مسجد اقصی

محمد راشد سلطان

مسجد اقصی مسلمانوں کا قبلہ اول ھے اور یہ مسجد حرام، مسجد نبوی کے بعد مسلمانوں کےلئے تیسرا سب سے   مقدس ترین مقام ھے یہ مسجد فلسطین کے شہر یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ھے جسکے اندر قریب 5 ھزار نمازیوں کی گنجائش ھےاور مسجد کے خارجی صحن میں بھی ہزاروں فرزندان توحید نماز ادا کر سکتے ھیں۔ اس مسجد کو باقی مساجد پر فوقیت بھی حاصل ھے  لھذا مساجد میں سب سے افضل مسجد حرام پھر مسجد نبوی اور تیسرا مقام مسجد اقصی کا ھے۔ حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے اس بات کا انکشاف ھوتا ھے کہ روئے زمین پر تین مساجد ایسی ھیں جنکی جا نب عبادت کی نیت سے سفر کرنا مشروع ھے۔

عن أبي هريرة قال قال: رسول الله صلى الله عليه وسلم” لا تشد الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد ‏‏: المسجد الحرام، ومسجد الرسول صلى الله عليه وسلم، ومسجد الأقصى ” رواه البخاري ‏ومسلم.‏

ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ” کوئی سفر اختیار نہ کر و سوائے تین مساجد کے ”مسجد الحرام ””مسجد نبوی ﷺ ””مسجد اقصی اور  یہ مسجد دنیا کی دوسری مسجد ھے جسکا قیام مسجد حرام سے 40 سال بعد ھوا۔ حضرت  ابوزر  رضی اللہ  عنہ سے حدیث مروی ہے:

عن ابی ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ:حدیث أَيُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ فِي الْأَرْضِ أَوَّلَ؟ قَالَ: الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ. قَالَ: قُلْتُ ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ: الْمَسْجِدُ الْأَقْصَى. قُلْتُ: كَمْ كَانَ بَيْنَهُمَا؟ قَالَ: أَرْبَعُونَ سَنَةً، ثُمَّ أَيْنَمَا أَدْرَكَتْكَ الصَّلَاةُ بَعْدُ فَصَلِّهْ فَإِنَّ الْفَضْلَ فِيهِ.

ترجمہ : حضرت ابو زر رضی اللہ عنہ سے مروی ھے وہ فرماتے ھیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی تو اللہ کے رسول نے فرمایا کہ مسجد حرام پھر مین نے کہا اسکے بعد تو فرمایا کے مسجد اقصی تو میں نے کہا ان دونوں مسجدوں کے درمیان کتنا عرصہ ھے تو اللہ کے رسول نے فرمایا 40 سال اور جھاں بھی رھو اگر نماز کا وقت ھو جائے تو نماز ادا کرو اسی میں فضیلت ھے۔

مسجد اقصی مسلمانوں کا قبلہ اول ھے جسکی جانب اللہ کے رسول ﷺ اور تمام صحابہ رسول علیہم السلام 16یا 18 ماہ تک رخ کرکے نماز ادا کیا کرتے تھے۔ پھر تحویل قبلہ کا حکم ھوا:

قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۚ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَه

ہم تمہارے چہرہ کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا دیکھ رہے ہیں ۔ لہذا ہم آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیتے ہیں جو آپ کو پسند ہے۔ سو اب آپ اپنا رخ مسجد الحرام (کعبہ) کی طرف پھیر لیجئے۔ اور جہاں کہیں بھی تم لوگ ہو، اپنا رخ اسی کی طرف پھیرلیا کرو۔
اس آیت کریمہ کے نزول کے بعد مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ھوگیا۔

اور یہی وہ مسجد ھے جھاں سے اللہ کے رسول ﷺ  نے معراج کا سفر کیا جس کا ذکر قرآن کریم کی سورۃ بنی اسرئیل میں ھے۔ اور اسی سورۃ سے 15 ویں پارے کا آغاز ھوتا ھے۔ اس سفر کے دوران اللہ کے رسول نے جنت وجھنم کو دیکھا، اور دوران سفر مختلف انبیاءکرام سے ملاقاتیں ھوئیں اور خالق کائنات کے دربار میں حاضری ھوئی۔

اقصی کسے کہتے ھیں

بعض حضرات اس بات کے قا ئل ہیں کہ اقصی پوری مسجد کو کہتے ھیں اور کچھ حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ فتح کے بعد جس مقام پے حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ نے نماز ادا کی تھی۔ کیوں کہ اس جگہ پر نماز ادا کرنا مسجد کی باقی جگہوں سے افضل ھے۔

مسجد اقصی تایخ کی روشنی میں

مسجد اقصی جس شہر میں واقع ھے اس شہر کو  عمر فاروق رضی اللہ عنہ جو اسلامی تاریخ کا بہت ھی بلند و بالا نام ھے شجاعت وبہادری میں اپنی مثال خود تھے۔ انکے عہد خلافت میں اسلامی مملکت   22  لاکھ مربع میل کے رقبہ پر پھیلی ھوئی تھی اپنے عھد خلافت 16 ھجری 637ء میں فتح کیا وہاں اسلامی حکومت کا قیام کیا اور مسجد تعمیر کرائی۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے خلافت سے لیکر 1099تک یہاں اسلامی حکومت قائم رھی اسی دوران خلافت بنو امیہ کے تیسرے خلیفہ عبدالملک بن مروان نے اپنے دور خلافت میں مسجد اقصی کے اندر تعمیراتی کام شروع کیاجسکو انکے بیٹے ولید بن مروان نے مکمل کیا جو اسلامی فن تعمیر کا شاہکار نمونہ ھے۔

10ویں صدی کے آخر  (1095)  میں تاریخ نے اپنا رخ یورپ کی جانب کیا جہاں کے کچھ مذہبی  و سیاسی پیشوا اپنے عقائد کی بنیاد پر بیت المقدس کے حصول کے خواب دیکھا کرتے تھے۔ کیوں کہ فلسطین حضرت عیسی علیہ السلام کی جائے پیدائش تھا اسی لئے عیسائوں کیلئے یہ شھر مقدس اور متبرک ھونے کی حیثیت رکھتا تھا –

ان مذھبی پیشواؤں نے ایسا مذھبی جال بچھایا جو جذبات و عقائد پر مشتمل تھا جسکی وجہ سے ان قوموں کے اندر بے پناہ جوش و جزبہ پیدا ھوگیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ 1099ء کو انھیں اپنے   مقصد میں کامیابے ملی اور بڑی آسانی کیساتھ بیت المقدس کو فتح کرلیا۔

اور قریب 70 ہزار مسلمانوں کو شھید کرڈالا اسکے بعد 88 سال تک اس شہر پر قابض رھے اور مسجد اقصی میں اپنی   منشاء و مرضی  کے مطابق ردو بدل کیا۔

وقت لیل ونہار کی شکل میں  اپنی رفتار سے گذرتا رھا اور 1138ء میں عراق کی دارالحکومت بغداد سے 140 کلو میٹر دور دریائے دجلہ کے کنارے تکریت نامی جگہ سے  پورےعالم  اور اسلامی یاریخ کا ایک مشہورترین  فاتح نمودار ھوا

جسکو دنیا صلاح الدین ایوبی  کے نام سے جانتی ھے۔ جوبرد باری، فیاضی، حسن خلق، سخاوت و شجاعت میں بے مثال تھا جسکی اساس اسلامی تعلیم سے معمور تھی۔ آنکھوں میں ایسا خواب تھا جسکے اندر پوری ملت کا درد چھپا تھا۔  (یعنی بیت المقدس کو عیسائیون سے پاک کرنا)

ایک بات قابل ذ کر ھے جو عرض کردوں ۔ کہ جس جگہ سے صلاح الدین ایوبی کا تعلق تھا وہ بہت بڑی جگہ نہہں تھی بلکہ وہ بھی ایک قصبہ ہی تھا جسکی آبادی ھمارے قصبہ ولید پور بھیرہ کی آبادی کے آس پاس تھی۔ ( یعنی 25 سے 30 ہزار کے درمیان) لیکن اگر اپنے قصبہ کا اس قصبہ سے موازنہ کیا جائے تو پیمانہ میزان بھی شرمشار ہوجائے

ھمیں اس بات کا احساس تک نہیں  کہ برق رفتاری سے گذرنے والے جن ایام کے مابین ھم اپنی زندگی کے لمحات جی رھےھیں اسکا مقصد کیا ھے۔ دنیا اور آخرت سے اس قدر غافل ھوکر جی رھے ھیں جیسے ایسا لگتا ھے کہ ھمنے اپنی قدوقامت کے بلندو بالا برج تیار کئے ھوں۔

یاد رکھیں اگر ھماری آنکھیں اس پر فتن دور میں بھی نہ کھلیں تو ھماری نسلیں ناکامیوں کے اس دلدل میں جا پھنسینگی جہاں تیرگی کے علاوہ کسی شی کا وجود ہی نہیں ھوگا۔

غفلت سے جاگیں اور میدان عمل کی جانب خود آگے بڑھیں اور اپنے بچوں کو اسلامی تعلیمات اور دنیاوی فنون سے روشناش کرائیں اور اور عمل کی دنیا کا احتساب کریں۔ سلطان نے اپنی زنگی کا میدانی کارنامہ نورالدین زنگی کی ماتحتی میں شروع کیا اور جنگی میدان کو عبور کرتے ھرئے 1187ء میں اپنے خواب اور ملت کے درد پر مرھم لگایا۔ اوراس مقدس سرزمین کو عیسائیوں کے نشانات سے پاک کیا۔ لیکن اسکے بعد کچھ عصبیت پسند حکام کے فیصلہ کی وجہ سے سلطان کو بہت نقصان ھوا اور تیسری صلیبی جنک کے آخر میں سلطان نے عیسائوں سے  صلح کرلی اور پچھلی بار کی طرح اس بار بھی مسلمانوں کی ایک بری تعداد (70) ہزار مسلمان شہید ھوئے۔ مگر صلح نامہ کی وجہ سے اس شہر پر مسلمانوں کا قبضہ رہا۔

اسکے بعد پھر کچھ زور آوروں نے اپنی زور آزما ئش کیلئے پورے عالم کا 70 فیصد حصہ اس آگ کی جانب دھکیل دیا جسے تاریخ کے پنوں میں پہلی جنگ عظیم کا نام دیا گیا(1914تا 12نومبر 1918)

اس جنگ کے نتائج چاہے جو بھی ہوں مگر عالم اسلام کیلئے دو ایسے نقصان ھوئے جسکا درد امت کے یر فرد کو ھے:

نمبر (1) یہ کے عثمانی سلطنت کا ختمہ

نمبر (2) بیت المقدس پر برطانیہ کا قبضہ

1917 میں بیت المقدس پر برطانیہ کا قبضہ ھوگیا اور ایک منصوبہ بند سازش کے تحت دنیا کے کونے کونے سے یہودیوں کو لاکر انیں بسایا گیا اور انہیں اس بات سے مطمیئن کیا گیا کہ ھم بھت جلد تمھارے لئے ایک ریاست کا اعلان کرینگے۔ اور 14 مئی 1948 کو ایک ایسے ملک کا قیام عمل میں آیا جسے دنیا اسرائیل کے نام سے جانتی ھے۔ اسکے بعد سے یہ ملک ( اسرایئل) دنیا کے امن و امان کی تخریب کاری کے سروسامان بنانے میں مصروف ھے۔

آپکو بتا دیں  یہ ملک صرف اور صرف اسلحہ بناتا اور بیچتا ھے تاکہ دنیا کہ امن وامان کی فضا میں زہر گھول سکے۔ اور فی الوقت بیت المقدس پر جو اسرائیلی قبضہ ھے وہ مصر کے سابق صدر جمال عبد الناصر کی ایک غلطی کا نتیجہ ھے۔ 1965 سے پھلے یمن کے اندر شاھ پسندوں کی حکومت تھی اور انکی مخالفت میں وہاں کی کچھ حریت پسند تنظیمیں کرتی تھیں اسی مخالفت کی صورت کو جمال نے اپنے لئے موقع غنیمت جانا اور حریت پسندوں کو ساتھ لیکر شاہ یمن کا تختہ الٹنے کی کوشش کی  اور اپنے مقصد میں کامیابی بھی ھوا اور اپنی اس کامیابی پر اس قدر خوشفھمی کا شکار ھوا کہ۔ ۔گویا کہ۔۔۔ مصر دنیاء عرب کا سب سے طاقتور ملک بن گیا۔

اسی خوشفھمی میں یمن کیلئےاس قدر اسلحہ اور فوجیوں کو بھیجنا شروع کیا کہ چند ماہ کے اندر یمن میں مصری فوجیں کی تعداد 70 ہزار کو پہنچ گئی اور یہی وہ موقع غنیمت تھا جسکی فراق میں مغربی ممالک منتظر تھے۔ 1967 میں اسرایئل نے مغربی ممالک کی مدد سے بغیر اعلان مصر پر اس قدر حملہ کیا کی ایک ہی حملہ میں مصر کے اکثر فضائیہ بیڑوں کو تباہ و برباد کر دیا اور فقط 6 روز کے اندر بڑی آسانی کیساتھ جنگ کی کامیابی اپنے نام کر لیا اور بیت المقدس پر قابض ھو گیا۔

عربوں نے اپنی تاریخ مین اتنی ذلت آمیز شکست نہیں کھائی تھی جسکے اثرات آج بھی عربوں کے اوپر دکھتے ھیں۔ 1967 کے بعد سے اسرایئل مسلسل فلسطینیوں کیساتھ اپنے ظلم جبر کی داستانیں لکھتا چلا جا رہا ھے اور پوری دنیا تماشا بین بنی ھوئی ھے۔ دعا کریں اللہ رب العزت بت المقدس کی آزادی اور عالم اسلام کی سر بلندی کا کوئی راستہ بنائے۔ اللھم آمین

تبصرے بند ہیں۔