اردو کے زندانی ادب پر ایک طائرانہ نظر

محمد سعید الرحمن سعدی

اردو زبان و ادب کاکوئی طا لب علم اس بات سے ناآشنا نہیں ہو سکتا کہ دنیا کی دیگر عظیم اور وسیع زبانوں کی طرح اس کا دامن بھی متعدد اصناف سخن سے مالا مال ہے ،اور صرف یہی نہیں ؛بل کہ ہر مرکزی صنف کے تحت ذیلی انواع اور ضمنی گوشوں کی ایک پوری کہکشاں باہمہ رخشندگی وتابندگی آباد ہے، اس مضمون میں (جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے)ہما را مقصد اردو ادب کے ایک ذیلی مگر اہم گوشہ ’’زندانی ادب ‘‘ یا’’ادب زنداں ‘‘کا ابتدائی تعارف ،اجمالی جائزہ اور اس پر ایک طائرانہ نظر ڈالنا ہے ۔

تعریف اور دائرئہ اطلاق:۔زندانی ادب سے مراد وہ تحریریں ہوا کر تی ہیں جنھیں ان کے مصنفین دوران اسیری یا قیدو بند سے رہائی کے بعد ضبط تحریر میں لا ئے ہوں ،یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری معلوم ہوتی ہے کہ دوران اسیری یا رہائی کے بعد کی کن تحریروں پر اس کا اطلاق ہوگا اورکون اس کے دائرے سے خارج ہوں گی؟چناں چہ جب ہم اس بارے میں اس صنف کے محققین کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہو تا ہے کہ رہا ئی کے بعد کی تو صرف وہی تحریریں اس زمرے میں شامل ہو سکیں گی، جن کا تعلق روداد اسیری ،داستان قیدوبند ،احوا ل زنداں اور جیل کے کوائف وروزنامچوں سے نظم یا نثر کی زبان میں ہو،اور جہاں تک بات ہے ان تحریروں کی جو ایام قید میں قلم بند کی گئی ہوں ؛تو امتداد زمانہ کے ساتھ اس کے دائرہ میں وسعت آتی گئی ہے ،یہاں تک کہ اب ہر وہ تحریر اس صنف میں شامل سمجھی جا تی ہے ،جو اسیری و نظر بندی کے دوران رقم کی گئی ہو، خواہ وہ نظم میں ہو یا نثر میں، اس کا تعلق خالص مذہبی عناوین سے ہو یا ٹھیٹھ ادبی مضامین سے ،ا س کا موضوع تدریسی وعلمی ہو یا فکری واصلاحی، تاریخ و سیاست سے اس کا رشتہ ہو یا تحقیق و تنقید سے ،خلاصہ یہ کہ علم و ادب کی تما م مرکزی وذیلی شاخیں اس کے دائرئہ اطلاق میں شامل ہیں ،بس شرط یہ ہے کہ موے قلم سے صفحہ قرطاس تک کی منتقلی کا سفر دوران اسیری پیش آیا ہوــ۔

ابتدا و آغاز:

بہ طو ر صنف اس کا آغاز انیسویں صدی کے نصف اخیر میں ہوا ہے ،گر چہ اس سے پہلے بھی جستہ جستہ کچھ ابتدائی نمو نے پائے جا تے ہیں ، جسے ہم اس صنف کی بنیاد اور اس کے نقوش اولیں سے تعبیر کر سکتے ہیں ،تاہم یہ باضابطہ طور پر متعارف اسی وقت ہو ئی جب انگریزوں کے خلاف ۱۸۵۷؁ء کا انقلاب آیا او ر فرنگیوں نے انقلابی قائدین و مجاہدین کو پس دیوار زنداں کر کے اس تحریک کو ختم کر نا چاہا، تواس وقت ان میں سے کچھ مجاہدین نے اس چنگاری کو الفاظ کی صورت میں قلم کی شمشیر سے قرطاس کی بھٹی میں جھونک کر شعلۂ جوالہ بنادیا،اور بعض قائدین و رہنما وئں نے، جن کی اکثریت علما ، فضلاوادبا پر مشتمل تھی ؛اسارت کی اداسیوں ،قید کی تنہائیوں اور جیل کی بے رنگیوں کو اپنے خوب صورت علمی و ادبی گہر پاروں سے گلزار کر دیا ۔چناں چہ ’ تواریخ عجائب‘‘ (جس کا دوسرا نام ’’کا لا پانی ‘‘ ہے ) نا می کتاب کو اس صنف میں اولیت کا مقام حاصل ہے،(بعض مورخین ادب نے اسے پہلی خود نوشت سوانح بھی قرار دیا ہے)یہ دراصل قائد انقلاب مولانا جعفر تھانیسری ؒکی دو جلدوں پر مشتمل خود نوشت سر گزشت ہے، جسے آپ نے 1879 یا 1880 میں کا لا پا نی کی اسیری کے دوران تحریر فرمایا ہے ،پھر اس کے بعد تو زندانی ادب میں یکے بعد دیگرے مسلسل کتا بوں کا اضافہ ہو تا چلا گیا،جو کسی نہ کسی حد تک اب بھی جا ری ہے ۔

در اصل 1857ء کا انقلاب اور اس کے بعد آزادی ہند تک کے سر گرم ،پرجوش اور ہنگامہ خیز حالات بڑی حد تک اس کے لیے معاون و سازگار ثابت ہوئے۔ انفرادی طور پر تو ۱۸۵۷؁ء کے قبل سے اب تک نہ جانے کتنی شخصیات پابند سلاسل کی گئیں اور اس کے نتیجے میں زندانی ادب کا دائرہ بڑھتا گیا؛لیکن اجتماعی حیثیت سے زندانی ادب کی تاریخ میں تین مواقع بہت اہم اور یادگار ثابت ہوئے ہیں ،جن کے طفیل ادب زنداں کے ذخیرے میں انتہائی وقیع اور قابل قدر اضافے ہوئے، ایک تو 1857 اور اس کے معا بعد کی تحریکوں کا زمانہ ،جس کے نتیجے میں ہزاروں رہنما اسیر کیے گئے،دوسرے تحریک خلافت کے بعد سے آزادی ہند تک کا دور، جس میں بے شمار ہستیوں کو قید و بند کی ہوا کھانی پڑی،اور تیسرے’’ اندرا گاندھی ‘‘کے عہد حکومت میں ایمرجنسی کا دورانیہ، جس نے تحریک اسلامی سے وابستہ سیکڑوں اشخاص کی آزادی سلب کر لی ،غرض یہ کہ انیسویں صدی کی آخری دہائی اور بیسویں صدی کی آٹھ دہائیوں تک زندانی ادب کا دور دورہ رہا ہے ،اس کے بعدآخری دو دہائی میں اضافے کی شرح کچھ کم ہوئی،اور اکیسویں صدی میں آکر توایسا لگتا ہے کہ اس کی رفتار تھم سی گئی ہے،جس کے پس پشت بہت سی وجوہات ہیں ،مثلاًاردو زبان وادب پر طاری جمود، تغیرزمانہ کے تحت افکار وخیالات کا فرق،قرطاس وقلم کے علاوہ دگر ذرائع علم وخبرکی ترویج وترقی یا اس قسم کی تحریر وں سے قارئین کی عدم د ل چسپی، خیر!وجہ جو بھی ہویہ ایک تفصیل وتحقیق طلب بحث ہے، جس کی یہاں ضرورت نہیں ہے۔

 مشمولات :

’’زنداں نامہ‘‘کی اصطلاح میں جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا ہے ،علم و ادب کی تمام اصناف سما جاتی ہیں ؛اس لیے اس کی وسعت و ہمہ گیری کے ساتھ ساتھ اس کی ضخامت اور کثرت کا سر سری تذکرہ بھی تفصیل طلب ہے ، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کیفیت کے حساب سے موجودہ کمیت اور فہرست کے مطابق حالیہ ذخیرہ بھی ہزاروں پر مشتمل ہوتا ؛ لیکن کیا کیجیے کہ دست برد زمانہ ،گردش ایام ،میراث پدر کی جانب سے بے توجہی اور تاریخ سے ہماری بے رغبتی کی بنا پر تقریبا اس کا نصف حصہ ہم نے کھو دیا،تا ہم’’ زندانی ادب‘‘ کے نام سے جو ذخیرہ اب بھی دست یاب ہے ،اس کا شمار ہزاروں نہ سہی؛ سیکڑوں میں ضرور کیا جا سکتا ہے۔ یہاں ہم اس دست یاب ذخیرے کو درسی و مذہبی ،سوانحی و واقعاتی ،علمی و تاریخی ،نثری و شعری ،اور مکتوبات و متفرقات جیسے چند مرکزی عناوین اور کچھ اہم گوشوں میں تقسیم کر کے ہر ایک کے تحت کچھ اہم اور نمائندہ کتابوں کی نشان دہی کرتے ہیں ،جس سے آپ کو اس کی قامت و قیمت کا صحیح اندازہ ہو سکے ۔یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ زندانی ادب کا یہ موجودہ ذخیرہ دو قسم کی تحریروں پر مشتمل ہے،ایک وہ جو اصالتا اردو میں رقم کی گئی ہیں ،دوسرے دگر زبانوں (عربی ،فارسی،انگریزی اور ہندی وغیرہ)کے’’ زندانی ادب‘‘ کا وہ مجموعہ جسے اس کی عمدگی و خوبصورتی کے پیش نظرجامۂ اردو سے آراستہ کردیاگیا ہے۔

 درسی و مذہبی تصنیفات: 

دیگر عناوین کے مقابلے میں اس عنوان کے تحت نسبتاکم کتابیں پائی جاتی ہیں ؛لیکن پھر بھی اس ذیل میں جو کتابیں دست یاب ہیں ، ِوہ ـ ’’بہ قامت کہتر بہ قیمت بہتر‘‘ کی حقیقی مصداق ہیں ،مثلا: تحریک ریشمی رومال کے کارساز مولانا محمود حسن دیوبندی کا ’’ترجمہ قرآن مع حاشیہ‘‘ جو اسارت مالٹا کے زمانہ میں ۱۹۱۷؁ء تا ۱۹۱۸؁ تحریر کیا گیا، مشہورخطیب اور قائد آزادی مولانا ابوالکلام آزاد کا تر جمہ و تفسیرموسوم بہ ’’ترجمان القران‘‘ ،تحریک اسلامی کے بانی مولانا ابو الاعلی مودودی ؒ کی کتاب’’ تفیہم القران‘‘ اور’’ تفہیم الاحادیث ‘‘کے اکثر اجزا ،مفتی عنایت احمد کاکوری کے کچھ درسی رسالے، خصوصا علم صرف کی مشہور کتاب’’ علم الصیغہ‘‘کا اردو ترجمہ ،مولانا سید عروج احمد قادری کی ’’تفسیر سورہ یوسف‘‘ مشہور اخوانی رہنما سید قطب شہید کی تفسیر ’’فی ظلال القران‘‘ کا اردو ترجمہ ،ترکی کے اسلامی انقلاب کے روح رواں ’’ سعید نورسی ‘‘کے مختلف دینی رسالوں کے اردو تراجم، نیز اس طرح کی دیگر درجنوں کتابیں ،جو ہمارے درسی و مذہبی ذخیرے کے لیے مایۂ افتخار ہیں ۔

سوانحی و واقعاتی تصانیف :

یہ’’ ادب زنداں ‘‘ کی سب سے وسیع ، اہم اور دلچسپ صنف ہے، اسی پر اس کی بنیاد قائم اور اس کی عمارت استوا ر ہے ؛بل کہ حق تو یہ ہے کہ یہی وہ گوشہ ہے ،جس پر’’ زندانی ادب‘‘ کا کامل اور بلاواسطہ اطلاق ہو تاہے ،اس کے تحت اسماے کتب کی ایک طویل فہرست ہے ،’’مشتے نمونہ ازخروارے ‘‘چندبہترین اور اہم کتابوں کے نام پیش ہیں ،مولانا حسین احمد مدنی کی’’ نقش حیات ‘‘ ، اور’’سفرنامۂ مالٹا ‘‘،مولانا ابوالکلام آزاد کی ’’تذکرہ‘‘ ،رئیس الاحرار قاضی فضل حق کی ’’میرا افسانہ‘‘، مولانا حسرت موہانی کی ’’مشاہدات زنداں ‘‘،گاندھی جی کی خودنوشت سوانح ’’تلاش حق ‘‘،پنڈت جواہر لال نہرو کی ’’میری کہانی ‘‘ اور’’تلاش ہند‘‘،پروفیسر خورشید احمد کی’’تذکرئہ زنداں ‘‘ ،سید علی گیلانی کی ’’مقتل سے واپسی‘‘ اور ’’روداد قفس‘‘، افتخار گیلانی کی’’ تہاڑ میں میرے شب وروز‘‘، مہرکاجیلوی کی’’داستان زنداں ‘‘، امداد صابری کی’’ تاریخ جرم و سزا‘‘،ریاض الرحمن ساغر کی’’ سرکاری مہمان خانہ‘‘ ،عبد اللہ ملک کی ’’جیل یاترا‘‘،جاں باز مرزا کی’’ بڑھتا ہے ذوق جرم‘‘ ، عقیل جعفری کی’’ جیل خانہ‘‘ ،انجم زمرد جبیں کی’’ قیدی نمبر سو‘‘، محمد اکرم کی’’ قید یاغستان‘‘ ، برکت علی غیور کی’’ جرم جیل اور پولیس‘‘،زینب الغزالی کی عربی تصنیف کا اردوترجمہ’’ زنداں کے شب وروز‘‘ ،مخدوم جاوید احمد ہاشمی کی ’’ہاں میں باغی ہوں ‘‘، راجہ انور کی ’’قبر کی آغوش‘‘،یوسف رضاگیلانی کی ’’چاہ یوسف سے صدا‘‘،مفتی عبد القیوم کی’’ گیارہ سال سلا خوں کے پیچھے‘‘، ترک نژاد جرمنی صحافی مراد کرناز کی کتاب کا اردو ترجمہ’’ گوانتا نامو بے میں پانچ سال‘‘ اور حال ہی میں شائع ہو نے والی عبدالواحد شیخ کی’’ بے گناہ قیدی‘‘ ۔یہ تذکرہ ناقص رہ جائے گا اگر ذکر نہ کیا جا ئے ہند و پاک کے عظیم خطیب اور پا کستان کے مشہور صحافی’’ آغاشورش کاشمیری‘‘ کا، جن کی چھ سے زائد کتا بیں زندانی ادب کی اس صنف کا اہم حصہ ہیں ،یعنی: موت سے واپسی ،پس دیوارزنداں ،تمغۂ خدمت ،قید فرنگ ،بوے گل ،نالۂ دل دود چراغ محفل اور قیدی کا روز نامچہ ۔

   شعری مجموعے:

اس ذیل میں بہادر شاہ ظفر،مولانا حسرت مو ہانی ،مولانا محمد علی جوہر،مولانا ظفر علی خان ، شورش کاشمیری ،علامہ انور صابری، سردار جعفری ،حفیظ میرٹھی ،فراق گو رکھپو ری ،حبیب جالب ،احمد فراز ،اسرار جامعی اور دیگر انقلابی شعرا کے نام کافی اہم ہیں، ان حضرات کے مجموعۂ کلام اورکلیات کا بیش تر حصہ پس دیوار زنداں ہی تیار ہوا،یہاں فیض احمد فیض کا ذکر نہ کر نا بڑی نا انصافی ہو گی، جن کے دو اہم مجمو عۂ کلام کا سبب ہی قید وبند کے ساڑھے تین سالہ ایام بنے، یعنی’’ دست صبا‘‘ اور’’ زنداں نامہ‘‘، جو اب ان کی کلیات کاایک اہم حصہ ہے ۔

  مکاتیب:

موجودہ مواصلاتی نظام کی ترویج وترقی یا ان کے وجود سے پہلے؛ بل کہ کچھ حد تک اس کے بعد بھی قید کیے جا نے والے اکثر اہل علم ،صحافی ،شعرا اور ادیبوں نے باہری دنیا سے تعلقات کے لیے مکتوبات ہی کو ذریعہ بنایا ، یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے کچھ ہی زیور طبع سے آراستہ ہو ئے ؛ورنہ اکثر یا تو دست برد زمانہ سے محفوظ نہ رہ سکے یا پھر ان کے متعلقین نے کسی وجہ سے انھیں قابل توجہ نہ گردانا ،پھر بھی زندانی ادب کے موجودہ ذخیرے میں دسیوں مجموعۂ مکاتیب کا ذکر ملتا ہے، مثلا: مولانا ابوالکلام آزاد کی ’’غبار خاطر‘‘ ،فیض احمد فیض کی’’ صلیبیں میرے دریچے میں ‘‘ ،سجاد ظہیر کی’’ نقش زنداں ‘‘ ،خرم مرا د کی’’ لمحات زنداں ‘‘،میا ں محمد طفیل کی’’ مکاتیب زنداں ‘‘ ،انعام الرحمن خاں کی’’ میسا کے شگوفے‘‘ اور’’ زنداں کا داعی‘‘ ،شہید اشفاق اللہ خاں کی’’ ماں کے نام خطوط‘‘ اور مولانا مودودی کے’’ زندانی مکاتیب ‘‘جو ان کے مجموعۂ مکاتیب میں شامل ہیں ۔

علمی، تاریخی ،فکری اور اصلاحی کتابیں :اوپری سطور میں ذکر کردہ اصناف کے تحت شامل ہو نے والی کتابوں کے علاوہ باقی تمام کتابیں اسی صنف کے تحت رکھی جاسکتی ہیں ، ا س میں متعدد اہل علم اور مختلف دانشوران کی خوب صورت اور بہترین تحریریں شامل ہیں ،مثلا: مصرو اسکندریہ کی اسارت کے دوران تصنیف کی گئی علامہ ابن تیمیہ کی چند کتابیں ،مختلف جیلوں میں تحریر کیے گئے مولانا ابوالکلام آزاد کے چند رسالے اور کتابچے ،ایام تعذیب وابتلا کے دوران سپرد قرطاس کی گئی سید قطب شہید کی متعدد تحریروں کے اردو تراجم ،مولا نا مودودی کے چنداہم علمی رسائل ،’’زمیندار‘‘ میں شائع ہونے والے مولانا ظفر علی خاں کے بہت سے علمی و ادبی مضامین ،مولانا غلام رسول مہر و عبدالمجید سالک کی چند تاریخی و تحقیقی کتا بیں ،ایڈیٹرروزنامہ’’ جسارت‘‘ پاکستان صلاح الدین مرحوم کی مشہور کتاب ’’بنیادی حقوق‘‘ اور مولانا عبد العزیز مدرا سی کی اہم کتاب’’ اللہ کی نشا نیاں ‘‘ ۔

 امتیاز وخصوصیت:

جس طرح اردو ادب کے تمام اصناف (خواہ وہ نثری ہوں جیسے ناول ،افسانہ ،سوانح،خاکہ، سفرنامہ،اور تنقید وغیرہ یا شعری جیسے نظم ،غزل،مثنوی،مراثی اور رباعی وغیرہ)کچھ خصوصیتــــوں میں مماثلت ومشارکت کے علاوہ کسی نہ کسی خاص وصف اور جداگانہ امتیاز سے اپنی شناخت رکھتے ہیں ، ٹھیک اسی طرح اس صنف کی بھی کوئی خاص خوبی اور انفرادی پہچان ہو نی چاہیے ،اس حوالے سے میری نظر میں اس کے اندر دو خاص خوبیاں پائی جاتی ہیں ،ایک تو یہ کہ چو ں کہ اس کا دائرئہ اطلا ق کا فی وسیع اور ہمہ گیرہے؛ ا س لیے اوپر ذکر کردہ ہر صنف کی جداگانہ خوبیوں میں اس کا مکمل حصہ ہے ،’’آں چہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری ‘‘،دوسرے یہ کہ تحریر میں تاثیر کے حوالہ سے مشہور محاورہ ہے’’ از دل خیزد ،بر دل ریزد ‘‘یعنی تاثیر کا ایک بڑا ذریعہ خلوص و اخلاص اور سوزوگداز ہو ا کر تا ہے، ویسے تو خلوص اور سوز حقیقتا آدمی کے اندرون سے تعلق رکھتے ہیں ؛ لیکن بسا اوقات کچھ خارجی حالات بھی ان کو وجود میں لا نے کے لیے سازگار ثابت ہو تے ہیں ، مثلا: عشق،فنا،درداور ستم ہاے روزگار وغیرہ ،ٹھیک اسی طرح یہاں بھی گردش ایام، جیل کی ہولناکیاں ،اسارت کی سختیاں اور قید کی تلخیاں لکھنے والے کے قلم میں خاص سوزوگداز پیدا کر دیتی ہیں ، جن کی وجہ سے اس کی تحریر کے اندر ایک عجیب قسم کی اثر آفرینی اور طلسم پیدا ہو جا تا ہے ۔

حرف آخر:

یہ تھا مبتدیانہ طرز اور طالب علما نہ سطح پر’’ ادب زنداں ‘‘ کا ایک مختصر تعا رف اور اجمالی جائزہ، جس میں اصناف کے تعین سے  لے کر کتابو ں کے انتخاب اور مصنفین کے تذکرے تک کا سارا دارومدار محض مضمون نگار کے نا قص مطالعہ اور محدود معلومات پر مبنی تھا ، جس کی بنا پر چند باتیں تشنۂ تحقیق اور کچھ گوشے ادھورے رہ گئے ،اور سچ تو یہ ہے کہ وہ تفصیل اس مقام کے مناسب بھی نہ تھی ،اس کے لیے تو ایک ضخیم کتاب اور تحقیقی و تنقیدی مقالہ کی ضرورت ہے؛ لیکن افسوس اس بات پرہے کہ اردو کی اتنی قدیم اور وسیع صنف ہونے کے باوجو اس کی طرف ناقدین و مورخین ادب نے توجہ دینے کی زحمت گوارہ نہ کی، ہا ں !اس موضوع پرکچھ یونیورسیٹیوں میں ایک آدھ پی ایچ ڈی وایم فل کے مقالے ضرور تحریر کیے گئے ہیں ، جن میں ڈاکٹر سعادت صدیقی کی کتاب’’ اردو کا زندانی ادب انیسویں صدی میں ‘‘،(مقالہ برائے پی ایچ ڈی لکھنؤ یونیورسیٹی )اور ڈاکٹر فاروق خاں کی کتاب’’ اردو کا زندانی ادب‘‘ (مقالہ برائے پی ایچ ڈی علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی)قابل ذکر ہے، سچ تو یہ ہے کہ ان اسکالروں نے اپنے مقالہ کو کتابی صورت دے کر بہ حیثیت صنف اس کے نام کو زندہ رکھا؛ ورنہ ادب کے ٹھیکے داروں نے اسے ختم کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی ۔

ان حالات کے پیش نظراس بات کی شدیدضرورت ہے کہ مختلف زاویوں سے تحقیق اور تنقید کے اعلی معیار کو ملحوظ رکھ کرگہرائی اور گیرائی کے ساتھ اس موضوع کا جائزہ لیا جا ئے،جدید ذرائع کتابت و حفاظت کو بہ روئے کار لا کر موجو دہ ذخیرہ کو بر قرار رکھنے کے ساتھ ساتھ قدیم ،ضائع شدہ اورناقابل استفادہ حصو ں کے بازیافت کی سنجیدہ کوشش کی جا ئے ،دیگر اصناف سے موازنہ کر کے اس کی انفرا دیت، امتیاز اور خصوصیات کو اجاگر کیاجا ئے اور اس کے معیار، اسلوب ،اصول اور قواعد سے بحث کی جائے۔ البتہ یہ بات یقینی ہے کہ یہ کا م صرف انفرادی سطح پر مشکل ہے؛لہذا اس کے لیے وابستگان ادب کو انفرادی واجتماعی دونوں حیثیتوں سے آگے آنا ہوگا؛ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ادب کی کچھ قدیم اصناف کی طرح یہ صنف بھی گوشۂ گم نامی میں جا پڑے اور دبستان ادب اپنے ایک اہم حصہ سے ہمیشہ کے لیے ہاتھ دھو بیٹھے ۔

تبصرے بند ہیں۔