شاہ رخ خان سے زیادہ اعجازعبید اعزاز کے مستحق

محمد احتشام الحسن مجاہد
ماہ ڈسمبر ہندوستان اور اطراف کے علاقوں میں اپنی سردی کی وجہ سے کافی شہرت رکھتا ہے لیکن 26 ڈسمبر2016 کی صبح سے ہی شہر حیدرآباد اور خاص کر مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی کا ماحول کافی پرجوش دکھائی رے رہا تھا جس کی ایک اہم وجہ یونی ورسٹی کے چھٹے کانوکشن میں بالی ووڈ سوپر اسٹار شاہ رخ خان جنہیں ہم سب ”کنگ خان“ کے نام سے جانتے ہیں ‘ان کی اس تقریب میں شرکت اور یونی ورسٹی کی جانب سے انہیں اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی جانے والی تھی۔ 26 ڈسمبر کو پھر اس لمحہ کا انتظار بھی ختم ہوا جب بالی ووڈ سوپر اسٹار شاہ رخ خان کو اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازا گیا۔ یونی ورسٹی میں چھٹے کانوکشن کی تقریب کے اختتام کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر تبصروں اور تجزیوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا جس میں شاہ رخ خان کو اعزازی ڈگری دئے جانے اورپھر شاہ رخ خان کا تقریب کے شرکا ءسے کئے جانے والے خطاب میں اردو ے یونی ورسٹی اور اردو کے تذکرہ کی بجائے خود انکی زندگی میں والد صاحب کی جانب سے دئے ے جانے پرانے کیمرے ‘پرانے ٹائپ رائٹر‘شطرنج اور نہ جانے کتنے اردو سے غیر متعلقہ موضوعات پر مایوسی کا اظہار کیا گیا اور کئی افراد نے شاہ رخ خان کو اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازنے پر ہی سوال اٹھایا ۔کسی نے شاہ رخ خان کے حق میں بات کئی تو کسی نے اعزاز دئے جانے کی مخالفت کی اور کسی نے شاہ رخ کی تقریر کو مایوس کن قرار دیا ۔کسی نے تقریب میں صدر جمہورہہ ہند اور گورنر کی عدم شرکت کی وجوہات جاننے کی کوشش کی لیکن شاہ رخ کی حمایت یا مخالفت سے قطع نظر اردو سے محبت رکھنے والوں نے شدد سے جس کمی کو محسوس کیا وہ جب ایک فلمی اداکار جن کا اردوزبان و ادب کے لئے کوئی کارنامہ نہیں انہیں اعزاز سے نوازا جاسکتاہے تو پھر گذشتہ کئی برسوں سے اردوزبان و ادب کا سائبر ٹکنالوجی (کمپیوٹر اور انٹرنیٹ) سے رشتہ مضبوط کرنے والے مجاہد اردو ‘ سرسید ثانی اور دوہزار سے زیادہ اردو کتب کو یو نی کوڈ میں تبدیل کرتے ہوئے ایک آن لائین لائبریری کے خالق اعجازعبید کی ہمت افزائی اور انکی خدمات کو سراہاتے ہوئے انہیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کیوں نہیں دی جاسکتی؟
سائبر اردو والوں کے لئے شہر حیدرآباد کے محلے لنگرحوض میں مقیم اعجاز عبید کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔جس طرح اردو شاعری علامہ اقبال اور مرزاغالب کے کلام کے بغیر نا مکمل ہے ‘ مولانا الطاف حسین حالی اور سرسید احمد خان کے بغیر جدید اردو نثر کا باب ادھورا تصور کیا جاتا ہے اس طرح اعجازعبید کے بغیر عصری دور میں اردو کی ترقی کے ابواب نامکل ہیں۔محمد اعجاز اختر جنہیں اردو دنیا بلخصوص اردو یونی کوڈ سے واقف کار اعجاز عبید کے نام سے جانتے ہیں اردو کے اہم خدمت گزار ہیں جن کی خدمات اردو کوانٹرنیٹ ٹکنالوجی سے جوڑنے میں کافی اہمیت کی حامل ہیں،یونی کوڈ کے حوالے سے انہوں نے قابل قد ر کام انجام دیا ہے اور اپنے متعلق ان کا یہ کہنا ہے کہ ”میں یہ سمجھتا ہوں کہ میں نے اردو کی بطور زبان یہی خدمت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسے ٹکنالوجی سے جوڑ سکوں۔ بطور اردو ادیب اردو ادب میں رطب و یابس کا اضافہ ضرور کیا ہو گا لیکن اردو ادب کو میں اردو زبان کی ترقی نہیں مانتا۔ اب بھی مجھے انٹر نیٹ پر اردو کی جگہ رومن رسم الخط لکھا ہونے سے بہت کوفت ہوتی ہے ۔ میری یہی خواہش ہے کہ ہر اردو داں شخص محض اردو میں گوگل تلاش بھی کرے ، اردو ویب سائٹس ہی مطالعہ کرے اور اردو میں ہی ای میل کرے یا سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس، فیس بک وغیرہ پر اردو میں ہی لکھے ۔ اسی نصب العین کے حصول کے لئے میں نے یونی کوڈ کو عام بنانے کی کوششیں کی ہیں“۔اعجاز عبید نے یونی کوڈ میں اردو ادب اور شاعری کو عام کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے ، وہ تقریبا پندرہ برسوں سے لگاتار اردو کو انٹرنیٹ پر عام کرنے کی مہم سے جڑے ہوئے ہیں، ان کی تیار کی ہوئی "بزم اردو لائبریری” میں اس وقت 2137کتابیں موجود ہیں جن مے ں کچھ کتابے ں متعدد حصوں مے ں شائع ہوئی ہے ں ۔بزم اردو کی ویب سائٹ http://lib.bazmeurdu.net/ ملاحظہ کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سائبر لائبریری کتنے مشکل چیالنجس کو عبور کرنے کے بعد حاصل ہونے والا ثمرآور نتیجہ ہے ۔ انہوں نے ”سمت “ نامی ایک ادبی رسالہ بھی جاری کیا اس کے علاوہ اردو کی بورڈ کی تیاری کا کارنامہ بھی انکی اردو کے لئے خدمات میں شامل ہے ۔قارئین آپ کو بتاتے چلیں کہ یو ونی کوڈ وہ نظام یا ٹکنالوجی ہے جس کے تحت لکھی جانے والی تحریر کو انٹرنیٹ پر کہیں بھی اور کبھی بھی ایپ لوڈ کیا جاسکتا ہے اور اس طرح انٹرنیٹ پر کوئی تحریر اگر یونی کوڈ میں دستاب ہو تو اسے مکمل یا تحریر کا کچھ حصہ اپنے کمپیوٹر پر حاصل کیا جاسکتا ہے ۔جسیا کہ مان لیجئے کہ کسی کو دیوان غالب مکمل چاہیئے یا کسی کو مزرا اسد خان غالب کی کسی ایک غزل کے یا ایک شعر کی ضرورت ہو تو یہ دونوں ضروریات یونی کوڈ کی تحریر ہی پوری کرسکتی ہے ۔اعجازعبید نے 2 ہزار سے زیا دہ کتابوں کو ”بزم اردو“ ویب سائٹ کے ذریعہ یونی کوڈ میں اردو دنیا کو فراہم کیا ہے ۔2013 میں متعارف کردہ اس ویب سائٹ کے علاوہ اسمارٹ فونس کی نئی ٹکنالوجی سے بھی اردو کو جوڑنے کے لئے اعجاز عبید نے ”بزم اردو ایپ“ بھی فراہم کردیا ہے جو گوگل پلے سے اسمارٹ فونس پر ڈاون لوڈ کیا جاسکتا ہے ۔اردو کے اس عصری کتب خانے میں کتابوں کو جدید ٹکنالوجی کی اردو میں تبدیل کرنے کا کام ہنوز جاری ہے اور آئے دن ان کتب خانے میں اردو ادب و زبان کے ذخیرہ میں اضافہ ہورہاہے ۔کسی فرد واحد کی جانب سے اردو کی ہزاروں کتابوں کو یونی کوڈ میں تبدیل کرنے کا کام تیز چلچلاتی دھوپ مے ں ننگے پاؤں کسی پہاڑ کو کاٹ کر راستہ بنانے اور شدیدسردی میں ٹھنڈے پانی میں تیراکی کرنے سے بھی زیادہ مشکل ہے لیکن اعجازعبید نے لکچرر کی ملازمت سے فراغت کے بعد آرام کو ترجیع دینے کی بجائے اردو کو ترقی یافتہ زبان بنانے میں سنگلاخ راہوں کا انتخاب کیا ہے اور آج جو بزم اردو لائبریری انٹرنیٹ کے آسمان پر روشن ستارہ بن کر چمک رہی ہے تو یہ صرف اعجاز عبید کی اردو سے محبت کا جنون ہی ہے ۔اردو کو انٹرنیٹ کی زبان بنانے میں ناقابل فراموش خدمات انجام دے نے کے بعد بھی بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑرہا ہے نہ ہی حکومت اور نہ ہی کسی یونی ورسٹی کی جانب سے اردو کے اس محسن کی خدمات کا اعتراف کیا گیا ہے ۔اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ شاید حکومت اور خانگی اداروں کے دروازوں تک اعجازعبید کی خدمات کی دستک نہیں پہنچی ہو لیکن یہ حکومت اور خانگی اداروں کے علاوہ ہر اس فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر اس فرد اور خدمت کو منظر عام پر لانے کی کوشش کرے جو اردو کی فروغ اور ترویج میں خاموش اپنی خدمات انجام دے رہا ہو۔ امید کرتے ہیں کہ جہاں شاہ رخ خان کو اعزازی ڈگری دی جاسکتی ہے تو پھر اعجازعبید کی اردو کے لئے کی جانے والی ناقابل فراموش خدمات کو بھی حکومت اور یونی ورسٹی کی جانب سے بہت جلد سراہا جائے گا اور انہیں کسی خاص اعزاز و اکرام سے نوازا جائے گا تاکہ اردو کی خاموش خدمات انجام دے نے والے ایسے ہر خاموش فرد وہ تنظمیوں کے حوصلے بلند ہوں۔

تبصرے بند ہیں۔