ریاض میں محفل ادب اور مشاعرہ کا انعقاد

ادارہ ادب اسلامی ریاض نےادبی حلقوں میں  اپنی منفرد شناخت قایم کی ہے۔ زبان و ادب کا تحفظ اور  اہل قلم کی فکری و فنی تربیت اس کا اولین ہدف رہا ہے جس میں اسے خاطر خواہ کامیابی  ملی ہے۔ ادارہ ادب اسلامی اور انڈین فرینڈس سرکل کے زیر اہتمام 30 مارچ 18 کو نیاگرہ ریسٹورینٹ میں محفل ادب کا انعقاد کیا گیا۔ اس نشست کے روح رواں ادارہ ادب اسلامی کے سابق صدر خواجہ مسیح الدین تھے جو سینتیس  (۳۷)  سالوں   کے بعد دیار غیر سے اپنے وطن عزیز واپس جارہے ہیں۔

نشست کی صدارت جناب ڈاکٹر حفیظ الرحمن فلاحی صاحب نے کی جبکہ مہمان خصوصی کی حیثیت سے  تنظیم ہم ہندوستانی کےصدر جناب محمد قیصر صاحب تھے اورساتھ میں صدر  ادارہ ادبِ اسلامی ریاض  جناب طاہر بلال صاحب بھی اسٹیج پر رونق افروز تھے۔ نظامت کے فرائض جناب منصور قاسمی صاحب  نے بحسن و خوبی انجام دیا۔ دو حصوں پر مشتمل اس نشست کا ابتدائی حصہ نثری تحریروں، ماضی کی یادوں کے حوالے سے مختص تھا۔ جس کا با قاعدہ آغاز حافظ زبیر کی تلاوت کلام پا ک سے ہوا۔ ناظم مجلس منصور قاسمی  صاحب نے نعت کے چند اشعار پیش کئے۔

تنویر احمد تماپوری نے اپنے افسانے”  کیمیا گر” میں خلیجی شیوخ کی تعیشات اور پیٹرو ڈالرز کی خیرہ کاری  کے ساتھ ساتھ غریب غیر ملکی مزدوروں کی مجبوریوں  کو پیش کیا۔ پھر سعید اختر اعظمی نے انگریزی کے خمار میں ڈوبی نئی نسل کے المیے پر انشائیہ "ہمیں اردو پر پراوڈ "ہے پیش کیا۔ صاحب اعزاز خواجہ مسیح الدین  پر ایک دلچسپ خاکہ زکریا سلطان کے زور قلم کا نتیجہ تھا۔ منصور قاسمی نے بھی صاحب اعزاز کے فکروفن کا بخوبی احاطہ کیا۔ خواجہ ابونبیل نے ماضی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ 1980 میں ادارہ ادب اسلامی کی بنیاد پڑی جسے 1990 میں منظم کیا گیا۔

مقامی ادبا اور شعرا کو اس بینر تلے لانے کی کوشش کی گئی۔ اس کی نشستوں کی خاصیت متانت سنجیدگی اور وقت کی پابندی ہوتی ہے۔ واٹس اپ مشاعرہ اسی سلسلے کی تازہ کڑی ہے۔ بعد ازاں مختصر افسانہ "وہی شابو کے شابو رہے” سنا کر انھوں نے سامعین کی داد وصول کی۔ نثری نشست کے اختتام پر صاحب اعزاز کو صدر محفل حفیظ الرحمن فلاحی نے مومنٹو پیش کیا۔

مختصر ضیافت کے بعد شعری نشست کا آغاز ہوا۔

جن شعراء نے اپنا کلام پیش کیا ان کے اشعار پیش خدمت ہیں:

جناب ہم سے بھی آکر کبھی کبھی ملئے

عظیم تر ہے یہ رشتہ بھی خون کا سمجھو

اسمعیل روشن

محفل میں دشمنوں کی تھا کچھ دوستوں کا ذکر

یہ سانپ آستین سے نکالے کہاں گئے

محمد عابد

عشق کو آخری سلام کیا

پھر تسلی سے گھر کا کام کیا

شاہد خیالوی

انسانیت کا نور نہیں شہر میں مگر

گاوں سے شفقتوں کے اجالے کہاں گئے

سعید اختر علی اعظمی

کیوں امن پہ گھری ہیں یہ ظلمت کی بدلیاں

شمس و قمر بتائیں اجالے کہاں گئے

فیضان اعظمی

یہی اصول محبت وفا ہے ہم نفسو

ملے جو درد اسے درد کی دوا سمجھو   

خورشیدالحسن نیر

طرز سخن کو اس کے میں کیسے کروں بیاں

لفظوں کو موتیوں کی طرح رولتا رہا

داود اسلوبی

پھول کے مہکنے کا، تتلیوں کے آنے کا ایک وقت ہوتاہے

آنکھ کے دریچے میں خواب کو سجانے کا ایک وقت ہوتا ہے

صدف آفریدی

میرے کاغذ پہ کچھ لکیریں ہیں

ان کو لفظوں میں ڈھال دے مولا

ظفر محمود

ہمارے قتل سے اس کو سکوں جو ملتا ہے

اسی سکوں کو وہ کہتا ہے خوں بہا سمجھو

رضوان الحق الہ آبادی

گئے وہ گرمی بازار کے دن ہوے ہیں شہر کے بازار ٹھنڈے

ہتھیلی گرم جب تک ہو نہ جائے نہیں ہوتے ہیں تھانیدار ٹھنڈے

شوکت جمال

دو چار زخم لگ گئے سینے میں اور بھی

پیروں سے میرے خار نکالے کہاں گئے

منصور قاسمی

جہاں میں سب کو ملا جہاں سے، بقدرِ قسمت ملا ہوا ہے

کسی نے اپنا یا دردو غم کو، کسی کو لیکن عطا  ہوا ہے

طاہر بلال

آتے تھے ان کی بزم میں اپنی خودی سے ہم

ہم خود سے جارہے ہیں نکالے کہاں گئے

ابو نبیل مسیح الدین

رات نو بجے شروع ہونے والی یہ محفل ادب صدر محفل کے صدارتی کلمات کے ساتھ 12 بجے شب اپنے اختتام کو پہنچی۔

تبصرے بند ہیں۔