اسلام مخالف مہم اور ترقی اسلام (قسط نمبر ۱)

انسان میں تجسس کا پایا جانا ایک فطری عمل ہے۔جس چیز سے اس کو روکا جائے تو یہ اسی فطری تقاضے کے تحت اس کی بابت متجسس ہو جاتا ہے اور جتنا زیادہ اسے روکا جاتا ہے اتنا ہی اس کا تجسس بڑھتا جاتا ہے۔انسان ایک ڈھانچے کے علاوہ احساسات و جذبات کا مجسمہ بھی ہے اور خالق ِ حقیقی نے انسان کو کمزور بھی پیدا فرمایا ہے۔انسان کی کمزوری اس پر ہر اعتبار سے صادق آتی ہے اگر احساسات وجذبات کے لحاظ سے غور و تدبر کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس میں بے شمار کمزوریاں ہیں اور ان کمزوریوں کا اس کی شخصیت اور کردار و عمل پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ ان کمزوریوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان” تاثر ” کا شکار ہو جاتا ہے یا بالکل سادہ الفاظ میں یوں کہہ لیجیئے کہ انسان "کانوں کا بہت کچا ہے۔”مذکورہ تاثر کے چار راستے ہیں:
ð آنکھ کا دیکھنا /بصارت ð کان کا سننا /سماعت ð زبان کا بولنا /گفت گو ð دماغ کا سوچنا /غور و فکر
ð یعنی انسان آنکھ سے جو دیکھتا ہے ،کان سے جو سنتا ہے ،زبان سے جو بولتا ہے اور دماغ سے جو کچھ سوچتا ہے دل براہ ِ راست اس کا اثر لیتا ہے۔لہٰذا ہمارے گردو پیش ماحول میں جو’ بات’ زبان زد عام ہو بالفاظ ِ دیگر جو…… ‘بیانیہ ‘………چلایا جا رہا ہو تا ہے تو اسی نسل ِ انسانی سے تعلق رکھنے والی یہ سادہ لوح مخلوق جنہیں ہم …عوام” ……بھی کہتے ہیں اس پر من و عن۔۔۔” ایمان”۔۔۔ لے آتے ہیں۔ کسی۔۔۔ "بات”۔۔۔کو چلانے میں اگر ہم کسی طریقے سے کامیاب ہو جائیں قطع نظر اس سے کہ یہ بات سچائی پر مبنی ہے یا جھوٹ کا پنڈارا،۔۔۔ تو ہم بہت سے لوگوں کو اپنا ہم خیال بنا نے میں یقیناً کامیاب ہو جائیں گے۔مثال کے طور پر فرض کریں کہ ہم اپنی آنکھوں کے سامنے ظلم و تشدد کےایک واقعے کا مشاہدہ کرتے ہیں۔۔۔جس میں ایک شخص کسی دوسرے شخص پر سر ِعام تماشہ لگا کر تشدد کرتا ہے اور انتہائی بے دردی سے اس کی ایک آنکھ نکال لیتا ہے۔تو کیا ہم سے کوئی شخص ایسا ہو گا جس کی دلی ہمد ردی اس مظلوم کے ساتھ نہ ہو او ر آنکھ نکالنے والے اس ظالم شخص کے لئے نفرت بھرے جذبات نہ رکھتاہو ہاں یہ ممکن ہے کہ ہم کسی خوف سے ایسا نہ کریں۔ایسا بھی تو ممکن ہے کہ اس۔۔۔’مظلوم۔۔۔ شخص نے پہلے کسی کی دو آنکھیں نکالی ہوں جن کےبدلے میں ا س کی آنکھ نکالی جا سکی ہو…. اس حقیقت کا چوں کہ کسی کو علم نہیں اس لئے سب اس کے لئے نفرت بھرے جذبات ہی رکھتے ہیں۔حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ” اگر کوئی یہ کہے کہ میری فلاںشخص نے آنکھ نکالی ہے اور حقیقتاًاس شخص کی آنکھ نکلی ہوئی ہو تب بھی تحقیق کر لو شائد اس نے پہلے دو آنکھیں نکالیں ہوں۔”
لیکن ا گر ایک مخصوص زاویے سے دیکھا جائے تو ان کمزوریوں کا انسان میں ہونا ضروری بھی ہے آئیے۔۔۔” تاثر "۔۔۔ہی کا جائزہ لیتے ہیں۔اگر کوئی شخص تاثر سے کلی طور پر آزاد ہو یعنی کسی بھی بات سے کوئی تاثر نہ لیتا ہو خواہ اچھی ہو یا بری توکیا ایسے شخص میں کوئی خوبی پیدا ہو سکتی ہے ؟ ہر گز نہیں کیوں کہ اس شخص نے کبھی اچھی بات سے کوئی اثر ہی نہیں لیا اگرچے یہ اچھی بات ہر اعتبار اور ہر زاویے سے بَڑھیا ، بہترین اور افضل کیوں نہ ہو۔مثلاًانبیا ءکرام علیہم الصلوٰةو التسلیمات جو خالق ِکائنات کے پیغام کو بنی نوع انسان تک پہچانے کے لئے منتخب ایسے عالی مرتبت ،معتبر و مستند متکلم کہ ان کا کلام، ان کی دعوت …… فصاحت و بلاغت ، فکر و درد،مردم و مزاج اور موقع شناسی گو یا تمام تر حکمتوں اور صفات سے متصف تھی لیکن بنی نوع انسان کی کثیر تعداد میں اس دعوت کا……” داعیہ ” پیدا نہ ہو سکا اور ہدایت کی دولت ِعظمی ٰ سے محروم رہ کر ہمیشہ کے لئے جہنم کا ایندھن بن گئے۔قرآن ِپاک نے ان کے بارے میں یہ فرمایا ہے کہ یہ گونگے،بہرے اور اندھے ہیں(مفہوم)۔
اچھی بات سے بھی اثر نہ لینے کےدرج ذیل اسباب ہو سکتے ہیں:
§ جہالت / ابہام /غلط فہمیاں § جہلِ مرکب / علم کا بگاڑ یعنی باطل کو حق اورغلط کو صحیح سمجھ لینا § تکبّر و اناپرستی اور اکھڑ مزاجی
§ عصبیت § گستاخانہ طرز ِعمل § اچھی بات /درست بیانیہ کو یکسر نظر انداز کر دینا یعنی سننے سے بھی گریز کرنا /سچائی کو جاننے یا حصول ِ علم کی کوشش ہی نہ کرنا § باہمی مکالمے کی عدم موجودگی § گناہوں کی کثرت سے دل کا سیاہ ہو جانا
یہ تما م تر اسباب اس انسا ن کو گونگا ، بہرہ اور اندھا کر دیتے ہیں اور یہ انسان ہدایت سے یکسر محروم رہ جاتا ہے یعنی خیر و ہدایت کی بات وہ سن تو سکتا ہے لیکن یہ بات اس کے دل تک نہیں پہنچ سکتی ۔اگر پہلے سبب پر غور کیا جائے تو واضح ہو جا تا ہے کہ کسی امر سے لاعلم شخص کو جب آگاہی مل جاتی ہے تو وہ یقیناًاپنے طرزِ عمل کو بد لیا کرتا ہے۔ مثلاً عمر رضی اللہ عنہ کا ایمان نہ لانا محض لا علمی کی وجہ سے تھا وہ اپنے آبا و اجداد کے دین کو حق سمجھتے تھے لیکن جب اسلام کی حقانیت ان پر آشکار ہوئی تو مشرف بہ اسلام ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ چھپ چھپ کر حضور ﷺکا قرآن سننے والا ابوجہل قطعی علم رکھتا تھا کہ محمد ﷺ دین ِ حق کے داعی ہیں لیکن تکبّر و ذاتی انا کی بنا پر ایمان سے محروم رہا جس کے متکبّر مزاجی کا یہ عالم تھا جب ان کو جہنم واصل کیا جانے لگا تو اس نے کہا کہ میر ے سر کو نیچے سے کاٹنا تاکہ پتا چلے کہ سردار کا سَر ہے۔اس پر آپ نے فرمایا (مفہوم )کہ میرا فرعون موسیٰ علیہ السلام کے فرعون سے بھی سخت ہے۔اسی طرح یہود اپنی عصبیت، کہ آخری الزمان پیغمبر بنی اسرائیل کی بجائے بنی اسماعیل میں کیوں پیدا ہوئے ، کی بنا پر ایمان سے محروم رہے اور ابولہب اپنے گستاخانہ طرز ِ عمل سے جہنم کا ایندھن بنا۔گویا ان کی محرومی کے اسباب ان کے اپنے نفوس کے شرور ہی تھے کہ اللہ نے ان کے دلوں کو حق کے لئے سخت کر دیا۔ بری باتوں ۔۔۔ غلط بیانیہ کے اثر سے بچنے کا آسان حل یہ ہے کہ سنتے ہی کسی بھی بات کو دل میں قطعاً جگہ نہ دیںبلکہ اس کی تحقیق کر لیں۔اور یہ حل قرآنی ہے ارشاد ِ باری تعالی ٰ کا مفہوم ہے "جب تمھارے پاس کوئی فاسق شخص خبر لے کر آئے تو تم اس کی تحقیق کر لیا کرو۔”
اس تمام تر تمہید کا مقصد یہ ہے کہ جب دجل و فریب اور مکر و کذب سے ایک باطل بیانیے کو چلایا جاتا ہے تو جہاں معاشرے میں اس کے اثرات کی بدولت تبدیلی رونما ہوتی ہے یا یہ کہنا بھی بالکل درست ہو گا کہ اس بیانیہ کے جوممکنہ اہداف تھے وہ مکمل ہونے لگ جاتے ہیں اور ان پس ِپردہ قوتوں کے عزائم کی تکمیل کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات کی راہیں ہموار ہو جاتی ہیں وہاں کچھ لوگو ں میں اس کے بارے میں اشکال و تجسس بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ایک طرف رائے عامہ ہموار ہو جاتی ہے یا یہ کہ عوام کی کثیر تعداد اس بیانیے کی حمایت کرنے لگ جاتی ہے اور دوسری طرف اس منفی طرز ِ عمل/پروپیگنڈا سے جن لوگوں کا تجسس عروج پر پہنچ چکا ہوتا ہے وہ حقائق تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں اور کسی نہ کسی شکل میں اپنا ردِّعمل ضرور پیش کرتے ہیں چاہے وہ خاموش ردِّعمل ہی کیوں نہ ہو جیسا کہ اسلام مخالف مہم کا خاموش ردّ عمل قبول ِ اسلام ہے۔ وقتی طور پر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ باطل کے بیانیے نے میدان مار لیا ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔باطل کا حملہ بڑا زور آور ہوا کرتا ہے لیکن مٹنا اس کا مقدر ہوتا ہے۔
اسلام دشمن قوتوں کی اسلام مخالف مہم کوئی نئی نہیں ہے۔الیکٹرانک میڈیا اور شوشل میڈیا کے جنم لینے سے پہلے کے حالات ہو ں یا بعد کے کفر نے ہر دور میں ہر میدان میں قرآن ، حدیث ،ذات ِ باری تعالیٰ جل شانہ اور نبی آخری الزماں ﷺگویا کہ آیات ِ اسلام(اسلام کی نشانیوں) کے بارے میں ابہام اور شکوک و شبہات پیدا کرنےاور اسلام کو بدنام کرنے کی گھناونی شازشیں کی ہیں۔روزِ اول ہی سے ہر دور میں شیطان اور اس کے کارندوں کا یہ پروپیگنڈا چلا آ رہا ہےاورہر دور اور ہر زمانے میں ایک جماعت اس پروپیگنڈے سے متجسس بالآخر حق سے روشناس اور حق کی سر بلندی میں مصروف ِ عمل رہی ہے۔ابو جہل اور اس کی جماعت نے ذہن سازی کی کہ نعوذ باللہ محمد (ﷺ)کے کلام میں جادو ہے۔جو ان کی سنتا ہے ان ہی کا ہو جاتا ہے اس نے والدین کو اولاد سے ،بھائی کو بہنوں سے ،شوہر کو بیوی سے جدا کر ڈالا ہے۔۔۔ اور ان کی اس دعوت سے ایسا داعیہ/تاثر پیدا ہو ا کہ عرب کے معروف شاعر نے کانوں میں روئی ڈال لی کہ کہیں محمد (ﷺ) کی آواز کانوں میں نہ پڑ جائے۔لیکن جب عرب کا یہ شاعر آپ کے پاس سے گذرنے لگا تو اس کو خیال ہوا کہ تُو تو شاعر ہے۔تیرا تو کلام و ادب سے تعلق ہے، تُو تو اہلِ کلام میں سے ہے ۔۔۔ علم رکھتا ہے کوئی جاہل تو نہیں ہے۔۔۔ محمد (ﷺ) کی بات سن۔ اس نے کانوں سے روئی نکالی اورزبان ِ اقدس سے اللہ کا قرآن سننا تھا کہ پکار اٹھا۔۔۔۔۔کہ یہ کلام کسی انسان کا نہیں ہو سکتا اور آخر کار ایمان لے آیا۔ان مکی دشمنوں نے جھوٹ فریب کی کوششیں تمام کر دیں لیکن دین پھلتا پھولتا رہا انہی دشمنان ِاسلام میں سے کچھ قتل ہوئے اور ان کا جہنم مقدر بنی اور کچھ نے ہمیشہ کے لئے پیمبر ﷺکی غلامی کا تاج پہن لیا۔یہ بیانیہ چلتا رہا لیکن دین نے بھی مکے سے آگے بڑھ کر مدینے تک اپنی وسعت کو پھیلا دیا اور ایک دن پورا عرب آپ کی غلامی پر فخر کرنے لگا اور روئے زمین نے وہ دن بھی دیکھ لیے جب اس قافلے نے اعلائے کلمة اللہ کی خاطر ایشیا ء و یورپ ،افریقہ و امریکہ کے سینوں میں اللہ کے کلمے کواتار دیا ۔تاریخ کے دریچوں میں یہ حقیقت اپنی پوری آب و تاب سے روز ِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ بے سرو سامانی روز ِاول ہی سے اس جماعت کی پہچان رہی ہے۔
گذشتہ چنددہائیوں کا اگر تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ اسلام مخالف پروپیگنڈا جتنا ان دہائیوں میں کیا گیا تاریخ ِ انسانی میں اس سے قبل کبھی نہ کیا گیا تھا۔ الیکٹرانک میڈیا اور شوشل میڈیا کے منظر ِ عام پر آنے سے قبل ذات ِ باری تعالی اور حضور نبی کریم ﷺکی ذات ِ گرامی کو تبرّا کا نشا نہ بنانے ، قرآن و حدیث مبارکہ سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے اور اسلام پر تنقید و تنقیص کے ذریعےسے تنفر و بے زاری پیدا کرنے میں پہلے ملحدین ،مستشرقین ہی بر سر ِ پیکار ہوا کرتے تھے۔مستشرقین یا وہ مغربی علماءہیں۔۔۔ جو اسلام کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں تا کہ لوگوں کے اذہان میں اسلام کی غلط تصویر پیدا کی جا سکے۔قدیس لویس فرانس کا بادشاہ پہلا یورپی شخص جس نے بار بار شکست سے مایوس ہو کر اسلام مخالف تمام تر توانائیوں کو غزہ و فکری (استشراق یا علوم مشرقیہ ہی کی قسم ہے )کی طرف منتقل کر نے کی وصیت کی جس پر ازاں بعد توجہ دی گئی۔اس پروگرام کے تحت مدارس قائم کیے گئے جن سے فارغ التحصیل مستشرقین کو اسلامی ممالک میں استشراق یا غزہ و فکری کی ذمہ داری سونپی جاتی۔ مختصراً یہ کہ اس مضموم سازش سے ان کے لئے حوصلہ افزاء نتائج برآمد ہوئے۔مغربی مفکرین کا کہنا ہے کہ "استشراق سے وہ نتائج برآمد ہوئے ہیں جو ہمارے آباؤ اجداد بڑی جنگوں سے بھی بر آمد نہیں کر سکے،ہم نے ان کے اندر سے ایمانی جذبہ ختم کر دیا ،جہاد کی روح نکال باہر کی اور خرافات کا عادی بنا دیا۔”
لیکن ہر پروپیگنڈے کا جیسے علمائے دین نے دلائل و براہین سے مقابلہ کیا اور دشمنان ِ دین کو کوئی خاطر خواہ کامیابیاں حاصل نہ ہوئیں اسی طرح اغیار کی صفوں میں معتدل مزاج اور حقیقت پسند محقیقین نے نہ صرف ان متعصبین کا محاصرہ کیا بلکہ اسلام کی حقانیت کو دلائل سے پیش کرتے ہوئے تسلیم کیا۔ان حقیقت پسند اہل ِ علم میں سے بیشتر ایسے بھی تھے جو اسلام کی آغوش میں آ بسے اور دین فطرت کے داعی بن کر اسلام کی حقانیت کا ڈنکا تمام عالم میں بجاتے رہے۔اوتا ولیامز کی آسٹریلین عیسائی مبلغہ جو عیسائیت کی تبلیغ کرتے کرتے اسلام کی مبلغہ بن گئی۔یہ خاتون ایک مصری انجینئر حسین زید کو عیسائیت کی دعوت دینے گئی اور اسلام پر اپنے اعتراضات بیان کرنے لگی ۔۔۔لیکن حسین زید کی تلاوت ِ قرآن سے اس کے دل پر باوجود معنی و مطالب نہ سمجھ سکنے کہ محض اس کی حلاوت سے گہرا اثر ہونے لگا اور جب اس کے معانی و مطالب بیان کیے گئے تو اثر کر گئے اخبار العالم اسلامی کو دئیے گئے انٹرویو میں کہتی ہیں کہ "جب میر ے سامنے سور? مریم کی تشریح کی گئی اور اس کے حقائق مجھ پر منکشف ہوئے تو ایسا محسوس ہو جیسے میرے ذہن و دماغ پر بجلی گر گئی ہو ، بے ساختہ میر ی آنکھو ں سے آنسو جاری ہو گئے اور پھر میں نے قرآن کا مطالعہ شروع کر دیا ۔جب مجھے اسلام کی حقانیت و صداقت کا پورا پورا یقین ہو گیا تو میں نے کلیسا کا رخ کیا اور بغیر کسی خوف و ڈر کے اپنے اسلام کا اعلان کر دیا جو کہ کلیسا پر بجلی بن کر گرا۔” ۔۔۔۔(جاری ہے)

تبصرے بند ہیں۔