اسلامی نظامِ معیشت

ڈاکٹر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی

        صرف پنچوقتہ نماز پڑھنے، رمضان المبارک کے روزے رکھنے، زکوٰۃ ادا کرنے اور حج کرنے کا نام اسلام نہیں ہے بلکہ دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو انسان کی ہر حرکات و سکنات کو محیط ہے۔ چنانچہ معیشت کے حوالہ سے بھی دین اسلام اپنے نمایاں اصول رکھتا ہے جس کی پاسداری سے انسان کی دنیا و آخرت فلاح و کامرانی نصیب ہوتی ہے۔ دین اسلام دولت و ثروت کو فلاح و بہود حاصل کرنے کے لیے کی جانے والی انسانی کاوشوںکے اطمینان کا ایک ذریعہ سمجھتا ہے جو دنیا و آخرت کی زندگی کو سنوارنے کا سبب بھی ہے۔ تاہم دین اسلام مال و دولت کے حصول کے لیے ایسی کسی معاشی سرگرمی میں شامل نہ ہونے کا مسلمانوں کو حکم دیتا ہے جو شرعی اصول اور اس کے مقاصد سے متصادم ہو۔ روایت میں آتا ہے کہ بروز محشر انسان بارگاہِ الٰہی سے ہٹ نہیں سکتا جب تک کہ اس سے پانچ چیزوں سے متعلق استفسار نہ کرلیا جائے۔ منجملہ ان کے ایک سوال یہ ہوگا کہ اس نے مال کہاں سے کمایا یعنی حلال ذریعہ سے کمایا یا حرام طریقہ سے۔ لہٰذا مسلمانوں کو ایسے کسی نظام معیشت اور اس کے اصولوں سے حد درجہ اجتناب کرنا چاہیے جس سے شرعی احکامات کی خلاف ورزی ہوتی یا کسب حلال کی راہ میں رکاوٹیں آتی ہوں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اس وقت دنیا میں دو معاشی نظام یعنی مغرب کا سرمایہ داری نظام اور مشرق کا اشتراکی نظام رائج ہے جو درحقیقت ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں کیونکہ دونوں ہی نظاموں میں محنت کش طبقہ کا استحصال ہوتا ہے۔ زائد از نصف دنیا کے ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام نافذ ہے۔

 اس نظام معیشت کے تحت انفرادی حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے ہر شخص کو وسائل پیداوار پر ملکیت حاصل کرنے، دولت تخلیق کرنے اور انفرادی اہداف حاصل کرنے کی مکمل چھوٹ رہتی ہے اور حکومت کی مداخلت بہت کم ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے انسان تسکین خواہشات کے لیے مخرب اخلاق اور غیر فطری ذرائع معاش اختیار کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔ سرمایہ داری نظام معیشت سے مسابقتی اور آزاد منڈیوں کو فروغ ملتا ہے، ہر فرد کو اس کے فطری حقوق ضرور ملتے ہیں لیکن اس نظام کی وجہ سے سود معاشی و اقتصادی معاملات کا ایک ہم جزو بن جاتا ہے جس کے باعث ذاتی خواہشات و مفادات سے مغلوب انسان ایثار و قربانی، شفقت و مہربانی، ہمدردی و خیر خواہی، سخاوت و دریا دلی، شجاعت و بہادری جیسے اخلاق فاضلہ سے محروم ہوجاتا ہے اور اس میں خود غرضانہ ذہنیت پیدا ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے افراد کو جماعت کے مشترک مفاد کے لیے کام کرنے کی کوئی تحریک نہیں ملتی اس لیے یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ جب تک یہ نظام قائم رہے گا امیر اور غریب کا فرق مٹانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن رہے گا کیونکہ دولت کی یکساں تقسیم نہ ہونے کی وجہ سے یہ نظام معیشت غیر مستحکم، عدم مساوات اور اجارہ داریوں کے فروغ کا سبب بن جاتا ہے اور ایک جانب جائیداد و آمدنی کا بڑا حصہ چند ہاتھوں میں مرتکز ہوکر رہ جاتا ہے تو دوسری طرف جمہور کی معاشی حالت ابتر ہوجاتی ہے پھر وہ وسیع غربت کے سمندر میں ڈوب جاتے ہیں۔ بالفاظ دیگر یہ کہا جاسکتا ہے سرمایہ داری وہ نظام معیشت ہے جس میں انسان انسان کا استحصال کرتا ہے اور اپنا تعلق بیک وقت خالق اور مخلوق سے توڑ لیتا ہے جبکہ تکمیل انسانیت کے لیے ضروری ہے کہ انسان ہمیشہ خالق اور مخلوق سے مضبوط و مستحکم رشتہ قائم رکھے۔ اسی لیے دین اسلام اپنے ماننے والوں کو دولت و ثروت سے محبت کے بجائے انسان اور انسانیت سے محبت کا درس دیتا ہے۔

انسان کے اندر دوسروں کا استحصال کرنے کی سوچ اس وقت ابھرتی ہے جب نیازمندی و محتاجی کا مجموعہ انسان اپنے آپ کو رب سے بھی مستغنی و بے نیاز سمجھے۔ جب انسان اس طرح کی منفی سوچ کا شکار ہوجاتا ہے تو وہ اپنے رب کے احکامات سے منحرف ہوجاتا ہے نتیجتاً وہ طغیان و سرکشی کے بھنور میں پھنس کر پر تعیش زندگی گزارنے کے لیے حلال و حرام، جائز و ناجائز کی تمام حدوں کو پامال کردیتا ہے۔ رب کی نافرمانی کرنے کی وجہ سے خوشحال زندگی کے لیے درکار تمام اسباب و وسائل ہونے کے باوجود وہ دنیا کے لیے عبرت کا نشان بن جاتا ہے جیسے فرعون، شداد، ھامان اور روساء قریش کا حشر ہوا۔ انسان کو اسی فکری خطا سے بچانے کے لیے قرآن مجید کا واضح فرمان ہے کہ اگر انسان  ہفت کشور کا سلطان بن جائے تب بھی غنی رب کے دربار میں وہ فقیر ہی ہے۔ قرآن مجید کا یہ وہ ارشاد مبارک ہے جو انسانی معاشرہ کو سرمایہ دارانہ نظام سے ہونے والے نقصانات سے بچاتا ہے۔ یہ اسی وقت ہوگا جب دنیا کو اس حقیقت کا علم ہو۔ مسلمانوں پر لازم تھا کہ وہ عملی طور پر قرآن مجید کے اس پیغام کو دنیا تک پہنچاتے لیکن جب مسلمان خود پرتعیش زندگی کی تلاش میں سرگرداں رہیں تو دنیا کو سادگی سے زندگی گزارنے کی اہمیت و افادیت سے کیسے واقف کرواسکتے ہیں؟

سرمایہ دارانہ نظام معیشت کے عین مقابل ایک دوسرا خالص جذباتی نظام ہے جو تقسیم ثروت میں توازن قائم کرنے، طبقاتی فرق کو مٹانے کی بات کرتا ہے جسے سوشزلم یا اشتراکی نظام کہا جاتا ہے۔ اس نظام کی بنیادی خرابیاں یہ ہیں کہ اس سے انسان کی فطری و سیاسی آزادی سلب اور شخصی منفعت کا جذبہ ختم ہوجاتا ہے کیونکہ اس نظام کے تحت کوئی فرد اپنی قوت، صلاحیت اور توانائیوں کے مطابق اکتساب مال نہیں کرسکتا۔ اس نظام معیشت میں مالی مساوات کو یقینی بنانے کے لیے وسائلِ پیداوار و تقسیم کو سماجی ملکیت تسلیم کرلیا گیا۔ اسی لیے اس نظام معیشت میں حکومت کا دخل بہت زیادہ ہوتا ہے۔

اس نظام معیشت کے تحت کسی فرد کو وسائل ثروت پر قبضہ کرنے، مالکانہ اختیارات رکھنے، اپنے حسب منشا ان میں تصرف کرنے، منافع سے تنہا متمتع ہونے، وقف کرنے، وصیت کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہوتا اور نہ ہی عزیز و اقارب کسی انسان کے وارث بن سکتے ہیں۔ یہ نظام انسان کو جانوروں کی طرح دوسروں کا آلہ کار بنا دیتا ہے جس سے انسان کی شرافت و بزرگی متاثر ہوجاتی ہے۔ فطری، فکری، عملی قابلیت کے تفاوت کے سبب مالی تفاوت کا ہونا لازمی امر ہے اس کے باوجود انسانوں میں مصنوعی مالی مساوات قائم کرنے کا غلط نظریہ پیش کرنا مطلق العنانیت کو عروج دینا ہے۔ مذکورہ بالا دونوں معاشی نظاموں کی خرابیوں کا نتیجہ ہے کہ دنیا کی آبادی کا بڑا حصہ آج خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، مہنگائی میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے، دنیا کی بڑی آبادی اضطراب اور بے چینی میں مبتلا ہے۔

 دین اسلام افراط و تفریط سے پاک ایک ایسا معتدل نظام معیشت پیش کرتا ہے جس سے فطرت کی حدود شکنی کرنے والے سرمایہ دارانہ اور اشتراکی نظام معیشت میں پائے جانے والے مفاسد، خرابیوں، بے اعتدالیوں، معاشی ناانصافیوں، اقتصادی ناہمواریوں کا مداوا موجود ہے۔ چونکہ اسلامی نظام معیشت میں شخصی ملکیت کے حق، تقسیم ثروت کا توازن، تمام طبقات کے معاشی تحفظ، وسائل ثروت کی گردش اور حقوق و دیگر فطری امورکی مکمل رعایت موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں ایک طرف حضرات عثمان غنیؓ، عبدالرحمن بن عوفؓ اور زبیر بن عوام جیسے مالدار اشخاص دین اسلام سے وابستہ ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں تو وہیں دوسری طرف حضرات بلالؓ، صہیبؓ اور خبیبؓ جیسے محنت کار دائرہ اسلام میں داخل ہونے کو اپنی زندگی کی معراج سمجھتے ہیں۔

 دین اسلام انسان کو جائز طریقوں سے مال کمانے کی مکمل آزادی دینے کے ساتھ فلاح عامہ کو یقینی بنانے کے لیے کفایت شعاری سے زندگی گزارنے اور زیادہ سے زیادہ صدقہ خیرات کرنے کی تلقین و تاکید بھی کرتا ہے۔ انسان کو مفرد و مرکب سود کی نحوست سے بچانے کے ساتھ مفلوک الحال لوگوں کی قرضہ حسنہ کے ذریعہ مالی امداد کرنے کی نصیحت بھی کرتا ہے، دست سوال دراز کرنے کو معیوب گرداننے کے ساتھ طبقاتی فرق کو مٹانے کے لیے اہل ثروت کو زکوٰۃ، عشر، خراج اور دیگر صدقات و خیرات کے ذریعہ محتاجوں کی حاجت روائی کرنے کا ذمہ دار بھی بناتا ہے، حرصِ شدید کے نقصانات کی نشاندہی کرتے ہوئے وسائل رزق پر ایک طبقہ کا قبضہ ختم کرنے کے ساتھ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے کہہ کر غرباء کو جد و جہد اور سعی و عمل کرنے پر ابھارتا بھی ہے۔ حُب دنیا کو تمام گناہوں کی جڑ قرار دینے کے ساتھ دنیا سے اپنے حصے کو فراموش نہ کرنے کا حکم بھی دیتا ہے۔ کسب حلال کی تشویق و بشارت کے ساتھ یہ بھی فرماتا کہ تم میں بہترین وہ ہے جو لوگوں کے لیے فائدہ مند ہو۔ اگر انسان اسلامی نظام معیشت پر حسین نیت اور صدق دل کے ساتھ عمل پیرا ہوجائے تو دنیا سے مالی و معاشی مسائل کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ بحیثیت داعی و مبلغ مسلمان اسلام کے معاشی نظام پر عمل کرتے ہوئے اپنے کردار سے لوگوں اس کی طرف راغب کرنے کی کوشش کریں جو ہمارا مذہبی فریضہ ہے۔

آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفیﷺ ہمیں قرآن اور صاحب قرآن ﷺ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائیں۔آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔