اردو سائبر رسم الخط ‘یونی کوڈ میں مقام اور نستعلیق کے آ ئینہ میں

ہرکسی کے ذہن میں کبھی نہ کبھی یہ خیال ضرور آتا ہوگا کہ جہاں دنیا بھر کے مختلف ممالک میں بسنے والے انسان ایک دوسرے سے رابطے اور گفتگو کے لئے مختلف زبانوں کا استعمال کرتے ہیں جن میں چینی ‘انگریزی‘عربی‘اسپینی‘فرانسیسی‘فارسی کے علاوہ ہندوستان کی علاقائی زبانوں میں ہندی‘تلگو‘پنچابی‘گجراتی‘ ٹامل‘کنڑا‘بنگالی‘ملیالی اور مراٹھی سے قطع نظر پاکستان کی علاقائی زبانوں میں سندھی‘پشتو‘بلوچ اورشینا قابل ذکر ہےہیں اور جب دنیا میں سینکڑوں زبانیں بولی اور لکھی جارہی ہیں اور تمام زبانوں کا رسم الخط بھی مختلف ہے تو پھر کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی مجموعی شکل سائبر ٹکنالوجی پر ان تمام زبانوں کا رسم الخط کس طرح ظاہر ہوتاہے؟کیا کمپیوٹر کو دنیا کی تمام زبانیں آتی ہیں؟اس سوال کا آسان جواب یہ ہے کہ کمپیوٹر کو دنیا کی کوئی زبان نہیں آتی بلکہ اس کی اپنی ایک مخصوص زبان ہے اور وہ اسی زبان کی مدد سے دنیا کی تمام زبانوں پر عبور حاصل کرچکا ہے۔مختلف ہارڈ ویر آلات کو جوڑتے ہوئے جب کمپیوٹر کا ظاہر ی ڈھانچہ تیارکرلیا جاتا ہے تو اس ڈھانچہ میں جوڑے گئے تمام آلات کے درمیان رابطہ کو یقینی بنانے کے لئے ایک مخصوص زبان درکار ہوتی ہے۔ کمپیوٹر میں استعمال ہونے والی زبانیں3 زمرے میں منقسم کی جاتی ہیں جوکہ ‘‘ابتدائی، درمیانی اور اعلیٰ سطحی’’ زبانیں ہیں۔ کمپیوٹر میں ابتدائی مرحلے کی جو زبان استعمال ہوتی ہے اسے مشینی زبان یا مشینی لینگویج کہا جاتا ہے اور اس سطح پر دنیا کے تمام کمپیوٹرس بائنری لینگویج استعمال کرتے ہیں اور بائنری زبان میں حروف تہجی صرف 2 یعنی صفر اور ایک (0,1) ہوتے ہیں اور یہ ہی وہ دو حروف تہجی ہے جن کی بدولت کمپیوٹر دنیا کی تمام زبانوں کو اپنی مشینی زبان میں تبدل کرلیتا ہے اور صارف کی جانب سے حاصل ہونے والے تمام احکامات کو بغیر کسی غلطی کے اسکرین پر ظاہر بھی کرتاہے۔ابتداءمیں مختلف زبانوں کو کمپیوٹر کی اسکرین پر ظاہر کرنے کے لئے مختلف تکنیکس استعمال کی جاتی تھیں جیسا کہ صرف انگریزی زبان کو اسکرین پر ظاہر کرنے کے مختلف تکنیکس جن کو ”ان کوڈنگ“کہا جاتا ہے وہ موجود تھیں لیکن اس کا سب سے بڑا نقصان یہ تھا کہ جب ایک کمپیوٹر پر تحریر کردہ متن کسی دوسرے کمپیوٹر پر منتقل کرنے کے بعد جب وہاں اس تحریر کو اسکرین پر ظاہر کیا جاتا تو اس کا رسم الخط اپنی اصلی شکل میں ظاہر نہ ہونے کے علاوہ الفاظ میں ٹوٹ پھوٹ ہوتی تھی ۔ان مسائل کے بعد یہ ضرورت محسوس ہونے لگی کہ کمپیوٹر پر دنیا کی تمام زبانوں کے رسوم الخط کو انکی اصلی ہیئت ‘صورت وشکل میں ظاہر کرنے کے لئے ایک مشترکہ نظام یا تکنیک ہونی چاہئے اور اس ضرورت نے ایک مشترکہ نظام ”یونی کوڈ(uni code)“ کی بنیاد ڈالی۔یونی کوڈ ایک ایسا نظام ہے جو کسی بھی کمپیوٹر کے آپریٹنگ سسٹم یا کمپیوٹر پروگرام میں تمام زبانوں کے ہر ایک حرف تہجی‘علامت اور ایموجی کو ایک خاص عدد مہیا کرتا ہے۔ کمپیوٹر ٹکنالوجی اس خاص عدد سے مراد صرف وہی حرف لے گی جو یونی کوڈ میں ترتیب دئے جا چکے ہیں۔ مثال کے طور پر اردو کے حرف “ب” کو 0628 عدد دیاگیا ہے اب کسی بھی کمپیوٹر میں 0628 یونی کوڈ قدر (Unicode value) سے مراد حرف “ب” ہی لیا جائے گا۔حقیقت میں کمپیوٹر صرف اعداد کو ہی سمجھتا ہے۔ کمپیوٹر اسکرین پر نظر آنے والے حروف، الفاظ، تصاویر اور باقی سب کے در پردہ کمپیوٹر اعداد کا ایک پچیدہ نظام ہے اور اس نظام کو کمپیوٹراصطلاح میں بائنری نمبر(Binary number) کہا جاتا ہے۔ 1980ءمیں زیراکس کمپنی کی جانب سے بنائے جانے والے اسٹار ورک اسٹیشن (کمپیوٹر) میں یونی کوڈ کے شواہد موجود تھے لیکن 1987 ءمیں زیراکس اور دوسری بڑی کمپنی اےپل کے درمیان ان کے انجینئرس جےوبیکر، لی کولنس اور مارک ڈیویس نے ایک پراجکٹ شروع کیا تاکہ دنیا کے تمام کمپیوٹرس کو ایک مشرکہ نظام کے ساتھ جوڑا جاسکے۔ 1988ءکے اوائل اس پراجکٹ کے تحت 3 اہم زمروں کی تحقیقات مکمل ہوئیں جس میں اس ضرورت اور افادیت کو پیش کردیا کہ دنیا بھر کے کمپیوٹرس پر تحریر کئے جانے والے رسوم الخط کو من و عن دوسرے کمپیوٹر کی اسکرین پر ظاہر کرنے کے لئے یہ یونی کوڈ نظام نہ صرف انتہائی ضروری ہے بلکہ یہی وہ نظام ہے جس کی بدولت کمپیوٹرس کو دنیا بھر کی زبانوں سے روشناس کروایا جاسکتا ہے۔ یونی کوڈ کو اس وقت مزید وسعت ملنی شروع ہوگئی جب ایپل اور زیراکس کے بعد مائیکرو سافٹ، اوراکل، ایس ا ےپی، سن، ایچ پی، فیس بک، گوگل اور یونیسیس نے بھی اس قافلے میں شمولیت اختیار کرلی۔ اس کے بعد باضابطہ طور پر ایک ایسی اسوسی ایشن بنائی گئی جو کہ یونی کوڈ میں مسلسل نئی تبدیلیوں اور دنیا بھر کی زبانوں میں موجود رسوم الخط کوکمپیوٹر سے جوڑنے کے لئے نئی نئی ایجاد کررہی تھی۔ اس اسوسی ایشن کو یونی کوڈ کنسورشیم کہا جانے لگا ۔ یونی کوڈ کنسورشیم کا1991 میں قیام عمل میں آےا اور اس امریکی تنظیم کے بانی مارک ڈیوس ہیں ۔ منافع کے بغیر خدمات انجام دینی والی یہ ایک ایسی تنظیم ہے جو انفرادی اور اجتماعی طور پر بڑی کمپنیوں کو اپنی رکنیت فراہم کرنے کے لئے علاوہ ان کی جانب سے دنیا کی مختلف زبانوں کے رسم الخط کوکمپیوٹرکے اسکرین پر بغیر کسی کمی و پیشی کے ظاہر کرنے میں جو سافٹ ویر تیار کئے جاتے ہیں اسے یونی کوڈ کے معیار پر جانچنے کے بعد اسے اس نظام میں شامل کرتی ہے۔ یونی کوڈ کا باضاطہ پہلا ورژن 1.0.0 اکتوبر 1991ءکو جاری کیا گیا تھا جس میں 24 اسکرپٹس (رسوم الخط) شامل تھیں جبکہ اس کا سب سے جدید ترین ورژن 9 جون2016 کو جاری کیا گیا ہے جس میں 135 رسوم الخط موجود ہیں۔یونی کوڈ میں دنیا کی ہر زبان کو ایک مختلف نظام فراہم کرنے کی بجائے زبان کے رسم الخط کو ترجیح دی گئی یہ ہی وجہ ہے کہ یونی کوڈ میں اردو کے لئے علحدہ نظام نہیں بلکہ یہ عربی رسم الخط کا جو نظام ہے اسی نظام میں شامل ہے۔اس کی مثال یہ ہے اگر ہم ایک لفظ”نور النسا“کمپیوٹر اسکرین پر ٹائپ کریں توکمپیوٹر ٹکنالوجی کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہوگی کہ یہ لفظ عربی کی تحریر ہے یا اردو کی تحریر ہے بلکہ وہ یہ دیکھے گا کہ صارف کی جانب سے اسکرین پر جن حروف کوظاہر کرنے کا حکم ملا ہے اس میں ‘‘ن‘و‘ر‘ا‘ل‘ن‘س‘ا’’ حروف موجود ہیں اور کمپیوٹر ان ہی حروف کو اسکرین پر ظاہر کردے گا۔اس کے بعد اب قاری اگر اس کو اردو تحریر کی شکل میں پڑھے گا تو وہ اسے ایک خاتون کا نام سمجھے گا جبکہ عربی زبان کے قاری کے لئے یہ لفظ ”عورتوں کا نور“ ہوگا۔اس مثال سے ظاہر ہوگیا کہ یونی کوڈ میں دنیا کی مختلف زبانوں کی بجائے ان کے رسوم الخط کو ترجیح دی گئی ہے۔اردو کے علاوہ چونکہ فارسی کا رسم الخط بھی عربی سے ماخوذ ہے لہذا یونی کوڈ نظام میں اردو رسم الخط عربی رسم الخط کے نظام کے تحت ہی لکھا جاتا ہے۔
نستعلیق کا اہمیت :–
اردو رسم الخط میں نستعلیق کو اولیت حاصل ہے حالانکہ سائبر ٹکنالوجی نے نستعلیق کے برعکس کئی اور فاونٹس فراہم کئے لیکن اردو داں افراد کو نستعلیق ہی پسند آتا ہے لیکن ٹکنالوجی کے ماہرین میں کچھ اےسے افراد بھی شامل ہیں جنھیں عام وجوہات کے علاوہ تکنیکی وجوہات کے باعث نستعلیق کے برعکس دوسرے فاونٹس پسند آتے ہیں جن میں نسخ فاونٹس قابل ذکر ہے۔ نستعلیق اِسلامی خطاطی کا ایک انداز ہے، جو عمومی طور پر اردو زبان کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ یہ ایران میں چودھویں اور پندرھویں صدی عیسوی میں پروان چڑھا۔ اس خطاطی انداز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے بانی ایران کے مشہور خطاط میرعلی تبریزی تھے۔ یہ خط نسخ کے علاوہ بعض اوقات عربی متن لکھنے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔نستعلیق خوش نویسی کا زیادہ تر استعمال ایران، پاکستان، افغانستان اور ہندوستان میں کیا جاتا ہے۔ نستعلیق کا ایک نسخہ فارسی، پشتو، کھوار اور اردولکھنے کے لئے ترجیحی بنیادوں پر استعمال ہوتا ہے۔اسلام کی ایران آمد کے بعد ایرانیوں نے فارسی۔ عربی رسم الخط اپنایا ’ اِس طرح عربی خوش نویسی ایران اور ساتھ ہی دوسرے اسلامی ممالک میں عروج کے منازل طے کرلی۔ عربی میں متعدد انداز خطاطی جیسے ثلث، رقعہ، دیوانی اور نسخ میں سے خط نسخ عام طور پر قرآن کی خطاطی میں بکثرت استعمال ہوتا تھا جبکہ قرآن کے صفحات پر اصل متن کے چہار جانب وضاحتی عبارت (تفسیر) لکھنے کا رواج ہے اور اس وضاحت کے انداز خطاطی کو قرآن کے متن سے الگ انداز میں لکھا جاتا تھا جس کے حاشیہ معلق ہونے کی وجہ سے عربی لفظ علق سے تعلیق کہتے تھے۔ خط تعلیق موجودہ دور میں یا تو کم و پیش معدوم ہو چکا ہے یا بہت ہی کم اختیار کیا جاتا ہے۔ میر علی تبریزی نے 14 ہویں صدی عیسوی میں ان دو رسم الخطوط نسخ اور تعلیق کی خصوصیات کو آپس میں یکجا کر کہ ایک نیا خط بنایا جسے نسخ ۔تعلیق ‘‘نسختعلیق’’ کا نام دیا گیا جو بعد میں مختصر ہو کر نستعلیق بنا۔میرعلی تبریزی کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایک رات انہوں نے خواب میں ہنسوں کو اڑتے ہوئے دیکھا اور دورانِ پرواز ان کے لچکدار جسم اور ان کے پروں کی خوبصورت حرکات سے متاثر ہوکر بیدار ہونے پر عبارت کے الفاظ کو تعلیق کی خمداری اور نسخ کی ہندساتی خصوصیات آپس میں امتزاج کر کہ نستعلیق خط کو ایجاد کیا۔ جس طرح ہنس کے پروں کی طوالت اور خوبصورتی دیکھنے والے اور ہنس کی محو پرواز حرکات پر مختلف ہوا کرتی ہیں اسی طرح نستعلیق میں بھی ایک ہی حرف کو متعدد سیاق و سباق کے لحاظ سے مختلف انداز دیا جاتا ہے۔ایک اور روایت کے مطابق خواجہ میر علی تبریزی اللہ تعالی سے دعا مانگا کرتے تھے کہ وہ کوئی ایسا خط ایجاد کریں جو بے مثال ہو۔ یہ دعا قبول ہوئی اور ایک رات حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں خواب میں فرمایا کہ بط اور مرغابی کے اعضا پر غور کرو اور نیا خط ایجاد کرلو۔ چنانچہ خواجہ میر علی تبریزی نے خط نستعلیق ایجاد کرلیا جس نے عالم اسلام میں اپنا وجود منوایا۔ ایک اور روایت کے مطابق تبریزی اس رسم الخط کی تلاش میں گیارہ سال ایک غار میں رہے اور مشقِ خط کرتے رہے۔خط نستعلیق میں دیگر تمام خطوط کے برعکس لفظ چھوٹے اور بناوٹ کے لحاظ سے بہت مشکل اور بھرپور نوک پلک اور چست دائرے ہوتے ہیں اور پھر عبارت میں الفاظ و حروف ایک دوسرے میں شامل نہیں ہوسکتے۔ اسی سبب یہ دنیا کا مشکل ترین خط ہے لیکن اس سے قطعی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اپنی فنی نزاکتوں کے سبب خوبصورت ترین انداز تحریر بھی ہے۔نستعلیق کی خوبصورتی، حسن اور نزاکت و لطافت کی وجہ سے اہل فن نے اسے ہمیشہ سراہا ہے دارالشکوہ کے بموجب نستعلیق نے خوبصورتی و رعنائی میں باقی خطوط کوماند کردیا ہے۔نستعلیق رفتہ رفتہ فروغ پایا اور کئی نامور خوش نویسوں نے اِس کی تابناکی اور خوبصورتی میں اپنا کردار اداکےا۔میرعماد نے اپنے فن سے نستعلیق کو عمدگی اور شائستگی کی بلندیوں تک پہنچایا۔ تاہم آجکل نستعلیق کا استعمال مرزا رضا کلہور کے طریقے پرکیا جاتا ہے۔کلہور نے نستعلیق خطاطی کی اِصلاح کی تاکہ یہ طباعت کی مشینوں میں آسانی سے استعمال ہوسکے۔ انہوں نے نستعلیق خطاطی کو سکھانے کے طریقے اور اِس کے قوانین بھی مرتب کئے۔مغلیہ سلطنت نے برّصغیر میں اپنی حکومت کے دوران فارسی کو عدالتی زبان کے طور پر استعمال کیا۔ اِسی دوران نستعلیق خط جنوبی ایشیائی ممالک جیسے پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں عام ہوگیا اور وہی رسوخ ابھی تک باقی ہے۔ پاکستان میں اردو کی تقریباًًًًً تمام تحاریر و تصانیف اِسی رسم الخط میں لکھی جاتی ہیں۔ اور دنیا بھر میں نستعلیق رسم الخط کا سب سے زیادہ استعمال پاکستان میں کیا جاتا ہے۔ حیدرآباد، لکھنو اور ہندوستان کے دوسرے شہر جہاں اردو بولنے والوں کی تعداد زیادہ ہے یہاں بھی نستعلیق استعمال کیا جاتا ہے۔
نستعلیق کا حسن اورکمپیوٹر:۔نستعلیق کا حسن ہو یا کسی دوسرے جیسے نسخ یا ٹائمس نےورومن وغیرہ فاونٹس کا حسن ہو، جب بات کمپیوٹر کی آتی ہے تو حقیقت یہ ہے کہ کمپیوٹر کسی خط کو حسین بنانے یا بدصورت بنانے کا کام نہیں کرتا اور نا ہی یہ کہا جاسکتا ہے کہ نستعلیق کمپیوٹر پر اچھا نظر نہیں آتا اور نا ہی یہ کہا جاسکتا ہے کہ نسخ کمپیوٹر پر اچھا نظر آتا ہے یا ایریل فاونٹ کمپیوٹر پر اچھا نظر آتا ہے۔ اصل معاملہ اس فاونٹ کے مصنع لطیف کی لطافت اور نزاکت کا ہوا کرتا ہے اور کمپیوٹر کچھ بنائے یا بگاڑے بغیر جو اس کو دیا جائے وہی اپنی اسکرین پر دکھاتا ہے۔ ایک اچھے فاونٹ میں کچھ خصوصیات شامل ہونا آج کے معیار کے مطابق ضروری ہیں جن کا تعلق اس خط سے نہیں جس میں وہ تحریر ہو بلکہ اس فاونٹ کے سافٹ ویر سے ہے۔آج اخبارات، رسائل اور ویب سائٹس اور گوگل پر نہایت بہتر اورکافی حد تک مسائل سے پاک پرکشش نستعلیق رسم الخط میں کمپیوٹر کے ذریعہ لکھی گئی اردو پڑھ رہے ہیں ان میں کئی مخلص افراد کا تعاون شامل حال ہے اور ان میں پاکستانی ماہر احمد مرزا جمیل کا نام بھی اہمیت کا حامل ہے۔مرحوم احمدمرزا جمیل کی ایجاد ”نوری نستعلیق“ اردو زبان اور صحافت کیلئے ایک عظیم کارنامہ ہے کیونکہ اِس ایجاد نے اردو کی ترقی میں کافی اہم رول ادا کےا اور اردو کو سائبرٹکنالوجی کی زبان بنانے میں کئی سنگلاخ راہوں کو ہموار کیا۔ اردو رسم الخط کے بارے میں عام تاثر تھا کہ یہ جدید ٹکنالوجی کے دور کا ساتھ نہیں دے سکتا لیکن نوری نستعلیق کی ایجاد نے اردو کی اِس تاثر کو غلط ثابت کردیا۔آج جو بے شمار اردو اخبارات، جرائد و رسائل اور کتابیں بازار میں خوب صورت رسم الخط میں دستیاب ہیں یہ اِسی نوری نستعلیق کی ایجاد کی وجہ سے ہیں۔دراصل نوری نستعلیق کی ایجاد نے ہی اردو کی کمپیوٹر کتابت کا آغازکیا۔ نوری نستعلیق کی سب سے اہم خوبی یہ ہے کہ کم سے کم جگہ میں زیادہ سے زیادہ الفاظ سمٹ جاتے ہیں لیکن اِس کے باوجود الفاظ صاف اور واضح رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں کاغذ کی بچت بھی ہوتی ہے اور وقت انتہائی کم صرف ہوتا ہے۔ اِس طرح رقم کی بھی بچت ہوتی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔