مودی جی! یہ جو پبلک ہے، یہ سب جانتی ہے

سہیل انجم

1974 میں ایک فلم آئی تھی ’’روٹی‘‘۔ سپر اسٹار راجیش کھنہ نے اس میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اس میں آنند بخشی کا لکھا، کشور کمار کا گایا اور راجیش کھنہ پر فلمایا گیا ایک نغمہ بہت مقبول ہوا تھا۔ اس کے بول تھے: ’’یہ جو پبلک ہے یہ سب جانتی ہے، یہ جو پبلک ہے۔ اجی اندر کیا ہے اجی باہر کیا ہے، یہ سب کچھ پہچانتی ہے۔ یہ چاہے تو سر پہ بٹھا لے چاہے پھینک دے نیچے، پہلے یہ پیچھے بھاگے پھر بھاگو اس کے پیچھے۔ دل ٹوٹے تو، یہ روٹھے تو، توبہ کہاں پھر مانتی ہے۔ یہ جو پبلک ہے یہ سب جانتی ہے‘‘۔ 31مئی کو جب کئی ریاستوں میں ہونے والے چار پارلیمانی اور گیارہ اسمبلی نشستوں کے لیے ضمنی انتخابات کے نتائج آئے تو یہ نغمہ خوب یاد آیا۔ اس نغمے میں آگے ہے کہ ’’کیا نیتا کیا ابھنیتا، دے جنتا کو جو دھوکہ۔ پل میں شہرت اڑ جائے، جیوں ایک پون کا جھونکہ۔ زور نہ کرنا شور نہ کرنا، اپنے شہر میں شانتی ہے‘‘۔ یہ نغمہ آج بی جے پی کی فرقہ وارانہ سیاست پر پوری طرح صادق آتا ہے اور یہ پیغام دیتا ہے کہ عوام کو مذہب کے نام پر ایک بار تو بیوقوف بنایا جا سکتا ہے بار بار نہیں۔ جس نے بھی ان کو دھوکہ دیا وہ لیڈر ہو یا اداکار اس کی شہرت عوام کی مٹھی میں ہے، وہ جب چاہے اسے خاک میں ملا دے اور جب چاہے آسمان پر بٹھا دے۔

2013 میں اترپردیش کے مظفر نگر میں مسلمانوں اور جاٹوں کے مابین بھیانک فرقہ وارانہ فساد ہوا تھا جس میں متعدد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد آنے والے پارلیمانی الیکشن میں بی جے پی نے فرقہ وارانہ نفرت کی ہوا کو آندھی میں تبدیل کیا اور کیرانہ کی پارلیمانی سیٹ جیت لی۔ بی جے پی کے ایم پی حکم دیو سنگھ نے اس کے بعد بھی اپنی فرقہ وارانہ سیاست کو خیرباد نہیں کہا اور یہ بیان دے کر کہ کیرانہ سے ہندووں کا پلاین ہو رہا ہے، وہ مسلمانوں کے خوف سے گھر بار چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں اور کیرانہ کشمیر بن گیا ہے، پورے ملک میں سنسنی پھیلا دی تھی۔ حالانکہ جب تحقیق ہوئی تو یہ دعویٰ بے بنیاد ثابت ہوا۔

اسی درمیان یو پی کی یوگی حکومت نے ایک بار پھر مذہب کا کارڈ کھیلنے کی کوشش کی۔ لیکن جنتا تو بہت ہوشیار ہوتی ہے اس کو اس کے پس پردہ مقاصد فوراً سمجھ میں آگئے اور مسلمانوں اور جاٹوں میں اتحاد قائم ہو گیا۔ ادھر ایس پی، بی ایس پی اور آر ایل ڈی میں اتحاد ہو گیا۔ اس طرح بی جے پی کا پورا کھیل چوپٹ ہو گیا۔ مرحوم منور حسن کی بیوہ اور آر ایل ڈی کی امیدوار تبسم حسن کامیاب ہو گئیں۔ اسی طرح نورپور اسمبلی انتخاب میں بھی اپوزیشن اتحاد نے جلوے دکھائے اور وہاں سماجوادی کے نعیم الحسن کو کامیابی ملی۔

چار پارلیمانی حلقوں میں سے دو پر اپوزیشن کو، ایک پر بی جے پی اور ایک پر بی جے پی کی حمایت یافتہ محاذ کو کامیابی ملی۔ سیاسی مشاہدین کا کہنا ہے کہ مہاراشٹرا کے پال گھر نے، جہاں سے بی جے پی کو کامیابی ملی ہے، بی جے پی کے زخموں پر مرہم کا کام کیا ہے۔ لیکن باقی حلقوں میں جو چوٹ ملی ہے اس کی ٹیس اتنی زیادہ ہے کہ پال گھر کا مرہم پھیکا پڑ رہا ہے۔ پال گھر میں بھی بی جے پی کو اس لیے کامیابی مل گئی کہ وہاں اپوزیشن بکھرا ہوا تھا۔ گیارہ اسمبلی حلقوں میں سے بی جے پی کو محض ایک سیٹ پر یعنی اتراکھنڈ کے تھرالی میں کامیابی ملی۔ اس طرح جو ٹیلی ہے وہ دو بائی دو اور دس بائی ایک کی ہے۔

2014 میں جس شاندار طریقے سے بی جے پی کامیاب ہوئی تھی اس کے پیش نظر تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ وہ 2019 میں بھی کامیاب ہوگی اور آسانی سے ہوگی۔ لیکن اس کے بعد سے جتنے بھی ضمنی انتخابات ہوئے ہیں ان میں اسے بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس وقت سے لے کر اب تک 27 لوک سبھا حلقوں میں ضمنی انتخابات ہوئے ہیں اور ان میں بی جے پی کو محض پانچ نشستوں پر کامیابی ملی ہے۔ جبکہ ان میں سے 13 سیٹیں اسی کے پاس تھیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ اپنی ان سیٹوں کو بھی برقرار رکھتی اور مزید سیٹیں بھی جیتتی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ 2015 اور 2017 کے درمیان تو اسے ایک بھی لوک سبھا سیٹ نہیں ملی۔ اس کے مقابلے میں کانگریس کی کارکردگی بہتر رہی۔ اس نے بھی پانچ نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ ان میں سے اس نے امرتسر کی سیٹ برقرار رکھی اور باقی بی جے پی سے چھین لیں۔

فروری میں راجستھان کے اجمیر اور الور کی نشستیں کانگریس نے اس سے چھین لی تھیں۔ گورکھپور اور پھولپور میں بی جے پی کی کراری ہار نے تو ایسا زخم لگایا تھا کہ وہ ابھی تک نہیں بھرا ہے اور جلد بھرے گا بھی نہیں۔ کیرانہ کا زخم بھی بھرنے والا نہیں ہے۔ حالانکہ کیرانہ میں ووٹ حاصل کرنے کے لیے وزیر اعظم مودی نے نامکمل میرٹھ ایکسپریس وے کا افتتاح کیا اور روڈ شو بھی کر دیا۔

2014 کا پارلیمانی الیکشن اس لحاظ سے بہت خطرناک تھا کہ اس میں مسلمانوں کو سیاسی طور پر غیر اہم بنا دیا گیا تھا۔ حالانکہ یہ وہی مسلمان ہیں جو آزادی کے بعد سے لے کر اب تک ایک زبردست سیاسی قوت کے مالک رہے ہیں۔ لیکن پچھلا الیکشن مسلمانوں کے لیے بہت بڑا زخم لے کر آیا تھا۔ اترپردیش جیسی ملک کی سب سے بڑی ریاست سے ایک بھی مسلمان ایم پی کامیاب نہیں ہوا تھا۔ کیرانہ سے تبسم حسن کی کامیابی جہاں اپوزیشن کے لیے ایک نسخہ کیمیا ثابت ہونے جا رہی ہے وہیں مسلمانوں کے لیے بھی اطمینان و سکون کا سامان بن گئی ہے۔ اب لوک سبھا میں یو پی سے مسلمانوں کے لیے دروازہ کھل گیا۔

ان انتخابی نتائج نے کئی باتیں ثابت کی ہیں۔ پہلی تو یہی کہ عوام کو بار بار بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا، وہ جملوں پر نہیں کاموں پر ووٹ دیتے ہیں۔ انھیں نفرت کی سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ اتحاد و یکجہتی کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ مودی کا جادو ایک چھلاوہ تھا، ایک فریب تھا۔ جادو نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ اینٹی ان کمبنسی یعنی حکومت مخالف لہر تھی جس پرسوار ہر کو مودی ایوان اقتدار تک پہنچے تھے۔ لیکن اب وہی لہر مودی حکومت کا پیچھا کر رہی ہے۔ عوام اس حکومت سے ترست ہیں، اکتائے ہوئے ہیں، بور ہو گئے ہیں، پریشان ہو گئے ہیں اور اب وہ اچھے دنوں کا اور دھوکہ کھانا نہیں چاہتے۔ 2019 کے الیکشن میں حکومت مخالف لہر مودی کی نام نہاد مقبولیت کو خس و خاشاک میں مانند بہا لے جائے گی۔

ان نتائج کا سب سے بڑا پیغام یہ ہے کہ مودی کو ناقابل تسخیر و ناقابل شکست بتانا بھی ایک پروپیگنڈہ تھا۔ اپوزیشن پارٹیوں کا انتشار اور ان کے ووٹوں کا بکھراؤ ہی بی جے پی لیے امرت ثابت ہوا تھا۔ پہلے گورکھپور اور پھولپور اور پھر کرناٹک میں مابعد انتخاب اتحاد اور اب ضمنی الیکشن میں اپوزیشن اتحاد نے بی جے پی کی ہوا نکال دی۔ آنے والے اسمبلی انتخابات میں بھی اپوزیشن متحد ہو کر لڑے گا۔ بی جے پی کو اپنی کئی ریاستوں کی فصیلوں سے اپنا پرچم اتار لینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ کیونکہ جنتا کو جھوٹ بول کر اور کرتب دکھا کر زیادہ دنوں تک دھوکہ نہیں دیا جا سکتا ہے۔ مودی، شاہ اینڈ کمپنی کو نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ جو پبلک ہے یہ سب جانتی ہے، یہ جو پبلک ہے۔ یہ چاہے تو سر پہ بٹھا لے چاہے پھینک دے نیچے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔