رسولِؐ اکرم کا انتباہ

آج آپ لوگوں  سے ایک بہت ضروری بات کہنی ہے جو بلا تکلف اور بلا خوف تردید عرض کرتا ہوں۔

 دیکھئے؛ اس وقت زندگی کے کسی شعبہ پر بھی نظر ڈالئے، ہر فرد پر کچھ ایسی بے حسی طاری ہے کہ کسی کو اپنے مآل کار کا ہوش نہیں،  ہر شخص کے ذمہ اپنے اپنے مساغل ہیں،  وہ دیندار ہوں  یا دنیادار۔ مگر سب کے ساتھ ایک بے حسی کا عالم ہے۔ میں  سب کو تو نہیں  کہتا مگر اکثر و بیشتر کی یہی حالت ہے۔ تجارت گاہوں  میں،  دفاتر میں،  مختلف اداروں  میں  لوگ اپنی اپنی دھن میں  سرگرداں  ہی رہتے ہیں،  قرب قیامت کی علامات میں  یہ بھی ہے کہ ایسا وقت آئے گا کہ لوگ اپنی زندگی کے انداز میں  ایسے مدہوش ہوجائیں  گے کہ ان کو یہ ہوش ہی نہ ہوگا کہ صبح کب ہوئی اور شام کب ہوئی اور کس طرح ہوئی جائز طریقہ سے ہوئی کہ ناجائز طریقہ سے۔ حلال کی کمائی ہوئی کہ حرام کی ہوئی۔ انسانوں  کی طرح سے ہوئی کہ حیوانوں  کی طرح ہوئی یہ احساس ہی مٹ جائے گا اس وقت اب ایسے ہی آثار دیکھ رہا ہوں،  نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جتنی علامات قیامت احادیث میں  ارشاد فرمائی ہیں  وہ کچھ تو برملا اب پائی جارہی ہیں  اور جن کا ابھی وقت نہیں  آیا وہ بھی آئندہ ظاہر ہوتی رہیں  گی۔

 قربان جائیے اس نبی برحق علیہ الصلوٰۃ والسلام پر سے کہ جس نے دین کی یا دنیا کی کوئی بھی بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی ضرورت اور بات ایسی باقی نہیں  چھوڑی جس کے متعلق صاف اور کھلے الفاظ میں  احکام نہ بیان فرما دیئے ہوں  اور ان کے منافع اور نقصان نہ بتادیئے ہوں۔  اگر مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا رسول سمجھتے ہیں  تو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جس قسم کے اعمال پر جس قسم کے عذاب اور پریشانیوں  کا مرتب ہونا ارشاد فرمایا ہے وہ تو یقینا ہوکر رہیں  گے مگر ہم کو اپنی مدہوشی کی وجہ سے ان ارشادات، نبویہؐ کی طرف دھیان دینے کی فرصت اور ہوش کہاں ؟

 علاماتِ قیامت کے سلسلہ میں  ایک حدیث میں  نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اس امت میں  ایک جماعت رات کو کھانے پینے اور لہو و لعب میں  مشغول ہوگی او ر صبح کو بندر اور سؤر کی صورتوں  میں  تبدیل ہوجائے گی اور بعض لوگوں  کو زمین میں  دھنس جانے کا عذاب ہوگا، لوگ کہیں  گے کہ آج رات فلاں  خاندان دھنس گیا اور فلاں  گھر دھنس گیا اور بعض لوگوں  پر آسمان سے پتھر برسائے جائیں  گے جیسے کہ قوم لوط پر برسائے گئے تھے اور بعض لوگ آندھی سے تباہ ہوں  گے؛ اور یہ سب کیوں  ہوگا ان حرکتوں  کی وجہ سے، شراب پینے کی وجہ سے، ریشمی لباس پہننے کی وجہ سے، گانے والیاں  رکھنے کی وجہ سے، سود کھانے کی وجہ سے اور قطع رحمی کی وجہ سے۔ (مشکوٰۃ)

 علاماتِ قیامت میں  یہ بھی وارد ہوا ہے کہ عام کساد بازاری ہوگی، زنا کی کثرت ہوگی، غیبت پھیل جائے گی، مالداروں  کی عظمت کی جائے گی، منکرات کرنے والوں  کا غلبہ ہوگا اور تعمیرات کی کثرت ہوگی نیز فحش گوئی، بدخلقی، پڑوسیوں  کے ساتھ برا برتاؤ۔ علاوہ ازیں  یہ بھی علامات قیامت میں  ہے کہ مرگِ ناگہانی کثرت سے ہونے لگے گی جو آج کل عام طور سے ہونے لگی، جس کو دل کی حرکت بند ہوجانا (Heart Falure) کہتے ہیں۔

 ایک حدیث میں  ارشاد ہے کہ نیک اعمال میں  جلد کرو، مبادا ایسے فتنے واقع ہوں  جو اندھیری رات کی طرح ہوں  کہ حق ناحق کو پہچاننا مشکل ہوجائے۔ ان میں  آدمی صبح کو مسلمان ہوگا، شام کو کافر۔ شام کو مسلمان ہوگا تو صبح کو کافر ہوگا۔ معمولی سے دنیوی نفع کے عوض دین کو فروخت کر دے گا۔ (مشکوٰۃ)۔

 ایک حدیث میں  ارشاد ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس امت کے زمانہ میں  خسف ہوگا یعنی آدمیوں  اور مکانوں  کا زمین میں  دھنس جانا اور مسخ ہوگا کہ آدمی کتے اور بندر وغیرہ کی صورتوں  میں  ہوجائیں  گے اور قذف ہوگا کہ آسمان سے پتھر برسنے لگیں  گے۔ کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم اس حالت میں  بھی ہلاک ہوسکتے ہیں  کہ ہم میں  صلحاء موجود ہوں ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ؛ جب خباثت کی کثرت ہوجائے۔

  اور یہ ارشاد تو متعدد احادیث میں  مختلف عنوانات سے وارد ہوا ہے کہ نیک کاموں  کا آپس میں  ایک دوسرے کو حکم کرتے رہو اور بری باتوں  سے روکتے رہو ورنہ حق تعالیٰ شانہٗ تم پر اپنا عذاب مسلط کر دیں  گے پھر تم اس سے دعائیں  کرو گے تو تمہاری دعائیں  بھی قبول نہ ہوں  گی۔ (مشکوٰۃ)

ایک حدیث میں  ارشاد ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں  دیکھ رہا ہوں  کہ اسلام میں  فوجیں  داخل ہو رہی ہیں  لیکن ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے کہ اسی طرح فوجیں  اسلام سے خارج ہونے لگیں  گی۔

ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو قوم بد عہدی کرتی ہے اس میں  آپس میں  خون ریزی ہوتی ہے اور جس قوم میں  فحش کی کثرت ہوتی ہے اور جو جماعت زکوٰۃ کو روک لیتی ہے اس سے بارش رک جاتی ہے۔

 ایک حدیث میں  نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے کہ جن لوگوں  میں  رشوت کی کثرت ہوتی ہے ان کے دلوں  پر رعب کا غلبہ ہوتا ہے اور وہ ہر شخص سے مرعوب رہتے ہیں۔  (مشکوٰۃ)

 ایک حدیث میں  ہے کہ حق تعالیٰ شانہٗ چند آدمیوں  کے کسی ناجائز کام کرنے سے عام عذاب نازل نہیں  فرماتے جب تک کہ ان لوگوں  کے سامنے وہ کام کیا جائے اور وہ اس کے روکنے پر قادر ہوں  اور نہ روکیں  اور جب یہ نوبت آجائے تو پھر عام و خاص سب ہی کو عذاب ہوتا ہیْ (مشکوٰۃ)

 اور یہی اسباب ہیں  جن کی وجہ سے آج کل نئی نئی آفات اور اور حوادث روز مرہ کے واقعات ہیں۔  نئے نئے امراض، نئے نئے مصائب ایسے روز افزوں  ہیں  جو پہلے کبھی برسوں  میں  بھی سننے میں  نہ آتے تھے۔

ایک حدیث میں  آیا ہے کہ جب میری امت اپنے علماء سے بغض رکھنے لگے اور بازاروں  کی تعمیر کو نمایاں  کرنے لگے اور درہم (روپئے) جمع کرنے پر نکاح کرنے لگے (یعنی نکاح کرنے کیلئے بجائے دیانت، تقویٰ، دینداری کے مالدار ہونے کی رعایت ملحوظ ہو) تو حق تعالیٰ شانہ ان پر چار چیزیں  مسلط فرمادیں  گے۔

 (1  زمانۂ قحط … (2  بادشاہ کا ظلم … (3  حکام کی خیانت … (4  اور دشمنوں  کا حملہ۔ (مشکوٰۃ)

 حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے علامات قیامت میں  یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ ہر ذی رائے اپنی رائے کو سب سے اچھا سمجھے گا،  جس کا آج کل ظہور پوری طرح ہورہا ہے۔ ہر شخص یہی سمجھتا ہے بزعم خود ’’ہمچو من دیگرے نیست‘‘ کہ جو میری سمجھ میں  آیا ہے وہی درست اور ٹھیک ہے، چاہے کوئی بڑا کچھ کہے یا چھوٹا۔

الغرض سیکڑوں  روایات ہیں  جن میں  صاف طور سے نیک اعمال پر دارین کی فلاح اور بدعملی پر دارین کے نقصان تفصیل سے بتا دیئے گئے ہیں۔

  مقصود ان چند احادیث کے ذکر کرنے سے یہی ہے کہ اگر ہمارے نزدیک حضور مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سچے ہیں  تو پھر ہم لوگوں  کا اپنے اوپر کتنا صریح ظلم ہے کہ دیدہ و دانستہ ہم خود اپنے افعال سے ہلاک میں  پڑتے ہیں۔  نقصان اور خسارہ والے امور اختیار کرتے ہیں اور کام کے انجام پر نظر نہیں  کرتے۔

الغرض میں  یہ کہہ رہا تھا کہ ہم پر غفلت کی مدہوشی طاری ہے اس کا تدارک کیا جائے، اس کیلئے اپنے بزرگوں  سے سنی ہوئیں  باتیں  آپ کی ہدایت کیلئے عرض کر رہا ہوں۔  اس کے بعد واللہ اعلم یہ باتیں  سننے میں  بھی آئیں  یا نہ آئیں۔

  سب سے پہلے آپ اسی بات پر توجہ کرلیں  کہ اس وقت دنیا جن آلام و آزار میں  مبتلا ہے اور جس کا ہم کو کسی نہ کسی درجہ میں  علم ہوتا رہتا ہے اس کے متعلق ہمارے کیا تاثرات ہیں ؟

 دیکھئے ؛ ہم میں  سے اکثر و بیشتر روزانہ اخبار پڑھتے ہیں۔  پہلے صفحہ سے لے کر آخری صفحہ تک کیا ہوتا ہے؟سانحات و حادثات کی خبریں  برابر شائع ہوتی رہتی ہیں۔  آج یہاں  بس گرگئی، اتنے افراد ہلاک ہوگئے۔ فلاں  جگہ ریل کا حادثہ ہوگیا اتنے آدمی مرگئے۔ کہیں  ہوائی جہاز گرگیا یا جہاز کا اغوا ہوگیا۔ فلاں  جگہ آگ لگ گئی اتنا نقصان ہوگیا۔ فلاں  جگہ زلزلہ آگیا، اتنے آدمی مرگئے۔ فلاں  محلہ میں  قتل ہوگیا،  کہیں  دوہرا قتل ہوگیا، کہیں  ڈاکہ پڑگیا تو کہیں  گھر لوٹ لیا گیا۔ فلاں  بینک میں  ڈکیتی ہوگئی۔ کہیں  فساد ہوگیا،  اتنے لوگ  مارے گئے۔ کہیں  جنگ ہورہی ہے۔ قتل و غارت گری، چوری،  ڈاکہ، لوٹ مار،  اغوادنیا بھر میں  یہ سب کچھ ہورہا ہے یا نہیں ؟

 آپ نے اخبار پڑھا اور ڈال دیا۔ آپ سچ سچ اپنے تاثرات بتائیے کہ کسی کے دل میں  ایک لمحہ کیلئے جنبش پیدا ہوئی۔  دن دہاڑے لوٹ مار، غارت گری، تباہ کاری، جانی اور مالی نقصانات کے واقعات و حالات پڑھے اور اخبار رکھ دیا، کسی نے کوئی تاثر لیا؟

میں  کہتا ہوں  کہ کسی نے کوئی تاثر نہیں  لیا تو یہ کتنی بڑی بے  حسی ہے، گویا یہ واقعات صرف اخبار پڑھ لینے کیلئے ہیں  یا سن لینے کیلئے ہیں۔  آپ سے اور آپ کے امور زندگی سے ان کا کوئی واسطہ نہیں۔  آپ کی جان و مال کو گویا کوئی خدشہ نہیں۔  یہ کس قدر بے حسی ہے۔ کہیں  ایسا نہ ہو کہ کوئی پکارنے والا پکار اٹھے ؎

اے موجِ حوادث ان کو بھی دو چار تھپیڑے ہلکے سے … کچھ لوگ ابھی تک ساحل پر طوفان کا نظارہ کرتے ہیں

    پھر انسانی ہمدردی کا بھی کوئی تقاضا ہونا چاہئے کہ یہ کیا ہورہا ہے؟

تحریر: مولانا ڈاکٹر عبدالحئی… ترتیب: عبدالعزیز

تبصرے بند ہیں۔