یہ عہد ہمارے ہمہ گیر زوال کا عہد

شمسی کیلنڈر کا نیا سال شروع ہوچکاہے ، دیوار حیات سے ہر لمحہ ایک ایک اینٹ گرتی جارہی ہے، ایسے میں کیا کہوں اور کیا سناؤں، ہر گزرے ہوئے لمحات، ماہ وسال نے ہمیں ہر آن ایک زخم سوا دیا تھا، کبھی کشمیر جل رہاتھا، اس ہنگامہ نے سینکروں جانوں کو نگل لیا، تو کبھی مسلم پرسنل لاء کے کردار کشی کی کوشش کی گئی اور نام نہاد مسلم خواتین کو سامنے لاکر ان کی آڑ میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی کوشش کی گئی، تو کبھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو نشانہ بنایا گیا اور یہ معاملہ ابھی بھی عدالت عظمیٰ کے روبرو ہے اس پر سماعت ہورہی ہے۔ لیکن آنے والے دنوں پتہ نہیں اس پر کیا ہونے والا ہے؟ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔اکتوبر کے آخری ہفتہ میں بھوپال میں 8مسلم نوجوانوں کو فرضی مڈبھیڑ اور جیل سے فرار کا افسانہ بناکر بے دریغ قتل کردیا گیا۔ لیکن دل میں ایک سوال بارہا اٹھتا رہتاہے کہ آخر ہم ہی ذلت ونکبت، رسوائی وپسپائی کے شکار کیوں ہوتے ہیں؟ جبکہ ہم خیر امت ہیں ہم ہی نے تو خلافت کی اس عظیم ذمہ داری کو اٹھایا ہے جس کو اٹھانے سے زمین وآسمان، پہاڑ وسمندر نے انکار کردیا تھا۔ بالفاظ دیگر زمین پر اللہ نے ہم ہی کو تو خلافت کامنصب عطاکیا ہے۔ اس کے باوجودبے بس، بے کس، لاچار ومجبور، مقہور ومظلوم کیوں ہیں؟ وہ آسمان جس کی طرف ہماری نگاہیں اس لئے اٹھتی ہیں کہ وہاں سے رحمت کی برکھا برسے گی، لیکن وہاں سے آگ برس رہی ہے۔زمین جس کے خزانے ہمارے ہی وا ہوئے ہیں اس کے ہر چہار جانب اژدہے منہ کھولے ہمیں نگل لینے کی تیاری میں ہیں۔ زمین اپنی تمام تر وسعت کے باوجود ہم پر تنگ ہوچکی ہے۔ یہ عہد مسلمانوں کے ہمہ گیر زوال کا عہد ہے۔ مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک ہرطرف سے انسان نما بھیڑیے مسلمانوں کا ناطقہ بند کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔اس وقت پوری دنیا میں 195 ممالک ہیں جن میں تقریباً 51 ممالک میں مسلمانی اور مسلم اکثریت حکومتیں ہیں،مگرصدافسوس کہ ہماری حالت اس قوم کی طرح ہوکر رہ گئی ہے،جس کے رہبر کو پابہ زنجیر زنداں میں پھینک دیا گیا ہو۔ مسلمانوں کی زبوں حالی کی تاریخ کا آغاز، تو اسی وقت ہوگیاتھا ،جب خود اسی کے سپوتوں نے اپنے ہی ہاتھوں ترکی کی خلافت کا گلا دبوچ لیاتھا،پھر جہاں کہیں بھی خلافت قائم کرنے کی کوشش کی گئی ،اقوام عالم نے ا س کے گلے میں دہشت گردی جیسے دوسرے الفاظ کی بھدی تعویذ لٹکادیا۔ افغانستان میں طالبان کا عروج وزوال اس کی واضح اور زندہ مثال ہے۔ ملک عرب بالخصوص جی سی سی ہمیشہ سے مسلمانانِ عالم کی توجہات کے مراکز ر ہے ہیں۔ آج خود ان کی حالت صحرا میں جلتے اورجھلستے ہوئے ببول کے درختوں کی طرح ہوکر رہ گئی ہے؛نہ ہی سرسبز ہے کہ ان سے سایہ حاصل کیا جاسکے اور نہ ہی صحرائی تپش نے انہیں جھلسا کرایسا خاکستر بنادیا ہے کہ ایک راہ گیر کو ان سے اپنی منزل کا پتہ نہ مل سکے۔بہ الفاظِ دیگر ان کی حالت نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن کی مانند ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جب کوئی ملک کسی مسلمان ملک یا مسلمانوں کو اپنے ظلم وستم کا نشانہ بناناچاہتاہے تو اس وقت ان کے منہ میں زبان نہیں ہوتی۔
افغانستان وعراق کا تو قصۂ ماضی بن چکاہے۔ چیچنیا میں اب کچھ شاید رہا ہی نہیں۔ فلسطین کا زخم تو پک کر پھوڑا بن چکاہے، جس کادرد اتنا بڑھا کہ شاید اس میں آسانی سی ہوگئی ہے لوگ سن سن کر عادی ہوچکے ہیں کہ فلسطین میں بچے بوڑھے خواتین خاک وخون میں تڑپ رہے ہیں نوجوانوں کو گمنام قیدخانوں میں ڈال کر اذیت کا نشانہ بنایا جارہاہے۔ ایسے میں ایک خوبصورت شہر جس میں بڑے بڑے جلیل القدر انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام نے پناہ لی تھی جو کبھی حضرت ابراہیمؑ کا مسکن تھا، حضرت یعقوبؑ، حضرت اسحاقؑ اور نہ جانے کتنے انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام نے وہاں بسیرا کیا تھا، جو دنیا کے حسین ترین علاقوں میں سے ایک تھا جس کی خوبصورتی اور حسن وجمال کی مثال یوں دی جاتی تھی کہ وہ دنیا میں جنت کا ایک ٹکڑا ہے وہ شام حلب جل کر خاک کا ڈھیر بن چکاہے۔ گزشتہ روز 31دسمبر کو بی بی سی نے شام سے متعلق ایک رپورٹ شائع کی رپورٹ کا آغاز کچھ اس طرح کیا کہ 30اور 31دسمبر کی درمیانی شب شام حلب میں بارش ہوئی اور خوب زوردار بارش ہوئی تو وہاں کے مکینوں نے کہاکہ حلب رورہا ہے اور یہ الوداعی بارش ہے۔ جو یہاں لگے زخموں کو دھو کر رخصت ہونا چاہتاہے۔ امریکہ، روس اور لعین بشار اپنی دوغلی پالیسی ’’انسداددہشت گردی‘‘ اور ’’قیام امن‘‘ کی آڑ میں انسانیت کو فراموش کرکے ظلم وبربریت کی ایک نئی تاریخ رقم کررہے ہیں۔ یہ دور انسانی تاریخ کا سب سے بدترین دور ہے۔ پوری تاریخ ظلم وبربریت میں انسانوں پر وہ مظالم کبھی نہیں ڈھائے گئے جو آج کے یہ حکمران ان بے قصوراور نہتے مسلمانوں پر ڈھارہے ہیں کہ ظلم بھی اس کی کسک محسوس کئے بغیر نہیں رہ پاتا، جس کی تفصیلات کایہاں موقع نہیں۔ صرف وہی سوال کہ آخر یہ ہوتاکیوں ہے؟
جواب :۔ ہم نے شخصی، اجتماعی اور حکومتی سطح پر اپنا وقار کھودیا، اپنی بے بسی اور بے کسی کاشکوہ جس دربار میں کرنا تھا اس سے منہ موڑ کر اقوام متحدہ اور سوپر پاور کے در کی دربانی شروع کردی، نافرمانی کی تمام حدیں مسمار کردیں، اخلاق کا لفظ شاید صحیح نہیں کیوں کہ اخلاق تو ہم سے کب کی رخصت ہوچکاہے۔ ہم نے بداخلاقی کے تمام لبادے اپنے سماج اور اپنے معاشرہ کا جزو لاینفک بنالئے، علم کی وہ روشنی جو غار حرا میں بڑی محنتوں اور مشقتوں کے بعد آقائے مدنی تاجدار بطحا نے روشن کئے تھے جس کی روشنی سے مغرب کے تاریک ایوان جگمگااٹھے تھے ، ہنر کی بلندیاں جو ہم نے اس کو عطاکی تھیں، ریسرچ وتحقیقات کی وہ داغ بیل جو ہم نے صدیوں پہلے ڈالی تھی جس پر چل کر آج یوروپ ہمیں آنکھیں دکھا رہاہے وہ سب ہمارا گم کردہ نشان راہ کی طرح ہوچکاہے، محبت، الفت، شفقت، کرم، مہربانی، ہمدردی، انس وانسانیت جو اس امت کا شان امتیاز تھا ان سب نے اپنے چہرے بدل لیئے ان کی جگہ ان کی متضاد تصویروں نے لے لی ہیں۔ پھر بھی ہم رحم کی امید کرتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے، قانون الٰہی جو دنیا میں رائج ہے اور روزمرہ مشاہدہ میں ہے وہ تو یہی ہے کہ ناکارہ چیزوں کو پھینک دیا جاتاہے اور اس کی جگہ کارآمد چیزوں کو لے آیا جاتاہے۔ خود قرآن نے اس کا اعلان اس طرح کیا ہے کہ ’’بہر حال وہ جو جھاک ہے وہ تو ہوا میں اڑجانے ہی کے لئے ہے اور وہ جو لوگوں کو نفع پہنچاتاہے تو وہ زمین پر ٹھہر جاتاہے۔‘‘ (سورۃ الرعد۔17) گویا جب نافع نہیں رہے تو اللہ ہم کو رکھ کر کیا کرے گاجس طرح جھاک کو قرار نہیں ہے اسی ہمیں بھی زمین پر رہنے کا حق نہیں ہے۔ اس لئے ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہوگا اور پھر توبہ إلی اللہ کے ساتھ رجوع إلی اللہ کرنا ہوگا۔ اللہ ہم کو توفیق سے نوازے ۔ آمین

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔