد سلیمان میواتی علیہ الرحمة میرے حفظ کے استاد تھے۔ کم عمری کی وجہ سے مجھے یہ موقع ملا کہ میں اُن کی اور اُن کے گھر والوں کی خدمت کرسکوں ۔ دوپہر گیارہ بجے کے قریب استاد محترم درسگاہ سے گھر جاتے اور پیچھے پیچھے میں بھی گھر پہنچ جاتا۔ وہ اپنے پانچ شادی شدہ بیٹوں کے ساتھ ایک ہی احاطے میں رہائش پذیر تھے اس لیے یہ کل چھ گھرانے ہوئے جن کا سودا سلف لانے یا منگوانے کی ذمہ داری میری تھی۔ دیندار گھرانوں میں شرعی پردے کی مکمل پابندی کی جاتی ہے۔لہذا کم عمر بچوں کو ہی گھر میں جانے کی اجازت ہوتی ہے وہ گھروں میں جا کر خواتین سے پیغامات وصول کرتے اورمختلف کاموں کو سر انجام دیتے ہیں ۔اس معاملے میں میری کیفیت آس پاس وہی تھی جو مولانا سید حسین احمد مدنی نے اپنی خود نوشت سوانح حیات ’نقش حیات‘ میں ذکر کی ہے۔ مولانا لکھتے ہیں :

”اگرچہ تیرہواں سال عمر کا شروع ہو چکا مگر جسم اس قدر دبلا اور پتلا تھا کہ کوئی دیکھنے والا یہ اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ اس کی عمر گیارہ سال سے زائد ہے۔ اس وجہ سے مجھ پر وہاں (دارالعلوم دیوبند میں ) شفقت زیادہ کی گئی۔ وہاں اس قدر دور کے نو عمر اور چھوٹے طالب علم نہیں جاتے ہیں اورچونکہ تحریر و حساب سے بخوبی واقف تھا ،خط بھی فی الجملہ اچھا تھا اس لیے اساتذہ کے یہاں خانگی خطوط اور خانگی حسابات کی خدمت اور گھروں میں جاناا ور پردہ کا نہ کیا جانا وغیر ہ کا سلسلہ کئی برس تک جاری رہا۔ بالخصوص حضرت شیخ الہند رحمة اللہ علیہ کی اہلیہ محترمہ رحمة اللہ علیہا بہت زیادہ شفقت فرماتی تھیں ۔ مستوراتی منشی مشہور ہو گیا تھا“۔

استاد محترم حافظ سلیمان علیہ الرحمة کا کا خط انتہائی صاف اور خوبصورت تھا۔سودا سلف کی فہرست بہت ترتیب سے بناتے۔ لیکن وہ’ کلو ‘کو ’کیلو ‘ لکھتے تھے۔ مثلاً پیاز ….دو کیلو،….آلو….تین کیلو….وغیرہ۔کلو کو کیلو لکھا دیکھ کر میں کئی دفعہ سوچتا لیکن یہ صرف سوچ ہی تھی جو زبان تک نہ آسکی۔ ایک دن میں ڈرتے ڈرتے بول ہی پڑا کہ استاذ جی یہ کیلو نہیں کلو ہے۔ یہ اُن کا بڑا پن تھا کہ آئندہ انہوں نے اس کو ہمیشہ کلو ہی لکھا حالانکہ اگر وہ پوچھ لیتے کہ کیلو غلط کیوں اور کلو درست کیوں ہے تو اُس وقت میرے پاس اُن کے سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔میں صرف یہی کہہ سکتا تھا کہ ہم ایسے لکھتے ہیں تو یہی دلیل اُن کے پاس بھی موجود تھی کہ ہم ویسے لکھتے ہیں ۔ سید حسین احمد مدنی نے بھی اپنی مذکورہ بالاکتاب میں کئی جگہ دکان کو دوکان ہی لکھا ہے۔

اس قسم کے الفاظ کا املاءجب مختلف دیکھا تو ذہن میں سوال پیدا ہوتا کہ درست املا ءکیا ہے ؟ اس کا جواب مولانا ابوالکلام آزاد کی معروف زمانہ کتاب غبار خاطر کا مقدمہ از قلم مالک رام پڑھنے کے بعد ملا۔ مالک رام کے بیان کردہ اصول کو سمجھنے سے پہلے ایک ضابطے کا سمجھنا ضروری ہے۔ جب ہم کسی دوسری زبان کے لفظ کو اردو میں لکھیں گے تو ممکنہ طور اس کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں :1۔حرف کے بدلے میں حرف:جیسے انگریزی لفظ catمیں تین حروف ہیں ،اس کو اردو میں ’کیٹ‘ لکھا جاتا ہے۔ غور کرنے سے واضح ہو جائے گا کہ انگریزی حرف cکے مقابلے میں اردو میں ’ک‘،حرف aکے مقابلے میں اردو میں ’ی‘اور حرف tکے مقابلے میں اردو میں ’ٹ‘ موجود ہے۔ سادہ لفظوں میں ہر انگریزی حرف کے بدلے اردو میں کوئی نہ کوئی حرف موجود ہے۔ 2،اعراب کے بدلے میں حرف ،یہ شکل صرف عربی الفاظ میں ہی ممکن ہے کیونکہ اعراب کا وجود صرف عربی میں ہی ہے۔جیسے عربی لفظ دُکان کے حرف ’د‘(دال) پر پیش ہے۔ اس کو قدیم اردو میں دوکان لکھا جاتا رہا ہے۔ایسی صورت میں اصل زبان کے املاءمیں ایک حرف کم جبکہ اردو میں ایک حرف زیادہ ہوگا۔جیسے دکان اور دوکان۔ 3، تیسری صورت یہ ہے کہ اصل زبان کے لفظ میں تو حرف ہو لیکن اردو تلفظ اور املا میں حرف کی جگہ اعراب لے لیں ۔ یہ اکثر انگریزی زبان کے ساتھ ہو گا۔

اب مالک رام کی وضاحت ملاحظ ہو:

”ابتداءمیں اعراب بالحروف کا رواج عام تھا،الفاظ میں پیش کی جگہ واﺅ ز،زبر کی جگہ الف اور زیر کی جگہ یاے لکھتے تھے۔ یہ دراصل ترکی زبان کی تقلید کا نتیجہ تھا۔ 1922تک جب اتاترک نے ترکی کی لیے رومن رسم الخط اختیار کیا یہ زبان بھی عربی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی اور اس میں اعراب کی جگہ حروف ہی استعمال ہوتے تھے۔ بتدریج یہ رواج کم ہوتا گیا اور بالآخر بالکل ترک ہو گیا۔مولانا نے ان خطوں میں کم از کم تین لفظوں میں پرانے رواج کا تتبع کیاہے۔ انڈیل کی جگہ اونڈیل ،(39‘721)،اونڈیلی(ص621) اور پرانی کی جگہ پورانی(ص240) اگرچہ ایک جگہ پرانی بھی لکھا ہے(160) اور اولجھن(152)“۔

مالک رام کے الفاظ سے ثابت ہو چکا کہ عربی ‘ فارسی اورہندی کے الفاظ میں اعراب کو حروف کے ذریعے ظاہر نہیں کیا جائے گا۔اور مالک رام کے الفا ظ ’بالآخر بالکل ترک ہو گیا‘سے وضاحت ہو جاتی ہے کہ اب ایسے الفاظ کا تلفظ پراننے طریقے سے کرنا غلط ہو گا۔لہذا ایک معروف ادیبہ کا یہ کہنا کہ درست لفظ زبان نہیں زوبان ہے،اردو املاءسے ناواقفیت کی علامت ہے۔

البتہ انگریزی کے واول حروف(a,e,i,o,u) کی اردو املاءمیں یہاں کے ادیبوں کا طریقہ کار مختلف رہا ہے۔ بعض اوقات ان حروف کے بدلے اردو میں بھی کوئی حرف ان کے مناسب لکھ دیا جاتا ہے۔ مناسب سے مراد یہ ہے کہ aکے بدلے میں ”ا ،ی“(الف اور یا)،eاور iکے بدلے میں ”ی“(یا) ،oاور uکے بدلے میں ”و“(واﺅ) لکھا جاتا ہے۔ حروف کے تبادلے میں دیگر صورتیں بھی ممکن ہیں ۔ جبکہ متعدد الفاظ میں انگریزی حروف کے بدلے میں صرف اعراب سے کام چلایا جاتا ہے۔اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انگریزی الفاظ  میں حرف کے بدلے میں حرف کہاں آئے گا اور حرف کے بدلے میں اعراب کہاں آئے گا؟ان دو الفاظ میں غور کیجیے۔ انگریزی لفظ "Help”کو اردو میں ’ہیلپ‘ لکھا جاتا ہے یعنی انگریزی حرف eکی بدلے میں اردو حرف ’ی‘ موجود ہے۔اخبارت کے اشتہارات وغیرہ میں آپ  کوہیلب ہی لکھا ملے گا۔جبکہ انگزیزی لفظ killo کو اردو میں اب کلو لکھا جاتا ہے۔ یعنی انگریزی حرف iکے بدلے میں اردو میں کوئی حرف موجود نیں ہے بلکہ نشاندہی کے لیے صرف زیر موجود ہے۔

آپ دیکھیں گے بڑی بڑی شاہراہوں کے اوپر درمیان میں سائن بورڈز پر اور چھوٹی سڑکوں کے کنارے پر نصب سنگ میل پر کلو میٹر ہی لکھا ہوگا۔لہذا اصول یہ طے ہوا کہ جن الفاظ کا تلفظ اور املاءاردو میں طے ہو چکا اُن کو طے شدہ طریقے کے مطابق ہی لکھا جائے گااور اس کے خلاف لکھنے کو غلط تصور کیا جائے جیسے ہیلپ کو ہلپ اور کلو کو کیلو لکھنا غلط ہو گا۔ہاں البتہ نئے انگریزی الفاظ میں انتظار کیا جائے گا۔ حالیہ امریکی صدارتی امیدوار ہلیری کلنٹن کا نام بھی اسی قبیل سے ہے۔ اس کو بہت سارے لوگ ہیلری لکھتے رہے ہیں لیکن اس الیکشن کے دوران یہ تبدیلی دیکھنے میں آئی کہ اکثر اردو اخبارات نے اس کو ہلیری لکھا۔ اسی طرح دیگر  نئے الفاظ میں بھی کثرت استعمال ہی طے شدہ معیارہوگا۔

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    جب ہِندُؤں نے دیوناگری رَسمُ الخَط کو زبانِ ہِندی کے لِئے اپنایا تو اُس کے پیچھے مَنطَق یہ تھی کہ یہ رَسم الخَط اُن کی مذہبی کُتُب کا تھا جب کہ اُردُو کے حُرُوفِ تَہَجّی مُسلمانوں کی مُقَدَّس کِتاب سے لِئے گئے تھے ۔ تو اُنہوں نے مسلمانوں سے اَلَگ پہچان بنانے کےلئے اِس رَسمُ الخَط کو اپنایا ۔ اِس پر مسلمانوں کو احساس ہُؤا کہ ہِندُو مُسلمانوں کے حُرُوفِ تَہَجّی سے مُعانِدَت رکھتے ہیں۔ اور اب اُن کے ساتھ رہنا جواز کھو چُکا ہے۔
    لیکِن طرفہ تَماشہ یہ ہے کہ اب ہم خُود رومَن حُرُوفِ تَہَجّی میں اُردُو کو تحریراً اِستعمال کرنے لگے ہیں ۔ اور اِس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج کی نَسل ہِجّوں کی غَلَطی کرنے لگے ہیں ۔ ذرا سوچِئے ۔ اُردُو ہماری شناخت ہے ۔ اپنی شناخت کو مت کھوئیں ۔
    اِس کے عِلاوہ ، اُردُو حُرُوفِ تَہَجّی میں ایک کمال یہ ہے کہ یہ جگہ کم گھیرتے ہیں ۔ مثلاً ؛ ” ت ” ، ” ش ” ، ” ک ” ، ” ی ” ، ” ل ” ، یہ پانچ حُرُوف ہیں ۔ لیکن اُردُو رَسمُ الخَط کا کمال یہ ہے کہ چُونکہ اِنہیں جوڑ کر لِکھا جاتا ہے ، اِس لِئے الفاظ کم جگہ گھیرتے ہیں۔ جیسے مذکورہ بالا حُرُوف کو جوڑ کر لفظ بنے گا ” تشکیل ” جو کم جگہ گھیرتا ہے ۔
    اب اِسی لفظ کو اگر رومن میں لِکھا جائے تو بھی صفحے پر زیادہ جگہ گِھرے گی ؛ Tashkeel ۔ اِسی طرح ایک عبارَت جو ہِندی کے دیوناگری رَسمُ الخَط میں پُورے صفحے پر آئے گی ، اُردُو رَسمُ الخَط میں صِرف آدھے صفحے پر آجاتی ہے۔ وُہ اِس لِئے کہ رومَن حُرُوف کی طرح ہِندی حُرُوف بھی اَلَگ اَلَگ لِکھّے جاتے ہیں۔ مَگَر ہِندُؤں نے اپنی شناخت کو سہُولَت پر ترجیح دی ۔ اور ایک ہم ہیں کہ آسانی کے چَکَّر میں پڑے رہتے ہیں ۔ رومَن حُرُوف میں سہُولَت پاتے ہیں تو اُردُو حُرُوف کو خیر باد کہہ بیٹھے۔
    پِھر قُسطُنطُنیہ کو انگریزی میں Constantinople کہتے ہیں۔ ذرا یہ دیکھیں کہ کِس لفظ نے زیادہ جگہ گھیری ، قُسطُنطُنیہ نے یا Constantinople نے ؟ اِس کے عِلاوہ اَگَر یہی لفظ رومن میں لِکھیں تو ؛ Kustuntuniya ۔ ۔ ۔ ۔ تو کیا ضُرُوری ہے کہ اُردُو حُرُوف کو چھوڑا جائے ؟
    ایک بات اور یاد رکھنے کی ہے ، وُہ یہ کہ جب یہ کہا گیا کہ :

    ” اور خُدا کی رَسّی کو مضبُوطی سے تھامے رَکھو ”

    تو اِس میں وُہ حُرُوفِ تَہَجّی بھی آجاتے ہیں کہ جِن کو اللّہ نے اپنا کلام نازِل کرنے کے لِئے مُنتَخِب کِیا ۔ اب ہمارے لوگوں کو جانے کیا ہو گیا ہے کہ سَمَجھ کر ہی نہیں دیتے ۔

تبصرے بند ہیں۔