بلڈ پریشر دھیرے دھیرے نشانہ بنانے والا خاموش قاتل

ہائی بلڈ پریشر کا شمار ان گنی چنی بیماریوں  میں  ہوتا ہے جو خاموشی سے انسان کو اپنی گرفت میں  لیتی ہیں۔  یہ ایک خطرناک مرض ہے کہ انسان کو بہت سی بیماریوں  مثلاً امراض قلب، امراض گردہ، فالج وغیرہ میں  مبتلا کر دیتا ہے۔ اس کے باوجود ہائی بلڈ پریشر کے شکار ’’50فیصد‘‘ مریض اپنے مرض سے بر وقت واقف نہیں  ہوپاتے۔ جب ان کا کسی وجہ سے طبی معاینہ ہو تبھی بلڈ پریشر چیک کرنے پر اس موذی مرض کا پتا چلتا ہے۔ روز مرہ زندگی میں  مگن انسان کو پتا نہیں  چلتا کہ وہ ہائپرٹینشن کا شکار ہوچکا ہے۔ یہ حقیقت صرف بلڈ پریشر چیک کرنے سے عیاں  ہوتی ہے۔ڈاکٹروں  کا کہنا ہے کہ اچھی صحت کے لیے ضروری ہے، آپ کے خون کا دبائو 120/80سے نیچے رہے۔ گویا یہ نارمل بلڈ پریشر ہے، لیکن اس عدد سے بلڈ پریشر جتنا بلند ہوگا۔ امراض چمٹنے کا خطرہ اتنا ہی بڑھے گا۔ڈاکٹر مزید کہتے ہیں  کہ اپنا بلڈ پریشر کم سے کم رکھیے۔ وجہ یہی ہے کہ بلند فشار خون انسان کو متفرق بیماریوں  میں  مبتلا کر دیتا ہے۔ مثال کے طور پر جس انسان کا بلڈ پریشر 135/85ہو، اْسے یہ خطرہ درپیش رہتا ہے کہ وہ 115/75والے کی نسبت زیادہ آسانی سے امراض قلب و فالج کا نشانہ بن جائے گا۔ ہائپر ٹینشن کی اکثر ادویہ کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ خاصے ضمنی اثرات رکھتی ہیں۔  مثلاً انھیں  کھانے سے انسان ٹانگوں  کی اکڑن، بے خوابی اور سْستی کا شکار بن جاتا ہے۔

خوش قسمتی سے ادویہ کے بغیر بھی ہائی بلڈ پریشر پر قابو پاناممکن ہے۔ اْس ضمن میں  طرز زندگی (Lifestyle) کا کردار بہت اہم ہے۔ اگر انسان طرز زندگی میں  مثبت تبدیلیاں  لے آئے تو نہ صرف ادویہ کی ضرورت سے بے نیاز ہوسکتا ہے بلکہ صحت بھی پا لیتا ہے۔ ذیل میں  ایسی تبدیلیوں  کا ذکر پیش ہے جو ہائپرٹینشن سے بچنے کی خاطر عمل میں  لانی چاہئیں۔ علاوہ ازیں  نماز پڑھنا بھی دبائو کم کرنے کا سہل طریقہ ہے۔ دورانِ نماز خدا کو یاد کرنے سے دل کو سکون ملتا ہے۔ پھر قیام، رکوع اور سْجْودسے ورزش ہوتی اور خون کی روانی تیز ہوجاتی ہے۔ سو بصورت نماز رب کریم کی عنایت سے بعض لوگ روزانہ 15تا 18گھنٹے کام کرتے ہیں۔  یہ جسم پر حد سے زیادہ بار ڈالنے والی بات ہے۔ اس کثرتِ کار کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ بلڈ پریشر بڑھا دیتا ہے۔ اس معاملے میں  ماہرین مشورہ دیتے ہیں  کہ ہفتے میں  زیادہ سے زیادہ 48گھنٹے ہی کام کیجیے۔

دنیا بھر میں  سب سے بڑے خوفناک مرض کی صورت میں  سامنے آنے والی حرکت قلب سے متعلق امراض کی علامت بلڈ پریشر یعنی خون کی نالیوں  کا سکڑنا اور پھیلائو ہونا ہے۔ سکڑ کے عمل کے دوران وہ خون کو ایک طرف سے جسم کے نظام دوران میں  داخل کرتا ہے اور دوسری طرف سے گندے خون کی ایک مقدار پھیپھڑوں  کو تازہ آکسیجن حاصل کرنے کے لیے روانہ کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ تھوڑی دیر آرام کرتا ہے یعنی خون کو جسم اور پھیپھڑوں  کی جانب روانہ کرنے کے بعد ایک مختصر عرصہ کے لیے اپنے آپ کو ڈھیلا چھوڑ دیتا ہے۔

یہ نظام اگر انسانی جسم میں  ایک نظم و ضبط اور تسلسل سے جاری رہے تو انسان صحت مند کہلاتا ہے لیکن اس نظم و ضبط میں  جب کبھی اور جہاں  کہیں  بھی خرابی واقع ہوتی ہے تو مرض رونما ہو جاتا ہے۔ دل انسانی جسم کو خون کی صورت میں  غذا مہیا کرنے کا کام انجام دیتا ہے۔ یہ عضو رئیس بھی ہے۔ یہ اپنے پمپ کے دبائو اور حرکت کی صورت میں  57cc خون اپنی ہر حرکت پر نالیوں  میں  پھینکتا ہے۔ دورانِ خون میں  تین اشیاء یا عوامل کار فرما ہیں،  جو یہ ہیں :

(1) خون کا دبائو     (2) خون کا بہائو      (3) رکاوٹ

خون کا دباؤ:خون میں  دبائو کی وجہ سے رطوبات (پلازما) کی کمی ہوتی ہے اور شریانوں  میں  اس کا بہائو سست ہوگا، خون گاڑھا ہوگا اور شریانوں  میں  اس کا گزر مشکل ہوتا چلا جائے گا۔ خون کے بہائو میں  ایک دوسرا مانع پلازما یا رطوبات خون میں  لحمی اجزاء کی موجودگی ہے لیکن پانی کی قلت انتہائی اہم ہے جبکہ پانی کی نسبت رطوبت خون کی اہلیت 1-5 تا دگنا ہوتی ہے گویا جوں  جوں  خون گاڑھا ہوگا، اس میں  پانی کی مقدار کم ہوگی، خون کا دبائو زیادہ بڑھے گا۔

بلڈ پریشر علامات مرض:شروع میں  جب مریض سیڑھیاں  چڑھتا ہے یا کوئی سخت محنت والا کام کرتا ہے تو اس کا سانس پھولنے لگتا ہے، سینہ میں  بوجھ یا دبائو کا احساس ہوتا ہے، اس کے علاوہ دردِ سر، بے خوابی اور بے چینی مزاج میں  چڑچڑاپن، رنج و غصہ میں  مبتلا ہو جانا، دورانِ خون تیز ہو جانا، دماغ میں  چھوٹی شریان کا پھٹ جانے سے دماغ کے اندر جریانِ خون ہو کر مریض کو سکتہ یا فالج ہو جاتا ہے۔

بلڈ پریشر اور قانونِ مفرد اعضاء :بلڈ پریشر بذاتِ خود کوئی مرض نہیں  بلکہ یہ خون کے دبائو میں  اتار چڑھائو کی ایک علامت ہے۔ نشہ آور چیزوں  شراب، چرس، تمباکو کے استعمال سے یہ کیفیت پیدا ہو جایا کرتی ہے۔ کثرت چائے نوشی، رات کو دیر تک جاگنے سے بھی خون کے دبائو میں  اضافہ ہو جایا کرتا ہے اور جو لوگ مرغن اغذیہ استعمال کر کے ورزش نہیں  کرتے وہ بھی اس عارضہ کی زد میں  آجایا کرتے ہیں۔  خواہشات نفسانی کے غلام اس ناگوار صورت سے دوچار ہو جایا کرتے ہیں۔  مرض کی تین صورتیں  ہیں :دل کے فعل کی تیزی کی وجہ سے شریانوں  میں  سکیڑ پیدا ہو جاتا ہے جس سے دورانِ خون میں  رکاوٹ پیدا ہو جایا کرتی ہے۔ دل اس رکاوٹ کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے جس سے خون کے دبائو میں  اضافہ ہو جاتا ہے۔ سانس تنگی سے آتا ہے، دل کے مقام پر درد اور گھٹن محسوس ہوتی ہے اور ساتھ اختلاجی کیفیت بھی ہوتی ہے۔ مریض کے قارورے کا رنگ سرخی مائل بہ سیاہ ہوتا ہے یعنی عضلاتی (خشکی) تحریک ہوتی ہے جس سے خون میں  دبائو بڑھ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پیٹ میں  ہوا کا بھرجانا، قبض کا ہونا، سر میں  درد، بے خوابی جیسی علامات پیدا ہو جاتی ہیں۔

جگر کے فعل کی تیزی کے سبب اس کی متعلقہ وریدوں  میں  سکیڑ پیدا ہو جاتا ہے۔ دل میں  تحلیل کی وجہ سے اس کا حجم بڑھ جاتا ہے جس سے خون کے بہائو میں  رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے، اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے نظام بدن خون کے دبائو میں  اضافہ پیدا کرتا ہے جس سے دل کی رفتار سست ہو جاتی ہے، اس کو ہی لازمی بلڈ پریشر کہا جاتا ہے۔دماغ کے فعل میں  تیزی ہو کر اس کی عروق کشادہ ہو جاتی ہیں  جس سے دل کی حرکت سست پڑ جاتی ہے۔ دل پھول کر طبعی حجم سے بڑا ہو جاتا ہے جس سے دورانِ خون میں  رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے، اس کو بلڈ پریشر کہتے ہیں۔

بلڈ پریشر بڑھانے والے عوامل  :ہائی بلڈپریشر میں  عموماً جو اسباب ممدومعاون ثابت ہوتے ہیں  وہ گردوں  اور جگر کا سکیڑ، دائمی قبض و تیزابیت، جسمانی و دماغی محنت، آنتوں  کی عفونت، کثرتِ نشہ، شراب اور تمباکو نوشی، موسم وماحول کی تبدیلی اور ہر ایسی علامت جس سے خون میں  سے رطوبات کی کمی واقع ہو جاتی ہے۔ گردوں  کی خرابی گردوں  کی بیماریاں  پریشر کا باعث بنتی ہیں  جیسے پیشاب میں  پروٹین کا آنا، گردوں  میں  رکاوٹ، رسولیاں،  پتھریاں،  سوزش بھی ان کو متاثر کر دیتے ہیں  جس سے گردوں  میں  خرابی پیدا ہو کر پریشر بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔

تیزابیت و قبض: تیزابیت و قبض کی وجہ سے عضلات میں  سکیڑ پیدا ہوتا ہے اور سکیڑ سے خون کے بہائو میں  رکاوٹ پیدا ہو کر اس میں  خون کا دبائو بڑھ جاتا ہے جس سے بلڈ پریشر کا مرض پیدا ہو جاتا ہے۔

  مانع حمل ادویات: حمل کو روکنے والی ادویات نسوانی غدودوں  کے جوہروں  سے تیار ہوتی ہیں۔  اب یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ باقاعدگی سے یہ ادویہ کھانے والی خواتین کو بلڈ پریشر ہو جاتا ہے۔ عام طور پر بلڈپریشر میں  اضافہ خون کی نالیوں  کے الاسٹک کی خرابی یا ذہنی دبائو سے ہوتا ہے۔ ان خواتین میں  اضافہ کی خاص وجہ ان گولیوں  کا استعمال ہے۔ گولیوں  کے اثرات سے عضلات میں  سکیڑ واقع ہوتا ہے جس سے ان میں  بلڈ پریشر میں  اضافہ، دل کی بیماری اور فالج کے امکانات دوسری عورتوں  سے زیادہ ہوتے ہیں۔

  مقوی ادویات اور بلڈ پریشر: مردمی کمزوری کے لیے استعمال کی جانے والی ادویات سے دل کی نالیوں  کی بندش کے باعث دل کا دورہ پڑنے کے حادثات دیکھنے میں  آئے ہیں۔  امریکہ کے ڈاکٹروں  نے جو مقوی باہ دوائی ’’ویاگرا‘‘ نامی تیار کی ہے اس کے مضر اثرات کا پوری دنیا میں  ایک شور پیدا ہو گیا ہے۔ خود امریکہ میں  گزشتہ چند برسوں  میں  کم از کم ہزاروں  افراد کو دل کا دورہ پڑا ہے۔

  مرغن کھانے:غیر ہضم شدہ غذا سے خون گاڑھا ہو جاتا ہے جس سے شریانیں  تنگ اور بے لچک ہو جاتی ہیں،  اس حالت میں  غذا کو ہضم کرنے کے لیے دل کو زیادہ خون پمپ کرنا پڑتا ہے اور اس طرح خون کا دبائو بڑھ جاتا ہے جو بلڈ پریشر کا باعث بن جاتا ہے۔

  ماحول: ماحول بھی ہماری صحت پر اپنے اثرات مرتب کرتا ہے۔ ذہنی دبائو، تھکن اور اعصابی تنائو کی کیفیت پیدا کر کے پریشر میں  زیادتی کا باعث بنتے ہیں۔  یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ شور بلڈ پریشر میں  اضافہ کرتا ہے۔ آس پاس میں  شور ہو یا ہمسایہ سے آنے والی آوازیں  بھی پریشر میں  اضافہ یا بے آرامی کا باعث ہیں۔  یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ خاموش اور پرسکون علاقوں  میں  رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں  اور شوروغل ٹریفک کی آوازیں  گاڑیوں  کی دھمک بے سکونی سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

  علاج :خون کے دو بڑے اجزاء ہیں : ایک ذرات خون۔ دوسرا رطوبت خون۔ ذرات خون کی بھی دو اقسام ہیں۔  ایک سرخ ذرات، دوسرے سفید ذرات، رطوبت کا سیال بیرونِ خلیات کا ایک حصہ ہے اور یہ سیال جو اندرونِ خلیات ہوتا ہے اس میں  پانی کی قلت ہو جاتی ہے۔ لہٰذا اس کے علاج میں  رطوبت (پلازما) کو پیدا کیا جائے جس سے خون میں  رطوبت کی قلت ختم ہو اور خون اپنی مقررہ مقدار میں  جسم میں  اپنا کام سرانجام دے سکے۔ قانونِ صابر کے مطابق یہ غدی مرض ہے لہٰذا اس کا اعصابی ادویہ و اغذیہ سے علاج کیا جائے۔

غذائی علاج: اس مسلم حقیقت سے کوئی صاحبِ بصیرت انکار کی جرأت نہیں  کر سکتا کہ انسانی زندگی کے قیام اور صحت کاملہ کا دارومدار کھانے پینے اور ہوا پر ہے۔ اس اہم پروگرام میں  غذا کو بے پناہ اہمیت حاصل ہے۔ کیونکہ غذا سے جو طاقت پیدا ہوتی ہے وہ اس صرف شدہ قوت کا بدل بنتی ہے جو انسان روزمرہ کے فرائض کی انجام دہی میں  صرف کرتا ہے۔ بعض لوگوں  میں  کثرتِ محنت کی وجہ سے قوت بدنی کے زیادہ خرچ ہونے کے سبب تحلیل واقع ہو جاتی ہے۔ ان میں  سے بعض دماغی محنت کرتے ہیں  جس سے اعصابی دبائو بڑھ کر پٹھے کمزور ہو جاتے ہیں۔  بعض لوگ جسمانی محنت تو نہیں  کرتے اور اپنی نشت طلبی کے باوجود کھانے پینے کے بہت دلدادہ ہوتے ہیں۔  کثرتِ غذا کے سبب ان لوگوں  کے گردے اور جگر اپنے وظائف مفوضہ کی انجام دہی سے قاصر ہو جاتے ہیں  جس سے بدن کے اہم اعضائے جسمانی میں  ضعف لاحق ہو کر صحت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ پس ہر انسان کے فرائض حیات کو سامنے رکھ کر اس کے لیے ایسی غذا کا تعین ضروری ہے جسے استعمال کر کے وہ اپنی روزمرہ کی ذمہ داریوں  سے عہدہ برآ ہو کر صحت مند اور تندرست رہے۔ یہ امر ماہرین کے نزدیک متفق علیہ ہے کہ پہلے انسانوں  اور حیوانوں  میں  خون کی پیدائش غذا کی مرہون ہوتی ہے۔ خون پیدا کرنے میں  کسی بڑے بڑے ٹانک حیاتین یا دیگر قوت پیدا کرنے والی ادویات کا کوئی عمل دخل نہیں۔  اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رہے کہ غذا اگر بھوک کے بغیر کھائی جائے تو اس سے خون کی پیدائش کے بجائے جسم میں  تعفن و خمیر پیدا ہوگا جس سے معدی عوارض جنم لیتے ہیں۔  یہی وجہ ہے کہ قانونِ مفرد اعضاء کے حاملین مطب میں  آنے والے ہر مریض کو اس امر کی ہدایت کرتے ہیں  کہ جب تک شدید بھوک پیدا نہ ہو اس وقت تک کھانا نہیں  کھانا چاہیے کیونکہ اس سے مریض کے جسم سے خمیر اور عفونت کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور مریض شاہراہِ صحت پر گامزن ہو کر کامل شفا سے ہمکنار ہو جاتا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔