اردو رائٹرس فورم کے زیر اہتمام عباس رضا نیر کی تین کتابوں کا اجرا

ڈاکٹر ہارون رشید

            لکھنؤ۔ 6؍اگست۔ اردو بھی ملک کی قومی زبان ہے۔ اردو ترقی کرے گی تو ملک ترقی کرے گا۔ صرف ہندی ہی نہیں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ جتنی زبانیں ملک میں بولی جاتی ہیں وہ سبھی زبانیں ملک کی قومی زبان ہیں۔ بھاشاکا کوئی گھر نہیں ہوتا۔ اردو اتر پردیش کی دوسری سرکار ی زبان ہے۔ صرف گاؤں کا ہی ذکر کیا ہمارے راج بھون میں ہی اردو کا بورڈ نہیں لگا ہے۔ پہلے وہاں اردو میں بورڈ لگایا جائیگا۔ اردو میٹھی زبان ہے۔ اراج بھون میں آئندہ ماہ سے تمام اسٹاف اردو سیکھنے کا عمل شروع کرے گا۔ اور میں بھی ایک گھنٹہ روز اردو سیکھوں گا۔ تمام زبانیں لوگوں کوجوڑتی ہیں زبان کے نام پر تفریق قابل قبو ل عمل نہیں ہے۔ ان خیالات کا اظہار اتر پردیش کے گورنر شری رام نائک نے کیا۔ موقع تھا اردو رائٹرس فورم کے زیر اہتمام لکھنؤ یونیورسٹی کے مالویہ ہال میں عالمی شہرت یافتہ ناظم ،شاعراور ناقد ڈاکٹرسید عباس رضا نیر جلال پوری(صدر شعبہ اردو لکھنؤیونیورسٹی) کی تین کتابوں ’تنقیدی بحثیں ،رثائی تنقیدیں اور خواجہ احمد عباس ‘‘کے اجرا کا۔ انھوں نے کہا کہ آج کے انٹر نیٹ کے دور میں بھی کتابوں کی اہمیت کم نہیں ہوئی ہے۔ اخبار کی قیمت ایک دن کی ہوتی ہے لیکن کتاب زندگی بھر کی ساتھی ہوتی ہے۔ کتابیں انسان کے من کو سکون بخشتی ہیں۔ گورنر نے کہا کہ آج مجھے اردو کے عالموں کے سامنے چار جملے اردو میں بولتے ہوئے ڈر لگتا ہے لیکن میں یہ بھی وعدہ کرتا ہوں کہ آّئندہ سال اگر یہاں اردو کا کوئی پروگرام ہوا اور آپ نے مجھے بلایا تو میں اپنی تقریر بھی اردو میں کروں گا۔ اس کے لئے میں نے اردو سیکھنے کا من بنا لیا ہے۔ گورنر نے مزاحیہ چٹکی لیتے ہوئے کہا کہ آج فیملی پلاننگ کے دور میں بھی ایک نہیں دو نہیں تین تین کتابوں کا پیش کرنا وہ بھی ایک ساتھ یقینا ایک بڑا کام ہے۔ ڈاکٹر نیرکو مبارکباد دیتے ہوئے گورنرنے کہا کہ اچھی کتابوں کا ترجمہ ہندی میں بھی ہونا چاہئے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے مستفیض ہو سکیں۔ انھوں نے اپنی مراٹھی کتاب کا اردو ترجمہ چلتے چلتے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب اس کتاب کا اجرا ہو گا تو آپ سب کو کھلی دعوت ہے کہ آپ سب اس میں تشریف لائیں۔

            اس سے پہلے راشٹریہ گان سے پروگرام کا آغاز ہوا جسے شعاع گرلس کالج کی طالبات نے پیش کیااور مہمانوں کو گلدستے پیش کئے گئے۔ پروگرام کنوینر وقار رضوی نے گورنر اور مہمانوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ جلسہ گاہ میں اتنی بڑی تعداد کی موجودگی ایک تاریخی حیثیت رکھتی ہے۔ ماہ مئی میں عالمی اردو کانفرنس اور آج کے تاریخی پروگرامیں گورنر اتر پردیش جناب رام نائک کی موجودگی محض اتفاق نہیں ہے بلکہ یہ ان کی اردو سے محبت کی دلیل ہے ان کا اردو دوستی کا جذبہ قابل ستائش بھی ہے اور لائق تحسین بھی۔ ڈاکٹر طارق قمر نے ’’یہ اک قلم جو جناب نیر کے ہاتھ میں ہے‘‘عنوان سے پر کشش نظم پیش کی۔ ’’یش بھارتی‘‘ ایوارڈ یافتہ ڈاکٹر انور جلال پوری نے ڈاکٹر عباس رضا نیر کی شخصیت کے پس منظر سے متعارف کراتے ہوئے کہا کہ ہر منظر کا ایک پس منظر ہوتا ہے۔ نیر نے اتنی کم عمری میں جو معیاری ادب تخلیق کیا ہے وہ یقینا ایک کارنامہ ہے۔ یہ ادب انھیں اپنے دادیہال اور نانیہال سے ورثہ میں ملا ہے ان کے والد خود اردو کے ایسے استاذ ہیں جن سے بہت سے غیر مسلم بچے آج بھی اردو کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ایسے خاندانی پس منظر کا مالک اگر آج لکھنؤ کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کو چونکا رہا ہے تو یہ حیرت کی بات نہیں ہے۔ وہ نیشنل ہونے سے پہلے انٹر نیشنل ہو گئے ہیں۔ پروگرام کی صدارت کرتے ہوئے لکھنؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ایس بی نمسے نے جملہ مہمانوں اور سامعین کا لکھنؤ یونورسٹی کی طرف سے خیر مقدم کرتے ہوے ڈاکٹر عباس رضا نیر کو ان کی تین کتابوں ’’رثائی تنقیدیں ،خواجہ احمد عباس،تنقیدی بحثیں ‘‘ کی اشاعت پر مبارکباد پیش کی۔ انھوں نے کہا کہ لکھنؤ میں جو وقت گذرا وہ تا عمر یاد رہے گا۔ انھوں نے یہ وعدیہ بھی کیا کہ شعبہ اردو میں جو جگہیں خالی ہیں میں جاتے جاتے کوشش کروں گا کہ وہ جگہیں بھر جائیں اور لکھنؤ یونیورسٹی کے کے شعبہ اردو کی عظمت رفتہ بحال ہو جائے۔ پروفیسر شارب ردولوی نے اپنی گفتگو کتابوں پر مرکوز رکھتے ہوئے کہاکہ ادب میں ہیٹ ٹرک جیسی کوئی اصطلاح نہیں ہے جس سے نیر عباس کو ڈیکوریٹ کیا جائے۔ ڈاکٹر نیر نے جدید غزل میں ان  تلازمات اور عناصر کو تلاش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے جن سے ہمارا ذہن کربلا کی طرف جاتا ہے۔ اس طرح خوااجہ احمد عباس پر ان کی کتاب خواجہ احمد عباس کی حیات کے ہر پہلو کا احاطہ کرتی ہے نیزان کی تنقیدی بحثیں میں خوبصورت اوراہم تجزیاتی تنقید کے عناصر ملتے ہیں۔ پروفیسر شارب نے گورنر اتر پردیش کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ جب سے شری رام نائک کی آمد ہوئی ہے اردو کا ایک خوشگوار ماحول پیداہوا ہے جو حوصلہ بخش ہے۔ ڈاکٹر عمار رضوی نے بھی اپنے مختصر خطاب میں کہا کہ جب سے گورنر رام نائک صاحب نے اپنا عہدہ سنبھالا ہے راج بھون میں ایک خوشگوار ماحول پیدا ہوا ہے ورنہ ان کی آمد پر طرح طرح کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا لیکن انھوں نے اپنے رویوں سے ان تمام خدشات کا ازالہ کرتے ہوئے لوگوں کے د لوں کو جیتا ہے۔ راج بھون میں اردو کے ماحول بنانے کی گورنر کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ اردو کو گاؤں گاؤں میں پہونچنا چاہئے اوردیہی علاقے کے سرکاری دفاتر میں اردو کے بورڈ لگائے جانے چاہئیں۔ پروگرام کی باوقار نظامت کرتے ہوئے لکھنؤ یونیورسٹی کی سابق استاذ پروفیسر صابرہ حبیب نے اپنے تجربات و مشاہدات بانٹتے ہوئے ڈاکٹر عباس رضا نیر کو ان کی تین اہم کتابوں کے لئے مبارکباد دی۔

22

            آخر میں صاحب کتب ڈاکٹر عباس رضا نیر نے فردا فردا کلمات تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ میر و غالب ہی صرف آج کی ضرورت نہیں ہیں بلکہ اردو کو ماڈرن ٹکنالوجی سے جوڑنے کی بھی ضرورت ہے انھوں نے ’’رثائی تنقیدیں ‘‘ کے حوالے سے کہا کہ غزل آپ کو محبوب سے ملاتی ہے لیکن مرثیہ انسان کو مثالی انسان بناتا ہے۔ انھوں نے پروگرام کے منتظم خاص وقار رضوی کا شکریہ ادا کرتے ہوئیے کہا کہ اودھ نامہ میں آج تین صفحے میری تین کتابوں کے لئے مختص کئے گئے اور آگے بھی ایک ہفتہ تک ایک صفحہ روز ان کتابوں کے حوالے سے شائع ہوتا رہے گا اس طرح یہ کسی بھی اردو کتاب کا سب سے بڑا اور تاریخی اجرا ہے۔

            یونیورسٹی کے تاریخی ہال میں کسی بھی اردو کے پروگرام میں تاریخی مجمع میں پروفیسر خان مسعود ،پروفیسر خان محمد عاطف،پروفیسرشبیر احمد ندوی،پروفیسر رمیش دیکشت،پروفیسر وندنادیکشت ،ڈاکٹر شکیل قدوائی،پروفیسر عارف ایوبی،ڈاکٹر انیس انصاری،رضوان احمد (سابق ڈی جی پی،)ڈاکٹر رضوان الرضا علیگ،ڈاکٹر رخسانہ لاری ام ہانی،ڈاکٹر احمد عباس ردولوی،ڈاکٹر ریشماں پروین،ڈاکٹر سلطان شاکر ہاشمی،ڈاکٹر نسیم نکہت،ڈاکٹر ثروت تقی،ڈاکٹر منصور حسن خاں ،ڈاکٹر مسیح الدین خاں ،ڈاکٹرطارق حسین خان،شارق لہر پوری ،حیدر علوی،ملک زادہ پرویز،تشنہ اعظمی،ڈاکٹر اسرارالحق قریشی،ارشد اعظمی،،معروف خاں ،عارف نگرامی،قمر گونڈوی،نعیم احمد (دانش محل)ڈاکٹر جاں نثاراحمد جلال پوری،عائشہ صدیقی۔ ، سلام صدیقی،اجے کمارریسرچ اسکالر وغیرہ خاص طور پر موجود تھے۔

تبصرے بند ہیں۔