اب انہیں ڈھونڈھ چراغ رخ زیبا لیکر

اخلاق عالم نے کرۂ ارضی پرکچھ ایسی شخصیات پیدا کی ہے،جن کا طرہ امتیاز ہی ان کی گمنامی ہواکرتی ہے،زمانہ میں  ان کی خدمات،ان کے علوم ومعارف اوران کے فیضان کا ڈنکابجتاہے،لیکن اہل زمانہ ان کی شخصیت و ہویت سے یکسر ناواقف ہوتے ہیں، اس کی وجہ ایسے لوگوں  کی فنافی اللہی،ترک دنیا،زھد فی الدنیا اور رغبت اخروی ہوتی ہے، اس فانی دنیا میں  انسانوں  کے پردہ سماعت سے اموات کے نہ جانے کتنے اعلانات اور خبریں  ٹکراتی ہیں اورٹکرائینگے!!ہر نکھرتی ہوئی صبح اور ہرڈھلتی ہوئی شام کسی نہ کسی شخص کیلئے منتہائے زیست کاپیغام لاتی ہے،پھراس شخص کو دارالفناء سے دارالبقاء کی جانب کوچ کر جانا ہوتا ہے،موت سے کس کودستگاری ہے،آج وہ کل ہماری باری ہے،لیکن کچھ ہستیاں  اور شخصیات ایسی بھی ہوتی ہیں، جنکی موت کی خبر سنتے ہی ہر آنکھ برسنے لگتی ہے،گردو پیش کے احوال سوگوارنظر آنے لگتے ہیں ، قلب کوایک دھچکا اوروجود میں  لرزہ طاری ہو نے لگتا ہے،حواس معطل اور ہوش ناکارہ ہو کر رہ جاتا ہے،چمن میں  فضائے ماتمی اور سرپر یتیمی کاسایہ منڈلانے لگتا ہے، انہیں  نابغہ روزگار،و یکتائے زمانہ شخصیات میں  سے شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی قدس سرہ العزیز کے شاگرد رشید، محدث جلیل، خادم حدیث،عاشق رسول، صاحب مستجاب الدعوات، استاذ الاساتذہ حضرت مولانا شیخ عبد الحق صاحب اعظمی شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند کی تھی،جنہیں  کل تک طویل عمری اور وسعت فیضان کی دعاء دی جاتی تھی،آج رحمت و مغفرت کے سابقہ لاحقہ سے یادکیا جارہاہے، شیخ عبد الحق صاحب جو تقریباً نصف صدی سے دارالعلوم دیوبند میں  علم حدیث کی خدمات انجام دے رہے تھے، زبردست علمی صلاحیتوں  کے مالک ہونے کے ساتھ علم حدیث میں  بے پناہ مہارت رکھتے تھے اور ادارہ کے انتہائی مقبول ترین اساتذہ میں  ان کاشمار ہوتاتھا۔

ولادت!

 آپ کی ولادت باسعادت زرخیز و رجال ساز سرزمین اعظم گڑھ کے قصبہ جگدیش پور میں 06 رجب المرجب 1345ھجری  بمطابق 1928 عیسوی کو ہوئی،جب آپ کی عمر 06 سال کی ہوئی تو والد صاحب کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔آپ کی کفالت جونپور کے کبار علماء، و مشاھیر زمانہ شخصیات میں  سے ایک  عظیم ترین عالم شیخ وقت ابوالحسن محمد مسلم رحم اللہ علیہ نے کی

تعلیم و تعلم!

 حضرت شیخ عبد الحق صاحب نے تعلیم کی ابتداء  اعظم گڑھ کے شہرہ آفاق ادارہ مدرسہ بیت العلوم سرائے میر سے کی،بیت العلوم  جو ہندوستان کا قدیم ترین دینی ادارہ اور مرکز علم وفن ہے،حضرت شیخ نے بیت العلوم میں  عربی زبان و ادب کی جملہ کتب،نحو وصرف، معانی بیان سمیت فقہ کی مشہور کتاب شرح وقایہ تک کی کتابیں  پڑھیں، پھر دارالعلومئوناتھ بھنجن، جو ابوالمآثر محدث کبیر مولانا حبیب الرحمان صاحب اعظمی کا قریہ ہے،وہاں  داخلہ لیا اور کبار علماء و جبال علم حضرات سے فقہ حنفی کی شہرہ آفاق کتاب ہدایہ، اصول اور ادب کی کتابوں  سمیت مشکوۃ شریف تک کا سفر مکمل کیا۔

مادر علمی دارالعلوم دیوبند میں  داخلہ !

  پھر حضرت شیخ نے ازہر ہند دارالعلوم دیوبند میں  1948 میں  باضابطہ داخلہ لیا اور صحیح بخاری مکمل اور ترمذی شریف جلد اول کی سماعت شیخ الاسلام حضرت مولاناسید حسین احمد مدنی علیہ الرحمہ کی خدمت میں  کی۔ آپ نے صحیح مسلم محدث کبیر جامع المعقولات و المنقولات حضرت مولانا علامہ ابراہیم بلیاوی سے پڑھی،ترمذی شریف جلد ثانی اور شمائل شیخ الادب مولانا اعزاز علی امروہوی سے،سنن نسائی اور مؤطا بروایت یحیی اور شرح معانی الآثار للطحاوی خاتم المحدثین شیخ فخر الحسن مردآبادی سے پڑھی،سنن ابن ماجہ شیخ ظہور حسن دیوبندی سے،مؤطا امام محمد شیخ جلیل احمد سے پڑھی، دارالعلوم دیوبند سے آپ نے جمیع علوم کی تکمیل کی اور آپ کی فراغت 1368ھجری بمطابق 1949 میں  ہوئی.

اجازت حدیث!

 آپ کو ہندوستان کے سبھی مشاہیر محدثین سے اجازت حدیث حاصل تھی،آپ کو شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی،ابوالمآثر مولانا حبیب الرحمان صاحب اعظمی،شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب کاندھلوی،محدث کبیر مولانا فخر الحسن صاحب مرادآبادی، شیخ عبد الغنی صاحب پھولپوری اور حکیم الاسلام قاری طیب صاحب رحم اللہ علیہم جیسے عباقرہ وقت سے آپ کو اجازت حدیث کی سند حاصل تھی، آپ نے ان جیسے عباقرہ وقت آفتاب علوم ومعارف کے سایہ عاطفت میں  اپنی علمی تشنگی بجھائی،محنت سے پڑھا،ممتاز رہے،ہرشعبہ میں  فعال ومتحرک،فرض شناس ونمایاں  ہونا آپ کا امتیازی وصف تھا۔

تدریسی خدمات!

 آپ کا تدریسی زمانہ تقریباً نصف صدی کو محیط ہے،سب سے پہلے آپ نے مدرسہ مطلع العلوم بنارس میں  16 تک حدیث شریف کا درس دیا،پھر آپ نے مدرسہ حسینیہ جونپور میں  حدیث شریف کی تدریسی خدمات انجام دیں، اسی بیچ آپ نے بہار کے گریڈیہہ ضلع کے ایک ادارے میں  بھی طویل عرصہ تک خدمات انجام دیں، بعدہ آپ دارالعلوم مئوناتھ بھنجن میں  مدرس حدیث مقرر ہوئے،ایک لمبے زمانہ تک ہندوستان کے مختلف اداروں  میں  حدیث شریف کی خدمت کرنے کے بعد 1402 ھجری بمطابق 1982 کو ازہر ہند دارالعلوم دیوبند میں  آپ بحیثیت محدث لائے گئے اور تادم حیات تقریباً 36سال تک اصح الکتب بعد کتاب اللہ بخاری شریف جلد ثانی پڑھائی۔

طریقہ تدریس!

 آپ کا طریقہ درس نہایت صاف شفاف،ڈھلے اور دھلے الفاظ،نپا تلا پیرایہ اور اوقع فی النفس کردینے کا ملکہ ہی آپ کا وصف جداگانہ تھا،دارالعلوم دیوبند میں  آپ کو بخاری شریف جیسی موقر اوراہم ترین حدیث کی کتاب شروعات میں  ہی سونپی گئی،دلائل وشواھد کالاحق و سابق اور طریقہ تطبیق آپ کے درس حدیث کو ممتاز اور اکابرین حدیث کی یادگار بناتاتھا،آپ کے درس میں  حضرت

شیخ الاسلام کا اسلوب نمایاں  ظاہر ہوتا تھا،جب بخاری شریف (جلد ثانی)کتاب المغازی کادرس دیتے تو ایک مرد مجاہد کی طرح تقریر کرتے  اور آپ کا  انداز درس یہ بتلادیتا تھا کہ آپ فریضہ جہاد پرزور دیتے ہوئے شریعت کے خلاف کبھی بھی کسی طرح کے حالات سے سمجھوتہ نہ کرنے کی تلقین کررہے ہیں ، ۲جمادی الاولی 1419ھ کی شب میں  آپ نے دوران درس دارالعلوم دیوبند کی مسند حدیث سے برادران وطن کے نام جلی عنوان سے لکھے جانے کے لائق ایک پیغام دیاتھاوہ یہ ہے۔

برادران وطن سن لیں  کہ اب!

  ہم یہاں  سے کبھی بھی ہجرت نہیں  کرسکتے، ہم نے اسی سرزمین پر آنکھیں  کھولی ہیں،  ملک وقوم کے تعلق سے ہماری بے لوث خدمات واضح ہیں، ہم اس ملک کے باشندے ہیں  اور یہ ملک ہمارا ہے،یہاں  کے ذرات تک میں  برابر کا حصہ۔ملک کوہندوراشٹربنانیاور اس پر نئی تہذیب مسلط کرنے سے متعلق جو خواب تم نے دیکھا ہے اور اسکو عملی شکل دینے کو جو سوچاہے وہ کبھی شرمندہ تعبیر نہیں  ہوسکتا ہمیں  بنیادی حقوق اور دستوری تحفظات دینے ہونگے اگرکسی نے حق شکنی کی شازش رچی تو سن لو کہ۔ یہ بات عیاں  ہے دنیا پر، ہم پھول بھی ہیں  تلوار بھی ہیں، یابزم جنوں  مہکائیں  گے، یا خوں  میں  نہا کر دم لیں  گے۔یہ ان پر شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی کی صحبت کا اثر تھا جنہیں  انگریزوں  کے خلاف مقابلہ کرنے پر قید و بند کی صعوبتیں  برداشت کرنی پڑیں۔ (مولانا حبیب الرحمن اعظمی صاحب کی کتاب علماء اعظم گڑھ سے ماخوذ)نیز شیخ صاحب شعبہ افتاء کی مشہور ترین کتاب الاشباہ و النظائر کا معرکۃ الآراء درس دیتے تھے،ساتھ ہی ابتدائی زمانہ میں  ایک مدت مدید تک آپ نے فتوی نویسی کی خدمت بھی انجام دی ہے۔

بیعت وسلوک!

 آپ نے شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی و شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی رحمہم اللہ علیہم کے زیرسایہ علمی وتربیتی سفر کی تکمیل کی تو محی السنہ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب کے یہاں  رجال سازی کا عملی سفر پورا کیااور حضرت ہردوئی سے بیعت ہوئے،بعدہ آپ کو حضرت ہردوئی علیہ الرحمہ نے ہی اجازت و خلافت سے نوازا۔

اوصاف  وخصائل!

   آپ شروع سے ہی مصلح مزاج، متواضع،فناء فی اللہ ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی جلالی طبیعت کے مالک  تھے،سادہ اور گمنام زندگی کے عادی تھے۔تام جھام سیاس قدرمتنفر تھے کہ ان کی شناخت کسی اجنبی کے لیے کیا کسی طالب علم کے لئے بھی مشکل ترین ہوا کرتی تھی، آپ حدیث رسول ’’لایشارالیہ بالاصابع‘‘کے مکمل مصداق اور عملی پرتو تھے،انتہائی سادہ مزاج،غریب طبیعت اور ہرطرح سے اندرونی وبیرونی سیاست سے دور قناعت پسند فطرت کے مالک تھے،جبہ ودستار والی ظاہر داری،چاپلوسی و تملق سے کبھی واسطہ نہیں  رکھا،اسی وجہ سے دارالعلوم کی پینتیس سال سے زائد خدمت کے باوجود زندگی بھر ادارے کی جانب سے دئیے گئے ایک چھوٹے سے مکان میں  گزار دیااور ادارے سے ملنے والے محدود مشاہرہ پر ہی اکتفاء کیا۔آپ عام طور پربدن پر پیوندشدہ اور عامیانہ لباس زیب تن فرماتے تھے،عام طور پر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کوئی مجذوب اپنی دھن میں  مست،حب الہٰی میں  سرشارہے،زھدوورع کی اس طرح کی مثال ترقی کے اس دور میں  تقریباًناپید ہوچکی ہے،حضرت شیخ کی ایک اور خصوصیت تھی کہ آپ طلبہ کے لئے بیحد مشفق اور ان سے نہایت بے تکلف تھے،ان کے دکھ درد میں  برابر شریک تھے۔

حلیہ مبارکہ!

 درازقد، گٹھا ہوا جسم اس پر سادگی و سنجیدگی کا لبادہ اوڑھے ہوے،کرتہ و تہبند زیب تن کئے ہوئے،اسوہ رسول کا پیکر بنے ہوئے،آنکھوں  میں  عینک، سر پر دو پلی ٹوپی،  لباس فاخرہ سے دور،  دنیا طلبی سے مفرور، فکر آخرت میں  مخمور، تواضع وانکساری سے بھر پور،یہی اوصاف و انداز، آپ کی شخصیت کی یکتائیت وانفرادیت کے اجزائے ترکیبی تھے،طبیعت میں  ایسا جلال تھا کہ خلاف عادت کوئی بھی امر نظر آتا تو غصہ سے سرخ ہوجاتے مگرپھرچندثانیوں  میں  ھی ان کی طبیعت کی گرمی سردپڑجاتی۔

مستجاب الدعوات ہونے کے مشاھدات!

 آپ کے بارے میں  یہ بات مشہور تھی کہ آپ جس کے لئے دعا کردیں  وہ ضرور قبول ہوتی ہے،اسی لئے ہر خاص موقعہ پر آپ ہی سے دعاء کرائی جاتی تھی،آپ ہرسال ملک و بیرون  ملک کے مشہور مدارس میں  بخاری شریف کے افتتاح و تکمیل کے غرض سے مدعو کئے جاتے تھے اور آپ تشریف لے جاتے تھیاور حدیث شریف کی اجازت مرحمت فرماتے تھے،دارالعلوم میں  بھی خاص خاص مواقع پرحضرت سے دعا کروانے کااھتمام کیاجاتا، بطورِ خاص بخاری شریف کے اختتام کے دن حضرت کی دعا غیرمعمولی رقت آمیزھوتی، خدائے پاک کی بارگاہ میں  خودبھی اظھارِ عجزوندامت کرتے اور زاروقطارروتے اورساتھ ساتھ ھزاروں  طلبہ کوبھی رلاتے جاتے، دعاسے فارغ ھونے کے بعدایسالگتاکہ واقعی گناھوں  کابوجھ اترگیاھے اورربِ کریم نے اپنے اس بوڑھے اورعلومِ نبوی کے اشاعت کاربندے کے صدقے میں  ھمیں  اپنی رحمتوں  کی چادرمیں  ڈھانپ لیاھے۔چند سال پہلے دیوبند میں  بارش نہیں  ہورہی تھی،کئی مرتبہ صلوۃ الاستسقاء پڑھنے کے باوجود آسمان تپ رہا تھا،تبھی حضرت نے ختم بخاری کرائی،رات کے تقریباً دو بجے طلبہ کے اصرار پر نہایت خاشعانہ و خاضعانہ انداز میں  دعا کرائی،خدا کا کرنا حضرت کے درسگاہ سے نکلنے سے پہلے ہی بارش شروع ہوگئی،نیز حضرت کی مجرب تعویذیں  اور دم بہت مشہور اور فوری  شفاء کا ذریعہ بنا کرتے تھے۔

علالت ووفات!

  حضرت شیخ عبد الحق صاحب ایک طویل عرصہ سے مختلف بیماریوں  میں  مبتلاتھے،لیکن آپ نے طبیعت سے اس کا احساس کبھی بھی نہیں  ہونے دیا،پیرانہ سالی اور معذوری کے باوجود امسال بھی ششماہی تک اپنا نصاب پورے وقاروفرض شناسی سے مکمل کیا،انتقال کے دو دن پہلے سے سانس اور پیٹ کی تکلیف زیادہ بڑھی،جمعرات کے دن بہت قے کیا، بعد نماز جمعہ ڈاکٹر ڈی کے جین کے دیوبند واقع مقامی ہاسپٹل میں  آپ کو بھرتی کیا گیا،ابتدائی طبی امداد کے بعد کچھ طبیعت نارمل ہوئی،آپ نے ذمہ داروں  سے بات چیت بھی کی،بعد نماز مغرب سانس اکھڑنے لگی اور خادم نے سورہ یٰس کی تلاوت شروع کی۔درمیان میں  اٹکنے پر پر آپ نے ٹوکنے کی کوشش بھی کی اور پھر مختصر وقت میں  قضائے ربی کی آمد ہوئی اور آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر اپنے خالق حقیقی سے جاملی۔۳ ربیع الاول 1438ھجری بمطابق 30 دسمبر 2016 سات بجے کر دس منٹ پر ھجری سنہ کے مطابق 90 سال اور عیسوی سن کے مطابق  88 سال کی عمر میں  علوم ومعارف کایہ چراغ زھدو ورع کا روشن آفتاب غروب ہوگیا۔اناللہ و انا الیہ راجعون۔آپ کی وفات کی خبر سنتے ہی طلبہ دارالعلوم دیوبند ومدارس اسلامیہ دیوبند سمیت پورے برصغیر میں  ایک غم کی لہر دوڑ گئی۔خود راقم السطور کو حضرت مولانا سید محمد امین صاحب نصیرآبادی رحم اللہ علیہ (استاذ شیخ عبد الغنی بانی مدرسہ بیت العلوم سرائے میر اعظم گڑھ )کے ہم وطن ہونے کی وجہ سے حضرت شیخ کی بڑی قربت حاصل تھی اور شیخ بندے کے ساتھ نہایت درجہ کی محبت و شفقت کا معاملہ فرماتے تھے۔بروز جمعہ بعد نماز عصر ڈاکٹر ڈی کے جین کے یہاں  ایک مریض کی عیادت کے غرض سے پہنچا تھا تبھی حضرت شیخ کے خادم نے اطلاع دی کہ حضرت شیخ کی طبیعت ناساز ہے،بعد نماز مغرب ہم نے ریلوے اسٹیشن کے پاس چائے پی،واپس آئے، ابھی صدر گیٹ باب قاسم پر پہنچے ہی تھے کہ ایک ملازم نے چلا کر کہا کہ مہدی بھائی اعلان کردو،میں  نے کہا کس چیز کا اعلان؟، اس کی زبان سے جو جملہ نکلا وہ میرے اعصاب پر بجلی بن کر ٹوٹااور مجھ پر سکتہ کی کیفیت طاری ہوگئی،مفلوج قدموں  سے مسجد قدیم کے مائک کی اور بڑھا اور پھر ناجانے کس طرح طاقت جٹا کر دل پر پتھر رکھ کر وہ الفاظ ادا کئے،جن کی ابھی اتنی جلدی امید نہیں  تھی،بس حضرت شیخ کا یہ جملہ بار بار ذہن میں  گونج رہا ہے۔

بیٹو!کہا سنا معاف کردیہو!کا پتا کب اللہ میاں  بلائے لیئیں .

حضرت شیخ کی وفات کے بعد سے سوگواروں  کا تانتا لگ گیا،

اور دیوبند کا ذرہ ذرہ رونے لگا.

تجہیز و تدفین!

  غسل کی سعادت قاری فوزان صاحب کے ہاتھ آئی،خادم خاص مولوی ابوبکر قاسمی،ساتھ میں  مرید خاص بھائی وقار احمد،محمد اشرف صدیقی،مولوی حذیفہ قاسمی او راقم الحروف وغیرہ کے ہاتھ آئی۔

تلامذہ و مستفیدین!

  دارالعلوم دیوبند کے زمانہ تدریس میں  برصغیر پاک و ھند و بنگلہ دیش میں  آپ سے داخل ہوکر بخاری شریف کی سماعت کا شرف حاصل کرنے والے خوش نصیبوں  کی مجموعی تعدادتقریبا ۵۳ ہزار ہے،علاوہ ازیں  آپ کی جانب، فن حدیث میں  منتسب علماء و فضلاء، لاکھوں  کی تعداد میں  پوری دنیا میں  حدیث رسول کی نشر و اشاعت میں  لگے ہوئے ہیں .۔

ورثاء و پسماندگان!

   یوں  تو علمی طور پر دارالعلوم دیوبند کا ہر منسلک بلکہ حدیث رسول کا ہر قاری حضرت شیخ کی وفات سے یتیم ہوگیا،البتہ نسبی طور پر آپ کے پسماندگان میں  اہلیہ محترمہ، چھ صاحبزادے اور تین صاحبزادیاں  ہیں، تینوں  اہلیہ سے مجموعی طور پر سات صاحبزادے اور پانچ صاحبزادیاں  ہیں، جن میں  سے گرامی قدر مولانا عبد البر صاحب استاذ حدیث مدرسہ بیت العلوم سرائے میرقابل ذکر ہیں۔

تعزیت کنندگان

عالم اسلام کے سبھی مشاہیر علماء و محدثین نے اس غم کے موقعہ پر تعزیت کی ہے،بالخصوص مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی مہتمم دارالعلوم دیوبند،مولانا سید ارشد مدنی صدر جمعیۃ علماء ہند،مولانا قاری عثمان صاحب منصورپوری،صدر جمعیۃ علماء ہند،مولانا سعید الرحمان صاحب اعظمی مہتمم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ،مولانا سلمان صاحب مظاہری مہتمم مظاہر العلوم سہارنپور،مولانا مفتی محمد تقی صاحب عثمانی دارالعلوم کراچی،متکلم اسلام مولانا الیاس گھمن صاحب،سمیت ہندو پاک اور بنگلہ دیش کے کبار علماء و متوسلین نے اس عالم ربانی، عظیم مرد مجاہد و خادم حدیث کی وفات کو ملت اسلامیہ کے لئے ناقابل تلافی نقصان اور فن حدیث کے ایک بڑے باب کا خاتمہ قرار دیا۔

حرف آخر!

حضرت شیخ کا دنیا سے پردہ کر جانا علوم اسلامیہ بالخصوص حدیث رسول کے خدام کے لئے اور ازہر ہند دارالعلوم دیوبند کے لئے ایک عظیم ترین سانحہ ہے،حضرت شیخ کا متبادل اس دور میں  امر محال ہے،لیکن پھر بھی اللہ رب العزت سے دعاگو ہیں  کہ حضرت شیخ کی خدمات حدیث رسول کے صلہ میں  ہم محبان دارالعلوم و مدارس اسلامیہ کو ان کا نعم البدل نصیب فرمائے اور ہم سبھی کو حضرت شیخ کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔اور حضرت شیخ کو فردوس بریں  میں  انبیاء کرام و محدثین عظام کے ساتھ مصاحبت نصیب فرمائے۔

تبصرے بند ہیں۔