اردو زبان کی نشو و نما کی تاریخ اور دکن

اردو زبان کی نشو و نما کی تاریخ اور دکن

ہمارے ادبی کاروان نے گذشتہ صدیوں میں؛ جن مراکز کا طواف کیا اور ہندوستان کے طول وعرض میں بکھری ہوئی جن بستیوں میں فروکش ہوکر تہذیب وثقافت کے چراغ روشن کئے اُن کی مختصر فہرست میںحیدرآباددکن کا نام سب سے ممتازاور نمایاں نظر آتا ہے ، اور کیوں نہ ہو جبکہ بعض معتبرمحققین کے قول کے مطابق اردو زبان کی جائے ولادت ہونے کا شرف بھی اسی خطے کو حاصل ہے ۔

اردو کی ابتداء:
جب ایک قوم دوسری قوم کے ساتھ بودوباش اختیار کرتی ہے تو یہ امر ناگزیر ہے کہ بول چال اور کام کاج میں ایک کے الفاظ دوسرے کی زبان میں منتقل ہوں۔
ہندوستان کی سرزمین ہمیشہ غیراقوام کی آماجگاہ رہی ہے ، آرین قوم نے شمالی ہند پر حملہ کیا اور یہاں کے قدیم باشندوں کوجنوب کی طرف دھکیل دیا،ان لوگوں کی زبان ’’تمل‘‘،اُڑیا،اورتلگو وغیرہ تھی ،چناں چہ آج تک دکن میں یہ قدیم زبانیں مروج ہیں،فاتحوں نے خیال کیا کہ عام شودروں(مفتوح)کی زبان سے اپنی زبان بلند پایہ ہونی چاہئے ،چناں چہ انھوں نے قواعد واصول ترتیب دئے ،اور اپنی زبان کا نام سنسکرت رکھا،لیکن ان کی سنسکرت زبان کا مخرج،اور تلفظ یہاں کے لوگوں میں آکرکچھ اورہوگیا اور ہوتے ہوتے پراکرت زبان خودبخود پیدا ہوئی ،پھر ایک زمانہ آیا کہ پراکرت زبان ہی کُل شاہی دفاتر اور دربار کی زبان ہوگئی ، عام طور سے مذہبی کتب وغیرہ اسی زبان میں مرتب ہونے لگیں۔
لیکن تقریباً پندرہ سول سال کے بعد جب کہ راجہ بکر ماجیت کے سرپر تاج شاہی آیا توقدیم سنسکرت زبان کو پھر سے عروج حاصل ہوا اور وہ آب وتاب کے ساتھ چمکنے لگی ، غرض اس طرح شاہی دربار امراء اور پنڈتوں کی زبان سنسکرت رہی مگر عوام میں وہی پراکرت مروج رہی اور بالآخر یہی زبان اردو کا مخرج و ماخذ بنی۔
یہ امر تقریباً طئے شدہ ہے کہ اردو مسلمانوں اور ہندؤں کے باہمی میل جول سے پیدا ہوئی ،اور چوں کہ مسلمانوں نے مدتوں دکن میں بودوباش اختیار کی ،حکومت قائم کی،تجارت کو وسعت دی،مذہب کی اشاعت کی، اس لئے ان کا اٹھنا بیٹھنا یہاں کے ملکی باشندوں کے ساتھ زیادہ تھا، کام کاج ،خریدوفروخت میں ان سے سابقہ رہتاتھا ، اس اعتبار سے ایک خاص زبان کا پیدا ہونا ضروری تھا ۔
کچھ لفظ اردو کے بارے میں :
اردو ،ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی لشکر یا فوج کے ہیں ۔ 1637ء کے بعد جو شاہی لشکر دہلی میں مقیم رہا وہ اردوئے معلی کہلاتا تھا؛اس لئے اس کو عام طور پر لشکری زبان بھی کہا جاتا تھا ۔ کیونکہ یہ ہندی،ترکی،عربی،فارسی اور سنسکرت زبانوں کا مرکب تھا؛ لیکن بعض محققین کا خیال ہے کہ یہ آریاؤں کی قدیم زبان کا لفظ ہے ۔
سر سید احمد خان اور سید احمد دہلوی کا دعوی ہے کہ اردو زبان کی ابتدا شاہجہانی لشکر سے ہوئی اس لئے اس کا نام اردو پڑا ۔ بہرصورت اس وقت اس زبان کو ہندوی، ہندوستانی ، ریختہ، دکنی اور گجراتی کے ناموں سے یاد کیا جاتا تھا ۔
اردو زبان کو مختلف اوقات میں مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا رہا ۔ اس زبان نے ارتقا کی جتنی بھی منزلیں طے کیں اتنے ہی اس کے نام پڑتے چلے گئے ۔ ناموں کی اس تبدیلی کے پس پردہ مختلف ادوار کی مخصوص تہذیبی و سیاسی روایات کی کارفرمائی نظر آتی ہے ۔
اسداللہ غالب کے ہاں اردو دیوان میں کئی مقامات پر ریختہ کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ انہوں نے اپنے ایک شعر میں کچھ یوں اس کا ذکر کیا ہے ۔
ریختہ کے تمہیں استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
اردو ترکی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب لشکر یا فوج اور چھاؤنی ہے ۔ اس کے اور بھی کئی معانی ہیں ۔عام طور پر لشکر ،پڑاؤ، خیمہ،بازار ، حرم گاہ اور شاہی قلعہ اور محل کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔
اردو کا لفظ سب سے پہلے بابر نے تزک بابری میں استعمال کیا ہے ۔ عہد اکبری میں یہ لفظ عام طور پر معروف و مقبول ہو چکا تھا ۔ شہنشاہ شاہ جہاں نے نئی دہلی آباد کرکے شاہی قلعے کو "” قلعہ معلی "” کے نام سے موسوم کیا تو عربی ،فارسی ،ہندی وغیرہ سے ملی جلی زبان کو جس کا رواج شاہی لشکر میں ہو گیا تھا اردو معلی کا دیا۔
دکن میں اردو کی ابتداء:
شمال کے فاتحین نے جب ۵۸۸ھ مطابق 1192ء میں دہلی کی چوہان سلطنت فتح کرلی تو یہ نئی زبان بھی اپنے ساتھ لائے ، اس سرزمین برج میں مسلمانوں کی لائی ہوئی زبان ابھی پختہ نہیں ہونے پائی اور اس پر برج کا زیادہ اثر نہیں ہوا تھا کہ مسلمانوں نے جنوب کا رخ کیا۔
اولاً علاء الدین خلجی پھر ملک کا فورنے دکن پر مسلسل حملے کیے ،۷۱۰ھ میں راس کماری تک علاقائی علم پہنچ گیا، اس کے بعد ایک بہت بڑا سیلاب محمد تغلق کے زمانہ میں اٹھا اور د کن میں جاکر رکا ، محمد تغلق نے نہ صرف دکن پر فوج کشی کی بلکہ دیوگڑھ کودولت آباد سے موسوم کرکے اس کو اپناپائے تخت بھی قراردے دیا، اس کےباعث نہ صرف فوجی اشخاص بلکہ اہل علم وفضل ، اہل حرفہ اور تجار سب ہی دہلی چھوڑ کر دکن آگئے ، اگرچہ کچھ عرصہ بعد بادشاہ دہلی واپس ہوگئے؛ مگر ایک بڑے گروہ نے یہاں بودوباش اختیار کرلی۔
غرضیکہ اس طرح اس جدید زبان کا یہاں خیرمقدم ہوا اور عام طورسے ہرشخص اسی کو بولنے لگا اور وہ کام کام میں بھی آنے لگی۔
دکن میں اردو ادب کا ارتقا:
اگر اردو زبان و ادب کے ارتقا پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ تاریخی اعتبار سے جنوبی ہند میں اردو زبان نے پہلے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ جنوبی ہند کے علاقوں گجرات اور دکن میں جس وقت اردو شاعری کا آغاز ہوا، اس وقت شمالی ہند میں اس کے کوئی آثار موجود نہ تھے۔ دکن میں اردو شاعری کا آغاز بہمنی عہد (1347-1527)میں ہو چکا تھا۔ اس عہد کی ادبی تاریخ، تخلیق کاروں کے سوانح اور بیش تر ادب پارے ابلق ایام کے سموں کی گرد میں اوجھل ہو چکے ہیں۔ بہمنی عہد میں تخلیق ہونے والے اردو زبان کی شاعری کے اولین نمونے جن کی مدد سے اردو شاعری کے ارتقا کی حقیقی صورت حال کے بارے میں آگاہی ملتی ہے، ان کی تعداد بہت کم ہے۔ دکن میں اس زبان میں تخلیق ہونے والی شاعری کے ابتدائی نمونے اس حقیقت کے غماز ہیں کہ اردو شاعری کا ہیولیٰ یہیں سے اٹھا تھا۔ خواہ اسے کسی نام سے پکارا جائے یہ اردو شاعری کا نقش اول ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر گجرات میں اردو شاعری کے اولین نمونوں کو گجری یا گجراتی زبان کی شاعری کے نمونے قرار دیا جاتا ہے۔ اگرچہ ان کی تعداد بہت کم ہے لیکن اپنی اصلیت کے اعتبار سے یہی اردو شاعری کی ابتدائی شکل ہیں۔ بہنی دور میں دکن کو اہم تجارتی اور علمی مرکز کی حیثیت حاصل رہی تاہم اس عہد کی کوئی قابل ذکر تصنیف اب دستیاب نہیں۔ اس عہد کے ایک ممتاز ادیب عین الدین گنج العلم کا نام مختلف تذکروں میں ملتا ہے لیکن اس کی کسی ایسی تصنیف کا سراغ نہیں مل سکا جو زبان دکنی میں ہو۔ اس دور کی اولین اور اہم ترین تصنیف جس تک ادب کے طلبا کی رسائی ہے وہ فخر الدین نظامی کی تصنیف ’’کدم راؤ پدم راؤ‘‘ ہے۔ مثنوی ’’کدم راؤ پدم راؤ ‘‘بہمنی خاندان کے نویں بادشاہ سلطان احمد شاہ ولی بہمنی کے عرصہ ء اقتدار (1421-1434)میں لکھی گئی۔ اس مثنوی کا اہم ترین موضوع سلطان احمد شاہ ولی بہمنی کے عہد حکومت کے اہم واقعات اور معا ملات سلطنت ہیں۔ اس مثنوی میں سیاسی نشیب و فراز، معاشرتی زندگی کے ارتعاشات اور سماجی مسائل کے بارے میں تاریخ کے مسلسل عمل کو پیش نظر رکھتے ہوئے بڑی مہارت سے لفظی مرقع نگاری کی گئی ہے۔ اس میں صد آفرینی کی جو کیفیت ہے اس کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے۔ اس عہد کے حالات نے تہذیبی اور ثقافتی زندگی اور فنون لطیفہ پر جو اثرات مرتب کیے ان کے بارے میں یہ مثنوی ایک اہم ماخذ ہے۔
الغرض: اردو زبان اور ادب نے 300 سال تک جتنی ترقی دکن میں کی اس کی نظیر پورے ملک میں نہیں ملتی۔ اسی لیے دکن کے لوگ اگر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے پُرکھوں نے اردو کو نکھارا ، بنایا ، سنوارا اور اس میں ادبی شان پیدا کی تو یہ دعویٰ بےبنیاد نہیں ہے۔
قطب شاہی (گولکنڈہ : 1518ء – 1687ء) اور عادل شاہی (بیجاپور : 1489ء – 1686ء) دَور میں اردو کو دکن میں بہت فروغ ہوا اور وہ ملک کی سب سے مقبول زبان بن گئی۔

تبصرے بند ہیں۔