اسلامی اور ادبی انقلاب، مگر فیس بُک پر!

صفدر امام قادری

جسے سوشل میڈیا کا نام دیا جاتا ہے، اس کے استعمال میں اکثر اردو آبادی کے لوگ بے اعتدالی سے سرگرم نظر آتے ہیں ۔ یہیں فردِ جرم عائد کرتے ہیں ، یہیں صفائی طلب کرتے ہیں اور یہیں آخری فیصلے بھی سنا دیے جاتے ہیں ۔ گواہان کے طور پر بغیر دیکھے اور پڑھے پسند کرنے والوں کی سب سے بڑی تعداد رہتی ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا کہ کسی نازک معاملے میں چند گھنٹوں میں کسی اہم یا غیر اہم موضوع یا شخصیت کو اتنی جلدی سزاوار بنادیا جاتا ہے جس کے لیے غالبؔ نے کہا تھا: جتنے عرصے میں مرا لپٹا ہو ابستر کھُلا۔

 ابھی حال میں کئی ایسے معاملے نظر میں آئے جن کے سلسلے سے خاص طور پر اردو کے مشہور و معروف ادبا و شعرا سرگرمِ عمل نظر آئے۔ اکثر دوسری یا تیسری سطح کے ذرائع پر انحصار کرتے ہوئے کسی ادارہ یا شخص کے کردار کو مسخ کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ کئی بار چند گھنٹوں یا کچھ دنوں تک کردار کُشی کا سلسلہ رہا اور پھر کسی متوقع مشکل گھڑی یا قانونی طور پر نشانہ بننے کے خوف سے اسے حذف کردینے کا کام بھی کرتے ہیں ۔

  ہندستان میں سوشل میڈیا کی عمومی عمر دس برس سے کچھ زیادہ نہیں ۔ جہاں اور جن ملکوں میں اس کا استعمال پہلے سے ہے، وہاں اس کے آداب اور خاص طور پر قوانین بھی بن چکے ہیں اور اس کا غلط استعمال کرنے والوں کو جیل کی چہار دیواریوں تک بھی پہنچنا پڑتا ہے۔ ہندستان میں ابھی عمومی جرم کے مسئلے ہی سوشل میڈیا کے حوالے سے قابلِ غور ہوتے ہیں مگر وہ دن دور نہیں جب عمومی آزادیِ فکر کے نام پر خلفشار، انتشار، اتّہام، کردارکشی اور قاعدے قوانین کو پسِ پشت ڈال کر سوشل میڈیا کو استعمال کرنے والوں کو عوام اور انتظامیہ کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا۔

 مثالیں دی جائیں اور الگ الگ اشخاص کے غیر معتدل کارناموں کو ان کے نام کے ساتھ پھر ایک بار عوام کے سامنے پیش کریں تو انھیں رسوائی ہی ہاتھ لگے گی، اس لیے اس سے احتراز کرتے ہوئے چند نکات قابلِ غور ٹھہرتے ہیں :

(الف) ہمارے بعض ادبا و شعرا خود کو ایسا مثالی کردار کیوں کر سمجھتے ہیں ؛ جیسا وہ ماں کے پیٹ سے معصوم پیدا ہوئے ہوں ؟

(ب)   اسی طرح وہ لوگ دوسرے لکھنے والوں کو ہیچ، بدذات، بے ایمان سمجھنے کی مذموم حرکت کیوں کرتے ہیں ؟

(ج)    ادیبوں اور شاعروں کے عمومی قافلے میں خود کو ’’بڑا‘‘، ’’عظیم‘‘ اور ’’معتبر‘‘ سمجھنے کو دوسروں کو بے سطح کرنے میں انھیں کس احساسِ تفاخر سے پالا پڑتا ہے؟

(د)     ممکن ہے کہ آپ کے پاس علم کا آخری خزانہ ہو یا ہاتھ آگیا ہو مگر یہ کیوں نہیں یاد آتا کہ کسی دوسرے کو بھی خدا نے اُسی انداز کا خزانہ سونپ دیا ہو اور آپ کو یہ سب نہیں معلوم ہو؟

(ہ)     ہمارے بعض ادبا و شعرا مذہبیات، سیاسیات، جغرافیہ، ادبیات، ادبیاتِ عالم، جرائم، ادارہ سازی، حکومت سازی، قانون سازی اور نہ جانے کن کن موضوعات پر مکمل استناد کے ساتھ اپنی رائے دیتے نظر آتے ہیں ۔ آخر ان کا علم چند سطروں کے بیانات کے بعد کہاں چلا جاتا ہے؟

(و)    ادبا و شعرا میں ماہرِ فلکیات، ماہرِ جن، ماہرِ جنس، ماہرِ افواہ وغیرہ کی بھی کمی نہیں لیکن یہ سب بھی فیس بُک پر چند سطروں میں اپنے علم کے جلال سے دست بردار ہوجاتے ہیں ۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟

آج ایسی سرگرمیوں سے ایک بڑا طبقہ پریشان ہے۔ پورے ملک میں ایک نہیں تو دو ہاتھ کی انگلیوں پر ایسے اشخاص کی پہچان کی جاسکتی ہے جنھوں نے اپنے ادبی اور تخلیقی کام کے بجاے سوشل میڈیا پر پچاس اور سو لفظوں میں اپنے مطالعے کے فہم و فکر کے نتائج پیش کرنے میں مہارت حاصل کرلی ہے۔ بے شک بعض اوقات چند باتیں غور و فکر کی ہوتی ہیں مگر اکثر و بیش تر سنسنی خیزی اور بے اعتدال اندازِ فکر سے تعلق رکھتی ہیں اور ان میں ادبی سیاست کے کھیل تماشے شامل ہوجاتے ہیں ۔

   فیس بک پر جب ایک سو ادیب ’’دین بچائو، دیش بچائو‘‘ ریلی کی مناسبت سے اچانگ گفتگو کرتے نظر آئے تو تعجب اس بات پر ہوتا ہے کہ آخر اب سے قبل یہ حضرات کہاں تھے؟کسی ملّی مسئلے پر انھوں نے کتنے برس کی تحقیق کی یا ان کی اس قدر گہری توجہ پیدا ہوگئی تو ذرا دوچار پانچ برس اس موضوع پر اپنے افکار و نظریات کا نچوڑ پختہ روشنائی میں پیش کریں تاکہ دوسرے فریق بھی آپ کو قابلِ غور بناسکیں ۔ یہ کیا کہ کوئی واقعہ ہوا اور اسے یک رُخے یا دو رُخے مگر بے اعتدالی کے ساتھ دیکھنے لگے۔ یہ علمی تنک مزاجی ہے۔ یہ سَستا پن ہے۔ اس سے کسی کا کردار مسخ کیا جاسکتا ہے مگر کوئی بڑا قومی افادہ ممکن نہیں ۔

  اسی طرح کسی ادارے نے کسی کو ایوارڈ دیا، کسی نے اعزاز بخشا یا کوئی بڑا یا چھوٹا سے می نار منعقد کیا، دوچار یار لگ گئے فیس بُک پر۔ یہ سب کام غیر اخلاقی قرار دے دیے گئے۔ ’’پسند‘‘ کرنے والے بھی میدان میں آگئے اور سوتیا ڈاہ میں اپنی رائے پیش کرنے والے بھی آگئے۔ کمال یہ ہے کہ جب انھیں انعام ملے تو کوئی بائیکاٹ کرنے کی مہم شروع نہیں ہوگی۔ انھیں سے می نار میں دعوت ملی یا مشاعرے میں بہ حیثیتِ شاعر آواز کا جادو جگانے کا موقع دے دیا گیا تو سب ٹھیک۔ اسے ادبی دہشت گردی نہ بھی کہا جائے تو کیا اسے خوف کا ماحول پیدا کرکے اپنا الّو سیدھا کرنے کی مہم نہ مانا جائے۔

سوال یہ ہے کہ فیس بُک پر اپنے کاموں کے لیے لوگوں کی آرا کیوں نہیں طلب کی جاتی؟ یہ بھی تو محاسبے کا حصّہ ہو کہ اس مہینے آپ کی بیس پوسٹ بکواس تھی یا ان میں ادبی اعتناد، بغض اور عداوت کی شمولیت تھی۔ آپ برسرِ اعلان اسی سے برأت کا اعلان تو کریں۔

 ہمارے ادبا اور شعرا جو فیس بُک کے ماہرین میں شمار کیے جاتے ہیں ، انھیں اردو کے اساتذہ اور ہونہار طلبہ سے چڑ ہے۔ بے شک اردو کے بعض اساتذہ نااہلی میں مبتلا ہیں اور وہ کام نہیں کررہے ہیں جن کے لیے اُن کی تقرری ہوئی تھی مگر سارے شعرا و ادبا اگر تمام اساتذۂ اردو کو بے اصل قرار دے رہے ہیں تو ہمارا سوال یہ ہے کہ ان کی زبان و قواعد کی درستگی کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا ان کے قارئین آسمان سے اُتر کر آرہے ہیں ؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سارے شعرا و ادبا کو نقادوں اور اساتذہ سے مضامین تو چاہیے ہی۔ انھی کے سرٹی فیکیٹ سے وہ ادبی میدان میں اپنے دنگل کے خواہاں ہوتے ہیں ۔ نارنگ، فاروقی، شمیم حنفی کی کون کہے، شافع قدوائی، عتیق اللہ وغیرہ بھی لکھ دیں تو خوشی ہوگی مگر اساتذہ کی مذمّت کو ایسے تمام لوگوں نے پیشہ بنارکھا ہے۔

سوال بنیادی یہ ہے کہ جمہوری نظام میں تمام کام آپ کے اشارے سے نہیں ہوں گے۔ سارے کام آپ کی پسند سے بھی نہیں ہوں گے۔ یہ بھی یاد رہے کہ تمام باتیں جو آپ کے ذہن میں آتی ہیں ، وہ سب درست ہی ہیں اور آپ کے سامنے مخالف سمت میں جو کچھ ہے، وہ غلط اور واہیات ہی نہیں ہے۔ یہیں سے جمہوری اندازِ نظر کی بنیاد پڑتی ہے جہاں فتوے بازی، اتّہام سازی اور کیچڑ اچھالنے کے عمل کے بجاے صلاح و مشورہ، ایک دوسرے کے کاموں پر سنجیدگی سے غور و فکر اور خوبیوں خامیوں پر نگاہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔ جمہوریت میں کوئی ایک دوسرے سے اونچا نہیں ہوتا ہے۔ اگر ان باتوں پر سنجیدگی سے سوچیے تو روز روز کی فیس بُکی عدالت کے کوئی معنیٰ نہیں ہوتے۔

  بعض گوشوں سے یہ بھی بات کہی جانے لگی ہے کہ یہ فیس بُک کنگ ادب اور سماج میں خبر میں بنے  رہنے کے لیے یہ ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں ۔ مگر سوال یہ ہے کہ کسی ادیب اور شاعر کو اس کی تخلیق کے حوالے سے شناخت نہ ملے اور وہ صرف اس لیے جانا جائے کہ اس نے اس سے می نار کا بائیکاٹ کیا، اس کے ایوارڈ کے خلاف مہم چلائی تو یہ بالآخر گھاٹے کا ہی سودا ہوگا۔ صاحب آپ کے قلم کی روشنائی سوکھ گئی ہو، آپ کے تخلیقی سوتے خشک ہوتے جارہے ہوں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اپنی ادبی تنک مزاجی اور فکری بے اعتدالی کے مظاہر عام کریں اور سماج میں انتشار پھیلائیں ۔ یہ نامناسب ہے۔

اردو کے عام معاشرے سے میری گزارش ہوگی کہ وہ فیس بک پر دہشت گردی یا انتشار پھیلانے والے باہری دشمنوں کو تو دیکھیں ہی مگر اپنے حلقے کے افراد کو بھی پہچانیں اور ان سے اپنی علاحدگی کا سلیقہ اپنائیں ۔ اس سے منفی جہت میں سنجیدہ لوگوں کو لے چلانے کی مہم ختم ہوگی اور سازشانہ مزاج کے ادیبوں اور شاعروں پر قدغن لگے گی۔ اگر اس سلسلے سے وقت رہتے کوشش نہیں ہوئی اور ہماری نئی نسل بھی اس میں شامل ہوگئی تو خدا کی پناہ۔ کتابوں اور رسالوں کی اہمیت ابھی بھی ختم نہیں ہوئی، اخبارات بھی موجود ہیں ۔ ان کے حوالے سے پختہ روشنائی میں کسی اہم اور ضروری مسئلے پر بحث چلائیں ، عوامی دربار میں جائیں ، شاید صحیح نتیجہ بھی حاصل ہوگا اور سازشی افراد کی بہ آسانی پہچان بھی ہوسکے گی۔ نقلی آئی ڈی والے بھی اس مہم میں آسانی سے پہچانے جائیں گے۔ اب وقت آگیا ہے کہ سوشل میڈیا میں اردو آبادی کی جواب دہی اور تہذیب یافتگی دونوں کی پہچان ہو ورنہ ہم کسی لمحے بھی اس کے مضر اثرات کے حلقے میں تباہی و بربادی کے راستے نکل پڑیں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔