اسلامی دہشت گردی بنام مذہبی سیاست

محمد حسن

اسلام امن وشانتی اور صلح وآشتی کا مذہب ہے، بڑے بڑے محققین اور مفکرین نے اپنا آخری اور حتمی فیصلہ یہی دیا ہے، دین اسلام امن کی تعلیم اور صلح کا پیغام دیتا ہے، خالق کائنات نے جس نبی کو اس دین کا قائد بنا کر بھیجا اس کو امن کا پیغامبر نام دیا اور جس دین کا اس کو پیروکار بنایا اور سارے انسانوں کو اتباع کا حکم دیا اس میں ہر طرح کی بھلائی اور خیر کا پہلو بتایا اسے اسلام نام دیا اور اغیار کی اتباع میں شر اور بدی کا پہلو غالب بتایا اسے غیرِ اسلام نام دیا، اس روئے زمین پر جتنے مذاہب پائے جاتے ہیں ان میں سب سے اعلی مذہب جامعیت اور اتباع کے حساب سے مذہب اسلام ہے اور جس لفظ سے اس مذہب کو جانا جاتا ہے اس کا نام ہی سلامتی ہے یعنی مذہب اسلام ‘سلامتی’ کا مذہب ہے اور اس مذہب سے سب سے پہلے سلامتی اور تحفظ کا پیغام دوسروں تک جاتا ہے، اس دنیا کے دیگر مذاہب میں بھی سلامتی کی تعلیم ہے حفاظت وتحفظ اور امن وشانتی کا پیغام ہے لیکن مذہب کے نام سے ہی اس بات کا پیغام جاتا ہو کہ یہ مذہب سلامتی کا مذہب ہے ایسا کوئی مذہب نہیں ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ مذاہب عالم انسانیت کی فلاح وبہبود اور شخصی زندگی کی ارتقاء کے لئے بنائے گئے ہیں، ان کے ارشادات واحکامات کا مقصد صرف اور صرف انسانوں کو ہر اعتبار سے کامیاب زندگی مہیا کرانا اور انہیں ایسے اصول وقوانین کا پابند بنانا ہے جس سے وہ اپنی زندگی اور معیار زندگی کوخوشنما بنا سکیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مذہب اسلام میں جو جامعیت ہے اور جو معیار زندگی اس کے متبعین کو عطا کیا گیا ہے وہ کسی اور مذہب میں نہیں ہے۔

مذہب اسلام ہر طرح کے عیب سے پاک اور نقصان سے خالی ہے یہ الگ بات ہے کہ ہر دور میں کچھ ایسے لوگ مسلمانوں میں ہی رہے ہیں جو اس کی شبیہ بگاڑنے کی پوری کوشش کرتے رہے ہیں اور کچھ ایسے سیاسی قائدین بھی پائے گئے ہیں جو اس کے قوانین کو نشانہ بنانے سے چکے نہیں ہیں اور اپنی سیاسی روٹیاں سینکتے رہے ہیں اور خود تو ذلیل وخوار ہوتے ہی ہیں ساتھ ہی ساتھ ساری امت اسلام کو بھی ذلت کی نگری میں لا کر کھڑا کر دیتے ہیں، بے جا اعتراضات اور بے بنیاد سوالات جس کا نہ عقل سے کوئی تعلق ہوتا ہے اور نہ ہی فلسفہ جس پر منطبق ہوتا ہے اور دلائل سے واسطہ تو بھلا بہت دور کی بات ہے ایسے مباحث چھیڑ کر مذہب اسلام کو رسوا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن ان کے ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود بھی جب انہیں کامیابی نہیں ملتی ہے تو  وہ وقتی طور پر خاموش تو ضرور ہوجاتے ہیں لیکن ہمیشہ موقع کی تلاش میں لگے رہتے ہیں اور ان کی کوشش صرف یہ ہوتی ہے کہ کس طرح اس مذہب کی چھوی بگاڑی جاسکتی ہے اس کی جستجو کی جائے اور نتیجتاَ کوئی موقع اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

مذہب اسلام ایک مقدس مذہب ہے اور اس کی تعلیمات پاک اور صاف ہیں، دور دور تک دہشت ووحشت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے، اسلام کی تاریخ میں ایسے سینکڑوں مثالیں ملتی ہیں جس سے بہرے اور اندھے کو بھی یہ بات سمجھ میں آجائے کہ یہ امن کا مذہب اور صلح کا داعی ہے، بیشتر مقامات پر جنگوں میں قیدیوں سے کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے ساتھ عفو درگزر کا معاملہ ہی ان کے اسلام کا پیروکار بننے کا سبب بنا، بچوں کے ساتھ نرمی، عورتوں کے ساتھ احترام اور بزرگوں کے ساتھ رحم دلی کا معاملہ کرنے والا مذہب بھلا ظلم کی تعلیم کیسے دے سکتا ہے، ایسے وقت میں جب ہر طرف اسلام کا پرچم لہرا رہا ہو اور مجرمین صفیں لگائے سزا دئے جانے کا انتظار کر رہے ہوں اور ان کے ساتھ رحم وکرم کا معاملہ کرنے والا مذہب جو یہ کہ کر انہیں آزاد کردے کہ جاؤ آج تم سب کے سب آزاد ہو، تم پر کوئی سرزنش نہیں، تمہارے سارے گناہ معاف، تمہاری ساری غلطیاں درگزر، تمہارے سارے جرم بھلا دئے گئے ایسے مذہب کو زوروزبردستی اور دحشت ووحشت سے جوڑنا قطعی درست نہیں ہے اور ایسا کرنے والے کی مذمت کی جانی چاہئے اور اسے سخت سے سخت سزا کا مستحق قرار دیا جانا چاہئے۔

مذہب اسلام کی تاریخ سے واقفیت رکھنے والے اشخاص چاہے کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں اور مفکرین ومدبرین جو اسلام پر تحقیق کرتے ہیں یا کرچکے ہیں سب کا متفقہ فیصلہ یہی ہے کہ دنیا کی بھلائی محمد عربی کو نبی ماننے اور اسلام کا پیروکار بننے میں ہے، ایک انگریزی ادیب اپنی کتاب دی لائف آف محمد میں لکھتا ہے کہ‘‘ موجودہ عالمی مسائل کا حل یہی ہے کہ محمد کو نبنی مان لیا جائے اور اسلام کو مذہب قبول کرلیا جائے تبھی جا کر ہم ایک صالح اور کامیاب معاشرہ کا تصور کرسکتے ہیں’’ یہ انسیت کسی مفاد کے بنا پر نہیں بلکہ اس حقیقت اور تعلیم کے بنا پر ہے جو اسلام اور اس کے پیروکاروں کے ذریعہ ملتی ہیں۔

قرآن پاک میں جگہ جگہ صلح رحمی کی تعلیم اور زوروزبردستی سے باز رہنے کا حکم ہے، برائی پر عقاب اور اچھائی پر مزدہ سنایا گیا ہے، ایک انسان کا ناحق خون بہانے کو ساری انسانیت کا قتل اور ایک بے گناہ کے جان کی حفاظت کو ساری انسانیت کی حفاظت قرارد دیا گیا ہے اور کھلے لفظوں میں یہ کہ دیا گیا ہے اسلام میں زور اور زبردستی نہیں ہے تم اپنے من اور ارادے کے خود مالک ہو، ایسے پاک اور صاف مذہب کو دہشت سے جوڑا جاڑا جارہا ہے اور نصاب تعلیم بھی اسلامی دہشت گردی کے نام سے بنائی جارہی ہے، جس مذہب میں دہشت کا وجود ہی نہیں ملتا اسے دہشت گردی سے کیسے جوڑا جاسکتا ہے یہ ایک عجیب بات ہے ایسے حالات دیکھ کر اور یہ زیادتی سن کر امن ماتم کناں ہے اور صلح وآشتی اشکبار ہے۔

دہشت گردی صرف کسی ایک قوم یا ملک کا نہیں بلکہ ایک عالمی مسئلہ ہے اسے کسی بھی مذہب، ملک یا قوم سے جوڑنا درست نہیں ہے، دہشت گرد کا کوئی مذہب، ملک اور نہ ہی کوئ قوم  ہوتا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو اور اچھا ہوگا کہ دہشت گرد انسان بھی نہیں ہوتا اور اس کے مادر وپدر بھی نہیں ہوتے، سماجی زندگی سے اس کا کوئی تعلق بھی نہیں ہوتا ورنہ انسانوں کے بیچ رہنے والا اور ان کے دکھ درد محسوس کرنے اور سمجھنے والا شخص بھلا کسی معصوم کا جان کیسے لے سکتا ہے اور دنیا کے سارے مذاہب تو انسانیت کے تحفظ کے لئے بنائے گئے ہیں بھلا یہ کسی انسان  کی جان کا داؤ کیسے لگا سکتے ہیں، کسی بھی مذہب پر انگشت نمائی کرنا اپنے وجود پر سوالیہ نشان لگانا ہے اور اپنی انسانی تاریخ کا تہس نہس کرنا ہے۔

دنیا کا کوئی بھی مذہب اور کوئی بھی معاشرہ دہشت گردی کو  قبول کرتا ہے اور نہ ہی دہشت گرد کو پناہ دیتا ہے لیکن خاص طور سے اسلام سے دہشت گردی کو جوڑنا اور دہشت گردی کو اسلامی دہشت گردی یا دہشت گرد کو اسلامی دہشت گرد کا نام دینا اور اسلامی دہشت گردی کے نام سے تعلیمی اداروں میں نصاب داخل کرنا یہ ایک ذلیل حرکت ہے جسے گوارا کیا جانا درست نہیں اور ایسے کرنے والوں کو قانون سے سزا ملنی چاہئے، سیاست ایک ملک کو صحیح سمت میں لے جانے کا ایک آلۂ کار ہے لیکن سیاست کو مذہب کا رخ دینا اور کسی ایک خاص فکر سے سیاست کرنا اچھی بات نہیں ہے، سیاست تعمیری عمل ہے، تخریبی نہیں اور بنیادی مسائل کو طاق پر رکھ کر اگر ذات پات کی سیاست کی جائے اور کسی خاص فکر اور تعصب کو حربہ بنایا جائے تو اس سے تباہی مچے گی خوشحالی نہیں آئے گی اور انجام کیا ہوگا سب جانتے ہیں، خون خرابا، فتنہ فساد اور تباہی وبربادی ہوگی اس لئے سیاست کو تعمیری بنانے کی ضرورت ہے اور تعلیم کو اصلاحی اور دہشت گردی کو ایک عالمی مسئلہ سمجھ کر اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہے نہ کہ اسے کسی مذہب یا قوم سے جوڑ کر سیاست کی جانے کی ضرورت ہے ایسا کرنا غلط ہے اور ایسا قدم ایک ذلیل حرکت ہے، اس کی مذمت کی جانی چاہئے اور انسدادی مہم چلائی جانے چاہئے جس سے شر پسندوں کا حوصلہ ٹوٹے اور وہ اپنے ناپاک سازشوں میں ناکام ہوں اور انہیں پتہ چلے کہ سچائی کا بول بالا ہوتا ہے اور جھوٹ مِٹ جاتا ہے، حق غالب ہوتا ہے اور باطل کی ہوا اکھڑ جاتی ہے۔

2 تبصرے
  1. Badrudduja کہتے ہیں

    Bht khoob , masha allsh

    1. محمد حسن کہتے ہیں

      شکریہ، جزاکم اللہ خیرا

تبصرے بند ہیں۔