اسلام پر اعتراضات اور دفاع

محمد انس فلاحی سنبھلی

سوال و اعتراض، بحث ومباحثہ اور گفت وشنید صحت مند معاشرے کی علامت ہے۔ یہ سوال وجواب کا سلسلہ حدود وقیود کے ساتھ افہام وتفہیم کی غرض سے ہوتو نفع بخش اگر اس کا مقصد محض اعتراض برائے اعتراض اور بحث برائے بحث ہو تومعاشرے کی پر امن فضا کو مکدر کرنے میں اس سے زیادہ مضر کوئی چیز نہیں ہے۔ سوال عموما اشکال کو دور کرنے کے لیے کیا جاتا ہے، اور اعتراض اشکال پیدا کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ سوال ممدوح اور اعتراض مذموم ہے۔

    سب سے پہلا سوال فرشتوں نے آدم ؑکی تخلیق کے وقت اللہ سے کیا تھا،ارشاد باری ہے :’’پھر اس وقت کا تصور کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ ’’میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں ‘‘، انہوں نے عرض کیا : کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خونریزیاں کرے گا؟ آپ کی حمدو ثنا ء کے ساتھ تسبیح اور تقدیس تو ہم کرہی رہے ہیں ‘‘۔ ( البقرة:٣٠) اور سب سے پہلا اعتراض ابلیس نے آدم ؑ کو سجدہ کرنے کے حکم پر کیا تھا، اس کا تذکرہ سورہ الاسرأ میں آیا ہے : (الإسراء: ٦١ )’’اور یاد کرو جب کہ ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم ؑکو سجدہ کرو،تو سب نے سجدہ کیا، مگرابلیس نے نہ کیا۔اس نے کہا’’کیا میں اس کو سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے بنایا ہے ‘‘؟‘‘اس کے بعدہر نبی کی امت نے اس کی دعوت پراعتراض کیا۔ ان کا اعتراض یہ تھا کہ اللہ کو ہماری ہدایت مطلوب تھی تو کسی فرشتے کو کیوں نہ بھیجاہم میں سے ہی ایک شخص کو نبی کیوں بنایاہے اس واقعے کا ذکر ان الفاظ میں ہوا ہے :(المؤمنون: ٢٤)’’اس کی قوم کے جن سرداروں نے ماننے سے انکار کیا وہ کہنے لگے کہ ’’یہ شخص کچھ نہیں ہے مگر ایک بشر تم ہی جیسا۔ اس کی غرض یہ ہے کہ تم پر برتری حاصل کرے۔اللہ کو اگر بھیجنا ہو تا تو فرشتے بھیجتا۔ یہ بات تو ہم نے کبھی اپنے باپ دادا کے وقتوں میں سنی ہی نہیں (کہ بشر رسول بن کر آئے )‘‘۔

مشرکین مکہ کا اعتراض یہ تھا کہ ہم اس نبی پر ایمان کیوں لائیں اوراپنے آباؤاوجداد کے دین کو کیوں چھوڑ دیں ۔ ان کے اس اعتراض کو قرآن ان الفاظ میں بیان کرتا ہے :البقرة: ١٧٠’’ان سے جب کہاجاتا ہے کہ اللہ نے جو احکام نازل کیے ہیں ان کی پیروی کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اسی طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے باپ دادا کو پایا ہے ‘‘۔

    اسلام پر اعتراضات سے کوئی صدی خالی نہیں رہی ہے، معترضین بدلے لیکن اعتراضات وہی رہے۔ اسلوب، طریقہ کار اورنوعیت کا فرق رہا۔ ان اعتراضات کے علماء اورمفکرین کی جانب سے تسلی بخش اور قابل اطمینا ن جواب دیے گئے اور دیے جا رہے ہیں ۔ عصر حاضر میں اسلام پر اعتراضات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ ایک اعتراض رفع نہیں ہوتاکہ دوسرا اعتراض سر آن ہوتا ہے۔کبھی جہاد اور اسلامی آتنکواد،حجاب اورتعد دازدواج اور کبھی کم سنی کی شادی اور جانور کی قربانی پر اعتراض کیا جاتا ہے،یعنی جتنے منھ اتنی باتیں ۔ یہ اعتراض نئے نہیں ہے پہلے بھی یہی اعتراض کیے جاتے تھے۔

    معترضین دو طرح کے ہیں ، ایک وہ جو غلط فہمی کا شکار ہیں ۔ ان کے سامنے اسلام کی صحیح تصویر پیش نہیں کی جاسکی ہے۔ معترضین کی دوسری قسم وہ ہے جو اعتراض برائے اعتراض کرتے ہیں ۔ یہ اسلام کے سخت ترین مخالف ہیں ۔وہ اسلام اور مسلمانوں کو زچ کرنے سے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ بدقسمتی سے وسائل پر کنٹرول کی وجہ سے یہ بابنگ دہل اسلام پر جملے کستے ہیں ۔ ان کا مقصد صرف اور صرف اسلام کے تعلق سے لوگوں کو خوف وہراس میں مبتلا کرنا ہے۔ اور اسلام کی شبیہ کو خراب کرنا ہے تاکہ  لوگ اسلام کے دامن ِ رحمت میں جگہ نہ پاسکیں ۔ یہ لوگ دراصل اسلام اورمسلمانوں کی بڑھتی آبادی سے خوف زدہ ہیں اور مستقبل کے بار ے میں فکر مند ہیں ۔ اس طرح کے لوگ ہر عہد اور ہرزمانے میں رہے ہیں ۔ ان کے سامنے کتنی ہی وضاحتیں اور صفائیاں پیش کی جائیں ان کی کج فہمی اور ٹیڑھ پن دور نہیں ہوتا۔

    معترضین کے اعتراض کا عالم یہ ہے کہ علماء اور مفکرین ہمہ وقت حالت ِدفاع میں رہتے ہیں ۔ ہر وقت اسلام اور اسلامی احکام کی وضاحتیں در وضاحتیں کرتے ہیں ۔اس کے باوجود قابل ِذکر نتیجہ سامنے نہیں آتا۔اسلام پر ہمہ جہت اعتراضات کا ہی نتیجہ ہے کہ ہمارے ایسے مصنفین اور ایسی تحریریں نمودار ہوئیں ۔ جنہوں نے اسلام کی شبیہ درست کرنے کی فکر میں نادانستہ طور پر اسلام کی شبیہ خراب کردی۔مسلمہ مسائل میں تاویلات کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اسلام فی الواقع ایسا نہیں ۔اپنی اس کوشش میں یہ لوگ بلاشبہ مخلص رہے ہیں ۔ اسلام سے محبت ہی کا نتیجہ ہے کہ وہ اس کی شبیہ خراب ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے۔ اس لیے وہ اسلام کی ایسی تصویر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔جو اسلام پر ہونے والے اعتراضات کا مسکت جواب ہوسکے اوراسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے دنیا کا نقطہ نظر تبدیل کرنے میں ممد ومعاون ہوسکے۔

    مغرب اور دشمنان اسلام کو سب سے زیادہ خوف اسلام کی عسکری قوت سے ہے۔ اس لیے انہوں نے جہاد کا سرے سے انکار کرنے کے بجائے ایسی تشریح کی جو متقدمین کی تشریحات سے متصادم ہے۔ دوسرا بڑا خطرہ اسلام سے انہیں یہ ہے کہ اسلام دنیا پر غلبے کی بات کرتا ہے اور نظام کو اپنے تابع کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے یہ کہہ کر خطرے کو ٹال دیا کہ اسلام میں غلبہ دین کا کہیں کو ئی مطالبہ نہیں ہے۔اسلام تو صرف خداا وربندے کے درمیان رابطے کا عنوان ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلام فرد کی اصلاح اور معاشرے کی برائیوں کو دور کرنا چاہتا ہے۔ اس نے اسلامی ریاست کے قیام کے لیے کوششیں کرنے کا کوئی مطالبہ نہیں کیا ہے۔ چہرے کے پردے پر اعتراضات سے اس قدر دلبرداشتہ ہوئے کہ قلم برداشتہ میں کھلے چہرے کے ساتھ نکلنے کی اجازت دے کر مسلم خواتین کو بھی آزادی نسواں کی مہم میں غیر شعوری طور پر شامل کرنے کی کوشش کر بیٹھے۔ اور اس کے علاوہ کتنے ہی ایسے مسائل کو اجہتاد کے نام پر متقدمین کی تشریحات سے یکسر مختلف بیان کرنے سے نہیں چوکے۔ اس حوالے سے مولانا وحید الدین خاں اور جاوید احمد غامدی صاحبان کے نام نمایا ں ہیں ۔ان کی علمی قدر ومنزلت، وسعت ِمطالعہ اور اسلوب میں ندرت اور جدت سے کسی کو انکار نہیں ہے۔ لیکن ان کا فکری اثاثہ کسی اور ہی اسلام کا تصور پیش کرتا ہے۔

    دونوں میں مکانی بعد کے باوجود فکری قربت اور مطابقت بہت زیادہ ہے۔ اول الذکر نے اپنی تصنیفات اور ’’الرسالہ ‘‘میگزین کے ذریعے اپنے مشن کو خوب پھیلایا ہے۔ ایک بڑا طبقہ کاان کے معتقدین پا یا جاتا ہے۔ ثانی الذکر اس وقت عصری تعلیم یافتہ طبقے میں بے حد مقبول ہو رہے ہیں ۔ ان کے فالوور کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے۔ان کے ویڈیوز شوشل میڈیا پر کافی وائرل ہوتے ہیں اور بڑی دلچسپی سے سنے اور شیئرکیے جاتے ہیں ۔جاویداحمد غامدی صاحب کے علمی اورفکری سرمایے  میں بہت تضاد پایا جاتا ہے۔ وہ اپنی بات جس قطعیت اور حتمی انداز میں بیان کرتے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اپنے تفردات میں بھی انفرادی حیثیت رکھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو پڑھنے یا سننے والا کنفیوژن کا شکار رہتا ہے۔

    یہ دونوں ہی حضرات اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ مغرب اور دشمنان ِ اسلام کے سامنے صحیح پیش کرنے کی کوشش میں اسلام کے مسلمہ اصولوں پر تیشہ چلانے سے بھی نہیں چوکتے۔ اور اسلام کا ایسا تصور پیش کر ہے ہیں جس اسلام سے دشمنانِ اسلام کو کسی قسم کا خطرہ محسوس نہ ہو۔ اسی لیے یہ کہتے ہیں کہ غلبہ دین اور اسلامی ریاست کے قیام کی کوشش کے لیے شریعت نے کوئی مطالبہ نہیں کیا ہے۔ حالانکہ یہ مسلمہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام اقامت ِدین کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر اسلام کے تصور اقامت ِدین کو ختم کر دیا جائے تو اسلام نامکمل رہ جاتا ہے۔ اسلام خدائی ہدایات پر مبنی نظام کا مطالبہ کرتا ہے، جہاں فرد اورمعاشرے کی اصلاح کے ساتھ ساتھ ریاست کا نظام بھی خدائی ہدایت کے مطابق چلاکرے۔ اسلام زمین پر خدا کی حکمرانی چاہتا ہے۔ اسلام کا مطالبہ یہ ہے کہ ارض اللہ پر حکم اللہ ہی چلے گا، غلبہ رہے گا تو اسلام کا ہی رہے گا۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ :’’الاسلام یعلو ولا یعلی علیہ ‘‘(صحیح بخاری باب اذا اسلم الصبی فمات، ھل یصلی علیہ ) ’’ اسلام غالب ہوگا مغلوب نہیں ہوگا ‘‘۔

    اسلام پر ہونے والے اعتراضات کا دفاع کرتے وقت حکمت، منطقی اور عقلی انداز ضرور ہو نا چاہیے۔ لیکن دفاع کا ہرگزیہ مطلب نہیں ہے کہ سامنے والے کو اسلام سے مطمئن کرنے کے لیے اس کے حساب سے اسلام کی تشریح وتوضیح کی جائے۔اورحکمت کا بھی ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ حالات کے دباؤ اور نزاکت کی وجہ سے سمجھوتہ کر لیا جائے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ سامع پر اتمامِ حجت ضرور ہو البتہ اسے اسلام کے لیے قائل کرنے میں کسی حد سے تجاوز نہ ہو۔

    المیہ یہ ہے کہ حالات کی نزاکت، مغرب سے خوف اور مرعوبیت کی وجہ سے جدید اسلام کی تشکیل کی جا رہی ہے۔ جو ہر ایک کے لیے قابل قبول ہو جسے کفر بھی تسلیم کرے اور مسلمان بھی، اورکفرکی برتری رہے تو رہا کرے لیکن مسلمانوں کو کفر سے کسی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ لیکن اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ دشمنان ِاسلام، اسلام اور مسلمانوں سے اس وقت تک خوش نہیں ہو سکتے جب تک وہ ان کے دین کی پیروی نہ کرنے لگیں ۔ ارشاد باری : البقرة:’’یہودی اور عیسائی تم سے ہرگز راضی نہ ہوں گے جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو‘‘۔

    اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کو من وعن پیش کیا جائے۔ اسلام دین فطرت ہے، یہ سلیم الفطرت لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اسلام سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے۔ جو لوگ اسلام کو قبول کر رہے ہیں وہ اس کے مکمل اور ہمہ گیر نظام ہونے کی وجہ سے کر رہے ہیں ۔ اگردین کی تشریح میں اقامت دین کا انکار کر دیا جائے تو اسلام بھی دیگر مذاہب ہی کی طرح ایک مذہب بن کر رہ جائے گا۔

تبصرے بند ہیں۔